فہمیدہ ریاض نے ادبی زندگی کا آغازباقاعدہ رسالہ آواز سے کیا اور ابتدائی نظم احمد ندیم قاسمی کے رسالہ فنون میں چھپی اس کے علاوہ ناول نگاری، میں بھی اہم مقام رکھتی ہیں۔ ان کے شعری مجموعے پتھر کی زبان اور بدن دریدہ ہیں۔۱؎ نہ صرف شاعری بلکہ افسانے میں بھی آپ نے طبع آزمائی کی۔ آپ کا افسانوی مجموعہ خطِ مرموز اور ناولوں میں گوداوری 1995ء،زندہ بہار1996ء،کراچی 1998ء اور قلعہ فراموشی ہیں۔ ان ناولوں میں ناول کی روایت میں زرخیز اضافہ ہوا۔ فہمیدہ ریاض نے گوداوری مارچ 1995ء میں لکھا جو دوست پبلی کیشنز اسلام آباد نے شائع کیا۔157 صفحات پر مشتمل یہ ناول اپنی انفرادیت کے اعتبار سے انتہائی اہم ہے گوداوری ناول کی وجہ تسمیہ کے بارے میں جو اشارے ملتے ہیں ان کے مطابق اترپردیش کے خط کو گوداوری کہتے ہیں۔ کیونکہ وہاں گوداری نام کی ایک ندی بہتی ہے۔ گوداوری نام کا انتخاب 1980ء کی دہائی میں کیمونسٹ پارٹی کی نو آباد کار متحرک کارکن گوداوری پارویکر سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ گوداوری نام کے بارے میں جو ناول میں اشارے ملتے ہیں ان کے مطابق وادی، ندی یا خاتون کا نا م ہے۔ ناول نگار یہ حقیقت ناول کے نسوانی کردار اشا اور ما کے مکالمے سے قاری پر عیاں کرتی ہیں۔ یہ انگریز ہےاور کسانوں کی مدد گار بھی بلکہ انسانیت کی فلاح و بہبود اس کا مقصد ہے ایک متحرک عورت ہے ۔
گوداروی کے جغرافیائی پس منظر کے بارے میں:
"مہاراشٹر کے مغربی کنارے پر اس پہاڑ پر بیسویں صدی کے آغاز میں انگریزوں، بمبئی اور سورت کے بوہڑوں،فوجوں اور اسماعیلیوں او رپارسیوں نے بسایا تھا۔”۲؎
ناول گوداروی کا موضوع سیاسی اور تاریخی جبر ہے اس ناول میں ناول نگار ایسی نظریاتی ادیبہ کے طورپر سامنے آتی ہیں، جو معاشرتی نظام کے بدلنے کی خواہش مند ہیں۔ معاشرتی نظام اور استحصالی رویوں کو بدلنے کی تڑپ کو موضوع کرتی ہیں۔ ایسا نظام چاہتی ہیں، جس میں انسان،انسان کے تابع نہ ہو او رنہ ہی انسان،انسان کا دشمن ہو۔
گوداوری انسانی نفسیات،سماجیات اور سیاسیات پر مبنی ایک مربوط ناول ہے۔گوداروی کی انفرادیت دو طرح سے ہےکہ اسے فہمیدہ ریاض جو اپنی ورسٹائل تحریروں کی وجہ سے دنیائے ادب میں اپنا مقام و مرتبہ رکھتی تھیں اور دوسری ناول کی رائج شدہ خدو خال اور ناول کی روایت سے روگردانی کی ہے۔ فہمیدہ ریاض نے گوداروی میں سفر نامے کی تکنیک استعمال کی ہے۔ ناول میں فہمیدہ کسی ایک ملک یا مذہب کی نمائندہ بن کر نہیں بلکہ انسانیت کی علمبردار بن کر سامنے آتی ہیں۔ ان کے موضوعات بلا تفریق ہر شخص سے محبت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کاغذ پر نقشے پر بنائی ہوئی سرحدوں کے جھگڑوں پر مذمت کرتی ہیں ۔ وہ کسی جماعت یا گروہ کے فرد سے محض انسانیت کے ناطے بات کرتی تھیں۔مصنفہ نے ناول میں تقسیم ہند کے المیے کو ایک انسان دوست ادیب کی نظر سے دیکھا ہے۔انسان سے انسان کا بیہمانہ رویہ اور معاشرے میں انسان دوستی کے فقدان پر اظہار تاسف کرتی ہیں۔ ڈھکے چھپے الفاظ میں انسانوں کی اس بستی کے مرکزی موضوع اور ناول کے بنیادی موضوع سیاسیات،تاریخ اور تاریخی و سیاسی جبر پر بات کرتی ہیں۔ مصنفہ کا یہ پسندیدہ موضوع تھا او راس عہد کا متحرک مسئلہ بھی یہی تھا۔
کسی بھی کہانی کی تشکیل میں پلاٹ کی حیثیت بنیادی ہوتی ہے۔پلاٹ پرکسی کہانی،کسی فن پارے یا کسی ناول کی جان ہوتا ہے۔ فن پارے کی مختلف اجزا پلاٹ ہی کی مدد سے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔کہانی نگار کہانی کے مختلف اجزا کو اس خوبصورتی سے جوڑتا ہے کہ جوڑ نظر نہ آئے اگر واقعات میں کوئی گیپ یا جھول نظر نہ آئے تو یہ فنکار کی حقیقی کامیابی ہوتی ہے۔فہمیدہ ریاض کی کہانیوں میں یہ جھری یا گیپ مفقود ہے۔
