علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ ایک عہد ساز شخصیت

ڈاکٹر محمد اورنگ زیب تیمی ناظم عمومی مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال

17 اکتوبر, 2022

١٥ / اکتوبر ٢٠٢٢ ء کی شام آپ پر ہارٹ اٹیک ہوا ۔ میر ے قریبی رشتہ دار ہونے کے باعث وہاں سے پل پل کی خبر موصول ہوتی رہی۔ تھوڑی ہی دیر میں اچانک انتقال کی خبر نے ہمیں صدمہ میں ڈال دیا ۔ ہم اس جانکاہ خبر سے نڈھال تھے اور کچھ لکھنے کی طبیعت بن ہی رہی تھی کہ سوشل میڈیا پر ایک تعزیتی سلسلہ تھا جو پھیلتا ہی جارہا تھا ۔ اس تواتر سے بخوبی یہ اندازہ ہوا کہ اس عظیم شخصیت کی اس جانکاہ سانحہ سے ناچیز کیا پوری ملت ہی سوگوار ہوچکی ہے ۔
رات جب دم توڑ کر صبح کا اجالا نمودار کرتی ہے تو ہر طرف جیسے سناٹا چھایا ہوا ہے ۔ اور یہ سناٹا میری طبیعت میں میرے وجود میں اور میری فکر میں سرگوشی کر رہا ہے ۔ بلکہ میں اپنے پورے وجود کو سمیٹ کر اپنے اندر قوت لایموت کو مجتمع کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہمّ و غم کی موجودہ کیفیت پر قابو پاسکوں’ سو یہ بھی نقاہت سے نڈھال ہوچکی ہے ۔ انہی خیالات میں محو ہوں کہ اچانک شیخ عبدالمجید بھکراہوی کا فون موصول ہوتا ہے اور جب اس عالمی شخصیت ( رحمہ اللہ) پر تبادلہ خیال کرتا ہوں اور ایک دوسرے پر غم بانٹتا ہوں’ تو قرار آتا ہے ۔
زیر نظر تحریر میں آپ کے سوانحی خاکہ سے ذرا ہٹ کر کچھ رقم کرنے کی یہاں کوشش کرتا ہوں تاکہ آپ ان تکرار واقعات
سے محفوظ رہیں جس کی ریڈنگ اب تک آپ کرچکے ہیں ۔ زہے نصیب کہ آپ کی بھانجی میرے نکاح میں ہے اور گھریلو ان کے حالات سے میں خوب واقف ہوں ۔
شیخ رحمہ اللہ کا بچپن اور تعلیمی ادوار جس طرحِ انفرادیت سے مملو ہے اسی طرح دور جوانی و کہولت بھی منفرد تھی ۔ آپ رحمہ اللہ کا اپنے خاندان اور رشتہ داروں سے بےتکلف ملنا اور ان کے شایان شان تکریم کا لحاظ کرنا آپ کی عادات میں شامل تھا یہی وجہ ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے عزم کیا کہ اس سفر میں تمام بہنوں سے ملنا ہے تو وقت کی تنگی کے باوجود ان کے گھروں اور دہلیزوں پر پہنچ کر یہ فریضہ انجام دیتے رہے ۔ اسی موقع سے ٹھیلہ نیپال تشریف لائے جہاں میری خوشدامن اور آپ کی بہن ” علیا“ رہتی ہیں’ وہاں بھی وقت کے ساتھ تشریف لائے تھے ۔ اس سنہری موقع سے آپ نے میرے بچوں کو خوب دعائیں دیں ۔ جس کا نتیجہ ہے کہ وہ آج کسی لائق بن سکا ہے ۔
واضح رہے آپ کے پانچ بھائی اور چھ بہنوں کا رشتہ زیادہ تر نیپال میں ہے ۔ پروفیسر زہیر انور رحمہ اللہ کے علاوہ چار بھائیوں کی شادی نیپال ہی میں ہے ۔ اسی طرح چھ بہنوں میں چار بہنوں کا رشتہ بھی نیپال ہی میں ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ کے والد محترم شیخ الحدیث شمس الحق سلفی رحمہ اللہ کا دعوتی دورہ اکثر و بیشتر نیپال ہی میں ہوتا تھا ۔
