مذہب اسلام اللہ کی عظیم الشان نعمت ہے، بنیادی اعتبار سے شریعت اسلامیہ کے دو منبع ومصادر ہیں: ایک اللہ کی کتاب قرآن مجید، اور دوسرا مصدر نبی کریم ﷺ کی پیاری حدیثیں ہیں۔اہل السنہ والجماعۃ کے نزدیک قرآن کریم اپنے حروف والفاظ کے ساتھ اللہ کاکلام ہے، جبکہ احادیث نبویہ قرآن کریم کی تفسیر ہیں، آپﷺ نے اللہ رب العالمین کے احکامات کو احادیث نبویہ میں کھول کھول کر بیان کردیا تاکہ امت محمدیہ کو اللہ کے فرمودات پر عمل پیراہونے میں کوئی دشواری لاحق نہ ہو۔درج ذیل سطور میں اختصار کے ساتھ تین اہم سوالوں کا جواب دیاجائے گاکہ: سنت نبوی کی پیروی کرنے کا مفہوم ومعنی کیاہے؟ اتباع سنت پر گفتگو کیوں کی جاتی ہے؟اور سنت پر عمل پیرا ہونے کے نتائج وثمرات کیاہیں؟۔
شرعی اصطلاح میں جب سنت کا اطلاق کیا جائے تواس سے مراد نبی کریم ﷺ کا طریقہ وعمل ہواکرتاہے، چاہے اس کو نبی کریمﷺ نے استحباب کے طور پر انجام دیا ہویا وجوب کے طورپر۔صحیح منہج کے اعتبار سے اتباع نبوی کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی رضامندی وخوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہم اپنے آپ کواس سنت کے حوالہ کردیں اور شرح صدر کے ساتھ اس کو قبول کرلیں، چاہے اس کا تعلق کلیات سے ہویا جزئیات سے،کسی کے رائے یا عقل یا قیاس سے اس کی معارضت قطعا نہ کی جائے۔ اسی وجہ سے علماء کرام نے اتباع سنت کے لئے چند امور کو لازم قراردیا ہے:
۱۔وہ سنت جو رسول ﷺ سے ثابت ہو اس سے بندہ مومن رضامندی کا اظہار کرے۔ ۲۔ ثابت شدہ سنت سے محبت کا اظہارکیاجائے اس اعتبار سے کہ اس سنت پر عمل پیرا ہوتے وقت اس سے محبت کی جائے۔۳۔ سنت نبوی کو سکھایا جائے تاکہ عمل پیرا ہونے میں آسانی ہو۔ ۴۔ نبی کرمﷺ سے ثابت شدہ سنن پر عمل کیاجائے۔ ۵۔ نبی کریمﷺ کی سنتوں کی نشرو اشاعت کی جائے اور لوگوں کو اس کا راغب بنایا جائے۔
امت محمدیہ نبی کریمﷺکی ہر ایک سنت کو حاصل کرنے کے لئے مکمل کوشش کرتی ہے اس کے اہم اسباب یہ ہیں کہ سنت نبوی یہ اس امت کا دین ومذہب ہے، اور وحی کی شکل میں اللہ رب العالمین اپنے رسول جناب محمد رسول ﷺکو عطا کیاہے، ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح سے وہ قرآن کو وحی الہی تسلیم کرتاہے ایسے ہی احادیث نبویہ کو بھی وحی الہی تسلیم کرے، جس طرح قرآن پر عمل کرنا لازم وضروری ہے ایسے ہی حدیثوں پربھی عمل کرنا بھی لازمی ہے، پس جس شخص نے قرآن وحدیث کے درمیان تفریق کی اس کا ایمان اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں مقبول نہ ہوگا، بلکہ احادیث نبویہ کی حفاظت ضروریات خمس میں سے ہے کیونکہ یہ وحی الہی ہونے کے اعتبار سے دین کا اساس ہے، اور دین کی حفاظت ضروریات خمس میں بدیہی طور پر معدودہے۔
سنت نبوی کی اہمیت اجاگر کرنے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ سنت نبوی کی نشرو اشاعت فرض کفایہ ہے لیکن کچھ حالات وظروف ایسے ہیں جس میں سنت نبوی کی دعوت واجب ہواکرتی ہے،اور دعوتی مہم ان تین اصولوں کی روشنی میں شروع کی جاتی ہے:نیکی کے کاموں میں آپسی تعاون کے ذریعہ، وعظ ونصیحت کے ذریعہ، مومن بندے کے ساتھ خیرخواہی کے جذبہ سے۔
اسی طرح سے سنت نبوی کی اہمیت اجاگر کرنے کاتیسراسبب یہ ہے کہ امت اس بات کا محتاج ہو اکرتی ہے کہ اس کے سامنے سنن کو کھول کھول کر بیان کیا جائے، تاکہ لوگ چاک چوبند ہو کر سنت پر عمل پیرا ہو سکیں،کیونکہ ہر دور میں سنت کے معاندین پائے گئے، لوگوں کوگمراہ کرنے کے لئے طرح طرح کے حربہ اپنائے گئے، کوئی جماعت مطلق طور سے سنت نبوی کا انکار کردیتی ہے اور لوگوں میں باور کراتی ہے ہم انسانوں کے لئے قرآن کافی ہے احادیث نبویہ کی ضرورت نہیں، ان کو اصطلاحا قرآنیین کہاجاتا ہے،اور کچھ جماعت تو ایسی ہے جو سنت نبوی کو اپنے عقل کے معیا ر پر کھرا نہ اترنے کی صورت میں رفض کردیا کرتی ہے، اور اس کی بیجا تاویل کردی جاتی ہے، اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا تصور وعقیدہ یہ ہوتا کہ شریعت اسلامیہ کے جزوی مسائل کو حدییثوں میں تلاش کرنا تخلف وپچھڑاپن کی دلیل ہے۔
اسی طرح سے بعض لوگ سنت نبوی کو فروغ دینے کے بجائے بدعت وخرافات کو فروغ دیتے ہیں اور معاشرے میں طرح طرح کے بدعات کو رائج کرتے ہیں جو درحقیقت فرقہ پرستی وعصبیت کو بڑھاوا دیتی ہے اور سنن کو معطل کرتی ہے۔
قارئین کرام! حقیقی کامیابی سنت کو اپنانے اور اس کو فروغ دینے ہی میں مضمر ہے، کیونکہ کتاب وسنت کو لازم پکڑنے سے بندہ مومن اللہ کی ولایت کا مستحق ہوجاتاہے، اور اللہ تعالی اپنے اس بندے کو صراط مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے۔
سنت نبوی کی پیروی جنت کا مستحق بناتی ہے اور جہنم سے نجات دلاتی ہے۔اتباع سنت اللہ کی محبت اور اس کے توفیق کا وارث بناتی ہے، اتباع سنت سے انسان اعتدال کے راستے پر چل پڑتا ہے، اور شروروفتن، اختلاف وانتشار سے محفوظ رہتاہے۔
دعاۃہ الی اللہ کی ذمہ داری ہے کہ ہم سب سے پہلے سنت کو سیکھیں اور اس پر خود عمل پیرا ہوں، اور پھر اس سنت کو لوگوں میں عام کریں، تاکہ سنت کا بول بالا ہو، اور بدعت وخرافات کا قلع قمع ہو سکے۔اخیر میں دعا گو ہوں کہ بارہ الہ ہم سب کو اتبا ع سنت پیکر بنا، اور امت کے ہرفرد کو اپنی وسعت وطاقت کے مطابق نشرو اشاعت کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔
آپ کی راۓ