گوداوری کا پلاٹ شاندار ہے۔ اور واقعات پانی کے ریلے کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں۔ پلاٹ مربوط اور پیچیدہ ہے۔ واقعات بالترتیب چل رہے ہیں۔ کہانی کا آغاز ایک بنگالی مسلمان خاندان کی مہاراشٹر میں چھٹیاں گزارنے کے واقع سے ہوتا ہے۔ یہ پہاڑی علاقہ بمبئی کے مضافات میں بمبئی سے چار گھنٹے کے فاصلے پر ہے اور مراٹھا لینڈ کاحصہ ہے۔ یہاں پربمبئی کے امراء نے بنگلے بنا رکھے ہیں یہ خاندان بھی ایک مسلمان کا ملکیتی ولا چھٹیاں گزارنے کے لیے حاصل کرلیتا ہے۔ اس خاندان کے افرادمیں ما، با اور ان کے بچے بڑکی،کپککی اور چیکو ہیں۔
فسادات برپا ہونے لگ جاتے ہیں جن کی زد سے بچنے کے لیے ما اور بااپنے بچوں کو لے کر بنگال کے لیے روانہ ہوتے ہیں وہاں وہ شامل جی، جو کہ سندھی ہدایت کار انسانیت اور کیمونسٹ پارٹی کے رکن سے ملتے ہیں۔ اور وہاں پر ما ان سے مل کر روایتی عورت کے روپ میں آجاتی ہے اور تمام تر پریشانیاں ان سے بغیر جھجک کے بیان کرتی اور ان مسائل کے حل پر شامل جی سے بحث کرتی ہے۔ یہاں یوں لگتا ہے، جیسے اچانک کہانی اخبار کی ہیڈ لائنز میں تبدیل ہو گئی۔ ابھی اُشا گوداروی کا تعارف کروا رہی تھی کہ ہندو مسلم فسادات در آئے۔ وسط میں ہی ما اور بابچوں کو بھیونڈی کے فسادات سے بچا کر بنگال لے جانے کی ترکیب کرتے ہیں تو راستے میں ما ایک فلم میکر سے ملتی لیکن وہ تجسس برقرا ر رہتا ہے کہ ما فلم میں کام کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود فلم میں کام کرتی ہے یا نہیں؟کیا مہاجرین بے یارو مددگار ہے پھر کوئی وطن ملا ؟فہمیدہ ریاض اپنی فنی مہارت دکھاتے ہوئے کہانی کے انجام کوبے نتیجہ چھوڑ دیتی ہیں تاکہ قاری تجسس میں رہے۔
بظاہر کہانی کی بنت تو مہاراشٹر میں مسلم خاندان کی سیر و سیاحت پر ہے لیکن پس پردہ ایک اور کہانی چلتی ہے۔تقسیم ہند کے اثرات، مہاجرین کے مسائل اور مہاجرت کا کرب، اردو ہندی تنازعہ،فرقہ وارانہ فسادات، ہجرت کے مسائل، سیاسی جبر،شناخت کا مسئلہ،تہذیب و ثقافت کی پیش کش، صنفی امتیازات جیسے کثیر الجہت موضوع ناول میں زیر بحث لائے گئے ہیں۔
ناول کا بنیادی موضوع سیاسیات اور تاریخی جبرہے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہندوستان کا منظر نامہ تبدیل ہونے لگا تھا۔ بد یسی حکمران چار دہائیوں تک حکمرانی کر چکے تھے غدر کے بعد حالات بہت حد تک بدل چکے تھے۔ ہندوستانی سماج میں ثقافتی اور سیاسی سطح پر تغیر رونما ہو رہا تھا۔ ہندوستانی تہذیب اور سماج کئی حصوں میں بٹا ہوا تھالیکن یہ تقسیم مذہبی بنیادوں پر تھی اور کہیں پر اقتصادی او رسیاسی بنیادوں پر۔ ہندوستانی کسان اپنی تمام تر محنت کے باوجود روزبروز خسارے میں جا رہا تھا، جب کہ حکمران طبقہ پیسہ بٹور رہا تھا مقتدر اپنے مقامی کارندوں کے ذریعے لوگوں کے سماجی،اقتصادی اور آزادی کے حقوق کا استحصال کر رہے تھے۔یہی وجہ تھی کہ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں آزادی کی تحریک کی سعی کے لیے ہندوستان میں مختلف تحریکوں کا آغاز ہوا۔
”بیسویں صدی کے ابتدائی پچیس سال ہندوستان کی سیاسی اور اقتصادی زندگی میں اہم تبدیلیوں اور دستا خیز کے سال تھے۔ انگریز کا تعلیمی،سیاسی اور اقتصادی نظام عبوری مراحل سے گزر کر مضبوطی سے جڑ پکڑچکا تھا۔“۲؎
جوں جوں وقت گزرتا جار ہا تھا گورے کی نا انصافیاں اور ظلم مقامی لوگوں پر بڑھتا جا رہا تھا۔ اسی سبب ہندوستان میں رد عمل کے طور پر بیداری اور آزادی کا جذبہ پید اہو رہا تھا۔ مفقود انگریز نو آباد کار تھی انھوں نے معاشی مفاد کی خاطر مقامی لوگوں کا استعمال کیا اور جنگی چالوں کو کامیاب بنانے کے لیے مقامی افراد کو ورغلایا۔ اس سازش کو ہندوستانی سیاست دان بھانپ گیااور میدان عمل میں کود پڑا۔ اسی دور میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں گیپ آگیا۔ در حقیقت یہ گیپ یا خلیج انگریز کا بنایا ہوا تھا تاکہ وہ اپنے اوچھے ہتھکنڈوں میں کامیاب ہو سکے۔ متحدہ ہندوستان میں اٹھنے والی اس بیداری کی لہر نے جلدہی پورے ہندوستان کی منظر نامے کو یکسر بدل کر رکھا دیا۔ جلد ہی آزادی کی تحریک تقسیم ہند میں بدل گئی۔ ہندو بظاہر تو تقسیم کے خلاف تھے لیکن باطنی طور پر وہ تقسیم چاہتے تھے۔ بالآخر برصغیر پاک و ہند1947ء میں نوے سالہ قید غلامی سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور پاکستان معرض وجود میں آتا ہے۔ ناول میں تحریک آزادی، مسلمانوں اور ہندوؤں کے رد عمل اور آزادی کی پیش کش بطور نمونہ ملاحظہ ہو:
”تحریک کامیاب ہو گئی ۔کچھ مسلمانوں نے پڑھا لکھا ۔
اور پھر ما نے کہا
پھر انھوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا اور ہندوستان کو تقسیم کرنے اور ہندو مسلمانوں نے پڑھ لکھ کر ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر بہار کا گیت نہیں گایا۔”۳؎
فہمیدہ ریاض مقتدر اور حز ب اختلاف کی جنگ میں رہتے ہوئے عام شہری کا چہرہ دکھاتی ہیں۔ضمنی سے اشارے سیاسی جبر مکتی باہنی،بھگتی ،کیمونسٹ پارٹی اور اصلاحی تحریک کا ذکر ملتا ہے مصنفہ شیو سینا کے سر کردہ بال ٹھاکرے کے عزائم کے بارے میں اشاروں میں تفصیل بیان کرتی ہیں کس طرح اس نیم عیاش شعبدہ باز میں جادو آنا صلاحتیں تھیں۔ کہ پورے ہندوستان سیاسی ماحول کو ظلم و جبر کا استعارہ بنا ڈلاا پھرا س کا سیاسی تحریک کے مفادات پر مبنی صلح روپ دکھاتی ہیں۔
"ڈیڑھ سو برس پہلے شوسینا نے بمبئی کی اسلامی جماعتوں کے ساتھ کئی تقریبات میں حصہ لیا۔ ان کو پھول پہنائے ان پھولوں کا کوئی اثر نہ ہوا ہندو مسلم مفادات تو وہیں کے وہیں رہے۔ بلکہ کاروائیوں میں شدت پیدا ہو گئی۔شو سینا کا بانی بال ٹھاکرے دراصل اپنے آپ کو سواجی کہا "۴؎
مسٹر ہند کا جانشین سمجھتا تھا یہ کبھی گائے کا مسئلہ اور کبھی گن پتی کے تہوار کا معقول بہانہ بنا کر مسلمانوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنا لیتے۔ تہوار کے موقع پر بھیونڈی میں ہندو مراٹھوں کے گن پتی جلوس کا راستے طے اور جلوس مسلم علاقوں کے بیچوں بیچ لے جانے کی تجویز کرتے نہ صرف یہ بلکہ راستے میں بھگوہ جھنڈے لگائے جاتے اورپتہ نہیں کہاں سے یہ جھنڈے اکھڑ جاتے اور ان کی جگہ پر سبز جھنڈے لہرانے لگتے۔ اسی مفاد پرستی پر سیاسی کارندے اور مسلم ہندوؤں کو خون کی ہولی کھیلنے پر مجبور کرتے۔ شامل جی کہتے ہیں کہ:
"اتحاد کی ماشاء اللہ سے کسی قسم کی کوئی گنجائش چھوڑی نہیں گئی یہاں یعنی کہ اس برصغیر میں”۵؎
ناول میں جو اشارے ملتے ہیں ان سے شوسینا پہلے پہل مراٹھائیوں کے ساتھ بھارت میں ہونے والے سلوک کے خلاف سر گرم ہوئی لیکن آہستہ آہستہ بہ تحریک مذہبی ہٹ دھرمی کار وپ دھار گئی اور بالآخر کانگریس کی طرح ایک سیاسی جماعت بن کر ابھری، مراٹھا تحریک کے کارکن اور سر کردہ پہلے پہل تو صفائی ستھرائی کی مہم جوئی میں رہے پھر اچانک بہ تحریک تازہ دم ہو کر ابھری تو غریب مراٹھوں کواس نے مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچا اور مراٹھوں کو سنہرے خواب دکھائے۔ مراٹھا فوقیت کی تجدید کا خواب، سواجی مرہٹہ کا ماورائی وجود، پر چم لہرا رہا تھا۔ ان کو کامل یقین دلایا گیا کہ وہ حق پر ہیں اور غیر جانبدار مراٹھوں کو نعرہ دیا گیا کہ نہ تم ملازمتیں حاصل کر سکے او ر نہ ہی اپنی سر زمین کوا ن کے قبضے سے واپس لے سکو گے۔۶؎
مستقل عزائم دے کر بال ٹھاکرے نے جادوآنہ شر کی فضا کی طرف مراٹھوں کو راغب کیا۔ بالآخر عملی سیاست میں ظلم و جبر اور انتہا پسندی کی منصوبہ بندی کے ساتھ شیو سینا صوبائی انتخاب میں بھاگ لیتی ہے اور جیت جاتی ہے جب شوسینا ملازموں،مزدوروں اور ہاریوں کو ملازمتیں نہ دے پائی تو گڑہے مردے اکھاڑے گئے۔ اس شر پسند سیاسی تحریک نے مراٹھیٹ کو جگانے کے لیے اور مراٹھا کیمونٹی کی بقا کا نعرہ لگایا اور عام لوگوں کا نقطہ نظر انداز کر دیا کہ بمبئی کو اس کے پرانے نام موم بائی سے پکارا جانا چاہیے۔ پارلیمنٹ میں بل منظور کرواتے ہی سڑکوں پر کارندوں کو نعرہ بازی پر لگا دیا۔
"بمبئی نہیں موم بائی راجیو گاندھی جب بمبئی آئے تو پرچموں میں تحریر کیا گیا۔ ہم آپ کا خیر مقدم کرتے ہیں بمبئی میں نہیں موم بائی میں”۷؎
شو سینا کے علاوہ کیمونسٹ پارٹی کا ذکر ناول ہے۔ کیمونسٹ پارٹی کا ذکر ناول ہے کیمونسٹ پارٹی جنصرہ اصلاح معاشرہ تھا طیب بھائی،طاہر بھائی عطر والد اور شامل جی بھی اسی تحریک کا حصہ تھے اس پارٹی کا مقصد نہ صرف اصلاحِ معاشرہ بلکہ بسے ہوئے طبقے کے حقوق کی بجا آوری او راستحصال کے خلاف بغاوت تھا۔ کیمونسٹ پارٹی مسلم اکثریتی کارکن کی پارٹی تھی۔ طیب بھائی ایک جید عالم اور سیاسی کارکن تھا۔ وہ ہندو مسلم فرقہ وارایت کے خلاف تقریباً کل وقتی تحریک چلاتے تھے۔ حالانکہ ان کا تعلق ایک مسلمان فرقے کے پیشوا کے گھرانے سے تھا وہ گاہے بگاہے وقت نکال کر اور اصلاحی تحریک بھی چلاتے تھے۔ ما طیب بھائی ہے کرتی ہے کہ آپ کا بنیادی کام بہت اچھا اور اہم ہے۔ اس فرقے کی اصلاح سے اپنے لیے کیوں مشکلات پیدا کر رہے ہیں تو طیب بھائی جواباً کہتے ہیں کہ:
"یہ تو سب سے اہم ہے اس فرقے کی اصلاح سے زیادہ ضروری ہے۔”۸؎
۰۸ء کی دہائی کے سیاسی منظرنامے کو فہمیدہ ریاض نے بڑی مشاقی اور دلیری سے پردہ چاک کیا ہے اوائل میں کیمونسٹ پارٹی کے طیب بھائی او رطاہر بھائی نے معاشرے کی بد حالی سے اپنے پیرو کاروں کو بچانے کے لیے ہندو مسلم فسادات کو روکنے کا عزم کیا اور طیب بھائی پنج رفتہ غازی تھے ان کے کارناموں سے عام مسلمان اپنی ایک کم علمی کی وجہ سے شرمندہ ہوتے رہے تھے لیکن جلد ہی ان کا تاریک چہرہ سب کے سامنے آگیا کہ طاہر بھائی خود کو اصلاحی تحریک کا حصہ کتے ہیں تو ادھر بھاری ٹیکس وصول کر کے قبروں کو فروخت کرتے ہیں اور پیسے نہ ہونے پر میت کو جلانے کا مشورہ دیتے ہیں اسی یا وی کی دہائی کی ۵۴۹۱ء سے ۷۴۹۱ء کے عہد تک سر کردہ اور متحرک کارکن گوادروی تھیں اور جنھوں نے عرصہ دراز سے پسے ہوئے آری واسی در کی کسانوں کو سرمایہ دار اور ملازمین داروں کے چنگل سے آزاد کروا کر حق دلوایا۔
”گوداروی مائی، گوداروی یا رویکر دراصل گو داروی گوکھے انڈین کیمونسٹ پارٹی کے کارکن تھی ۵۴۹۱ء سے ۷۴۹۱ء تک کے دوران دو برسوں میں اسی کام نے زمینداروں کی مار کھاتے بیگار بھرتے،ان کے اور پولیس کے ہاتھوں آئے دن قتل ہوتے آری واسی ورلی کسانوں کو ایک حیرت انگریز تحریک کی صورت میں منظم کر دیا۔“۹؎
ہندوستان میں جب سیاسی پارہ عروج پر تھا تو عین اسی دورانیے میں دو طرح کی آزادی کے نظریات سامنے آئے جن میں ایک پر امن احتجاج او رقانونی طریقہ اپنانے والا گروہ تھا تو دوسری طرف دہشت گرد اور انتہا پسندی کا قائل طبقہ منظر عام پر آیا۔ ان نا گفتہ بہ حالات میں جوتنظیمیں جڑ پکڑ رہی تھیں ان میں سر فہرست کیمونسٹ پارٹی اور شیو سینا بال ٹھاکرے کی تنظیم تھی۔ شیو سنانے تحریک کے آغاز میں مراٹھا لڑکوں کے ساتھ لے کر وہ صفائی کی مہم اپنی سیاسات میں قدم اکھاڑنے میں مضبوط ہوئے تو آرمی والیوں اور سراٹھوں کو ان کے زمین چھینے جانے کا خطرہ لاحق کروانے میں کامیاب ہوئی اور جا بجا مسلم ہندو فسادات مذہب اور سیاست کی بنا پر برپا کرواتے ہیں تو دوسری طرف کیمونسٹ پارٹی فرقہ وارانہ فسادات کی مذمت کرتی ہے اور مسجود داری سے کام لینے کا مشورہ دیتی ہے۔
"اب بچار راج تو ہے نہیں ہمارا راج ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔ جہاں کیمونسٹ حکومتیں ہی وہاں کبھی منابلوا فساد ہوتا کرالہ ہے بنگال ہے وہاں کبھی سنا۔”
مصنفہ پاکستانی سیاست کی جھلک بھی ناول میں دکھاتی ہیں کس طرح طویل عرصے تک جمہوریہ پاکستان کی باگ دوڑ آمریت کے ہاتھ رہی۔ جذباتی مہاجرین کی زبانی سب کی منظر یوں پیش کرتی ہے۔
