غالب کی شاعری میں معاصر تاریخ

مقالہ نگار : سامعہ رسول بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان

16 مئی, 2023

مرزا اسد اللہ خان غالب اردو ادب کے بڑے شعراءمیں سے ایک ہیں ۔ آپ کی عزمت س ےانکار نہیں کیا جا سکتا۔ آپ 1797ء آگرہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا علمیہ یہ ہے کہ جب آپ چھوٹے تھے تو آپ کے والد وفات پا گئے اور آپ کی پرورش کا ذمہ آپ کے چچا نے سنبھالہ ۔ پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آپ کے چچا بھی اس دنیا فانی سے رخصت کرگئے یہ آپ کے لئے دوسرا بڑا صدمہ تھا ۔ پھر آپ کی 13 سال کی عمر میں شادی کردی گئی اور آپ کی 7الادیں ہوئیں جن میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہا اس دکھ کی وجہ سے آپ شراب نوشی ، جوا ، نشے جیسی بری عادات میں مبتلا ہوگئے ۔

غالب کی زندگی کا تلخ ترین صدمہ ان کی پینشن کا نہ ملنا۔ جس کے لئے انہوں نے جابجا مقدمات بھی کررکھے تھے پر غالب کی ساری زندگی یوں غربت اور پریشانی میں گزری۔

کسی بھی شاعر کی شاعری میں تاریخ بیان کرنے کے لئے ضروری ہے کہ شاعر کی حالات زندگی بیان کرنا غالب کی زندگی میں اتنے صدمات گزرے کہ غالب دنیا میں ہی ناامید ہوگئے دکھائی دیتے ظاہر سی بات ہے باپ کا نہ ہونا ، چچا کا فوت ہوجانااولاد کا نہ ہونا ۔ یہ صدمات ایسے ہیں کہ یہ انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے۔ بظاہر توغالب انا پرست تھے لیکن ان کے اندر کمی بیشی جو دکھائی نہیں دیتی اس کا بیان وہ اپنی شاعری میں ترملہ طریقہ سے کرتے ہیں۔

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا یک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

ایک درویش صفت انسان کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ خووی پر کوئی سمجھوتہ کرتا نظر نہیں آتا ۔ خودی اپنے آپ کو پہچاننے کا نام ہے ۔ خود کو جاننے کا نام ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ غالب ان صدمات کو قبول کرتے ہوئے عناصر ہاتھ سے جانے نہیں دیتے غالب کی زندگی کا بطور مطالعہ کیا جائے تو اس کی زندگی میں بہت سے واقعات ایسے گزرے ہیں جہاں پر دنیا نے غالب کا تماشہ دیکھاہے کہ دنیا اس کے ساتھ کیا کررہی ہے حالانکہ غالب کے  دور میں ذوق بھی تھے لیکن ذو ق کو صرف درباری حیثیت حاصل تھی ۔ غالب وہ  شاعر ہے جو انفرادی حیثیت کے مالک ہیں ۔ صدمات کو قبول کرکے دنیا کا برتاؤ اپنی شاعری میں بیان کرتے ہیں ۔

بنا کر فقروں کا بھیس ہم غالب

تماشہ اہل کرم دیکھتے ہیں

غالب اپنی زندگی میں پریشانیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مدد کے مستحق  قرار دیتے ہیں۔

غالب یہ کہتے ہیں کہ جتنی بھی پریشانیاں ہیں ۔ جتنی بھی مصیبتیں ہیں ۔ جتنی بھی علامات ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو مدد ہے غالب اپنی زندگی میں معجزات کے قائل نظر آتے ہیں ۔ مثلا ً جس طرح عیسی ٰ معجزات کے ذریعے لوگوں کی مشکلات حل کرتے تھے ۔ غالب اپنے دور کے حالات ووقعات دیکھ کر انہیں معجزات کے قائل نظر آتے ہیں اور یہ سمجھتےہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ جیسا معجزما شخص آئے گا جو میری پریشانیوں کو دکھوں کو تکلیفوں کو دور کرنا جلا جائے گا تو غالب پریشانیوں کے باوجود بھی قرآن پاک پر ایمان رکھتے تھے اور انبیاء پر ایمان رکھتے تھے ۔

این مریم حواکرے کوئی

میرے دکھ کی دواکرے کوئی

تصوف سے مراد اپنی روح اور جسم کو اللہ تعالیٰ کی خاطر وقف کردینا یعنی کائنات کے ذرے ذرے میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو ڈھونڈ نا ۔ اس کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اس کائنات کامالک اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے کائنات کے ذرے ذرے کو بنا یا جن وانس اس کی عبادت کرتے ہیں پرندے ، چرند ، ہواسب اس کو سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ غالب کی شاعری میں تصوفانہ عناصر بھی پائے جاتے ہیں ۔ غالب کی شاعری میں صوفیانہ عناصر بھی پائے جاتے ہیں ۔ غالب مصیبتوں ، پریشانیوں اور الائم کے باوجود اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے نظر آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی بڑھائی بیان کرتے وحدانیت او ر یکتا مانتے ہیں ۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ غالب پکا سچا مسلمان تھا ۔

شعر ملاحظہ ہو:-

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ احمکانہ خط کیا ہے

غالب کے تصورانسا ن کامیراگر ہم بات کریں تو غالب سے پہلےمیر کا تصور انسان ہے وہ پریشانیوں میں ہے بد حالیوں میں ہے ۔ وہ پریشانیوں کے باوجود مسلمان کی زذ تشکیل کرتے نظر آتے ہیں ۔ غالب کے ہاں جو تصور انسان ہے وہ مصیبتوں کا مقابلہ کرنے والے انسان ہیں ۔ اگر ہم حالات زندگی کو دیکھیں تو غالب کی زندگی کا سب سے بڑا مسلہ پینشن ہے غالب اس مسلہ سے پریشان نہیں ہوئے تھے ، گھبرائے نہیں غالب دنیا کا تماشہ دیکھتے نظر آتے ہیں ۔ انسانی صورت میں دنیا کا تماشہ دیکھتے ہیں

بنا کر فقروں کا بھیس ہم غالب

تماشہ اہل کرم دیکھتے ہیں

 

پہلے آتی تھی دل پر ہنسی

اب کسی حال پر نہیں آتی

مرزا اس اللہ خان غالب مذہبی تصورات کو رد کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان کے ہاں جو تصور انسان پایا جاتا ہے وہ وہ تصور انسان نہیں ہے جو مذہبی ہے ۔ یعنی غالب اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ فرشتو ں کے لکھے ہوئے پر ہمیں جنت اور دوزخ ملے گی ۔ غالب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے  فرشتوں کی بات کریں تو فرشتے نوری مخلوق ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوق ہیں جن سے غلطی کی گنجائش نہیں ۔ یعنی میرکے بعد ہاں اور غالب کے بعد اقبال کے ہاں اور اقبال کے بعد فیض کے ہاں جو فرشتوں کے بعد ہے وہ نوری مخلوق ہے ۔ فرشتے غلطی نہیں کر سکتے لیکن غالب اپنی شاعری میں فرشتوں پر بھی سوال کرتے نظر آتے ہیں ۔

 

اڑے جاتے  ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی بیمار بھی دم تحریر بھی تھا

 

غالب کے ہاں تصور خدا روایتی تھا ۔ قرآن کریم میں جیسے ارشاد ہے کہ:

"اللہ واحد ویکتا ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں اس کا کوئی شریک نہیں "۔ غالب خدا کی رحمتوں کا ذکر اپنی شاعری میں کرتے ہیں ۔ غالب خدا کے ماننے والوں میں سے ہیں ۔ توحید پرست ہیں ۔  جس طرح غالب ہے پہلے لوگ یقین رکھتے تھے ۔ کائنات میں اس ذات کی نشانیاں موجود ہیں ۔کیونکہ اس پاک ذات نے قرآم مجید میں خود ارشادفرمایا:

"تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتو ں کو جھٹلاؤ گے ”

تو غالب تصور خدا کا اقرار کرتے نظر آتے ہیں ۔

 

زندگی جب اپنی شکل سے گزری غالب

تو بھی کیا یاد کرو گےخداکہتے تھے

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter