بلا شبہ کائنات کا سب سے پاکیزہ پیشہ دعوت الی اللہ ہے؛ کیونکہ اس کے ذریعہ کائنات کی سب سے عظیم سرمایہ توحید کی دعوت دی جاتی ہے، بندہ مومن کوعبادتوں میں اخلاص،اور عمل صالح کا راغب بنایا جاتا ہے: ارشاد باری تعالی ہے:(ومن أحسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحاوقال اننی من المسلمین)فصلت: ۳۳) ترجمہ: اس زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقینا مسلمانوں میں سے ہو۔
اسی طرح سے نبی کریم ﷺ دعوت الی اللہ کی فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(من دعا الی ہدی کان لہ من الأجرمثل أجور من تبعہ لاینقص ذلک من أجورہم شیئا…)ترجمہ: جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجرکے برابر ثواب ملے گابغیر ان کے اجر میں کمی کئے ہوئے۔اور اسی طرح نبی کریمﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے فرمایا:(فو اللہ لأن یہدي بک رجل واحد خیر لک من حمر النعم)رواہ البخاری،ح۲۴۹۲) ترجمہ: اللہ کی قسم!اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہترہے۔
مذکورہ نصوص سے معلوم ہوتاہے کہ واقعتا دعوت وتبلیغ ایک پاکیزہ اور ثواب جزیل کا عمل ہے، ہرداعی کو اس کی اہمیت کا احساس ہونا چاہئے تاکہ کما حقہ اس فریضہ کو انجام دے سکے۔چونکہ یہ عمل عبادت کے درجہ میں ہے تو اس کے لئے عبادات کی قبولیت جو بنیادی شرطیں ہیں اس کا پایا جانا لازمی ہے، چنانچہ ہر داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اس عمل میں مخلص ہو، اس کی دعوت اللہ کے لئے ہونی چاہئے اوراللہ کی طرف بلانے کے لئے ہو، ساتھ ہی اس عمل کے انجام دیہی میں نبی کریم ﷺ کی سنت و طریقے کو ملحوظ رکھنا چاہئے، اسی لئے درج ذیل سطور میں دعوت وتبلیغ کے حوالہ سے نبی کریمﷺ کے طریقہ واسالیب کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا جارہا ہے، تاکہ دعاۃ الی اللہ اسی کی روشنی اپنے فریضہ کو با آسانی انجام دے سکیں۔
پہلااصول: داعی کے لئے لازمی وضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے توحید کی دعوت دے، کیونکہ جب عقیدہ توحید انسان کے ذہن ودماغ میں رسخ ہوجاتا ہے تو باقی دین کے مسائل کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے، اسی لئے تمام انبیاء کرا م نے اپنی دعوت کی ابتداء اسی توحید ہی کے ذریعہ سے فرمائی، ارشاد باری ہے:(ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت)النحل: ۶۳) ترجمہ:ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔اور نبی کریمﷺ نے صحابی رسول معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: (انک تقدم علی قوم أہل کتاب فلیکن أول ما تدعوہم الیہ عبادۃ اللہ…)رواہ البخاری: ۸۵۴۱) ترجمہ:دیکھو تم ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں اس لئے سب سے پہلے انہیں اللہ کی عبادت کی دعوت دینا۔
دوسرااصول:جب عقیدہ توحید لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جائے تو پھر اسلام کے بقیہ ارکان جسے نماز روزہ حج زکاۃ وغیرہ کی دعوت دی جائے اور اسی طرح ایمان کے ارکان کو لوگوں کے دلوں میں رچایا وبسایا جائے، اور ان سب کی دعوت میں تدرج کاخاص اہتمام کیاجائے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی۔
تیسرااصول: ایک داعی کی دعوت علم وبصیرت کی روشنی میں ہونی چائیے اس اعتبار سے کہ وہ جس کی طرف لوگوں کو بلائے اس کی صحیح معرفت کتاب وسنت کی روشنی میں حاصل کرلے، اللہ تعالی نے علم کو عمل پر مقدم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: (فاعلم أنہ لا الہ الا اللہ واستغفر لذنبک…)محمد: ۹۱) ترجمہ: اے نبی آپ جان لیں کہ اللہ کے سوا معبود برحق نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں۔
اور اسی طرح ایک دوسری جگہ دعوت وتبلیغ میں علم وبصیرت کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(قل ہذہ سبیلي أدعو الی اللہ علی بصیرۃ أنا ومن اتبعني…)یوسف: ۸۰۱) ترجمہ: آپ کہہ میری راہ یہی ہے، میں اور پیروکاراللہ کی طرف بلا رہے ہیں…۔
چوتھااصول: ایک داعی کے لئے ضروری ہے وہ حکمت وبینائی کے ساتھ دعوت وتبلیغ کے فرائض انجام دے،اور وہ حکمت علم وبردباری اور تثبت پر مشتمل ہو، ارشاد باری تعالی ہے:(ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی أحسن…)النحل: ۵۲) ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقہ سے گفتگو کیجئے…۔
قارئین کرام! اگر ہماری دعوت مذکورہ بالا اصولوں سے مزین ہوجائے تو ہماری محنت رنگ لا سکتی ہے اور ہم ایک کامیاب داعی بن سکتے ہیں۔ اسی طرح سے ایک داعی کے لئے ازحد ضروری ہے کہ وہ جس قوم میں دعوت وتبلیغ کے فرائض انجام دینا چاہتا ہو وہ ان کے احوال و کوائف سے با خبر ہو، تاکہ حالات وظروف کی رعایت کرتے ہوے دین کی نشرو اشاعت کی جائے اسی مقصد کے تحت درج ذیل سطورمیں مدعویین کے اقسام ذکر کئے جارہے ہیں:
(۱) لوگوں کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جو حق کا اعتراف کرتے ہیں اور حق کے متلاشی ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کرتے ہیں،ایسے لوگوں کے حوالہ سے داعی حکمت وبینائی کے ساتھ وعظ ونصیحت کرے، تاکہ لوگ شریعت اسلامیہ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر صبرو استقامت کا مظاہرہ کرتے رہیں۔
(۲) لوگوں کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جو حق کا اعتراف کرتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے ہیں تو ان کے درمیا ن مواعظ حسنہ کے ذریعہ شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کوعام کیا جائے اور دین کی دعوت وتبلیغ کی جائے۔
(۳) لوگوں کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جو حق کا اعتراف نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ اس کے منکر ہوتے ہیں تو ایسی قوم میں دعوت وتبلیغ علمی مناظرہ کا انعقاد کرکے کیاجائے، دلیل وبراہین کے ذریعہ سے ان کو قانع کیا جائے تاکہ باطل فکر سے باز آجائیں۔
یہ تھے دعوت الی اللہ کے چند اصول وضوابط، اور مدعویین کی احوال جن کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا گیااس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے کہ ہم ان اصول وضوابط کی روشنی دین کی نشرو اشاعت کرتے رہیں، تاکہ معاشرہ و سماج میں صحیح عقائد کی ترویج ہو سکے۔ تقبل یار ب العالمین۔
آپ کی راۓ