"اگر میں ہوتا بت دیکھتے سندھی ہدایت کار نے جوش میں آکر کہا یا سننے لگا۔ کیا دیکھتے یا کچھ بھی نہ ہوتا بھئی وہاں مارشل لاء لگا رہتا۔ زیادہ تر،اور پھر تم ہندو ہو یا ر”۱۱؎
آزادی کے بعد اور چند سال پاکستان میں جمہوریت کا راج رہاادھر لیاقت علی خان کا قتل ہوا تو ادھر جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ پھر تو مادرَِ وطن کو سیاسی بساط میں لہرایا گیا۔ اور یوں پاکستان میں کبھی پانچ سال کے لیے تو کبھی مسلسل دو جمہوری ادوار پر مشتمل آمریت کا راج رہا۔ آمریت کے خلاف بولنے کے سبب مضفر کو باغی بھی کہا اور اس پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں – پاکستان کے سیاسی حالات کی عکس بندی تم لوگ ضرور کامیاب ہو گئے کوئی کچھ بھی کہے ہندوستان میں کچھ لوگ ان سے کہتے جمہوریت پاکستان میں کسی دوسرے مسلم ملک میں بھی آئی ہے جمہوریت یہاں ہندوستان میں آئے نہ آئے لیکن وہاں پاکستان میں انقلاب ضرور آئے گا وہ لوگ دوسری طرح کے ہیں وہ لو گ مجھے ان سے پوری امید ہے۔۲۱؎
میں اسی عہد میں ایک انقلاب ہوا اور پاکستان کو ۳۷۹۱ء کا آئین سیر ہوا۔ اور آئن پر حکومتیں استحکام اور بقا رکھتی ہیں ایک جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا اور کسانوں،ہاریوں،مزدوروں اور بسے ہوئے طبقے کی خدائے بزرگ و برتر نے سن لی اور نجات دہندہ کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو سامنے آئے اور جمہوریت آئی لیکن کچھ غیر سنجیدہ فیصلوں کے سبب ایک آمر نے جمہوری وزیر اعظم کو پھانسی کے گھاٹ اتار دیا اور خود اقتدار میں آکر سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ فہمیدہ ریاض نے اس ڈکیٹر کے خلاف مسلم بغاوت بلند کیا اور کئی مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے ملک بد ر ہو گئیں۔ فہمیدہ ریاض کے جمہوری رویے کے بارے میں خالدہ حسین لکھتی ہیں کہ:
”اوراس کے برعکس دور حاضر کی یہ انتہائی دماغی غیر معمولی مشاعرہ مارکنزم کو انسانیت کا نجات دہندی بھی مانتی چلی آئی ہے۔وہ استحصال سے پاک ایک جمہوری،فلاحی،معاشرہ قائم کرنے کے لیے میدان میں اترنے کو بھی قائل ہے۔ وہ تمام اقتضادی اور مالی استحصال شدہ جمہور کے علمبردار ہیں – اس طرح وہ سیاست اور معاشرتی تحریکوں کی زندگی سے انھیں الگ نہیں بلکہ اس کا بنیادی جزو سمجھتی ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک تخلیقی فن میں اس کا اظہار کرپانا ایک فطری عمل بلکہ فن کا فریضہ ہے۔ "
تاریخی جبر کی ایک نئی کڑی اور نیا موضوع فرقہ وارانہ فسادات کے طورپر سامنے آیا۔ اگست ۷۴۹۱ء میں ہنوستان دو حصوں میں تقسیم ہوا تقسیم کے فوراً بعد فسادات شروع ہوئے اور فسادات کی وجہ سے لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے اور قتل و غارت گری اور لوٹ مار سے لوگ ہراساں تھے۔ ان حالات میں تمام اخلاقی اور انسان دوستی کی قدروں کو فراموش کر دیا گیا تھا لاکھوں لوگ قتل ہوئے عورتوں کی عصمت پائمال ہوئی۔ معصوم بچوں کو بے دردی سے گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ انسان نے درندوں کا روپ دھار لیا۔ انسان انسان کا دشمن بن گیا۔ ۷۴ء کے بعد تمام ادب انھی واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ ناول میں سماج میں آنے والی فکری تبدیلیوں کا بہتر اظہار ملتا ہے۔ اسی لیے اس ناول میں بھی ایسے موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے جن سے معاشرے میں فکری تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ نہ صرف یہ بلکہ مسلمانوں پر ہندوؤں نے ظلم کا بازار گرم رہا تھا۔ باہر سے روزگار کے لیے آنے والے مزدور جب اپنی بولی بولنے والے یا ہم مذہب سرمایہ داروں کے ہاں فیکٹریوں میں کام کرنے لگے تو انتہا پسند ہندو سیاسی تنظیم شیوسناک کے لوگ مسلمان مزدوری کو ڈھونڈے میں لگ گئے۔ اور انھیں کارخانے میں ان کی خبر ملتی ہے۔
"یو پی سی پی اور بہار سے لاکھوں مسلمان بھی یہاں آلیتے ہیں مشتعل ہجوم نے دور دور نظر دوڑائی۔دور دور تک کھیت کی ہریالی تھی۔ تب انھوں نے کھیت کو آگ لگا دی اور ان پر چاقوں اور چھریوں سے حملہ کر دیا۔”
ہندو مسلم فسادات کو ہوا دینے میں کچھ مقامی اخباروں نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور صورت حال کی سنگینی میں مزید اضافہ کیا جیسا کہ ناول میں فہمیدہ ریاض اشارہ کرتی ہے کہ کچھ دبوں میں بمبئی کے ایک اردو اخبار میں یہ خبر چھپی تھی کہ بال ٹھاکرے نے کسی جلسے میں مسلمانوں کی دل آزاری کے کلمات کہے اور اس نے اخبار میں لکھا کہ ایسا کسی مراٹھی اخبار میں چھپا ہے کہ اس کے بعد مراٹھی اخبار میں چھپا تھا کہ کسی اردو اخبار نے ہندوؤں کے دیوتاؤں کو برا بھلا کہا ہے۔۵۱؎
یہ بھی ایک سیاسی ہتھکنڈا ہے جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مزید بد گمانیوں کو جنم دیا۔ اس سیاسی سازش پر کسی نے غور تک نہ کیا او رنہ ہی اصل اخبار کا متن پڑھا کیا۔ ہندو مسلم انتہا پسندی اور فسادات کا واحد سبب نہ تھی بلکہ مسلمان آپس میں گروہوں میں بٹ چکے تھے۔ ایک دوسرے کو کافر کہنے او ر طعنہ تشنج میں کوئی مضاحکہ نہیں رکھتے تھے ناول میں کچھ یوں ہے کہ شیعہ مزدور،شعیہ سرمایہ دار کے خلاف دوسرے مزدوروں کے ساتھ اتحاد کر لیا یعنی اگر کہیں فرض کیجیے کہ بس سہی دو فرقے رہنے ہیں تو…………
مہاراشٹر میں مذہبی انتہا پسندی عروج پر تھیں اس تفریح مقام پر انتہانے ۰۸ کی دہائی میں فسادی حرکتیں برپا کیں او رتاریخ میں انھیں بھیونڈی کے فسادات سے موسوم کیا گیا۔مصنف ناول میں فسادات کے در پردہ کار فرما عوامل کی یوں نشاندہی کرتی ہیں۔ وجہ کیا تھی:
"وجہ تو شاید کچھ بھی نہ ہو۔ بال ٹھاکرے کی تحریک کے شاخسانے،نینو بینا،خود پچھلے ایک دو برس سے بمبئی کی مہارشٹری کی طرح پھیل گئی تھی یہ ہندو تحریک تھی مگر بال گنگا اور ودھر تک کی کل ہند تحریک نہیں ایک بار پھر مراٹھا ہندو تحریک”
فہمیدہ ریاض سرمایہ دار انہ سوچ اور نظام کے انتہائی خلاف تھیں انسانی حقوق کی پاسداراور انسانیت کے لیے لڑنے والی مذہبی دھڑوں اور سیاسی جماعتوں کی کارستانیوں کے بالکل خلاف تھیں – ناول میں ان کی کیمونسٹ سیاسی سوچ اور آئیڈلزم میں سامنے آتی ہے۔
"دیکھو شامل جی نے کہا ب مہاراج تو ہے نہیں مہاراج ہوتا تو ایسا نہ ہوتا جہاں کیمونسٹ حکومتیں ہیں وہاں کبھی سنا بلوا فساد ہوتا کرالا ہے بنگال ہے میاں کبھی سنا؟”
She escaped to India whrist on bail, with has husband and two children where she lived for seven years, She worsted as poet in residance at Jamid mida an India unwiersity during this period.
جلا وطنی،مہاجرت کرب فہمیدہ ریاض نے نہایت قریب سے محسوس کیا تھا ناول بھی اس عہد کی پیداوار ہے فہمیدہ ریا ض نے جب ۸۸۹۱ء میں بھارت جلا وطنی کا ٹی تو وہاں مہاجرین اور بالخصوص مسلمانوں کی پستی اور استحصال کو دیکھ کر گودواری ناول کو سفر نامے کی تکنیک میں لکھا اور مختصر سے ناول میں جس ایک طرف مہاراشٹر کی انسانیت سوز فضا اور مہاجرین پر ظلم وت شدد کا سلوک دکھاتی ہے۔ وہیں دوسری جانب کراچی میں مہاجرین کے کرب کا بھی عمدہ نقشہ کھینچتی ہیں۔ مقامی اور مہاجرین کی باہمی چپقلش مقتدر حلقہ کی چالاکیاں حقوق کی پائمالی کا رونا اور کبھی لسانی تعصب کا نعرہ لے کر ایک دوسرے میں مقامی مہاجر دونوں کو گتھم گتھا کر دینا۔ فہمیدہ ریاض کے نزدیک مہاجرین کی زندگی کا المیہ ان کی ذات سے پرے کہیں اور تھا۔ ان کو نہ چاہتے ہوئے اکثریتی،اقلیتی، علاقوں کی بلانٹ میں مال مویشی سمجھ کر بانٹ دیا گیا تھا وہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ اپنے آبائی شہروں اور گھروں سے ہجرت کرکے ایک اجنبی دیش میں جا کر آباد ہوں۔
