شہسوار علم و فن مولانا نیاز احمد طیب پوری ہزاروں سوگواروں کے درمیان سپرد خاک/ سوانحی خاکہ پڑھیں

3 اکتوبر, 2022

طیب پور بلرام پور / کئیر خبر
متعدد کتابوں کے مصنف اور بخاری شریف کے ہندی مترجم ،جامعہ محمدیہ منصورہ کے کھنہ مشق استاذ ومعلم مولانا ابوخورشیدنیاز احمد عبدالحمید بن عبدالحئی طیب پوری آج بتاریخ 3/اکتوبر 2022ء رات ایک بجے طویل علالت کے بعد اللہ کو پیارے ہوگیے،اللہم‌اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واسکنہ فسیح جناتہ ۔
آج سہ پہر ہی ان کے آبائی گاؤں طیب پور میں ہزاروں سوگواروں کے درمیان انہیں سپرد خاک کردیا گیا ؛ سدھارتھ نگر؛ بلرام پور؛ بستی ؛ گونڈہ ؛ سنت کبیر نگر کے علاوہ دیگر اضلاع و ملک نیپال سے سیکڑوں علماء ومحبان شریک جنازہ تھے-
ان کے سانحہ ارتحال پر دینی اداروں علماء و دانشوران نے اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہویے تعزیت کی ہے –
ڈاکٹر عبد الغنی القوفی نے لکھا:
شیخ نیاز احمد عبد الحميد طیب پوری مدنی رحمہ اللہ کے سانحہ ارتحال کی خبر ایک صاعقہ بن کر گری، ابھی ان کی ناسازی طبع کی خبر گردش میں آنا شروع ہی ہوئی تھی تب تک انتقال کی خبر آ گئی. إن العين لتدمع وإن القلب ليحزن ولا نقول إلا ما يرضى ربنا وإنا بفراقك يا شيخنا لمحزونون وإنا لله وإنا إليه راجعون اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأدخله فسيح جناتك وألهم أهله وذويه الصبر والسلوان ولا حول ولا قوة إلا بالله وإنا لله وإنا إليه راجعون.
شیخ سے غائبانہ تو اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی ان کی گوناگوں متنوع تحریروں کے ذریعہ تعارف تھا، لیکن ذاتی طور پر با قاعدہ کوئی پرانا تعارف نہیں تھا، مدینہ طیبہ سے لوٹنے کے بعد جب عملی زندگی دعوت وتدریس کی شروع ہوئی تب دہلی اور دیگر شہروں کے پروگراموں میں ان سے ملاقات ہوئی، اور ملاقات ایسی جیسے برسوں کی نیاز مندی حاصل رہی ہو، ذرہ برابر ایسا محسوس نہیں ہوا کہ نئی شناسائی ہے، ملاقات پر شیخ رحمہ اللہ نے جس طرح کا مشفقانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اب تک کہ میرے نشاطات کی پذیرائی فرمائی وہیں ہلکے سے عتاب کے ساتھ یہ حکم دیا کہ اپنی دیگر سرگرمیوں کے شانہ بشانہ کچھ علمی تحریروں کا سلسلہ بھی جاری رکھو، اس موقع پر مجھے حد سے زیادہ تعجب ہوا کہ کوئی شخصی ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن وہ میرے تعلق سے بہت سی تفصیلات سے آگاہ تھے، جب میرے تئیں ان کا یہ رویہ تھا تو ان کا اپنے خاص شاگردوں سے کیسا والہانہ تعلق رہتا ہوگا اندازہ کیا جا سکتا ہے.
یہاں یہ ذکر کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ شیخ میری اہلیہ کے استاد ہیں، ان کے طرز تدریس کی خوبیوں کے بارے میں مجھے انہیں سے معلوم ہوا تھا، علم کی گہرائی بہت اہم چیز ہے لیکن اس سے اہم یہ ہے کہ ایک معلم اپنے تلامذہ تک اس علم کی ترسیل صحیح طریقے سے کر سکے، اور شیخ رحمہ اللہ کے اندر اللہ رب العالمین نے یہ ملکہ بدرجہ اتم نصیب فرمایا تھا، میں نے ان سے ایک بار ذکر کیا کہ میرے لئے شرف کی بات ہے کہ اہلیہ کو بھی آپ سے شرف تلمذ حاصل ہے اور مجھے بھی ان پروگراموں کے طفیل شرف نیاز مندی حاصل ہو گیا، سن کر زیر لب مسکرائے اور پیٹھ تھتھپائی.
جب تک آپ سے گفتگو جاری رپتی علمی، دعوتی، تربیتی اور ثقافتی موضوعات پر ہی لگاتار بات ہوتی رہتی، آپ کو کسی کی غیبت، چغلی یا شکوہ زمان ومکان کرتا ہوا میں نے کبھی نہیں پایا… اور یہ میری نظر میں بہت بڑی بات ہے. مالیگاؤں کے مد وجزر نے بہتوں پر مثبت منفی اثر ڈالا لیکن حرام ہے جو ایک لفظ بھی اس نشیب وفراز پر لب کشائی کی ہو.
اللہ غریقِ رحمت فرمائے، ان کے اہل وعیال، شاگردان، محبان اور تمام وابستگان کو صبر وحوصلہ عطا فرمائے. ان کی مغفرت فرمائے اعلی علیین میں جگہ بخشے اور ان کے علمی کارناموں کو ان کی نجات کا ذریعہ بنائے.
———————
جامعہ خدیجہ الکبریٰ کے ناظم مولانا عبد العظیم مدنی نے لکھا:
اللہ رب العالمین شیخ محترم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے
بڑی علمی شخصیت تھی ایسی شخصیتں ایک زمانہ میں پیدا ہوتی ہیں طلباء کو علمی میدان میں آگے بڑھنے اور ان کے اندر تدریسی وتصنیفی ہنر پیدا کرنے کے لئے آپ کوشاں رہتے تھے
ماہر علم وفن کی حیثیت سے آپ کی شناخت تھی تدریس کا انداز نرالا تھا .
آپ کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ مکتب کی تعلیم ناپید ہوتی جا رہی ہے جس کا اظہار آپ نے اپنے ایک مضمون میں بہت ہی ددرمند انداز میں کیا ہے اور اس بات کا تذکرہ بھی کہ مکتب کی تعلیم کس انداز میں ہونی چاہئے
اللہ رب العالمین آپ کی حسنات قبول فرمائے اور فردوس اعلی کا مکیں بنائے
—–
مولانا عبدالحکیم عبدالمعبود المدنی صدر مرکز تاریخ اہل حدیث ،ممبئی نے مولانا مرحوم کا سوانحی خاکہ یوں لکھا ہے :

متعدد کتابوں کے مصنف اور بخاری شریف کے ہندی مترجم ،جامعہ محمدیہ منصورہ کے کھنہ مشق استاذ ومعلم شیخ ابوخورشیدنیاز احمد عبدالحمید بن عبدالحئی طیب پوری آج بتاریخ 3/اکتوبر 2022ء رات ایک بجے طویل علالت کے بعد اللہ کو پیارے ہوگیے،اللہم‌اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واسکنہ فسیح جناتہ ۔
آپ سے بارہا ملاقات رہی،تاریخ اہل حدیث کی ترتیب واشاعت پر مبارکبادی کے ساتھ آپ نے بہترین اور مفید مشورے بھی دئے، مرکز تاریخ اہل حدیث انڈیا کے ریکارڈ کے مطابق آپ کی زندگی کے مختصر حالات پیش خدمت ہیں ،ان شاءاللہ جلد ہی تفصیلی مضمون‌قلمبند کیا جائیگا ۔
آپ کا پورا نام‌ شیخ ابوخورشیدنیاز احمد عبدالحمید بن عبدالحئی طیب پوری سلفی مدنی ہے۔
7/01/1963 یا 1962ءکو اپنے آبائی وطن طیب پور پوسٹ پرسونہ ضلع گونڈہ میں‌پیدا ہویے۔
ابتدائی تعلیم گھر اور بیت نار منشی عابد علی کے پاس پانے کے ساتھ آپ نے 1976/1977ء میں ہائی اسکول بھی پاس کرلیا اسکے بعد ملک کی مشھور علمی درسگاہ جامعہ سراچ العلوم بونڈیھار میں عربی ثانی میں داخل ہویے اور رابعہ تک تعلیم حاصل کی ۔اسکے بعدجامعہ سلفیہ بنارس چلے گئے اور عالمیت میں داخلہ لیااور 1983ءمیں عالمیت مکمل کرلی ،فضیلت ثانی میں پھونچے ہی تھے کہ اسی دوران جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے منظوری آگئی اور اس طرح وہاں کلیہ الحدیث میں داخل ہویے اور چار سال تک تعلیم‌پانے کے بعد 1989ءمیں فارغ التحصیل ہویے۔اور اسکے بعد‌وطن واپس لوٹ کر جامعہ سراج العلوم بونڈیھار تدریس سے جڑ گیے ۔دوران تدریس آپنے 1990/1991ءمیں جامعہ الملک سعود ریاض جاکر تدریب المعلمین‌کا ایک سالہ کورس بھی کیا اوراسکے بعد 2000ءمیں لکھنؤ یونیورسٹی سےعربی ادب میں ایم‌اے بھی مکمل کیا۔
آپکے اساتذہ میں مولانا محمد اقبال رحمانی ،مولانا ابوالعرفان محمد عمر سلفی ،مولانا ابوالعاص وحیدی،مولانا رئیس احمد ندوی ،مولانا صفی الرحمن مبارکپوری،شیخ عمر فلاتہ جیسے نابغہ روزگار رہے ہیں اور آپ نے شیخ البانی ،شیخ ابن باز ،شیخ عثیمین ،شیخ حماد انصاری اور شیخ عبدالمحسن العباد جیسے عباقرہ علماء سے استفادہ بھی کیا ہے۔

