غلام عباس ایک شریف النفس انسان تھے۔ لکھنا پڑھنا اور خاموشی سے اپنے کام میں لگے رہنا ان کی زندگی کا ہنر تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے انہیں گروہ بندی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اردو زبان کو ایسی کہانیاں دیں جو ہمیشہ زندہ رہیں گی ۔آپ کی کہانیوں میں آنندی،کتبہ ، جواری ، اورکوٹ ، سایہ، کن رس، حمام میں ،اس کی بیوی، پردہ فروش شامل ہیں۔ غلام عباس نے زندگی کو ایک حقیقی روپ میں دیکھا پھر اس پر لکھنا شروع کیا ۔
”غلام عباس ہمارے وہ افسانہ نگار تھے جو اپنی زندگی میں کلاسیک کا درجہ اختیار کر گئے تھے۔ وہ دھیمے مزاج کے انسان تھے۔ یہی دھیما پن ان کی کہانیوں کا مزاج ہے ۔غلام عباس نے مساہلی افسانے نہیں لکھے بلکہ انسانوں کی کہانیاں لکھی ہیں۔ اس لئے ان کے افسانے وقت کے ساتھ اپنی دلچسپی نہیں کھوتے بلکہ اسی طرح تروتازہ زندہ رہتے ہیں۔“(۱)
موضوعاتی سطح پر غلام عباس کے افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو یوں پتا چلتا ہے کہ انہوں نے زندگی کو طنز اور فریب سمجھا ہے ۔ زندگی کے ہر پہلو کو دیکھتے ہیں اور اس میں سے طنز کو دیکھتے اور اس طنز کوالفاظ کا جامہ پہنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ غلام عباس حقیقت نگار تھے ان کی حقیقت نگاری ان کے افسانوں میں ملتی ہے ۔اردو ادب میں ترقی پسند افسانہ نگاروں نے تلخ حقیقت کا بیان کیا ہے۔ غلام عباس کی حقیقت نگاری ترقی پسند تحریک سے ہٹ کر ہے ۔انہوں نے کہیں بھی اپنی حقیقت نگاری کی نہ وضاحت پیش کی ہے نہ ہی اُس کا دفاع کیا ہے ۔انہوں نے اپنے افسانوں میں اُنہی مشاہدات تجربات کو جگہ دی ہے جو عام انسان محسوس کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے ان کا افسانہ ”بہروپیا“اہم ہے۔ یہ افسانہ پڑھ کر قاری الجھن کا شکار نہیں ہوتا ہے کیونکہ یہ حقیقت نگاری پر لکھا گیا ہے ۔اقتباس ملاحظہ ہو:
”اسلم آؤاس بہروپیے کا پیچھا کریں اور دیکھیں کہ وہ کہاں رہتا ہے اس کا گھر کیسا ہے اس کا کوئی نہ کوئی میک اپ روم تو ہو گا ہی شاید اسی تک ہماری رسائی ہو جائے ۔ پھر میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی اصلیت میں کیسا لگتا ہے۔“(۲)
حقیقت نگاری سے عام طور پر معاشرتی یا سماجی حقیقت نگاری مُراد لیا جاتا ہے ۔ غلام عباس کو ان رویوں میں تقسیم کرنے کی بجائے سادہ حقیقت نگار کہنا بہتر ہوگا۔ غلام عباس کے افسانے معاشرتی اور نفسیاتی حقیقت کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے ”چکر“ کے عنوان سے افسانہ لکھا۔ اس افسانے میں ایک شخص معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جدوجہد میں لگا رہتا ہے ۔ پیٹ بھرنے کے لیے اسے دن بھر بے لگام محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود نہ اُس کی ضرورت پوری ہوتی ہیں نہ آسودگی ملتی ہے۔ چیلا رام کے ذریعےلاحاصل محنت اور نفسیات کا بیان غلام عباس کی نفسیاتی حقیقت نگاری کی طرف اشارہ ہے۔س جس طرح غریب آدمی خواہشات کی چکی میں پستا چلا جاتا ہے۔ اور دن بدن غربت بھی بڑھتی جاتی ہیں اور زندہ رہنے کی آرزو بھی ختم ہو جاتی ہے اسی نفسیات کا بیان غلام عباس کے ہاں ملتا ہے۔افسانے میں غلام عباس یوں بیان کرتے ہیں :
”اس کی بیوی نے کوٹھری میں چلا کر کہا بھوجن کر لو۔ چیلارام نے کچھ جواب نہ دیا آنکھیں بند کیے چپ چاپ پڑا رہا تھوڑی دیر کے بعد اس کی بیوی نے دروازے میں کھڑے ہو کر کہا:
بھوجن کبھی کا تیار ہو چکا ہے اب اندر آجاؤ نہ! وہ کیا سوچ رہا تھا کیا وہ —-کے مسلے پر غورکر رہا تھا؟ کیا وہ یہ چاہ رہا تھا کہ اب کے جب وہ مر جائے تو اس کا جنم گھوڑے کی جون میں ہوں۔“(۳)
غلام عباس کے افسانوں میں معاشرتی حقیقت نگاری کھل کر سامنے آتی ہے ۔نچلا اور متوسط طبقہ معاشرتی محرومیوں کے باعث اپنی خواہشات اپنے سینے میں دفن کرکے قبر میں چلا جاتا ہے۔ اس طبقے می محرومی اس کے نفسیاتی بحران کو جنم دیتی ہے ۔ اس کشمکش میں انسان سوچتا ہے کہ وہ دنیا میں کیوں آیا یا دنیا میں آنےکااس کا مقصد کیا تھا۔ اس حقیقت نگاری پر غلام عباس کا لکھا گیا افسانہ” کتبہ“ہم ہے۔ شریف حسین کے ذریعے انہوں نے متوسط طبقے کی حقیقت کا نقشہ کھینچا ہے ۔ شریف حسین جب سنگ مر مر کے ٹکڑے پر جب اپنا نام کُھدا ہوا دیکھتا ہےاور سنگ تراش سے وہ کتبہ لے کر چلتا ہے تو اس کی ذہنی کیفیت کو غلام عباس نے الفاظ کے ذریعے گرفت میں لے لیا ہے۔ غربت صرف انفرادی بلکہ اجتماعی مسئلہ ہے ۔یہ واحد حقیقت ہے جو انسان کے اندر احساس پیدا کر دیتی ہے۔ زندگی انجانے گناہوں کا نتیجہ دکھائی دینے لگتی ہے ۔اسی وجہ سے ایک فرد دوسرے جان کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ اس حوالے سے اقتباس ملاحظہ کیجئے:
” اسے سنگ مرمر کے ٹکڑے پر اپنا نام کُھدا ہوا دیکھ کراسے ایک عجیب سی خوشی ہوئی۔ زندگی میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے اپنا نام اس قدر جلی حروف میں لکھا ہوا دیکھا ہو۔ سنگ تراش کی دکان سے روانہ ہوا تو بازار میں کئی مرتبہ اس کا جی چاہا کہ کتبہ پر سےاس اخبار کو اتار ڈالے جس میں سنگ تراش نے اسے لپیٹ دیا تھا۔“(۴)
انسان کے اندر ایک انسان تلاش کرنا غلام عباس کا پسندیدہ طریقہ کار ہے۔ اُن کے بیشتر افسانوں میں یہی انداز نمایاں ہے ۔انسانی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو ہر انسان کا ایک ظاہر ہوتا ہے ایک باطن ہوتا ہے ۔غلام عباس کے افسانے ”کن رس“میں بھی ایک نئے انسان کی تلاش کا عمل سامنے آتا ہے۔ اس افسانے کا بنیادی کردار فیاض کا ہے جو بہت شریف اور اپنے طبقے سے محبت رکھنے والا ہے ۔اس افسانے میں انسانیت کی تذلیل بھی کی گئی ہے ۔وہ یہ ہے کہ افسانے میں ایک ہنستے کنبے کو زوال پذیر ہونا پڑتا ہے ۔ فیاض کے کنبے کا بازارِ حسن میں آجانا دراصل نئے انسان کی جستجو ہے ۔غلام عباس کے افسانے میں قاری کو انجام پر چونکا دیا ہے۔ غلام عباس نے افسانے میں انسان کے باطن کی رمزیں تہہ در تہہ دریافت کیں اور اچھے خاصے انسان کی روح عریاں کرکے ہمارے سامنے پیش کر دی۔
”فیاض اپنے فلیٹ کے سامنے جو کمرہ خالی نظر آتا تھا اب اس میں چہل پہل ہونے لگی تھی۔لوگ آتے جاتے تھے اور گائیوں تکیوں سے لگ بھگ بیٹھتے جاتے تھے۔ یکبارگی طبلہ پرتھاپ پڑی اور غیرت نائیدادپہلی پشواز پہنے چھم سے محفل میں کودی اورمرث کرنے لگی۔ہاتھ پاؤں کی چلت پھرت اس غضب کی تھی کہ ہر ہر ادا پر دیکھنے والوں کے دل مسلے جاتے۔“(۵)
ہمارا معاشرتی نظام ایسا ہے کہ جہاں انسان مجبور ہو جاتا ہے بجائے اس کے کہ اس کی مدد کی جائے لوگ صرف تماشہ دیکھتے ہیں۔ محرومیوں کی آنکھ میں جھونک دینے کے بعد بھی سماج کے مکار کھلاڑی سادہ اور معصوم لوگوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے اور اُن کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچوانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ غلام عباس نے اس موضوع کو ”فینسی ہیر کٹنگ سیلون“ میں کھل کر بیان کیا۔غلام عباس خیر کا روپ ڈھال کر شر کی آلودگی پھیلانے والے منشی جیسے سماجی سرطانوں کی بڑی عمدگی سے تشخیص کرتے ہیں ۔اپنے انداز بیان سے وہ استحصالی طبقہ کی جابرانہ سوچ کو ختم کرتے ہیں۔ اسی افسانے کے کرداروں میں چار حجام ہوتے ہیں جو دکھنے میں باشعور ہوتے ہیں لیکن اندر سے وہ عیار ہوتے ہیں۔ لیکن اس افسانے میں منشی کا کردار ایسا کردار ہے جو ان حجام کا مہارت اور سماجی عیاری سے ان کا استحصال کرتا ہے۔ منشی ایسے محسوس کرواتا ہے کہ گویا وہ ان پر رحم کر رہا ہوں لیکن وہ ان کا استحصال کر رہا ہوتا ہے اور وہ با آسانی سے اس کی اطاعت کر لیتے ہیں۔وہ ان کو ایسا فریب دیتا ہے کہ وہ دربدر بھٹک جاتے ہیں ۔ غلام عباس نے یوں لکھا اقتباس ملاحظہ ہو :
”منشی نے جواب دیا”گستاخی معاف میں آپ کو زیادہ سے زیادہ اسی روپے دے سکتا ہوں دوسرے نمبر والے کو ساٹھ ، تیسرے نمبر والے کو پچاس اور چوتھے کو چالیس۔ اگر آپ لوگ یہ تنخواہ منظور کریں تو ابھی جاکر چاہے مجھے دُگنے تگنے سود پر قرض لینا پڑے آپ سب کے لئے دو سو تیس روپے بطور پیشگی تنخواہ کے لیے لاتا ہوں اوروعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو ہر مہینے پیشگی تنخواہ ملا کر گی۔یاد رکھو میرے دوستوں یہ تنخواہ کسی بڑے ہیئر کٹنگ سیلون کی تنخواہ سے کم نہیں ہے آپ لوگ خود جا کر دریافت کر سکتے ہیں۔“(۶)
غلام عباس کا افسانہ سماجی مظالم کے خلاف ایک بھرپور احتجاج ہے۔ جسے پوری شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔اُن کی ایک بات واضح ہے کہ طاقت ہی اس سماج کی سب سے بڑی سچائی ہے ۔مظلوم لوگ انصاف کی عدالت میں صرف اور صرف اپنی عزت کا ہی تحفظ چاہتے ہیں ۔لیکن سماج کے جابر لوگ ان کی عزت کا تحفظ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ مظلوم طبقہ ظلم کی چکی میں پستی چلا جاتا ہےاوروہ کانٹوں کو اپنے پاؤں کے چھالوں کا رس پلاتے ہیں۔ اس موضوع کے حوالے سے غلام عباس نے ”بردہ فروش“ لکھا۔اس افسانے میں ریشماں کا کردار درد کے کرب میں مبتلا کردار ہے۔ مائی جمی کا کردار سماج کی طاقت کو بیان کرتا ہے۔اس افسانے میں سماج کے ظلم کی عکاسی کی جاتی ہے کس طرح عورت سماج میں بکتی ہے۔ عورت اس سماج میں ماں، بہن، بیٹی سے ہٹ کر طوائف ،لونڈی،فاحشہ کے ادب میں بھی موجود ہے۔ عورت کے اس ادب کی عکاسی غلام عباس نے خوبصورت انداز میں کی۔ اقتباس ملاحظہ ہو :
”تو چوہدری آؤ نہ پہلے کیوں نہ اسی کا قصّہ پاک کریں۔ ہم بھی کیسے بےوقوف ہیں کہ اس فاحشہ کے پیچھے جانیں دیتے ہیں۔ اس کا کیا پتا کل کسی اور کی بغل گرم کر رہی ہوگی۔“ (۷)
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہے کہ دو لوگ خود کو سارے گناہوں سے بری الزماں ہو کر تمام الزامات فاحشہ ریشمہ پر ڈال دیتے ہیں۔لفظ فاحشہ میں عورت کے کردار پر گہراطنز کیا گیا ہے۔ غلام عباس ایسے گناہ کرنے والے کے اصلی روپ زمانے کے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیں۔غلام عباس کے افسانوں میں مجبور طبقے کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں ۔ اور لوگوں پر حقیقت واضح کرتے ہیں کہ جرم کرنے والے آزادہیں اور مجبور طبقہ ساری عمر کیے گئے گناہوں کا ازالہ کرتے زندگی گزار دیتا ہے۔سماجی بہروپ بھی غلام عباس کے افسانوں کا بنیادی موضوع رہا ہے اس حوالے سے ان کا افسانہ” اور کوٹ“اہم ہے۔ افسانے کی تمام محض خوبیاں اس میں موجود نہیں ہیں۔ زندگی سے متعلق ہر طرح کی بصیرت اس افسانے میں ملتی ہے ۔اوور کورٹ بظاہر ایک سیدھا سادہ سا بیانیہ ہے۔اور کوٹ سماجی بہروپ کی علامت ہے ۔سماج میں انسان کی شناخت مصنوعی چہروں کی وجہ سے مشہور ہو چکی ہے۔ہمارے سماج کا یہ المیہ ہے کہ ہم ظاہر دیکھتے ہیں باطن میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ جب ظاہری خول انسانی چہروں سے ہٹ جاتا ہے تو ہم خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں۔اس افسانے کا بنیادی کردار ایک نوجوان ہے جو دیکھنے میں خوبصورت ہےلیکن جب حادثے میں اس کی موت ہوتی ہے تو اس کا اصل چہرہ سماج کے سامنے آ جاتا ہے ۔اقتباس ملاحظہ ہو :
”نوجوان کے گلو بند کا لر کیا سرے سے قمیض ہی نہیں تھی۔ اوورکوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جابجا بڑے بڑے سوراخ تھے ۔ ان سوراخوں سے سویٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ میلا کچیلا بنیان نظر آرہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کواس ڈھب سے گلےپر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینوں سے نہیں نہایا تھا۔“(8)
حوالہ جات
۱۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر، ”غلام عباس“، مشمولہ معاصرِ ادب،(لاہور:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، ۱۹۹۱ء)، ص۲۲۸
۲۔ غلام عباس، ”بہروپیا“، مشمولہ غلام عباس کے بے مثال افسانے، مرتبہ: طاہر منصور فارقی، (لاہور: حاجی حنیف پرنٹرز، ۲۰۰۸)، ص۱۷۱
۳۔ غلام عباس، ”چکر“، مشمولہ غلام عباس کے بے مثال افسانے، ص۱۹۱
۴۔ غلام عباس، ”کتبہ“، مشمولہ غلام عباس کے بے مثال افسانے، ص۸۶
۵۔ غلام عباس، ”کن رس“، مشمولہ غلام عباس کے بے مثال افسانے، ص۱۵۱
۶۔ غلام عباس، ”فینسی ہیر کٹنگ سیلون“، مشمولہ زندگی نقاب چہرہ (کراچی: مکتبہ دانیال، ۲۰۰۵ء)، ص۲۶۴
۷۔ غلام عباس، ”بردہ فروش“، مشمولہ غلام عباس کے بے مثال افسانے ص 152
8 ایضا ص 155
آپ کی راۓ