"صوبے کی اکثریت مسلمان تھی جس کی وجہ سے وہ پاکستان میں شامل ہو گیا۔ بعد تقسیم اسے اپنے طعنے سمیت ہندوستان آنا پڑا اور جانے کتنی نسلوں تک ایک کبھی نہ تذکرہ کی جانے والی گھر پتھر کی طرح سخت بے وطنی کو اپنے پیٹ میں جھیلنا پڑا۔”۹۱؎
آج یہی حال مہاجر کا ہے کہیں اور پیکنگ کے نام سے موسوم ہیں تو کہیں مہاجر بھائی اسی اثنا میں انسان کی کوئی وقعت نہ تھی صرف شناخت،ہندو، سکھ،پارسی، اور مسلمان رہ چکی تھی۔
"کیسا انسان ونسان یہ ہندو مسلم فسادات تھے اس میں انسان نہیں تھے ہندو تھے اور مسلمان تھے اور انسان کی انسانیت کو پکارنے کی کوشش بے سودتھی۔”
فہمیدہ ریاض انسان کی تاریخ پر غائر نظر رکھتی تھیں ہندو ستان کے قدیم انسان کی تاریخ میں ہو سکتا ہے کہ وہ تاریخ سے گہرا شغف بھی رکھتی تھیں۔ ان کا تاریخی شعور ان کے وسیع المطالعہ ہونے کی دلالت ہے ایک ادیب یا مصنف اپنے قلم سے افسانویت کی بلندیوں کو تو چھو سکتا ہے۔ لیکن یہ وصف فہمیدہ کو حاصل ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری اور نثر دونوں صنفوں میں تاریخی اثر چھوڑا ہے۔ آری واسیوں کی تاریخ ہندوستان میں مغلیہ دور حکومت اور مغلیہ عہد کی تاراجی کے اسباب و علل تاریخی جھروکوں میں ناول میں کھلھلاتی ہے۔
"جب تاریخ کے پنج پر اورنگ زیب کی افواج اور مراٹھوں کی جھڑیوں کا خونیں مگر پر شکوہ ڈراما کھلا جایا رہا تھا تو اس وقت آدمی وا سی کہا ں تھے۔ جنگلوں میں چھپے تھے۔”۱۲؎
اسی پچاس برس بعد اگر وردی والے مراٹھا سے ملیں تو جیسے آج رانگا بن کر مراٹھا ہیں ویسے ہی انھیں پائیں گے۔ ہندوستان میں آنے والے عرب سے مہاجرین کے بارے میں کہتی ہیں تو یہ ایک چھو ڑی پئی میں پورے ہندوستان کو کھنڈ پیش میل گھات، چنڈا،بستر، سیریکا کلم،کوریت، چھوٹا ناکپور، شمالی پرگند سے کر ہمالیہ کی تراہٹوں و تاکل تک پھیلے ہوئے ہیں۔ فہمیدہ نے اس مختصر ناول میں ۰۸ کی دہائی کی تاریخی منظر کشی یوں کی ہے کہ کوئی مورخ باآسانی اس ناول کو سامنے رکھ کر ۰۸ء کی تاریخ قلم بند کر سکتاہے۔
فہمیدہ ریاض کے ہاں جہاں سیاسیات، تاریخی جبر، فرقہ وارانہ فسادات اور دوسرے موضوعات کثرت سے ملتے ہیں تو ادھر تحقیقی لحاظ سے ان کے ہاں یا تانیثی رویہ ایک بھرپور شدت سے ابھرا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔ وہ تانیثیت کو زندگی کے ہر شعبے میں طریق حیات کی طورپر لیتی ہے۔ او راس رویے پر مصالحت کی صورت میں نظر آتی ہے۔
ہمارے دنیائے ادب میں فکری تعصب کی جو دیو آسا مثالیں قائم کی گئی ہیں – ان میں سے ایک فہمیدہ ریاض کی فنکاری محاکمہ ہے فہمیدہ کی شاعری کی حیثیت تک محدود کر کے ہمارے نقادوں نے اپنی نفسایات کو مشکوک کرنے کا فریضہ خود سر انجام دیا ہے جس طرح گئے وقعتوں میں عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو،محفلیں،لحاف اور کھول دو سے ادب سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح فہمیدہ ریاض کو بھی لا علم الا بدان کی منظوم اور ادیبہ ہیں جو نظریاتی ہیں جن کی انقلابی روح نے خلوصل دل سے کاری مارکس اور اس کے نظریات کو انسانیت کا نجات دہندہ تسلیم کروایا اور اپنے معاشرے میں اسے انقلابی کی خواہاں ہیں جو انسان کو انسان کے جرا اور تسلط سے رہائی دلوائے۔ جرخواہ کسی صورت میں ہو ا قتصادی،ذہنی،اخلاقی، مذہبی یا سیاسی ہی کیو ں نہ ہو۔
"فہمیدہ ریاض نے عورت کا آرکی ٹائیٹل تشخیص اجاگر کیا اور وہ عورت کے منصب او ر مسائل کو جسمانی اور روحانی سرشاری کے ساتھ منسلک دیکھتی ہیں فہمیدہ ریاض عورت کو مرد کی آنکھ سے دیکھتی ہیں ایسی عورت جو روایت کے مطابق نہ ہو اسے جسم پر شرمندہ یہ۔ اور نہ ہی اسے گناہ کا مسکن بھی سمجھتی ہیں بلکہ فہمیدہ کے نزدیک عورت ذہن باشعور رہتی ہے۔ ناول گوداروی میں فہمیدہ ریاض گوداروی اشا اور ماکوہی مرکزی کردار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ۸۴۹۱ء سے ۷۴۹۱ء تک کے دوران دو برسوں میں اس کے کام نے زمینداروں کے ماکھاتے، بیکار تھیڑے ان کی امداد پولیس کے بالخصوص آتے دن قتل ہوتے آدمی وادی وری کستانوں کو ایک حیرت انگیز تحریک کی صورت میں منظم کر دیا تھا۔”۲۲؎
پھر مصفنہ ۲۶۹۱ء میں گود اروی کو کھلے کو اپنے مثبت اور انسانیت کے فلا ح کے کام کرنے کی وجہ سے مصبیتیں اور تکالیف برداشت کرنا پڑتی۔کہ کیس مہاراشٹر کے کسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنے کی پاداش میں گوداروی کو جیل میں رکھا اور استاد بھی ا یک بوڑھے باپ کی بیٹی سے اس کا شوہر اسے محصور عرصہ دراز سے کئی فلم میں کام کرنے میں بمبئی چلا گیا تھا لیکن یہاں مصنفہ دکھائی دیتی ہے کہ اشار کے جسمانی سمبند سواجی ٹنکی والا سے بھی ہے۔ مصنفہ کا اصلی روپ سب کے سمنے آتا ہے۔ان دونوں کے علاوہ ناول میں نسوانی کردار ما کا ہے ما کے منہ سے مصنفہ ایسے جملے بلواتی ہیں جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی قومی درد رکھنے والا ہے تو وہ صرف ۰۸۹۱ء کی دہائی میں ما،”ما“ شامل جی سے گفتگو کرتے ہوئے کئی پہلوؤں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ دیکھا جائے تو شامل جی ایک برا اورا نسانیت کی فلاح وبہبود کا کام کرنے والاہے۔ لیکن جب ما ان سے گفتگو کرتی ہے تو مصنفہ کا عورت کا مردانہ نقطہ نظر سامنے آتا ہے۔
"دیکھے کیا ہو رہا ما نے شامل جی کے جھریوں بھرے ہاتھ تھام کر کیا پھر وہ غزائی اور آپ لوگ آپ لوگ کچھ نہیں کرتے۔”۳۲؎
بوڑھے شامل جی نے حیرت بھری مسکراہٹ سے منہ پھاڑ دیا تو کیا کریں ہم ارے بھئی ہم کیا کریں۔
اور اسی مکالمے میں ہی ما شامل جی سے کہتی ہے کہ مسلمان مارے جاتے ہیں قتل ہونے والوں سے آپ توقع کرتے ہیں کہ سمجھ درانی سے صورت حال پر غور فرمائیں گے فہمیدہ ریاض عورت کو مرد کے روپ میں دیکھتی ہیں آپ نے لسانئی بناد ے کو ایکلن برس کی عمر میں ترک کرکے تانیتی رویے کو ان کے اس رویے کے متعلق روبینہ شاہیں اپنے مقالے میں لکھتی ہیں کہ وہ:
"جنس کے حوالے سے فہمیدہ ریاض نے بہت احتجاج کیا ان کی نظموں پر فحاشی کا الزام بھی لگایا۔فہمیدہ ریاض کی ذات اور فن پاروں پر براہ راست تنقید کی گئی اس کے باوجود ہمت نہ ہاریں او ر بغاوت کو بلند رکھا۔”۴۲؎
اس امید پر کہ ایک نہ ایک دن معاشرہ عورت کی ذات کو تسلیم کر لے گا فہمیدہ ریاض کی تمام تر نثری تحریوں سے بھی رویہ جھلکتا ہے انھوں نے مذاہب پر اور رسوم و رواج پر حکومتی رویوں پر جہاں جہاں انسانیت کی تذلیل ہوتے ہوئے دیکھی وہیں صدائے احتجاج بلند کیا ور یہ فقط احتجاج کی آواز نہیں تھی بغاوت کا اعلانیہ بھی تھا اور سب کچھ ان کی زندگی میں مروجہ رویوں کے مقابل ڈٹ کر کھڑے ہونے کی وہ جبلت ہے جو ان کی شخصیت کا خاصا ہے وہ فہمیدہ ریاض کا مارکسٹ ہوتا باتیں بازو سے متعلق ہوتا اور فیمنسٹ ہونا ایک اعزاز کی بات ہے۔
حوالہ جات
۱۔ فہمیدہ ریاض،گوداروی ناول اسلام آباد:دوست پبلی کیشنز ۵۹۹۱ء،ص ۴
۲۔ رضا روحی،جہان رومیRazarumi com/morean fahmida riaz
۳۔ فہمیدہ ریاض گوداروی ناول،ص ۱۳۱
۴۔ ایضاً،ص
۵۔ فہمیدہ ریاض گوداروی ناول،ص ۵۳۱
۶۔ ایضاً،ص
۷۔ ایضاًص ۵۴۱
۸۔ ایضاً،ص ۴۱
۹۔ ایضاً،ص ۱۱۱
۰۱۔ ایضاً،ص ۱۲۱
۱۱۔ ایضاً،ص ۴۱۱
۲۱۔ ایضاً،ص ۶۳۱
۳۱۔ خالد ہ حسین، نسائی خود شناسی اور فہمیدہ ریاض (دہلی:ادب ساز ج لد،۲۰۰۲ء)،ص ۹۸۱
۴۱۔ فہمیدہ ریاض،گوداروی ناول،ص ۱۰۱
۵۱۔ ایضاً،ص ۰۰۱
۶۱۔ ایضاً،ص ۷۰۱
۷۱۔ ایضاً،ص ۱۲۱
۸۱۔ سید قاسم محمود، انسائیکلو پیڈیا پاکستان،چھٹا ایڈیشن لاہور الفصیل ناشران، اردو بازار،نومبر ۰۰۰۲ء،ص ۹۱
۹۱۔ فہمیدہ ریاض، گوداروی ناول،ص ۵۱۱
۰۲۔ ایضاً،ص ۶۰۱
۱۲۔ ایضاً،ص ۴۳
۲۲۔ ایضاً،ص ۰۴۱
۳۲۔ روبینہ شاہین اردو نظم میں تانیثی رویے، لاہور اورینٹل کالج ۵۰۰۲ء
۴۲۔ فہمیدہ ریاض گوداروی ناول،ص ۲۱۱
آپ کی راۓ