بلاشبہ شیخ عزیر شمس کے علمی وجاہت کارعب اور چرچا چہار دانگ عالم میں پھیلا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ سلسلہء دعوت اور مخطوطات کی تلاش میں عرب تو عرب مغربی ملکوں کا بھی آپ دورہ کرچکے تھے ۔ ایک ایسے ہی نادر موقع کو پاکر مجھے بھی متعدد بار استفادے کا خوب موقع ملا ہے ۔ اسی سلسلہ میں جامعہ ملیہ دہلی میں جب میں دکتوراہ کر رہا تھا تشریف لائے تھے ۔ اور بھرے مجمع میں کہا تھا :” یہ میرا داماد لگتے ہیں“۔ پھر اس موقع سے ان کا جو درس و محاضرہ ہوا وہ کسی محدث اور محقق کا انداز بیان تھا جسے سن کر سامعین خوب محظوظ ہوئے تھے ۔
آپ کا گاؤں ” بلکٹوا “ بہار انڈیا اور اس کا قرب و جوار نیپال تک کا علاقہ ان کے خاندان کا بڑا مرہون منت ہے جس نے بستی بستی اور قریہ قریہ میں تعلیمی و دعوتی شعور کا چراغ فروزاں کیا ہے ۔ بالخصوص شیخ عزیر کے عم محترم مولانا عین الحق سلفی استاد دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ اور ان کے والد محترم مولانا شمس الحق سلفی شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ بنارس نے دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تعلم کا ایسا جال بچھا یا جس اثر سے کوئی گاؤں اس آواز سے محروم نہ رہ سکا اور اہل حدیث بن کر آج بھی ان کی زبان سے ان شیخین کے لئے دعائیں نکلتی ہیں ۔ اس تفصیل کی یہاں ضرورت اس لئے پیش آئی کہ علامہ عزیر رحمہ اللہ بھی ان اسفار میں کبھی کبھی ساتھ ہوتے تھے ۔
اسی دعوتی سلسلے کا آماجگاہ نیپال میں جامعہ سلفیہ جنک پور کا قیام بھی ہے جس کی بنیاد انہی مشائخ کے ہاتھوں پڑی ہے اور انہی کی کوشش کا ثمرہ اس کا وجود آج بھی لہلہا رہا ہے ۔ تاہم بعض مرور ایام کے حوادث نے اس کے بست وکشاد پر طرح طرح کی آزمائشیں ڈالیں ہیں جس کا اثر تاہنوز باقی ہے ۔ دعا ہے اللہ تعالی ان کے بانیین کی نیتوں اور کوششوں کے مطابق اس جامعہ کی دوبارہ آبیاری فرمادے ۔
آپ رحمہ اللہ کی گوناگوں خدمات و حالات پر اور مکی زندگی کے علمی تگ و تاز پر لکھنے والا قلم توڑ کر بھی لکھے گا پھر بھی اس شخص کبیر اور محدث عظیم کا حق ادا نہیں ہوگا جو آپ کی گمنام زندگی نے اتنے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں کہ جیسے جیسے دن بیتے گا ویسے ویسے حیرت انگیز ان کی زندگی کے علمی و خیری عقدے کھلتے چلے جائیں گے ۔
ذہبی دوراں شیخ عزیر شمس کی امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم پر جو علمی کاوشیں ہیں اور اسکے اسلوب و نکات میں جو ندرتیں ہیں یقینا علماء و طلباء کے لئے وہ بڑا وقیع ذخیرہ ہے ۔ اللہ ہمیں استفادے کی توفیق دے اور آپ کے لئے اسے ذخیرہ آخرت بنائے ۔ آمین
غمزدہ : ڈاکٹر محمد اورنگ زیب تیمی
ناظم عمومی مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter