ماہ شعبان کے مسنون اعمال
ابوحماد عطاء الرحمن المدنی المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو
ماہ شعبان ایک مبارک مہینہ ہے، رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین اس ماہ کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کے روزے رکھنے کا طریقہ بیان کرتے ہوۓ فرماتی ہیں: ” رسول اللہ ﷺ روزہ رکھنا شروع کردیتے تو ہم سمجھتےکہ اب آپﷺ افطار نہ کریں گے اور جب افطار کرنا شروع کر دیتے تو ہم سمجھتے کہ اب اس سال آپ ﷺ روزہ ہی نہیں رکھیں گے، نیز ہم نے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ کا مکمل روزہ رکھا ہو اور آپﷺ کو جتنا ہم نے ماہ شعبان میں روزہ رکھتے دیکھا اتنا روزہ رکھتے کسی اور ماہ میں نہیں دیکھا”۔ متفق علیہ۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی اسی عادت مبارکہ کا ذکر ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں: ” ہم نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپﷺ شعبان و رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ کا روزہ لگاتار رکھتے ہوں” ۔ ترمذی، ابوداود۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ” کہ رسول اللہ ﷺ روزہ رکھنا شروع کرتے تو پھر افطار نہ کرتے حتی کہ ہمیں یہ شبہ ہوتاکہ رسول اللہ ﷺ کا اس سال افطار کا ارادہ نہیں ہے، پھر جب آپ ﷺ افطار کردیتے تو افطار ہی کئے رہتے حتی کہ ہم یہ خیال کرتے کہ رسول اللہ ﷺ اب اس سال روزہ ہی نہ رکھیں گے، اور نبی ﷺ کو نفلی روزہ سب سے زیادہ شعبان کے مہینہ میں پسند تھا ” مسند احمد۔
ان حدیثوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کے ماہ میں بکثرت روزہ رکھتے تھے، بلکہ بعض صحیح روایت سے پتہ چلتاہے کہ آپ ﷺ کبھی کبھار پورے شعبان کا روزہ رکھتے تھے، جیساکہ حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں ہے کہ ” رسول اللہﷺ نفلی روزے شعبان سے زیادہ کسی اور مہینہ میں نہیں رکھتے تھے حتی کہ شعبان کے پورے ماہ روزہ رکھتے تھے ” متفق علیہ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ماہ شعبان میں اس کثرت سے نفلی روزے کا اہتمام کیوں کرتے تھے؟ اس سلسلے میں وارد بعض حدیثوں میں اس کی وضاحت ملتی ہے، چنانچہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے جب دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ ماہ شعبان میں ہی کثرت سے روزہ رکھتے ہیں تو میں نے سوال کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ! جس کثرت سے روزہ آپ شعبان میں رکھتے ہیں کسی اور ماہ میں نہیں رکھتے اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ ﷺنے جواب دیتے ہوئے فرمایا: ” یہ وہ ماہ ہے جس میں لوگ رجب و رمضان کے درمیان واقع ہونے کی وجہ عبادت میں غفلت برتتے ہیں، حالانکہ اس ماہ میں اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں تو اس وقت میں روزے سے رہوں ” مسند احمد، سنن نسائی۔
اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس ماہ کے مشروع کام کیا ہیں، تاکہ راہ سنت پر چلنے کا خواہشمند مسلمان انہیں اپنے لئے زاد راہ بنا سکے۔
نبی کریم ﷺ کی حدیثوں اور سلف صالحین کے طرز عمل سے درج ذیل اعمال ثابت ہیں:
1- روزہ : اس ماہ کا سب سے اہم کام نفلی روزے ہیں جیسا کہ اس کی تفصیل گذر چکی ہے، البتہ یہاں یہ بات واضح رہے کہ وہ لوگ جو عام دنوں میں روزہ نہیں رکھتے اور نہ وہ سموار اور جمعرات وغیرہ دنوں میں روزہ رکھنے کے عادی ہیں، نصف شعبان کے بعد ان کے لئے روزہ رکھنا بہتر نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ” جب شعبان نصف کو پہنچ جائے تو روزہ نہ رکھو” ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاً رمضان کے لئے قوت وتوانائی باقی رہے ثانیاً اس شبہے سے بچے رہیں کہ ایسا رمضان کے استقبال میں کیا جارہا ہے۔
2- کبیرہ گناہوں سے پرہیز:
نبیﷺ کا ارشاد ہے:” اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب کو اپنی تمام مخلوق کی طرف نظر فرماتاہے چنانچہ سب کی مغفرت کر دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ پرور کے” ابن ماجہ، ابن حبان۔ مسند احمد کی روایت میں قاتل کا بھی ذکر ہے۔ مسند احمد 976/2
یہ حدیث جہاں اس بارے میں صریح ہے کہ اس مبارک ماہ میں مذکورہ دو یا تین قسم کے لوگوں کی مغفرت نہیں ہوتی وہیں بندوں کو اس طرف توجہ دلانا ہے کہ عموماً ہر وقت اور خصوصاََ فضل والے اوقات میں کبائر اور نہ معاف ہونے والے گناہوں سے پرہیز کریں جیساکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
” ہر پیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کو معاف کر دیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ نہ شرک کرتا ہو، سواۓ اس شخص کے جس کے اور اس کے بھائی کے درمیان دل میں ایک دوسرے کا کینہ ہے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے انہیں چھوڑ دو حتی کہ وہ باہمی صلح کر لیں ” الأدب المفرد، أبو داود، ترمذی۔
3- اس ماہ کے بعض کام جو نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے البتہ سلف صالحین خصوصاََ صحابہ وتابعین سے اس کا ثبوت ملتا، جیسے صدقہ وخیرات اور قرآن پاک کی تلاوت حتی کہ عہد تابعین میں یہ مہینہ قاریوں اور حافظوں کا مہینہ کہلاتا تھا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شعبان کا مہینہ داخل ہوتا تو مسلمان قرآن پر پل پڑتے، اس کی خوب تلاوت کرتے اور اپنے مالوں کی زکاۃ نکالتے تاکہ کمزور حال اور مسکین لوگ رمضان کے روزوں کی تیاری کر لیں۔ لطائف المعارف ص: 258
ایک مشہور تابعی حبیب بن ابی ثابت رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب شعبان کا مہینہ آتا تو وہ فرماتے: ” یہ قاریوں اور حافظوں کا مہینہ آگیا ” ایک اور مشہور تابعی عمرو بن قیس رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب شعبان کا مہینہ داخل ہوتا تو وہ اپنی دکانیں بند کر دیتے اور قرآن پڑھنے کے لئے فارغ ہو جاتے. لطائف المعارف ص: 158-159
شعبان میں کثرت سے رزہ رکھنے کی ایک حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس طرح فرض نمازوں سے قبل و بعد کچھ سنتیں ہیں اسی طرح فرض روزوں کے قبل وبعد شعبان و شوال کے روزے رکھے گئے ہیں۔
اس کی حکمت یہ بھی بیان کی جاتی ہے چونکہ رمضان میں روزے فرض اور تلاوت قرآن و صدقہ اور خیرات مسنون ہیں، اب اگر اچانک یہ کام کرنے پڑیں تو انسان پر بھاری پڑیں گے کیونکہ نفس انسانی جس کام کا عادی نہیں ہوتا وہ کام اگر اچانک آپڑے تو اس پر عمل بھاری ہوتاہے لیکن انسان اگر اسی کام کا عادی ہو تو اس پر عمل بھاری نہیں ہوتا، اسی لئے رمضان سے قبل شعبان کے مہینے میں بکثرت روزہ رکھنے کو مشروع قرار دیا گیا اور سلف صالحین قرآن کی تلاوت کا بکثرت اہتمام کرتے تھے تاکہ جب رمضان کا مہینہ داخل ہو تو اس میں مکمل نشاط اور پوری تیاری سے داخل ہوں۔
ایک تو ہمارے اندر ایمان کی کمزوری اور دوسری وجہ عبادت کے کام پر ہماری تربیت اور مشق و تمرین نہیں ہے اسی لئے ہمارے رمضان اور سلف کے رمضان میں بڑا واضح فرق نظر آتا ہے کہ پہلے اور دوسرے عشرے میں ہماری جو لگن رہتی ہے وہ آخری عشرے میں نہیں رہتی، چونکہ ہم صیام و قیام کے عادی نہیں ہوتے لہذا بہت جلد اکتا جاتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین رمضان کے آخری عشرہ میں زیادہ نشیط نظر آتے تھے۔
ابوحماد عطاء الرحمن المدنی
المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو
آپ کی راۓ