اشاریہ سازی
موجودہ دور میں سائنس ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید کی بڑھتی ہوئی مصروفیات کی وجہ سے اشاریہ سازی کی اہمیت کو رد کر دیا ہے ۔قاری اورمحققین کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کتب سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔اگر کتاب کے آخر پہ اشاریہ دیا گیا ہو۔تو پڑھنے والا کم سے کم وقت میں اپنے ہدف تک پہنچ سکتا ہے اگر کتاب کا اشاریہ نہ دیا گیا ہو تو پڑھنے والے کے لئے یہ مشکل ہوگی کہ وہ اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے پوری کتاب کا مطالعہ کرے گا ۔اشاریہ دراصل پوری کتاب کا نچوڑ ہوتا ہے۔ اشاریہ کے ذریعہ کم سے کم وقت میں قاری کو زیادہ معلومات حاصل ہوتی ہے ۔کتاب میں اشاریے کو ثانوی ذریعہ معلومات تصور کیا جاتا ہے ۔لیکن اس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے ۔جدید دور میں اشاریہ کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جاتا لیکن اس کے بغیر کتاب نامکمل ہوتی ہے ۔
اشاریہ کی تعریف:
اردو ادب میں لغت ،نویسوں،محققوں ، اور دیگر اہل قلم اشاریہ کی تعریف کے ضمن میں شان الحق حقی لکھتے ہیں :
"حوالے کی آسانی کے لئے حروف تہجی کے مطابق مرتب کی ہوئی فہرست انڈیکس اشاریہ بندی اشاریہ تیار کرنا "۔ 1؎
اس تعریف سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اشاریہ ترتیب تہجی سے مرتب کی ہوئی نام وغیرہ کی فہرست ہے جیسا کہ کتاب کے آخر میں الف بائی ترتیب سے دیا گیا ہے ۔
محمود الحسن اپنی کتاب کشاف اصطلاحات کتب خانہ میں اشاریہ کی تعریف میں لکھتے ہیں ۔
"کسی کتاب یا کتب میں مذکورہ مضامین التماس ،مقامات یا نام وغیرہ کی مفصل الف بائی یا ابجدی فہرست مع حوالہ صفات جہاں انہیں استعمال کیا گیا ہو "۔ 2؎
محمود الحسن خان کی تعریف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کتاب میں موجود التماس ،مضامین ،مقامات یا نام وغیرہ کی مفصل فہرست اشاریہ کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے ۔اشاریہ کی تعریف کرتے ہوئے عبدالرزاق قرشی لکھتے ہیں :
"اشاریہ کا مقصد اشحاص مقامات وغیرہ کے نام گنوانا نہیں بلکہ ان سے متعلق کتاب میں کوئی اطلاع یا اطلاعات بہم پہنچائی گئی ہو ۔اگر کتاب ضخیم ہے تو اشاریہ کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے”۔3؎
پہلی تعریفوں کو کی نسبت یہ تعریف جامعہ ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پہلی تعریفوں میں اشاریہ کا مقصد محض نام گنوانا بتایا گیا ہے لیکن اس تعریف میں بتایا گیا ہے کہ اشاریہ محض ان اشخاص، مقامات کے نام گنوانے کا نام نہیں بلکہ اشاریہ اشخاص مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا نام ہے ۔اشاریہ کے بارے میں اہل قلم نے اپنے نقطہ نظریہ بیان کرتے ہوئے ۔
مختلف تعریفیں پیش کی ہیں ،لیکن جمیل جالبی لکھتے ہیں:
دویجائیہ یا طبقہ بند فہرست مثلا جو کتاب کے آخر میں لگائی جاتی ہے تاکہ اس میں شامل مواد کا حوالہ تلاش کیا جا سکے وہ چیز جو سائنسی علم اظہار کے لئے استعمال کی جائے ،سوئی ،شہادت کی انگلی ،جو چیز کی حقیقت کی طرف توجہ مبزول کرائے جیسے:۔
"The face is no index of the heart”
نشان ،دلیل ،علامت ،طباعت وہ نشان جو کسی خاص تحریر یا دائرہ عبارت کی نشاندہی کے لئے استعمال کیا جائے۔نیز
Hand first الجراد قوت نما۔سائنس ایک عدد باکلیہ جو کسی نسبت کا اظہار کرے لڑے ١کے ساتھ مزہیات قابل اعتراض مواد حامل کتابوں کی فہرست جو روہی کیتھولک کلیسا کی طرف شائع کی جائے ۔فعل متعدی اشاریہ بنانا ،مثلا کتاب کا اشاریہ میں درج کرنا مثلا کوئی لفظ اشاریہ کا کام دینا "جمیل جالبی” نے اشاریہ کی جو تعریف بیان کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ اشاریہ کا بنیادی مقصد مواد کو تلاش کرنے کے لئے حوالہ دینا ہے ۔اور کسی خاص تحریر کی نشاندہی کرنا ہے اشاریہ کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر الہی بخش اختر اعوان لکھتے ہیں ۔
"لسانیات میں کسی بولنے والے گروہ قبیلے قوم یا نسل کی وہ لسانی خصوصیت جو اس کے اس گروہ کے قبیلے قوم یا نسل کا پتا دے”۔ 5؎
اس تعریف میں لسانی حوالے سے اشارے پر بحث کی گئی ۔پہلی تعریف میں قومی مضامین ،اشخاص اور مقامات کے بارے میں معلومات دینے کو اشاریہ کہا گیا ۔اس تعریف میں قبیلے قوم اور نسل کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کو اشاریہ کہا گیا ۔
فیروز اللغات میں اشاریہ میں درج ذیل تعریف بیان کی گئی ہے ۔
"اشاریہ کسی کتاب کے مضامین کی تفصیلی فہرست ہے۔ حروف تہجی کے اعتبار سے کتاب میں کوئی مضمون موضوع یا نام ایک سے زیادہ مقامات پر آئے تو تمام متعلقہ صفحات کے نمبر ایک ہی عنوان کے تحت دئیے جاتے ہیں "6؎
اشاریہ کے حوالے سے اس تعریف کو دیکھا جائے تو اس تعریف میں بتایا گیا ہے کہ ایک موضوع کتاب میں ایک جگہ سے زیادہ مقامات پر آیا ہے تو اس کا عنوان پر شاعری میں ایک ہی رہے گا ۔
اشاریہ کی تعریف اردو لغت میں یوں ملتی ہے ۔
"اشاریہ حروف تہجی کی ترتیب سے کتاب وغیرہ کے شروع کا آخر میں دی ہوئی فہرست جس میں کتاب کے مضامین اور دوسرے
جزئیات کے حوالے اور صفات وغیرہ درج ہوں۔ "7؎
اشاریہ سازی کے مقاصد اور خصوصیات :
اشاریہ سازی جدید مشینی کی وجہ سے مختلف شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں آئیں ۔وہاں تحقیق و تنقید اور دیگر فنون لطیفہ میں بنیادی قسم کی تبدیلیاں آئیں ۔پہلے جس کام کو کرنے میں بہت سارا وقت اور محنت درکار تھی اب جدید دور میں کا کم وقت اور کم محنت میں زیادہ کام کیا جا سکتا ہے ۔وقت کی قلت کی وجہ سے قاری کو اشاریہ سازی بہت سی معلومات فراہم کرتی ہیں ۔یعنی پوری کتاب میں شامل موضوعات تک رسائی اشاریہ سازی کے ذریعے ہوئی ہے۔ اس حوالے سے سرفراز حسین فراز لکھتے ہیں ۔
"اشاریہ کا مقصد کسی دستاویز کے مندرجات کو آستکار کرتا اور قاری کو ایک دائرہ نظر میں وہ سب کچھ مہیا کرنا ہے کہ جس کی اسے جستجو ہو اور اسے اپنے مطلب کے مواد کی تلاش کے کام میں آسانی ہو بکھری ہوئی معلومات کی طرف رہنمائی کے لئے اشاریہ مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔”8؎
اشاریہ الفاظ اور ان سے متعلق علامات کی ایک فہرست ہوتی ہے ۔قاری کی معلومات تک رسائی اشاریے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اشاریہ پر کتاب سے باہر کوئی چیز نہیں ہوتی ۔اشاریہ بکھری ہوئی معلومات کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور اسی معلومات منظر عام پر لاتا ہے ۔جو کاری کے لیے نہیں ہوتی ہیں ۔اشاریہ سازی میں کتاب رسالہ اور تخلیق کو فروغ ملا ہے۔ اس حوالے سے بیان ملتا ہے ۔
"ہر نیا دن نئی معلومات لے کر منظر عام پر آتا ہے ۔کتب اور مقالات کا وافر مواد شائع ہوتا رہتا ہے۔ مختلف علمی ادبی اور تحقیقی مجلوں میں سیکڑوں مقالات کا شائع شدہ لوازمہ توجہ کا باعث بنتا ہے "۔ 9؎
اشاریہ کا بنیادی مقصد موضوعات ،شخصیات اور مقامات کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا ہے ۔اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ قاری کو سہولت ہو گئی ہے کہ وہ اپنے متعلقہ موضوعات کو تلاش کرسکیں۔اشاریہ سے قارئین علوم و ادب اور محققین کو آسانی ہوئی ہیں ۔کہ وہ کتاب میں سے معلومات حاصل کرسکے ۔اس حوالے سے جمیل احمد رضوی لکھتے ہیں ۔
"کسی کتاب کے اشاریہ کے مختلف مقاصد ہو سکتے ہیں ۔اس کے بغیر کتاب خاموش تو نہیں ہوتی البتہ بہت سست رفتاری سے
اپنے قاری سے مخاطب ہوتی ہے” ۔10؎
ان کے حق بی تعریفوں کے ذریعے اشاریہ سازی کے مندرجہ ذیل مقاصد سامنے آتے ہیں ۔
اشاریہ سازی کے مقاصد:
1۔ اشاریہ سازی کا سب سے پہلا مقصد قاری کو تمام اطلاعات و معلومات تک رسائی پہنچانا ہے ۔
2۔ اشاریہ کسی خاص چیز اور حوالے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
3۔ اشاریہ مطلوبہ مواد تک رسائی کا نظام مہیا کرتا ہے ۔
4۔ اشاریہ کی وجہ سے قاری بھٹکنے سے بچ جاتا ہے ۔
5۔ کتاب کے دستاویز اس کے مندرجات کا ہوتا ۔
6۔ اشاریہ مندرجات کی تفصیل کی نشاندہی کرتا ہے ۔
7۔ پوری کتاب پڑھے بغیر قاری کسی خاص موضوع کے حوالے سے معلومات اشاریہ دیتا ہے ۔
8۔ مطلوبہ مواد تک رسائی اشاریہ کے ذریعے ہوتی ہے ۔
9۔ کتب کے حوالے سے موضوع کے حوالے سے مصنف کے حوالے سے معلومات اشاریہ دیتا ہے ۔
10۔ اشاریہ ان چیزوں کی بھی نشاندہی کرتا جو کتاب میں موجود نہ ہو
مختلف قسم کے اشاریے:
اشاریہ مکاتیب اقبال:
نمبرشمار | نام مجموعہ | مرتب | سنہ اشاعت | تعداد خطوط | مختصر ات |
1 | شاد اقبال | ڈاکٹر محی الدین قادری | 1942 | 49 | شاد |
2 | نوادر اقبال وصحیفہ اقبال نمبر 1973 | عبداللہ قریشی | 1973 | 50 | صحیفہ |
3 | خطو اقبال بنام جناح (اردو) | ترجمہ حمیداللہ ہاشمی | 1943 | 13 | جناح |
4 | اقبال نامہ،جاوید اقبال | شیخ عطاءاللہ | 1944 | 261 | عطااول |
5 | اقبال از عطیہ بیگم (اردو ترجمہ) | عبدالعزیز خالد | 1947 | 10 | عطیہ |
6 | اقبال نامہ جلد دوم | شیخ عطاءاللہ | 1951 | 127 | عطا دوم |
7 | مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین | بزم اقبال | 1954 | 79 | نیاز |
8 | مکاتیب اقبال بنام نذیر نیازی | نذیر نیازی | 1957 | 179 | نیازی |
9 | انور اقبال | بشیر احمد ڈار | 1967 | 181 | انوار |
10 | Letters and writing of Iqbal | بی اے ڈار | 1967 | 19 | ڈار |
11 | مکاتیب اقبال بنام گرامی | عبد اللہ قریشی | 1969 | 90 | گرامی |
12 | خطوط اقبال | رفیع الدین ہاشمی | 1976 | 110 | خطوط |
13 | Letters of Iqbal | بشیر احمد ڈار | 1978 | 15 | Letters |
کتابیات
1۔ شان الحق حفی:۔ فرہنگ تلفظ،اسلام آبادمقتدرہ قومی زبان ،ص:51
2۔ محمودالحسن وزمر(محمود مرتبین ):کشاف اصطلاحات کتب خانہ اسلام آباد ،مقتدرہ قومی زبان 1985،ص14
3۔ فیروز:۔ فیروز سنز کنسائزڈکشنری،انگلش سے اردو ،لاہور ،فیروز سنز لمیٹڈ ،1983ءص20
4۔ عبد الرزاق قریشی:۔ مبادیات،تحقیق، لاہور،خان بک کمپنی،س ن،ص:70
5۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر:۔ قومی انگریزی لغت،اسلامآباد،مقتدرہ قومی زبان 2002ءطبع پنجم ،ص:991
6۔ فیروز اللغات:۔ فیروز اللغات اردو جامع ،لاہور فیروز سنز لمیٹڈ،س ن،ص:124
7۔ اردو لغت :۔ اردو لغت (تاریخی اصول پر )جلد اول (الف مقصورہ)کراچی۔ترقی اردو بورڈ،1977ء
8۔ سرفراز حسین مرزا:۔ پیش لفظ اشاریہ نوائے وقت1945۔1947ءلاہور ،پاکستان سٹڈی سنٹر ،پنجاب ،یونیورسٹی
1908ء،ص:الف
9۔ دیباچہ:۔ اشاریہ اقبالیات مرتبہ اختر النساء لاہوراقبال اکادمی پاکستان 1998ءص5
10۔ جمیل احمد رضوی سید :۔ اشاریہ سازی مشمولہ اردو میں فنی تدوین مرتبہ ڈاکٹر ایس ایم بار،اسلام آباد ،ادارہ تحقیقات
اسلامی 1991ء ص:5
آپ کی راۓ