اللہ رب العالمین بنی نوع انسان کو ایک عظیم مقصد کے تحت پیدا کیا، تاکہ وہ صرف اللہ تعالی کی عبادت کریں، ا س کی عبادتوں میں غیروں کو شریک وساجھی نہ ٹھرائیں، اسی کی تاکید کے لئے اللہ رب العزت نے تمام انبیا ء ورسل کو مبعوث فرمایا، تاکہ ہرنبی اپنے متبعین وپیروکاروں ایک ہی معبود کی عبادت کرنے کی تلقین کرتا رہے، اور ان کو اس عہدو پیمان کی تذکیرکرواتا رہے جس کو اللہ تعالی نے تمام بنی نوع انسان سے حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے نکال کر کے لیاتھا، ارشاد باری تعالی ہے:(ولقد بعثنا فی کل أمۃ رسولا ان اعبدوا واجتتنبوا الطاغوت) یعنی: ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ لوگو صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سواتمام معبودوں سے بچو۔
ایک بندہ مومن کے لئے توحید عظیم سرمایہ ہوا کرتاہے، بنی نوع انسانی کی کامیابی کاراز اسی میں مضمرہے، پس جس نے اپنی ساری عبادتوں کو اللہ تعالی کے لئے خاص کردیا وہ کامیاب وکامران ہوکر جن کا دعویدار ہوگیا، او ر جس نے اللہ کی عبادتوں میں کسی بھی ایک عبادت کو غیر اللہ کے لئے پھیر دیا وہ خائب وخاسر ہوگیا، اور جہنم اس کا نصیبہ بن گیا، ارشادنبوی ہے(من مات یشرک باللہ شیئادخل الناروقلت أنامن مات لایشرک باللہ شیئا دخل الجنۃ) روہ البخاری ومسلم۔یعنی: جو شخص اس حال میں وفات پائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا تھا تو وہ جنہم میں داخل ہوگا،(میں نے کہا)جو شخص اس حال وفات پائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتاتھا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
آج ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ ایک طرف تو توحید کا دعویدار بنتے ہیں تو دوسری طرف اللہ کی عبادتوں میں دوسروں کو شریک بھی ٹھراتے ہیں، کبھی دعاؤں کو غیر اللہ کی طرف پھیرا جاتا ہے، تو کبھی نذو نیاز وقربانیوں کو غیر اللہ کے نام پر پیش کیا جاتا ہے، تو کبھی اولیاء وپیروں کومشکل کشا سمجھا جاتاہے، یہ سارے اعمال توحید کے سراسر منافی ہیں۔مشرکین مکہ کبھی بھی اللہ کی ربوبیت میں کسی کو شریک نہیں کرتے تھے، لیکن آج کامسلمان اللہ کی ربوبیت میں بھی دوسروں کوشریک کرنے لگا ہے،یقینا اولیاء وپیروں کو کائنات میں تصرف کا حقدار بنادینا اللہ کی ربوبیت میں شرک کرناہے۔
لہذا علماء ودعاۃ کو چاہئے کہ توحید کے حوالہ سے لوگوں کو متنبہ کریں، اور پوری شفافیت کے ساتھ توحید کے مسائل کو کھول کھول کر بیان کریں، تاکہ معاشرہ کو شرک وبدعات میں ملوث ہونے سے بچایا جاسکے۔درج ذیل سطور میں دعوت توحیدکے متعلق نبی کریم ﷺ کا طریقہ کیا تھااختصار کے ساتھ ذکر کیا جارہا ہے تاکہ دعاۃ ومبلغین اس سے استفادہ کرسکیں:
٭ توحیدسے دعوت کی ابتداء: نبی کریمﷺ کو جب نبوت سے سرفراز کیا گیا، تو آپ ﷺ نے اپنی دعوت کی ابتداء اسی توحید ہی سے فرمائی، چنانچہ آپﷺ نبی بنائے جانے کے بعدصفا پہاڑی پر چڑھتے ہیں اور اپنی قوم کو پکار کرکے کہتے ہیں: اے میری قوم! میں تمہارے نفع ونقصان کامالک نہیں ہوں، اے لوگو! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا لو، اے میری قوم کے لوگو اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔
نبی کریم ﷺنے اس دعوت کی شروعات اپنے اعزہ واقرباء سے فرمائی،تیرہ سالہ مکی زندگی آپ ﷺ لوگوں کے عقائدو منہج کی اصلاح فرماتے رہے، اور دعوت توحیدکو لوگوں میں عام کرتے رہے، یہاں تک کی مدنی زندگی میں بھی آپ ﷺ کا ذہن توحیدہی پر مرکوز رہا، گویائی کہ آپ ﷺ ابتداء سے لیکر انتہاتک توحیدہی کو عام کرتے رہے۔
٭ دعوت توحید آخری دعوت ہے:نبی کریم ﷺ جب تک اس دینا میں باحیات رہے آپ ﷺ دعوت توحید ہی کو اپنا بنیادی مقصد بنائے رکھے، یہاں تک جب آپ ﷺ اس کو الوداع کہہ رہے تھے اس آخری لمحات میں بھی آپ ﷺ کوتوحید ہی کی فکرتھی، آپ اپنی امت کو یہی وصیت کرتے رہے تھے:(قاتل اللہ الیہود، اتخذوا قبور أنبیاۂم مساجد) یعنی:اللہ تعالی یہو د کو ہلاک کرے، ان لوگوں نے اپنے نبیوں کی قبروں مسجد بنالیا)۔اور ایک روایت میں آپﷺ نے فرمایا:(ولاتجعلوا قبري عیدا)ترجمہ: میری قبر کو عید نہ بنا لینایعنی عبادت گا ہ نہ بنا لینا۔
٭ سری دعوت میں توحیدکا اہتمام: اللہ کے رسول ﷺ تقریبا تین سال تک مصلحت کے تحت چپکے چپکے اللہ کے دین کی نشرواشاعت کرتے رہے، لیکن اس سری دعوت میں بھی آپ ﷺ خاص طور سے توحیدہی پر ترکیز کرتے رہے۔چنانچہ عمرو بن عبسہ سلمی بیان کرتے ہیں کہ میں چپکے چپکے مکہ مکرمہ میں داخل ہوا، جب میری ملاقات نبی کریم ﷺ سی ہوئی تومیں سوال کیا کہ آپ کی دعوت کیاہے؟ تو نبی کریم ﷺ جواب دیتے ہوئے فرمایا:اللہ تعالی نے مجھے صلہ رحمی کرنے، بتوں کو توڑنے، اور ایک رب کی عبادت کرنے کے لئے بھیجاہے، میں نے سوال کیا آپ کے ساتھ اسوقت کون ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا ایک آزاد اور ایک غلام آدمی یعنی حضرت ابو بکر الصدیق، وحضرت بلال رضی اللہ عنہما۔اس روایت سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک دم ابتدائی مرحلہ میں کس طرح سے توحید ہی کو بنیادی مقصدبنائے رکھا۔
٭ جہری دعوت میں توحیدکا اہتمام: اللہ کے رسول ﷺ سری دعوت کے بعد جب آپ نے علانیہ طور دعوت کی شروعات کی، تو آپ ﷺ بازاروں اور چوراہوں پر سب سے کہتے پھر رہے تھے کہ لوگوں ایک رب کی عبادت کرو اس کی عبادت میں کسی کو شریک وساجھی نہ ٹھہراؤ۔چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ آپ ﷺ کئی بار ذی المجاز کے بازار میں بآواز بلند فرمارہے تھے:اے لوگو لا الہ الا اللہ کہہ دو کامیاب ہو جاؤ گے، آپﷺ کا چچا ابولہب آپ کے پیچھے پتھروں کی بوجھار کرتا رہتا،اور آپ قوم کو توحید کی صدا سناتے رہتے۔
٭ عام وخاص میں دعوت توحید کو عام کرنا: نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ہر عام وخاص میں توحید کی نشرواشاعت کرتے رہتے، بزرگ ہوں یا بچے، مرد ہوں یا خواتین سب کو توحید کی دعوت دیتے رہتے۔
چنانچہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ مجھے دعاء قنوت سکھلاتے تھے۔یقینا دعاء قنوت میں خاص طور توحید کا اہتمام کیا گیاہے، بلکہ توحید کے سارے جملے توحید ہی پر مشتمل ہیں۔
اسی طرح سے اللہ کے رسول ﷺ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرماتے تھے:اے بچے جب تم کو کسی چیز کا سوال کرنا ہو تو صرف اللہ ہی سے سوال کرنا، اور جب مدد طلب کرنا تو صرف اللہ ہی سے طلب کرنا۔
حضرت ربیع بنت معوذرضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کرسم ﷺ میری شادی کی صبح میرے گھر تشریف لائے، کچھ بچیاں شہداء احد کے متعلق گیت گارہی تھیں، دوران گیت کسی بچی نے کہا کہ ہمارے نبی ایسے ہی جو غیب کی بات جانتے ہیں آپ ﷺ نے فورا اس بچی کو ٹوکا، اور فرمایا:کہ تمہارا یہ کہنا کہ ہمارا رسول غیب کی باتوں کو جانتا ہے یہ عقیدہ توحید کے خلاف ہے، ایسا کہنے سے باز رہو۔
آج ہمارے معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو توحید کے مسائل سکھلاتے ہوں، ہم میں سے کون ہے جو اپنے بچوں عقدی مخالفات پر تنبیہ کرتے ہوں، ہم کو موبائل اور دیگر خرافات سے چٹھی ہی نہیں مل پاتی، ہم اپنے نونہالو ں کو شروع ہی ایسے اسکولوں کا راستہ دکھلا دیتے ہیں جہاں توحید کے مسائل کو بھول کرکے بھی نہیں ذکر کیاجاتا، بلکہ ان چیزوں کا ذکر ہوتا ہے جو ہماری شریعت وتوحید کے منافی ہوا کرتی ہیں، ہمیں توحید کی فکر نہیں ہوتی۔
اللہ را! ہم سب اپنے دین کی طرف لوٹیں، اور اپنے بنیادی مقصد کو پہچانیں،جب ہماری تخلیق ہی اللہ کی عبادت کے لئے ہوئی ہے تو پھر ثانوی چیز میں ہم اپنے آپ کو کیو ں مصروف کریں۔کامیابی ہماری قدم چومے گی جب ہم توحید ہی کوحرزجان بنائیں گے۔ بارلہ ہم سب کو توحید کی دولت سے مالا مال کردے،ہمار خاتمہ ہو تو توحید ہی پر ہو۔ آمین یار ب العالمین۔
آپ کی راۓ