افسانہ: خواہش لاحاصل
افسانہ نگار۔ سجاد انعام سہارن۔ لاہور۔
رفعیہ اپنے والدین کی بہت لاڈلی تھی اور بڑے نازو نعم سے پلی بڑھی۔ جب بھی کبھی اسے کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو فوراً اپنے باپ سے کہہ کر منگوا لیتی۔ رفعیہ سے چھوٹی بہن صفیہ بھی اپنے والدین کی بہت لاڈلی تھی۔ رفعیہ کا باپ اصغر ضروریات زندگی کی تمام اشیاء خود گھر لے کر آتا تاکہ اس کی بیوی اور دونوں بچیوں کو گھر سے باہر نہ نکلنا پڑے۔ اصغر ایک کپڑے کی مل میں ملازم تھا اور اس کے معاشی حالات زیادہ اچھے نہیں تھے۔ اصغر اپنی بیوی اور دونوں بیٹیوں کو محلے کے کسی بھی گھر میں نہ جانے دیتا۔ اصغر مل سے چھٹی کے بعد جب بھی گھر آتا تو سب سے پہلے سارے گھر کا جائزہ لیتا کہیں گھر کی کوئی کھڑکی تو نہیں کھلی ہوئی اور دروازہ بھی صحیح طرح سے بند ہے۔ اگر بیٹیوں نے سر پر دوپٹہ نہیں لیا ہوا تو ڈانٹتے ہوئے کہتا کہ فوراً سر پر دوپٹہ لے لو۔ اپنی بیوی سے کہتا کہ کسی کے گھر بہت زیادہ مجبوری ہو تو جانا اور وہ بھی مجھ سے پوچھ کے جانا۔ تینوں ماں بیٹیاں گھر کے اتنے سخت ماحول سے بہت بیزار تھیں۔ ایک دن اصغر مل سے جلدی گھر آ گیا اور اپنی بیوی کو گھر میں موجود نہ پا کر اپنی بیٹیوں سے پوچھا کہ تمھاری ماں کہاں ہے تو انہوں نے بتایا کہ امی پڑوس میں ایک عورت بیمار تھی اس کی عیادت کو گئی ہیں۔ اصغر نہایت غصے میں بیٹھا رہا اور جونہی اس کی بیوی گھر میں داخل ہوئی تو اس نے اپنی بیوی سے جھگڑنا شروع کر دیا کہ تم میرے بغیر پوچھے کیوں گھر سے باہر نکلی ہو، تم میرے گھر آنے کا انتظار کرتی اور شام کو ہمسائی کی عیادت کے لئیے چلی جاتی۔ اصغر کی بیوی رونے لگ پڑی اور دونوں بہنیں خوف سے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئیں۔
رفعیہ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو مزید تعلیم کے لئیے کالج میں داخلہ لے لیا اور صفیہ ابھی نویں جماعت میں پڑھ رہی تھی۔ رفعیہ صبح سویرے تیار ہو کر کالج چلی جاتی اور دوپہر کو واپس آتی۔ گھر سے کالج اور واپسی کے لئیے اس کے باپ نے رکشہ لگوا دیا۔ رفعیہ کچھ دنوں سے محسوس کر رہی تھی کہ ایک لڑکا کالج کے گیٹ سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا ہوتا ہے اور اس کی طرف آتے جاتے ہوئے دیکھتا رہتا پے۔ پہلے پہل تو رفعیہ اسے اپنا وہم خیال کرتی رہی مگر ایک دن اس کا شک یقین میں بدل گیا کہ یقیناً وہ اس کے آنے جانے پر نظر رکھتا ہے۔ کچھ دن تو وہ یہ سب کچھ نظر انداز کرتی رہی مگر ایک دن جب وہ کالج سے چھٹی کے بعد گیٹ سے باہر آ رہی تھی تو وہی لڑکا اچانک رفعیہ کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس طرح اچانک سامنے آنے سے وہ گھبرا گئی۔ اس لڑکے نے ایک ہی ساعت میں بولنا شروع کر دیا کہ میرا نام شکیل ہے میں نہیں جانتا کہ تمھارا نام کیا ہے مگرایک بات یاد رکھنا تم میری ہو اور میری ہی رہو گی۔ میں آئندہ کبھی تمھارا پیچھا نہیں کروں گا اور نہ ہی اس طرح تمھارے سامنے آؤں گا۔ میں تمھیں حاصل کر کے رہوں گا یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ وہاں سے چلا گیا مگر رفعیہ یہ سب کچھ سننے کے بعد وہیں ساکت ہو کر کھڑی رہی اور اس سے دو قدم چلنا بھی مشکل ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اس کے حواس بحال ہوئے تو وہ رکشے میں سوار ہو کر گھر روانہ ہو گئی۔ گھر پہنچ کر رفعیہ نے ہاتھ منہ دھویا اور کھانا کھانے کے لئیے بیٹھ گئی مگر اسے بھوک بالکل بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی مگر اس نے چند نوالے لئیے اور آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلی گئی اور فوراً بستر پر لیٹ گئی۔ پتہ نہیں شکیل کی باتوں میں کیا اثر تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار رفعیہ اس کی کہی باتیں یاد کرتی رہی۔ اس کی شکل وصورت اور بات کرنے کا ڈھنگ بھی بہت سلجھا ہوا تھا۔ وہ انہی سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ کب اسے نیند آئی اور کب صبح ہوئی اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ صبح کے وقت جب وہ نیند سے بیدار ہوئی تو حسب معمول تیاری کرنے کے بعد ناشتہ کیا اور کالج کے لئیے روانہ ہو گئی۔ جب وہ کالج پہنچی تو اس نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی مگر اسے شکیل کہیں نظر نہ آیا لہذا وہ گیٹ عبور کرتے ہوئے اندر داخل ہو گئی۔ کافی دن گزر گئے رفعیہ کو شکیل دوبارہ کہیں نظر نہ آیا مگر ایک دن پھر وہ اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور ایک کاغذ کا ٹکڑا دیا اور فوراً وہاں سے چلا گیا۔ جب وہ گھر پہنچی تو بے چینی سے اس کاغذ میں لکھی تحریر پڑھنے لگی۔ اس میں لکھا تھا کہ میں اپنے قول کا پکا ہوں اور اپنا وعدہ پورا کروں گا۔
ایک دن شام کے وقت رفعیہ کا باپ اصغر اپنے بیوی سے ادھر اُدھر کی باتیں کر رہا تھا کہ باتوں کا موضوع بدلتے ہوئے وہ کہنے لگا کہ میں جلد از جلد اپنی بیٹی رفعیہ کی شادی کرنا چاہتا ہوں۔ رفعیہ کی ماں نے جب یہ سنا تو ہکا بکا رہ گئی وہ اپنے خاوند کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگی کہ ابھی اس کی عمر ہی کیا اور ابھی تو یہ پڑھ رہی ہے مگر وہ کسی طرح بھی نہ مانا اور اپنی ضد پر قائم رہا۔ اصغر نے اپنے ایک دوست سے رفعیہ کی رشتے کی بات کی اس نے کہا کہ میں کچھ دنوں تک تمھیں بتاؤں گا۔ تھوڑے دنوں کے بعد اصغر کے دوست نے رشتے کا بتایا کہ ایک بہت اچھے گھر کا لڑکا ہے تم ایک دفعہ ان سے مل لو امید ہے وہ لوگ تمھیں پسند آجائیں گے۔ اصغر نے فوراً آمادگی ظاہر کر دی کہ ٹھیک ہے تم انھیں میرے گھر بھیج دو۔ اگلے ہفتے لڑکے کی ماں اور اس کی بہن اصغر کے گھر رفعیہ کو دیکھنے کے لئیے آ گئیں۔ مہمانوں کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ کمرے میں بٹھا دیا گیا اور کچھ ہی دیر کے بعد کھانے پینے کی اشیاء بھی میز پر رکھ دی گئیں۔ رسمی بات چیت کے بعد لڑکے کی ماں اور بہن نے رفعیہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ جب رفعیہ کمرے میں داخل ہوئی تو ماں اور بیٹی اسے دیکھتی ہی رہ گئیں کیونکہ وہ تھی ہی بہت خوبصورت اور اچھے نین نقش والی۔ لڑکے کی ماں اور بہن کو رفعیہ دل سے بھا گئی اور فوراً اس رشتے کی ہاں کر دی۔ کچھ مزید بات چیت کے بعد باہمی رضامندی سے تین ماہ کے بعد شادی کی تاریخ مقرر کر دی گئی۔ رفعیہ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے مگر اس میں انکار کی جرآت کہاں تھی اور اس کے دل و دماغ پر مسلسل شکیل کے کہے الفاظ گونج رہے تھے کہ تم میری ہو اور میری ہی رہو گی اور میں اپنے قول کا پکا ہوں۔ رفعیہ کا کالج جانا بھی چھوٹ گیا۔ کبھی کبھی وہ شام کے وقت اپنے گھر کی چھت پر جا کر بیٹھ جاتی اور دور فضاؤں میں اڑتے پنچھیوں کو دیکھتی رہتی اور سوچتی کہ یہ کتنے آزاد ہیں جہاں چاہیں اپنی مرضی سے جا سکتے ہیں مگر میں اپنے باپ کے آگے اس رشتے سے انکار کی جرآت بھی نہیں کر سکتی۔ جوں جوں شادی کے دن قریب آ رہے تھے رفعیہ کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی نہ تو شکیل آیا اور نہ ہی اس نے اپنا قول پورا کیا۔ آخر وہ دن بھی آ گیا جب رفعیہ اپنے باپ کے گھر کی دہلیز سے رخصت ہو کر اپنے سسرال جا بسی۔ سسرال میں رفعیہ کا شوہر ناصر اس کی والدہ اور ایک چھوٹی بہن تھی۔ ناصر گو کہ شکل و صورت میں سانولے رنگ کا تھا مگر بات گفتار اور کردار میں بہت اچھا تھا۔ ناصر کی ماں کا رویہ بھی اپنی بہو سے روائتی ساس سے ہٹ کر بہت اچھا تھا۔ ناصر اپنی دلہن کو دیکھ کر پھولے نہیں سما رہا تھا کیونکہ رفعیہ خوبصورت بھی تھی اور عادات و اطوار میں بھی لاجواب تھی۔ دوسری طرف رفعیہ کے دل و دماغ پر شکیل کے کہے الفاظ اکثر گونجتے رہتے اور وہ اسے یاد کر کے افسردہ ہو جاتی۔ ناصر جب بھی اپنی بیوی سے کوئی بات کرتا تو وہ صرف ہوں ہاں میں جواب دیتی۔ ناصر پیار سے پوچھتا کہ رفعیہ کیا بات ہے تمھیں کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاؤ میں تمھاری پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کروں گا۔ وہ آگے سے کوئی جواب نہ دیتی، ناصر جب اپنی بیوی کو زیادہ افسردہ دیکھتا تو کہتا کہ اگر تم اپنے والدین کے لئیے اداس ہو تو چلو میں کچھ دنوں کے لئیے تمھیں تمھارے میکے چھوڑ آتا ہوں مگر رفعیہ آگے سے کوئی جواب نہ دیتی اور خاموش رہتی۔
ناصر کی تنخواہ بہت قلیل تھی اور چونکہ شادی کے بعد گھریلو اخراجات میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ ان اخراجات پر قابو پانے کے لیے ناصر نے اپنے ایک دوست سے کہہ کر پارٹ ٹائم نوکری کا انتظام کر لیا۔ اب ناصر کی مصروفیات میں اضافہ ہو گیا مگر ناصر کے پارٹ ٹائم نوکری کرنے سے گھر کے معاشی حالات میں قدرے بہتری آنا شروع ہو گئی۔ کبھی کبھار ناصر کی ماں اپنے بیٹے کو اتنا مصروف دیکھ کر کہتی کہ تم اتنی محنت نہ کیا کرو، ناصر ہنس کر اپنے ماں کو جواب دیتا کہ اگر میں آج محنت کروں گا تو آنے والا کل ہمارا خوشحال ہو گا۔ وقت اپنے پوری رفتار سے گزر رہا تھا اور رفعیہ کی شادی کو چار ماہ گزر گئے مگر وہ اب تک شکیل کے سحر سے نہ نکل سکی اور اکثر اس کی باتیں یاد کر کے افسردہ ہو جاتی اور آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ جاتیں۔
سردیوں کی ایک دوپہر رفعیہ اور اس کی ساس کھانا تیار کرنے لگیں تو اچانک پڑوس میں سے ایک عورت ان کے گھر آئی یہ پہلے بھی کبھی کبھار ان کے گھر آ جایا کرتی تھی۔ وہ عورت بھی ساس، بہو کے درمیاں آ کر بیٹھ گئی اور ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگیں۔ رفعیہ کی ساس کسی کام کی غرض سے ان کے پاس سے اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی۔ مناسب موقع خیال کرتے ہوئے اس عورت نے رفعیہ کے کان میں کہا کہ شکیل نے کسی طرح سے تمھارے سسرال کا پتہ لگا لیا تھا اس نے تمھیں پیغام بھیجا ہے کہ وہ کل رات تمھارے گھر کی کھڑکی جو کہ گلی میں کھلتی ہے وہاں آ کر میری بات سنے۔ رفعیہ نے جب یہ بات سنی تو ہکا بکا رہ گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ عورت تو یہ پیغام دے کر چلی گئی مگر وہ تذبذب کا شکار ہو گئی کی شکیل کو میرے سسرال والوں کا کیسے پتہ چلا اور پریشان ہو گئی کہ پتہ نہیں اس نے مجھے کیا کہنا ہے۔ چونکہ ناصر صبح سویرے اپنے دفتر چلا جاتا شام کو گھر آ کر دو گھنٹے آرام کرنے کے بعد وہ پھر پارٹ ٹائم نوکری پر چلا جاتا لہذا رفعیہ رات کو باآسانی شکیل کی بات سن سکتی تھی۔ سارا دن انتظار کے بعد رات تقریباً دس بجے شکیل گلی والی کھڑکی سے نمودار ہوا۔ گلے شکووں کے بعد شکیل نے کہا کہ تم میرا انتظار تو کر لیتی۔ رفعیہ نے گھبراتے ہوئے جواب دیا کہ میرے باپ کو مجھے بیاہنے کی جلدی تھی۔ شکیل نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میرے ساتھ چلو، تم خلع کا کیس دائر کر دینا فیصلہ ہونے کے بعد ہم نکاح کر لیں گے۔ میں تمھاری ہر ضرورت کا خیال رکھوں گا اور ہمیشہ خوش رکھوں گا۔ رفعیہ نے شکیل کے منہ سے یہ باتیں سنیں تو وہ غصے سے کانپنے لگی اور ترش انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ تم نے سوچا ہی کیسے کہ میں اپنے شوہر سے بیوفائی کرتے ہوئے تمھارے ساتھ چل دوں گی۔ آئندہ اس طرف آنے کا سوچنا بھی نہ اور فوراً کھڑکی بند کر دی۔
افسانہ نگار۔ سجاد انعام سہارن۔ لاہور۔
آپ کی راۓ