روز اول ہی سے اللہ تعالی نے سال کے بارہ مہینے متعین کئے ہیں، ان مہینوں میں بعض کو بعض پر فوقیت وافضیلت حاصل ہے، ان میں سے چار مہینوں کوحرمت والا مہینہ قراردیا گیاجس کا احترام تمام مسلمانوں پر واجب ہے، اسی طرح رمضان المبارک کا مہینہ جس کو تمام مہینوں میں سب سے افضل وبہتر قرار دیا گیا،یہ ماہ اپنی خیروبرکات کے اعتبار سے سال کے تمام مہینوں میں افضل ہے، اس ماہ مبارک میں اللہ تعالی سرکش شیاطین کو زنجیروں میں جکڑدیا جاتاہے، جنت کے سارے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے سارے دروازے پورے ماہ کے لئے بند کردئیے جاتے ہیں، اللہ تعالی اس مہینے میں روازانہ منادی کرواتا ہے کہ اے بھلائی کے متوالوں آگے بڑھو، اور اے برائی کو انجام دینے والوں اپنے عمل سے باز آجاؤ، اور پھر اللہ تعالی آسمان دنیا پر نازل ہوکر فرماتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کی پکار کا جواب دوں، کون ہے توبہ واستغفار کرنے والا تاکہ میں اس کے توبہ کو قبول کروں۔
جب یہ مہینہ اتنا عظیم ہے تو ایک بندہ مومن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی آمد کی خوب تیارں کرے، اور جب یہ ماہ نصیب ہوجائے تو اللہ رب العالمین کی شکرگزاری عبادات کا اہتمام کرکے ضرور باضرور کرے۔درج ذیل سطور میں اس نعمت کی شکرگزاری کے بعض تقاضے کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا جارہا ہے اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالی ہم سب کواس سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
٭ ماہ رمضان کی شکر گزاری کا تقاضہ یہ ہے کہ جب یہ مبارک مہینہ نصیب ہوجائے تو ہم اللہ پر ایمان اور اس کے اجرو ثواب کی امید رکھتے ہوئے روزوں کا اہتمام کریں تاکہ حقیقی معنوں میں ان روزں کی خیروبرکات سے فائدہ اٹھاسکیں، ارشاد نبوی ہے:((من صام رمضان ایمانا واحتساباغفر لہ ما تقدمن ذنبہ))رواہ مسلم.یعنی: جس شخص نے اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اجروثواب کی امید کرتے ہوئے رمضا ن المبارک روزے رکھے، اللہ تعالی ایسے شخض کے پچھلے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔اور ایک دوسری روایت میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ ورمضان الی رمضان مکفرات ما بینہن اذا اجتنب الکبائر)) رواہ مسلم.یعنی: پنج وقت نمازیں، اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہوا کرتی ہیں جب کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔
٭ ما ہ رمضان میں خاص طور سے پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام کیا جائے، تراویح کی نماز باجماعت اداکی جائے، اسی طرح جتنے بھی سنن ونوافل ہوتے ہیں کوشش کی جائے کہ کم سے کم اس مہینہ میں ان پر ضرور باضرور عمل پیرا ہویاجائے۔رمضان المبارک کے مہینے میں دیکھا جاتاہے کہ بعض لوگ نماز تراویح کا خوب اہتمام کرتے ہیں لیکن پنج وقتہ نمازوں کے تئیں تساہلی وسستی کا مظاہر ہ کرتے ہیں، اور بعض لوگ صرف فرائض کا اہتمام کرتے ہیں نوافل سے کوئی سروکا ر نہیں ہوتا، جب کہ ما ہ رمضان کے شکریہ کا تقاضہ ہے کہ فرائض میں تو قطعا تساہلی نا برتی جائے اور ساتھ ہی ساتھ سنن ونوافل کا خوب اہتمام کیا جائے۔ارشاد نبوی ہے:((ان الرجل اذا صلی مع الامام حتی ینصرف حسب لہ قیام لیلۃ))رواہ ابو داود.یعنی:جس شخص نے امام کے ساتھ نمازتروایح اداکی اور امام کے ساتھ واپس ہوا، تو اس کے لئے پوری رات قیام کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
٭ ماہ رمضان کی شکر گزاری کے تقاضے میں سے ہے کہ اس مہینے میں خاص طور سے قرآن کریم کی تلاوت کااہتمام کیا جائے، اور تلاوت کے وقت یاد رکھا کہ زبان کی حرکت کے ساتھ باآواز تلاوت کا اہتمام کیا جائے، کیونکہ جو شخص بغیر آواز کے قرآن کریم کو پڑھتے ہیں ان کو تدبر قرآن کا ثواب تو ملے گا لیکن تلاوت قرآن کے ثواب سے محروم رہ جائیں گے۔اسی طرح انسان کی کوشش ہونی چاہئے کہ تلاوت قرآن کا اہتمام خاص طور سے شب بیداری کر کے کیا جائے کیونکہ دن کے مقابلے میں رات کی تلاوت افضل وبہتر ہوا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کرام راتوں میں تلاوت قرآن کا اہتمام کیاکرتے تھے۔
٭ اس ماہ مبارک کی شکر گزاری کے تقاضے میں سے ہے کہ سحری کرنے کا اہتمام کیاجائے، ارشاد نبوی ہے:(تسحروا فان فی السحور برکۃ) متفق علیہ.یعنی: سحری کیاکروکیونکہ سحری کرنے میں برکت ہے۔
سحر ی کرنے کے بہت سارے فوائد ہیں، ایک فائدہ تو یہ ہے کہ سحری کرنے سے انسان کی جسم میں توانائی آتی ہے اور وہ پھر پورا دن نشیط رہتا ہے، اسی طرح اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ سحری کرنے سے غیروں کی مخالفت ہوتی ہے اور سنت نبوی پر عمل ہوجاتاہے۔
٭ ہ رمضان کی شکر گزاری کے تقاضے میں سے ہے اس مہینے میں گالی گلوج، فحش ومنکرات سے خاص طور سے اجتناب کیاجائے،اور صدقہ وخیرات کا خوب اہتمام کیاجائے، اور مسجدوں میں اعتکاف کیاجائے، تاکہ ان عبادات میں جو ثواب رکھے گئے ہیں اس سے استفادہ کیا جاسکے۔
اخیر میں دعا گو ہوں بار الہا تو ہم سب یہ مبارک مہینہ نصیب فرما، اور ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اس مہینے کی خیرو برکات مستفیض ہوسکیں، آمین یا رب العالمین۔
آپ کی راۓ