سوانح غالب(مختلف کتب کی روشنی میں)

مقالہ نگار:محمد یاسین صادق ایم فل اردو یونیورسٹی آف لاہور

31 مئی, 2023

 

اسد اللہ بیگ خان عرف مرزا نوشہ 27 دسمبر 1797 کو بدھ کے دن آگرہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں مرزا غالب بہت شریر ہوا کرتے تھے۔ بہت زیادہ کھیل کود کیا کرتے تھے۔ایک دفعہ ایک بوڑھا آدمی وہاں سے گزرے جہاں مرزا غالب کھیل رہے تھے۔ بوڑھے آدمی نے کہا ارے میاں دیکھتے نہیں ہو کہ کوئی بزرگ جا رہا ہے تو آپ نے فرمایا

” بوڑھے ہو گئے ہو بڑے میاں بزرگ نہیں”

اسد اللہ خان غالب کے والد کا نام مرزا عبداللہ بیگ تھا۔ غالب کی عمر پانچ سال تھی۔ جب ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ والد کے انتقال کے بعد آپ کی پرورش آپ کے چچا نصراللہ بیگ نے کی۔آپ کے چچا انگریزی فوج میں ملازم تھے اور وہ بھی جلد ہی انتقال کر گئے۔ پھر غالب اپنی والدہ کے ساتھ چلے گئے۔

غالب نے 11 سال کی عمر میں شاعری شروع کی۔ ان کی پہلی زبان اردو تھی۔ ان کے گھر میں بولی جانیوالی زبانیں ترکی اور فارسی تھیں۔غالب نے چھوٹی عمر میں ہی عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ غالب کے دور میں ہندی اور اردو کے الفاظ مترادف تھے۔

ابتدائی ماخذوں سے پتہ چلتا ہے کہ غالب نے شعر گوئی کا آغاز 1801 میں کیا۔ انہوں نے شروع میں”اسد” تخلص استعمال کیا۔

لیکن بعد ازاں انہوں نے ایک اور شاعر میر آمانی کے کلام سے مشابہت کے بعد اپنا تخلص "غالب” اختیار کیا اور شاعری میں کبھی کبھی اسد بطور تخلص بھی استعمال کرتے تھے۔1816ء سے "غالب” بطور تخلص کے استعمال کرنا شروع کیا۔ جو تا وقت آخر جاری رہا۔

غالب کو ابتدا ہی سے "شطرنج” اور "چوسر "کھیلنے کی عادت تھی اور بسا اوقات وہ بازی بھی کھیلا کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنے گھر میں لوگوں کو "جوا” بھی کھلوایا کرتے تھے جو خلاف قانون تھا۔

غالب نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی لیکن اردو شاعری میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔غالب ہر دور کے عظیم شاعر ہیں۔ ان کی فنی عظمت کو ہر کسی نے سراہا ہے۔ان کی ہمہ گیر شخصیت کی طرح انکی شاعری میں بھی تنوع پایا جاتا ہے۔ان کے ہاں موضوعات کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے۔

13 برس کی عمر میں آپ کی شادی دلی کے نواب الہی بخش معروف کی بیٹی امراؤ بیگم سے ہوئی۔امراؤ بیگم بہت پرہیزگار٫نیک٫ عبادت گزار اور وفا شعار خاتون تھیں۔انہوں نے ہمیشہ غالب کا بہت خیال رکھا اور ہم اور ان کا بھلا چاہا۔ غالب کے سات بچے تھے لیکن افسوس کہ سب بچپن میں ہی وفات پاگئے۔

ایک دفعہ آپ کسی سفر سے واپس آ رہے تھے تو آپ کو پتہ چلا کہ آپ کا بیٹا نہیں رہا۔ آپ بہت افسردہ ہوئے اور سیدھا اپنے بیٹے کی قبر پر گئے اور یہ اشعار پڑھے:

جدا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا

کریدتے ہو جواب لاکھ جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

غالب کو پنشن ملتی تھی پنشن میں اضافہ کروانے کے لیے آپ نے کلکتہ کا سفر کیا مگر اس میں اضافہ نہ ہو۔ جب معاشی تنگدستی کی وجہ سے 1850ء میں بادشاہ کی ملازمت اختیار کی۔ 1857ء میں جنگ آزادی کی وجہ سے پینشن بھی بند ہو گئی اور شاہی ملازمت بھی جاتی رہی۔ مرزا غالب نے اپنی معاشی تنگی کی وجہ سے لوگوں سے قرض لینا شروع کیا ہے اور بہت سے لوگوں کے کے مقروض ہو گئے۔ اس سلسلے میں ان پر بہت سارے مقدمہ بھی ہوئے اور جیل بھی جانا پڑا۔ 1827ء میں جیل گئے لیکن ان کی جیل برائے نام ہی تھی کیونکہ ان کو وہاں ضرورت کا سارا سامان میسر تھا اور ایک دفعہ میں ان کو جوئے جیل جانا پڑا۔

انگریز حکومت نے 1844ء میں دلی کالج کا اقتدار سنبھالا تو ان کو عربی اور فارسی کے استاد کی ضرورت تھی۔ اس وقت حکومت ہند کے سیکرٹری”ٹوم سن” تھے۔وہ دلی آئے اور استاد تلاش کرنے لگے۔ لوگوں نے ان کو غالب کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے غالب کو بلاوا بھیجا۔ دوسرے دن غالب نے درباری سوٹ زیب تن کیا اور پالکی میں رہے لیکن کوئی ان کو پسند نہ آیا۔ ایک ملازم نے پالکی سے نہ اترنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا:

” میرا استقبال اعزاز کے ساتھ ہونا چاہیے اور سیکرٹری کو خود باہر آنا چاہیے۔” ملازم نے اندر جا کر ٹوم سن سے کہا تو وہ باہر آئے اور کہا:

"جب آپ دربار گورنری میں تشریف لائیں گے تب آپ کا استقبال کیا جائے گا۔ابھی آپ نوکری کے لیے آئے ہیں۔ ابھی آپ کا استقبال نہیں کیا جائے گا۔” غالب نے جب یہ سنا تو کہا:

” میں سرکاری نوکری کو باعث اعزاز سمجھ کر آیا ہوں۔اس لیے نہیں آیا کہ پہلے اعزازات بھی گنوا بیٹھوں۔”ٹوم سن نے کہ یہ ہماری آئینی مجبوری ہے لیکن غالب نے ایک نہ سنی اور واپس چلے آئے نوکری نہ کی۔

مرزا غالب کو نواب جہاں ایک طوائف سے محبت بھی ہوئی تھی کیونکہ وہ ان کی شاعری کی بہت زیادہ شوقین تھی اور اپنی محفل میں ان کی شاعری کو گایا کرتی تھی۔ مرزا غالب کو ان سے محبت تو تھی لیکن ان کی شادی پہلے ہی ہوچکی تھی ان کی بیوی تھی۔ وہ خاندانی مجبوریوں کی وجہ سے اس تعلق کو آگے نہ بڑھایا۔ کافی دیر بعد جب ملنے گئے تو پتہ چلا کہ وہ طوائف کوٹھا چھوڑ کر جاچکی ہے۔ ایک دن غالب کی اچانک ملاقات نواب جہاں کی والدہ سے ہوئی تو انہیں معلوم ہوا کہ نواب جہاں وفات پا گئی ہیں۔ ان کا دل بہت غمگین ہوا پھر آپ ان کے مزار پر گئے اور یہ شعر پڑھا:

تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

مرزا غالب کی شاعری میں جہاں طنزومزاح پایا جاتا ہے۔ وہاں پر ان کی عام زندگی میں بھی پایا جاتا تھا۔آپ کبھی کبھار بھری محفل میں کوئی نہ کوئی ایسا جملہ بول دیتے جس سے پوری محفل میں ہنسی کی لہر دوڑنے لگتی۔ غالب کی زندگی میں کوئی دن ایسا نہ تھا کہ جب انہوں نے شراب نہ پی ہو۔ایک بار حالت خراب ہوئی تو ان کو بوتل نہ ملی۔ آپ مسجد میں نماز پڑھنے چلے گئے اور جب غالب کے شاگرد کو معلوم ہوا تو انہوں نے بوتل کا انتظام کر دیا اور سیدھا مسجد میں پہنچ گیا۔ مرزا غالب اس وقت سنت ادا کر چکے تھے۔ان کے شاگرد نے اشارے سے بوتل دکھائی تو وہ بغیر نماز مکمل کئے ہی وہاں سے چل پڑے۔ ایک بزرگ نے کہا میاں فرض تو پڑھ لو غالب نے کہا: جو چیز مانگنے آیا تھا وہ سنت میں ہی مل گئی۔

مرزا غالب کو آم بہت پسند تھے۔ ان کا ایک دلچسپ واقعہ مشہور ہے کہ برسات کے موسم میں وہ اس کے دوست آم کھا رہے تھے لیکن ایک دوست نہیں کھا رہا تھا تو وہاں سے ایک گدھا گزرا۔ اس نے آم کا چھلکا سونگا اور نہیں کھایا۔غالب نے کہا جو گدھے ہوتے ہیں وہ آم نہیں کھاتے اصل میں غالب اپنے دوست کے بارے میں یہ کہہ رہے تھے۔غالب کے بھائی مرزا یوسف کو انگریز سپاہی نے 19 اکتوبر 1857ء کو قتل کیا۔ غالب نے اس واقع کو چھپانے کی بہت کوشش کی لیکن اپنی نصف دستنبو میں اس کا بیان کیا ہے۔ غالب نے اپنے بھائی کا قتل اس لیے چھپایا کہ وہ ایک ڈرپوک انسان تھا۔اپنی تصنیف میں غالب اس واقع کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:

"19 اکتوبر کو وہی پیر و کامل جس کا نام ہفتے کے دنوں میں فہرست سے کاٹ دینا چاہیے۔ ایک سائنس میں آتش کشاں ہے۔وہ دنیا میں نکل گیا۔ وہ آدمی دربان بھائی کے مرنے کی خبر لایا تھا”۔

غالب کی زندگی میں پہلا صدمہ والد کی وفات کا تھا۔ دوسرا صدمہ ان کے چچا کی موت کا تھا۔ تیسرا صدمہ تیرہ سال کی عمر میں شادی کا ہونا تھا اور سات اولادوں میں سے کسی بھی اولاد کا زندہ نہ رہنا تھا۔غالب کو چوتھا صدمہ بھائی کے قتل کا لگا اور انہوں نے یوں شاعری کی۔

کوئی امید برنہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پہ نہیں آتی

سرسید احمد خان نے جس وقت ابوالفضل کی آئین تقریر کی تدوین کی تو سر سید نے چاہا کہ غالب اس کی تقریظ لکھیں۔ غالب کا یہ خیال تھا کہ جو انگریزوں نے ہندوستان میں حکومت کے بعد آئین رائج کیے۔ ان کے مقابلے میں آئین اکبری کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس سے لحاظ سے غالب نے 38 ادبیات پر مشتمل تقریظ لکھی لیکن سر سید احمد خان نے اس تقریظ کو اپنی کتاب میں شامل نہ کیا۔ اس بارے میں ڈاکٹر عندلیب شادانی لکھتے ہیں کہ:

” مرزا نے آئین اکبری کی طرز تحریر کی خرید وفروخت کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابو الفضل عباس نے یہی راستہ دکھایا کہ انہوں نے آئین اکبری کے ساز و سامان سے ہی اپنا گھر سجایا تھوڑا سا یہ بے دل کا بھی پڑا۔ بے دل کو آج بھی غالب کا استاد کہا جاتا ہے۔ یہ غالب کا وہ زمانہ تھا۔ جب آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر دہلی میں مشاعرے منعقد کرواتے تھے۔ اسی نسبت کی بنیاد پر دربار میں ان کو اور اونچا مقام حاصل تھا۔غالب بھی ان مشاعروں میں شریک ہوتے جو ابراہیم ذوق کو حاصل تھی۔ اسی وجہ سے ان کے درمیان رنجشیں رہتیں۔ ایک دفعہ ذوق پرانی دلی کی ایک گلی میں سے گزر رہے تھے۔ غالب کی ان پر نظر پڑ گئی تو شرارت میں انہوں نے غالب پر ایک جملہ کسا:

"بنا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا”

ذوق نے مصرعہ سن لیا لیکن جواب میں کچھ نہ بولے غالب نے مصرعہ دوبارہ دہرایا تو لوگ ہنسنے لگے اور ذوق بہت شرمسار ہوئے اور واپس چلے گئے۔

شراب پینا جوا کھیلنا اور شان سے زندگی گزارنا ان کی عادات میں شامل تھا۔ معاشی تنگدستی کی وجہ سے ان کو قرضہ لینا پڑا۔ اب دلی میں بہت مقروض ہوگئے اور آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اپنے اخراجات کے ساتھ ساتھ ان کو بھائی کی بیوی اور بچوں کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑیں۔ غالب نے لکھا ہے کہ:

ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے درد کی دوا کرے کوئی

غالب کو ساری عمر پینشن کا مسئلہ رہا۔انہوں نے حکومت پر کیس بھی کر رکھا تھا۔ غالب کو جو پینشن ملتی تھی۔ وہ نصف تھی اور غالب چاہتے تھے کہ ان کو پوری پینشن ملے۔

غالب نے ساری عمر ذریعہ معاش کی فکر میں گزاری۔ اگر غالب کے عید کو دیکھا جائے تو غالب کو کسی عمر میں روزگار نصیب نہ ہوا۔ غالب شراب جوئے جیسی بری عادات میں پھنس چکے تھے۔ جن کی وجہ سے روپیہ پیسہ نہیں رہتا تھا۔ غالب اپنی قسمت بدلنا چاہتے تھے لیکن وہ بدل نہیں سکتے تھے۔ اس حوالے سے انیس ناگی لکھتے ہیں کہ:

"غالب ایک خارجیت پسند شخص تھے۔ وہ دوستوں کی طرح اپنی قسمت بدلنا چاہتے تھے لیکن اتفاق سے وہ اس کام میں ناکام رہے”۔

شعری مثال:

کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو پر اب

دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا

غالب کی زندگی کا سب سے لمبا سفر کلکتہ کا تھا وہ اگست 1826ء میں دلی سے روانہ ہوئے اور لکھنؤ پہنچ کر معتمد الدولہ کے حضور پیش کرنے کے لیے فارسی میں "صنعت تعطیل” لکھی۔ جب دلی سے لکھنؤ روانہ ہوئے تو گیارہ ماہ کا قیام ہوا۔

غالب کی چند مشہور تصانیف ذیل میں ہیں:

1-دیوان غالب

2-دستنبو

3-قاطع برہان

4-میخانۂ آرزو

5-سبد چین

6-لطائف غیبی

7-عود ہندی

8-گل رعنا

9-قادر نامہ

10-دیوان فارسی

 

 

 

 

 

 

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter