سعودى عرب عالم اسلام کے لئے قابل تقلید مثالی مملكت

ابو حماد عطاء الرحمن المدنی/ المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو

17 ستمبر, 2022

سعودی عرب جزیرہ نما عرب میں سب سے بڑا ملک ہے، اس کا کل رقبہ 22لاکھ17ہزار949مربع کلو میٹر ہے، جغرافیائی اعتبار سے شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین، مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں عمان اور جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے جبکہ خلیجِ فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے۔ مملکت کا تمام حصہ تقریبا صحرائی ونیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے، اس کی آبادی تقریبا دو کروڑ پچیس لاکھ نفوس کے لگ بھگ ہے۔
موجودہ سعودی حکومت کی جب داغ بیل ڈالی جارہی تھی تو اس وقت سیاسی اعتبار سے شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود اپنے مخالفین سے ایک عرصے تک نبردآزما ہوتے رہے اور اس جزیرہ کی بکھری پڑی آبادی کو اتحاد کی لڑی میں پرو کر اسلامی اصول پر مبنی ایک اسلامی ریاست کی تشکیل دینے کا ارادہ کئے، جب تمام مخالفین کو اتحاد کی لڑی میں پاٹ دیئے تو قرون مفضلہ کے سنہرے نقوش کی پیروی کرتے ہوئے 23ستمبر1932ءکو جدید ملک بنام "سعودی عرب” کی بنیاد رکھی۔
سعودی عرب ۱۳ صوبوں میں منقسم ہے۔ الباحہ، الحدود الشمالیہ، الجوف، المدینہ، القصیم، الریاض، الشرقیہ، عسیر، حائل، جیزان، حجاز، نجران، تبوک۔
شہروں میں ریاض، جدہ، مکہ، مدینہ، طائف وغیرہ خاصے مشہور ہیں۔
سعودی حکمران شاہ عبد العزیز سے لےکر موجودہ حکمراں شاہ سلمان بن عبد العزیز تک سبھوں نے سعودی عرب کو ایک فلاحی، رفاہی، تعلیمی و تہذیبی اور ثقافتی مملکت بنانے میں نہ صرف بے لوث قربانیاں پیش کیں بلکہ عرصہ دراز کی جاں کاہی وجگرکاوی کے بعد ایک پرامن وخوشنما اور اسلامی معاشرہ بنانے میں بڑی جرأتمندی اورفراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔
یہاں کے حکمرانوں کے دلوں کے اندر اخوت ایمانی اور رفاہی امور کے انجام دہی کا وہ جذبہ ودیعت کردی گئی ہے جس کے ذریعے سے وہ لوگ ہمیشہ باطل کے سامنے سینہ سپر رہے لیکن اسلام کو کوئی آنچ آنے نہ دیئے۔
سن 1932ء میں مملکت سعودی عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی، اور شہری علاقوں میں مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہو رہی تھیں۔ ان مدارس میں شریعتِ اسلامی اور بنیادی تعلیم سکھائی جاتی تھی، تاہم گذشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک مضبوط تعلیمی نظام کا حامل ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے قبل سے لیکر جامعہ کی سطح تک مفت تعلیم و تربیت فراہم کی جاتی ہے۔
جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی فنی و سائنسی شعبہ جات میں معیار تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام تعلیم کا بنیادی خاصہ ہے، سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے مدارس میں پڑھایا جاتا ہے، سن 1945ء میں شاہ عبد العزیز نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لئے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا، 6سال بعد 1951ء میں مملکت کے 226 اسکولوں میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے، سن 1954ء میں وزارتِ تعلیم کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ فہد بن عبد العزیز بنے۔ سعودی عرب کی پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسیٹی 1957ء میں قائم ہوئی، اس کے بعد تعلیمی رجحان کے پیش نظر مملکت میں کالج اور یونیورسٹی کی تعداد بڑھنے لگی جو آج تک جاری وساری ہے، یہاں کی چند اہم یونیورسٹی یہ ہیں: اسلامی یونیورسٹی مدینہ، امام محمد بن سعود یونیورسٹی ریاض، شاہ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ، شاہ فہد یونیورسٹی برائے پٹرولیم و معدنیات، ام القری یونیورسٹی، شاہ عبد اللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی، القصیم یونیورسٹی، شاہ خالد یونیورسٹی، طائف یونیورسٹی، الجوف یونیورسٹی، جازان یونورسٹی، حائل یونیورسٹی، الباحہ یونیورسٹی، نجران یونیورسٹی، شاہ فیصل یونیورسٹی، شہزادہ سلطان یونیورسٹی، طیبہ یونورسٹی، شہزادہ محمد یونیورسٹی، شہزادہ سعود بن عبد العزیز یونیورسٹی برائے ہیلتھ، سلیمان الراجحی یونیورسٹی۔
ان یونیورسٹیوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں کالیجز ہیں جن میں مفت تعلیم دی جاتی ہے، بلکہ سعودی عرب میں طالب علموں کو اسکالر شپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جن میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، اسٹریلیا، جاپا، نیوزیلنڈ، ملائیشیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔
مملکتِ سعودی عرب دنیا بھر میں مساجد، اسلامی مراکز، قرآن پاک اور اسکولوں کے قیام کے ذریعے اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔
شاہی خاندان کے اہم ارکان علماء کی منظوری سے شاہی خاندان میں سے کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں، قانونی سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پر شریعت اسلامی سے مطابقت رکھتی ہو، عدالت شرعی نظام کے پابند ہیں جن کے قاضیوں کا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے، یہ وہ ملک ہے جس کا آئین قرآن مجید اور حکومت کی بنیاد شریعت ہے۔
شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ نے جب اعلان کیا کہ 23 ستمبر سے ہمارے ملک کا نام "مملکت سعودی عرب” ہوگا. اس دن کو الیوم الوطنی، قومی دن کے طورپر منایا جاتا ہے۔ ہم سعودی عرب کے 92 الیوم الوطنی کے موقع پر دلی مبارکبادی پیش کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مملکتِ سعودی عرب کی حفاظت فرمائے اور اس کو دشمنوں کے شر سے بچائے۔
ابو حماد عطاء الرحمن المدنی
المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter