وفيات علمائے دين : دروس وپیغام
پرویز یعقوب مدنی / جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
اس دنیائے رنگ وبو میں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن رخت سفر باندھنا ہوگا اللہ رب العالمین کی جانب سے یہ مقررہ اور مسلمہ اصول ہے کہ کائنات کے تمام متنفس کو موت کا تلخ جام پینا ہوگا كل نفس ذائقة الموت دنیا کے تمام مسائل و احکام میں مذاہب و ادیان کا اختلاف ہے لیکن موت ایسا مسئلہ ہے کہ ہر چھوٹا بڑا، امیر وغریب انسان، صحیح اور غلط افراد متفق اور ایک ہیں آئے دن دنیا کے انسان رحلت فرماتے ہیں اور باری تعالٰی کے حکم سے حیات وموت کا نظام رواں دواں ہے.
اموات سے انسان پریشان ہوتا ہے تکلیف محسوس کرتا ہے مصائب وآلام کے اثرات اس پر مرتب ہوتے ہیں اور کچھہ اموات کا معاملہ بڑا ہی زیادہ حیران کن اور تکلیف دہ ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کی وفات سے ملک وملت، جمعیت وجماعت، ادارے اور مؤسسات، تعلیم وتعلم، اور تدریس و تبلیغ کے میدان میں بڑا خلا پیدا ہوتا ہے اور ان کے ذریعہ اللہ تعالی اپنے علم کو اس دنیا سے اٹھاتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا» (بخاري:100)
صحابی رسول جناب عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
ذیل میں چند عظیم المرتبت اور مستند علماء کرام رحمہم اللہ کی وفیات کا تذکرہ ہے جنہون نے ملک وملت، جمعیت وجماعت، درس وتدریس، تعلیم وتحقیق ، تصنیف و تالیف، میدان دعوت وتبلیغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اللہ شرف قبولیت بخشے۔ آمین
*استاذ الاساتذہ مولانا نیاز احمد مدنی طیب پوری:*
3/اکتوبر کی رات جامعہ سلفیہ بنارس کے فاضل جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فارغ التحصیل جامعة الملك سعود سے ڈپلومہ کی اعلی ڈگری کے حامل جامعہ خیرالعلوم وکلیة الطيبات ڈومریاگنج کے سابق استاذ اور جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں نیز کلیہ عائشہ صدیقہ مالیگاؤں کے استاذ باکمال درجنوں کتابوں کے مؤلف اور شارح بخاری بزبان ہندی مخلتف عوارض میں مبتلا ہوکر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
مولانا میدان تدریس و تالیف کے شہسوار تھے ملک کی کانفرنسوں و سیمیناروں میں آپ کو مدعو کیا جاتا تھا اور آپ اپنے وقیع مقالات اور جامع ومانع شیریں بیانات سے سامعین کو محظوظ کرتے تھے۔
لکھنے پڑھنے میں آپ کو کافی شغف تھا موصوف طلبہ کی ذہن سازی بالکل اسلامی طرز پر کرتے تھے۔ میدان صحافت میں بھی آپ کو غیر معمولی دلچسپی تھی یہی وجہ ہے کہ آپ کو مجلہ الفرقان ڈومریاگنج یوپی اور مجلہ صوت الحق مالیگاؤں کی ادارت کی ذمہ داری دی گئی جسے آپ نے بصد شوق قبول کیا اور مکمل امانت داری سے دونوں مجلات میں شامل مضامین کے کاکل اور گیسو سنوار کرکے آپ نذر قارئین کیا جس کی علماء و دانشوران کی جانب سے کافی پذیرائی ہوئی۔ اللہ قبول فرمائے اور آپ کے فرزند ارجمند برادر فاضل مولانا خورشید احمد محمدی مدنی اور آپ کے دیگر عزیز و اقارب اور آپ کے شاگردوں کو آپ کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے اور سبھوں کو صبر و شیکبائی عطاء کرے۔ آمین
*محقق باكمال محمد عزير شمس*
جماعت اہل حدیث ہند کے مایہ ناز سپوت، محقق عظيم شيخ الإسلام ابن تيمية اور ان کے شاگرد رشید علامہ ابن القیم رحمهما اللہ کے علمی میراث کے سچے امین و پاسدار اور نگہبان مولانا محمد عزیز شمس ہندی مدنی رحمہ اللہ رحمة واسعة (آپ کی صحیح تاریخ ولادت ١١ جمادی الاولیٰ ١٣٧٦ھ / ١٥ دسمبر ١٩٥٦ء ہے، لیکن سرکاری کاغذات میں یکم اپریل ١٩٥٩ء مندرج ہے۔) کی وفات 15/ اکتوبر بروز ہفتہ 2022ء بعد نماز عشاء مکہ مکرمہ میں اچانک حرکت قلب بند ہونے کے سبب ہوئی۔ میدان تحقیق و تالیف میں آپ نے کارہائے نمایاں انجام دیا آپ دنیائے تحقیق کی چیدہ وچنیدہ شخصیات میں سے ایک تھے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کے معزز ارکان نے آپ کی وفات کے بعد ایک تعزیتی نشست میں آپ کی خدمات کو خوب اجاگر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ماہنامہ ترجمان سلف اردو اور ماہنامہ السنة عربي میں خصوصی شمارہ نکالنے کا فیصلہ لیا ہے۔ جلد ہی اگلے شمارہ میں فاضل محقق کی حیات و خدمات پر مفصل معلوماتی دستاویز نذر قارئین ہوگی۔ اللہ تکمیل کی توفیق دے۔ آمین
*بزرگ عالم دین مولانا عبد الرشید شائقی سلفی جھارکھنڈ*
دینی حلقے میں یہ خبر باعث رنج و غم رہی کہ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے فاضل، جامعہ محمدیہ ڈابھا کینڈ کے بانی ومبانی،صوبائی جمعیت اہلحدیث حدیث جھارکھنڈ کے سابق امیر، میدان دعوت و تدریس کے جانباز سپاہی، حضرت مولانا عبدالرشید شائقی سلفی 16نومبر بروز بدھ ایک عرصہ بستر علالت پر گزار کر اس دارفانی سے دار بقا کو کوچ کرگئے۔ انا للہ وإنا اليه راجعون. غفر الله له وأسكنه الفردوس الأعلى .آمين
حضرت مولانا شائقي رحمه اللہ نے بساط بھر دعوتی و تدریسی کام انجام دیا۔ آپ ایک تجربہ کارمناظر، کامیاب مدرس، مربی اور منتظم تھے، معاشرہ میں پھیلی غلط رسوم و بدعات کا قلمع قمع کرنے اور دیوبندیت و بریلویت کے دلدل میں پھنسی سسکتی بلکتی اور کراہتی اور ظلمت و تاریکی کے بحر تلاطم میں غوطہ زن انسانیت کو نکالنے نیز دم توڑتی سلفیت کو فروغ دینے کے لئے مولانا نے جامعہ احمدیہ نامی ایک منفرد ادارہ سن 1977ء میں قائم کیا جس کے آپ اولین ناظم و شیخ الجامعہ مقرر ہوئے۔ علاقہ سمیت قرب و جوار کے طلبہ مستفید ہوئے آپ نے انکی اسلامی ماحول میں بہترین تربیت فرمائی۔ ادارہ کا فیض عام ہوا یہی وجہ ہے کہ آپ کے شاگردان اورمعتقدین کی فہرست کافی طویل ہے جو دنیا کے مختلف اطراف میں پھیلے دینی و دعوتی و تجارتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اللہ آپ کے دینی دعوتی کاز کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین
*فاضل جامعہ سلفیہ بنارس نوجوان عالم دین حافظ مولانا عبدالرحمن ساجدی سلفی یوپی ہند.*
17نومبر 2022ء بروز جمعرات عروس البلاد کے معروف علاقہ پونہ کی ایک عالیشان مسجد "المنار” میں ایک دینی و دعوتی اجلاس میں شرکت کرکے گھر واپس ہورہے تھے کہ اچانک تیز رفتار گاڑی روڑ سے نیچے چلی گئی جس سے تمام سواروں کو کافی چوٹیں لگیں اور اس بھیانک ایکسیڈینٹ کی تاب نہ لا کر آپ نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبدالرحمن ساجدی ایک متشرع عالم دین حافظ قرآن اور تقوی و طہارت میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ ایک ابھرتے ہوئے خطیب تھے دینی جلسوں میں آپ کو مدعو کیا جاتا اور آپ اپنے دلنشیں و دل پذیر بیانات سے سامعین کے دلوں کو موہ لیتے، امامت و خطابت اور وعظ و تبلیغ آپ کا محبوب پیشہ تھا اور اس میدان میں آپ کو کافی مہارت تھی۔ دعوتی تڑپ کا یہ عالم تھا کہ ایک نیوز چینل پر اسلام کی حقانیت و صداقت اور اس کے محاسن و فضائل واحکام و مسائل کو بزبان ہندی بیان فرماتے تھے پروگرام کا کل دورانیہ 7سے 8منٹ پر مشتمل ہوتا لیکن اس معمولی وقت میں آپ انتہائی مدلل اور مختصر انداز میں اپنی باتیں نذر سامعین کردیتے تھے۔ آپ نہایت سنجیدہ اور متواضع اور خوش اخلاق و خوش پوشاک انسان تھے تنظیمی صلاحیت بھی اللہ رب العالمین نے عطاء کیا تھا جس کا اظہار سوشل سائٹس پر احباب نے انتہائی درد مندانہ انداز میں کیا ۔ عریانیت اور اسلام نامی ایک رسالہ بھی ترتیب دیا۔
اچانک عین شباب میں مولانا کی وفات نے لوگوں کو کافی متاثر کیا 20/ نومبر کو آپ کی نعش آپ کے آبائی وطن جمنہوا سدھارتھ نگر لائی گئی جہاں ہزاروں سوگواروں نے بقیة السلف عالم نبیل جامعہ دارالہدی یوسف پور کے شیخ الحدیث مولانا محمد ابراہیم رحمانی حفظہ اللہ ورعاہ کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی اور نمناک آنکھوں سے سپرد خاک کیا۔ اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
*شیخ العرب والعجم مولانا فضل الرحمن سلفی بہار*
ہندوستان کے صوبہ بہار کے ضلع سیتا مڑھی سے تعلق رکھنے والے محدث و مسند وقت شخصیت، سابق استاذ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ، سابق صدر مدرس مدرسہ دارالتکمیل چندوارہ مظفر پور کے شیخ العرب والعجم بزرگ ومعمرترین عالم دین بقیۃ السلف مولانا فضل الرحمن سلفی صاحب کا مختصر علالت کے بعد بتاریخ 19/نومبر 2022 بروز سنیچر تقریبا ساڑھے سات بجے شام انتقال ہوگیا- إنا لله وإنا إلیہ راجعون.
حضرت مولانا نے الامام میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے بیک واسطہ شرف تلمذ حاصل كيا تھا اور آپ نے حضرت میاں صاحب کے دو شاگردوں مولانا عبد الغفور جیراجپوری رحمہ اللہ اور مولانا اسحاق آروی رحمہ اللہ سے استفادہ کیا تھا۔ فی زمانہ حدیث میں سند عالی کی وجہ سے مرجع علماء بنے ہوئے تھے اور برصغیر سمیت سعودی عرب ،کویت متحدہ عرب امارات، انگلستان وغیرہ کے معزز علماء، باوقار فضلاء حسب سہولت آپ کی جناب میں حاضر ہوکر یا آن لائن آپ سے کتب احادیث پڑھہ کر سند اجازہ لیتے تھے۔ محدث فاضل عمر کی سو سے زائد بہاریں دیکھے تھے اپنی پوری زندگی دعوت وتبلیغ، درس وتدریس، وعظ و تذکیر تالیف وتصنیف میں گزاری۔
آپ بڑے خلیق وملنسار ،علماء وطلبہ نواز، دینی وجماعتی غیرت سے سرشار، متقی و پرہیزگار اور وارث علوم نبوت تھے ۔آپ کا تعلق ایک علمی ودینی خانوادہ سے تھا ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سند العلماء حافظ عبدالستار سے حاصل کی تھی۔ آپ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے اولین فضلاء میں سے تھے۔ درس و تدریس آپ کا پیشہ تھا، تالیف سے بھی آپ کو دلچسپی تھی آپ کی ایک اہم تالیف جو کافی مشہور ہوئی اور علماء نے کافی سراہا وہ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی حیات وخدمات ہے باذوق قارئین کے لئے یہ کتاب نہایت اہم اور مفید ہے۔
آپ رحمہ اللہ تدریسی میدان میں بھی کافی مہارت رکھتے تھے، طلبہ کی بہترین تربیت کرتے تھے۔ اللہ نے آپ کو انتظامی صلاحیت بھی عطاء کر رکھا تھا یہی وجہ ہیکہ مظفر پور کے مدرسہ دارالتکمیل میں تقریبا ۲۳ سال تک بہ حیثیت صدر مدرس کام کیا۔ خلق کثیر نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا جو دنیا کے اطراف واکناف میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ وقت کے سب سے معمر عالم دین تھے۔ اللہ آپ کی بشری لغزشوں کو معاف کرکے جنت الفردوس میں جگہ دے اور آپ کے شاگردوں کو آپ کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین
*معروف عالم دین مولانا انعام اللہ قاسمی یوپی ہند*
20 / نومبر 2022 بروز اتوار رات میں ایک بزرگ اور عبقری شخصیت جید اور باوقار و مستند عالم دین عالی جناب مولانا انعام اللہ قاسمی صاحب مختلف امراض کےشکار ہوکر اس دار فانی سے رحلت فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جناب مولانا انعام اللہ قاسمی رحمہ اللہ کا شمار وقت کے فحول علماء میں ہوتا تھا آپ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے لیکن تقلید شخصی کے بالکل قائل نہیں تھے مسلکا اہل حدیث تھے جماعت کے قدیم اداروں جامعہ دار التوحيد مینا عیدگاہ، مدرسہ انوار العلوم پرساد عماد مرکز ابوالکلام آزاد اسلامک اویکنگ سنٹر دلہی کے تحت چلنے والے ادارہ معہد التعلیم الاسلامی جوگابائی میں تدریسی و تربیتی خدمات انجام دیا معہد کے پرنسپل بھی رہے انتظامی امور کا ملکہ بھی آپ کے اندر موجزن تھا جس کی وجہ سے آپ کو ادارتی امور پر مقرر کیا گیا اسے بھی آپ نے بسرو چشم قبول کیا اور اپنی انتظامی صلاحیت سے ادارہ کی تعمیر و ترقی میں ادارہ کے بانیان بالخصوص علامہ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ کا ساتھہ دیا تدریس میں بھی غایت درجہ مہارت تھی انداز تدریس کافی نرالا و دل پذیر تھا تصنیف و تالیف سے بھی یک گونہ دلچسپی تھی گویا آپ ایک بے باک شخصیت، کامیاب مدرس، ممتاز مربی، باعزم منتظم، اور اچھے مولف و مصنف تھے۔ علاقہ جوار میں آپ کی کافی مقبولیت تھی خورد و کلاں آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آپ نے اپنی اولاد کو اسلامی تعلیم سے آراستہ کیا بہترین تربیت فرمائی۔
1992 میں آپ نے دہلی کو خیر آباد کہہ کر ضلع سنت کبیر نگر میں قائم جماعت اہل حدیث کے منفرد اور عظیم الشان ادارہ جامعہ اسلامیہ دریا باد، دودھارا، سنت کبیر نگر سے جڑ گئے۔ اور مختلف امراض کے شکار ہونے کے باوجود مجلہ احتساب میں وقیع مضامین لکھتے رہے۔ اللہ جزائے خیر دے ادارہ کے بانی عالی وقار ڈاکٹر عبدالباری فتح اللہ مدنی رعاہ اللہ اور وہاں کے منتظمین کو جنہوں نے آپ کی علمی صلاحیت و قابلیت کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ تاحین حیات آپ کی کفالت فرمائی اور آپ سے دریا باد کے علماء و طلباء فیضیاب ہوتے رہے۔ 20 نومبر کو آپ کے آبائی گاؤں کسمہی، ڈومریاگنج کی قبرستان میں آپ کے برادر فاضل جناب مولانا عبدالوہاب حجازی رعاہ اللہ سینئر استاذ جامعہ خیر العلوم ڈومریاگنج کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور وہیں قرب وجوار کے علماء و فضلاء اور طلبہ و عوام کی موجودگی میں نمناک آنکھوں سے سپرد خاک کیا گیا۔ اللہ آپ کی مغفرت فرمائے۔ آمین
*مولانا حافظ احمد شاکر لاهوري*
ماه نومبر بتاریخ 22/ بروز منگل 2022 بوقت صبح طویل علالت کے بعد فالج کے شکار ہوکر شارح سنن نسائی علامہ محمد حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے اکلوتے فرزند ارجمند، ہفت روزہ الاعتصام لاہور کے فاضل مدیر عالی جناب مولانا حافظ احمد شاکر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون
آپ کی دینی خدمات کئی دہائیوں پر مشتمل ہیں ۔ آپ سادہ طبیعت اور سادہ مزاج، یادگار سلف بزرگ تھے۔ دینی مسائل میں اپنے خوردوں سے بھی رائے و مشورہ کرتے تھے فی زماننا یہ بہت بڑی بات ہے کیونکہ اب حسد کی آگ دلوں میں ایسی پیوست ہے کہ اقرباء پروری میں انسان سب کچھہ گنوا بیٹھتا ہے لیکن حافظ صاحب کا معاملہ کافی انوکھا واچھوتا تھا۔ حافظ قرآن تھے فنِ قراءت پر اس درجہ عبور تھا کہ ان کے پیچھے کھڑے نمازی قیام میں ان کی قراءت سنتے ہوئے آب دیدہ ہو جاتے۔ اپنے بچوں کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کی ان کی اولاد واحفاد حافظ قرآن ہے اور پورا خانوادہ علم وعمل کے نور سے منور ومزین ہے۔ صحافت آپ کا خاص میدان تھا آپ نے اپنے قلم کی جولانی سے عظیم علمی، دینی، صحافتی کارنامہ انجام دیا۔ آپ نے ملت وجماعت کا بڑا کام کیا اللہ قبول فرماکر توشہ آخرت بنائے۔ آمین
*فضيلة الشيخ عبيد بن عبدالله الجابري مدينہ منورہ سعودی عرب(ولادت : ١٣٥٧ھ)*
۲۲/ نومبر بروز منگل ۲۰۲۲ء مملکت توحید سعودی عرب کی نامور شخصیت، شہر مدینة الرسول کے لائق سپوت، عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فاضل اور استاذ علامہ عبید بن جابر الجابري کی وفات ہوگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
ڈاکٹر جابری کا شمار بڑے سلفی علماء میں ہوتا ہے۔ آپ فن عقیدہ کے متخصص تھے۔ وقت کے نابغہ روزگار عظیم شخصیات سے آپ نے کسب فیض کیا تھا چند اسماء اساتذہ ذیل میں مذکور ہیں
دار الحديث میں :
1) شيخ سيف الرّحمن بن أحمد.
2) شيخ عمّار بن عبد الله.
المعهد العلمي میں :
1) شيخ عبد الله بن عبد العزيز الخضيري.
2) شيخ عودة بن طلق الأحمدي.
3) شيخ دخيل الله بن خليفة الخليطي.(التفسیر)
4) الشّيخ عبد الرحمن بن عبد الله العجلان. (التفسير)
5) شيخ محمد بن عبد الله العجلان.
6) شيخ حميد الحازمي ( النحو)
جامعة اسلاميّة مدینہ منورہ میں :
1) علاّمة محدّث حمّاد بن محمّد الأنصاري.
2) شيخ علامة محدّث عبد المحسن العبّاد البدر۔
آپ نے عقیدہ اور دیگر فنون میں کتابیں بھی لکھیں چند یہ ہیں:
۱_البیان المفید فی شرح کتاب التوحید
۲-فتح القدوس السلام بشرح نواقض الإسلام
۳- البیان المربع شرح القواعد الاربع
٤- إتحاف العقول بشرح الثلاثة الأصول
٥- تيسير الإله بشرح أدلة شروط لا إله إلاّ الله
٦-إمداد القاري بشرح كتاب التفسير من صحيح البخاري
رب ذوالمنن آپ کے دینی دعوتی اور تبلیغی جہود کو قبول فرمائے۔ آمین
*مشہور مصنف ڈاکٹر محمود الطحان، حلب، شام*
دائم وآباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
داعین کتاب وسنت کے لئے یہ خبر دل فگار ثابت ہو گی کہ ممتاز مصنف وقمکار فن مصطلح کی مشہور زمانہ کتاب تیسیر مصطلح کے مؤلف باکمال عالی جناب ڈاکٹر محمود الطحان حلبی شامی جو شام کے علاقے حلب میں 1935 میں پیدا ہوئے، اور علم وفضل سے بھرپور زندگی گزار کر 87 سال کی عمر میں بتاریخ 24 نومبر 2022 کو اس دارفانی سے دار جاودانی کو رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون
علامہ محمود الطحان ایک بڑے عالم دین تھے، جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی میں تشنگان علوم و فنون کو تقریبا دس سال تک سیراب کرتے رہے بعدہ جامعہ الامام محمد بن سعود یونیورسٹی ریاض تشریف لے گئے اور وہیں پر فن مصطلح میں تیسیر مصطلح الحدیث کو ترتیب دیا تھا آپ مصطلح کے اسرار و رموز کو خوب سمجھتے تھے تیسیر مصطلح الحدیث مولف باکمال کی انتہائی اہم، مفید، مبسوط، اور علمی شاہکار اور معلومات کا گنجینہ گراں مایہ ہے۔ علماء اور طلباء دونوں کے لئے یکساں مفید ہے۔اس کے علاوہ اصول التخریج ودراسۃ الاسانید، حجیۃ السنۃ وغیرہ موضوعات پر کتابوں نے بھی بہت شہرت حاصل کی۔ الخطیب البغدادی وأثرہ فی علوم الحدیث کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا رسالہ بھی لکھا، جو اپنی مثال آپ ہے۔
حدیث اور اصول حدیث پر ان کی کتابوں کو بہت قبول عام ملا ہے، اگرچہ اہل علم کے ان پر بعض علمی ملاحظات بھی ہیں۔
اللہ تعالٰی آپ کی تالیفات اور شاگردوں کو ذریعہ نجات بنائے۔ آمین
جو باده کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی
محترم قارئين! مستند اور فحول علماء کی وفیات کا عظیم سلسلہ ہے جہاں ایک طرف ہمارے بزرگ اکابرین ہیں وہیں کچھہ نوجوانان قوم ہیں جو ملت وجماعت کی حتی المقدور خدمت کرکے راہ آخرت سدھار گئے ایسے میں ضرورت ہے کہ ان کی خدمات سے آنیوالی نسلوں کو آگاہ کرنے اور انہیں میدان دعوت میں اسوہ اور آئیڈیل بنانے کی کوشش کی جائے۔
* موجود علمائے کرام اللہ کا خوف اور تقوی اپنے دلوں کے اندر پیدا کریں اور دینی کاز کو مکمل امانت داری سے آگے بڑھانے کی ہرممکن کوشش اور سعی پیہم کریں۔
* مدارس میں موجود افاضل علماء اپنے شاگردوں کو مکلف کرکے متوفیان کی سوانح حیات مرتب کروائیں تاکہ مدارس کے طلبہ کے اندر مطالعہ کا ذوق پیدا ہو اور اسلاف کی خدمات کو بہترین انداز میں سمجھہ سکیں۔
* مدارس و مراکز کے ذمہ داران فحول علماء کرام کی خدمات کو اجاگر کرنے کے لئے سیمیناروں کا انعقاد کروائیں تاکہ وہ خدمات جو ہمارے احباب اور موجودہ دعاة ومبلغين کی نظروں سے اوجھل ہیں واضح طور پر سامنے آسکیں۔
* متوفیان کے ناموں سے مدارس و مکاتب کا قیام ہو یا کم از کم بعض کمروں یا ہاسٹل یا ہال تعمیر کرکے ان کے ناموں سے موسوم کیاجائے۔
* متوفیان علماء کرام کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کو متوفیان کی خدمات پر خصوصی مجلات یا مختصر یا حسب ضرورت مفصل کتابچہ کی اشاعت کریں۔
* متوفیان علماء کے بچوں کی حتی المقدور حسب ضرورت مالی اعانت کی جائے اور ان کی بہترین تربیت کے لئے وسائل فراہم کیے جائیں۔ وغیرہ وغیرہ.
اللہ تعالی تمام وفات پانے علمائے کرام کی سیئات سے درگزر کرےاور حسنات کو قبول فرماکر جنت الفردوس میں جگہ دے نیز ہمیں اپنے بزرگان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین.
آپ کی راۓ