تدریس ودعوت ودیگر کارہائے نمایاں :

مدینہ سے فراغت کے بعد آپ نے کچھ دنوں تک اعزازی طور پر جامعہ سراج العلوم بونڈیھار میں تدریس کا فریضہ انجام دیا ،اسکے بعد دو فترے میں میں کم وبیش بارہ سالوں تک جامعہ اسلامیہ خیرالعلوم ڈمریاگنج سے منسلک رہے۔اور سات سالوں تک یھاں سے شائع ہونے والے مجلہ الفرقان کے ایڈیٹر بھی تھےاوراسکے بعد جامعہ محمدیہ منصورہ ملیگاؤں سے منسلک ہویے اور تدریس،دعوت،مجلہ صوت الحق کی ادارت کرتے ہویے عمر کی بقیہ قیمتی بھاریں یھیں گزار دیں ۔آپ ایک کھنہ مشق مدرس کے ساتھ بھترین داعی اور مبلغ بھی تھے اور ساتھ ہی ایک اچھے صحافی اور قلمکار بھی تھے ،ملک کے علمی وتعلیمی سیمیناروں میں آپ کی اکثر شرکت رہاکرتی تھی،آپ کے قلم گھربار سے کم وبیش 28سے زائد چھوٹی بڑی کتابیں تصنیف ھوییں جن میں سے بیشتر مطبوع ہیں ۔ان میں تجلیات نبوت ہندی اور مکمل صحیح بخاری کا ہندی ترجمہ قابل ذکر ہیں ۔
آپ نے اپنے پیچھے تین لڑکے شیخ خورشیدعالم مدنی ،محمد عامر ایم ڈی پونہ ،محمد طاہربی بی اے دھلی،اور دولڑکیاں صبیحہ اورذکیہ اور ایک بھرا پورا خاندان چھوڑا ہے۔
شیخ محترم کو آخری وقت میں کئی عوارض لاحق ہوگئے ،بیماری نے شدت اختیار کر لی ،علاج معالجہ کے لیے اپنے لڑکے عزیزم‌عامر‌کے پاس پونہ تھے اور وہیں علاج چل رہا تہا۔بیماری سنگین ہونے کی وجہ اور افاقہ نہ ملنے پر ابھی دو دن پھلے گاؤں لےجایے گیے اور 3/اکتوبر 2022ءرات ایک بجے اللہ کو پیارے ہوگیے ۔مولی شیخ محترم‌کو غریق رحمت فرمایے اور پسماندگان اور بچوں کو صبر جمیل عطا کرے ۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter