غزل
سالک بستوی ایم اے
بدی کی تیز ہوا ہے دعائے خیر کرو
عذاب ٹوٹ پڑا ہے دعائےخیرکرو
عجیب رقص ہے دہشت گروں کی ٹولی کا
نگر کا حال برا ہے دعائے خیر کرو
وہ رب کو بھول کے کہتا ہے ناخدا روکر
سفینہ ڈوب رہا ہے دعائے خیر کرو
ہوا ہے غرق وہ میخوار جام ومینا میں
نشاط روح خفا ہے دعائے خیر کرو
بہار امن کا طالب نہیں ہے کیوں آخر
عجیب راہنما ہے دعائے خیر کرو
عذاب نار سے بچنے کے واسطے سالک
ہمارے رب نے کہا ہے دعائے خیر کرو
آپ کی راۓ