افسانہ۔ پچھتاوا
سجاد انعام سہارن
نصیر جب ہمارے گھر آیا تو بہت نادم و شرمندہ تھا اور مسلسل اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ نصیر سے جو غلطی سرزد ہوئی تھی اس کا مداوا اب ممکن نہیں تھا اور وہ خود ہی اس غلطی کا ذمہ دار بھی تھا۔ نصیر کی ماں دن رات اپنے بیٹے کی جدائی میں روتی رہتی اور دعا کرتی کی اللّہ تعالٰی میرے بیٹے کو میری زندگی میں ہی مجھ سے ملا دینا۔ وہ اپنی یہ حسرت دل میں ہی لئیے ہوئے اور بہتے آنسوؤں کے ساتھ اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی گئی۔
میرا نام ثریا ہے۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں اور شہر کے ایک اچھے علاقے میں میرا کلینک ہے۔ میرے خاوند کا نام یعقوب ہے اور وہ بھی ڈاکٹر ہیں۔ بیس سال قبل ہماری شادی ہوئی تھی۔ میرے خاوند کے والدین گاؤں میں اور میرے والدین اسی شہر میں رہائش پزیر تھے۔ شادی کے بعد ہم نے شہر کے ایک پوش علاقے میں گھر کرائے پر لیا۔ میری اور میرے خاوند ڈاکٹر یعقوب کی ڈیوٹی ایک ہی ہسپتال میں تھی لہذا ہم اکٹھے ہی گھر سے چلتے اور ڈیوٹی کے بعد واپس گھر بھی اکٹھے ہی آ جاتے۔ ہماری ڈیوٹی بھی ایک ہی ہسپتال میں تھی۔ ہم دونوں میاں بیوی کی کوشش ہوتی کہ اپنا کام ایمانداری اور لگن سے کریں۔ ہمارا رویہ تمام مریضوں کے ساتھ یکساں تھا اور ہسپتال کی انتظامیہ بھی ہمارے کام اور سچی لگن کے قائل تھے۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد تک تو میں نے ہسپتال کی ملازمت جاری رکھی مگر بعد ازاں میں نے محسوس کیا کہ گھریلو مصروفیات کے ساتھ ساتھ ہسپتال کی ملازمت جاری رکھنا مشکل ہو رہا ہے لہذا میں نے ہسپتال کی ملازمت چھوڑ کر صرف شام کے وقت اپنے گھر کے قریب ہی ایک کلینک کھول لیا۔ مجھے صبح گھر اور شام کے وقت کلینک پر کام کے لئیے ایک ملازمہ کی ضرورت تھی۔ میں نے اپنی ایک سہیلی سے کہا کہ مجھے اپنے گھر اور کلینک پر کام کرنے کے لئیے کسی اچھی سی ملازمہ کی ضرورت ہے اگر تم کسی کو جانتی ہو تو اسے میرے پاس کام کرنے کے لئیے بھجوا دو۔ میرے کہنے پرجلد ہی اس کا انتظام کروا دیا۔ جب ملازمہ میرے گھر کام کے لئیے آئی تو میں نے اس کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام نزیراں بتایا۔ چال ڈھال اور بات گفتار سے مجھے وہ بہت سلجھی ہوئی لگی۔ میں نے نزیراں کو گھر اور کلینک کے سارے کام بتائے اور اسے یہ بھی بتایا کہ میں تمھیں اپنے گھر کا ایک کمرہ بھی رہائش کے لئیے دے دوں گی۔ وہ بخوشی سارے کاموں کے لئیے آمادہ ہو گئی۔ نزیراں اگلے ہی دن سے میرے گھر کام کرنے کے لئیے آ گئی۔ وہ اپنا کام نہایت دلجمعی سے کرتی اور زیادہ تر خاموش ہی رہتی۔ میں جو کام بھی کہتی وہ فوراً کر دیتی۔ میں کچھ دنوں تک اسے دیکھتی رہی ایک دن مجھ سے رہا نہ گیا اور پوچھ ہی لیا کہ نزیراں تم ہر وقت خاموش کیوں رہتی ہو۔ تمھیں کوئی پریشانی یا مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ شائید میں تمھارے کوئی کام آ سکوں۔ میرا اتنا ہی کہنے کی دیر تھی وہ تو زراوقطار رونے لگ پڑی۔ میں نے بمشکل اسے چپ کرایا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے نزیراں سے پوچھا کہ تمھارے بچے کہاں ہیں اور تمھیں ملنے کے لئیے بھی کوئی یہاں نہیں آتا۔ نزیراں نے روتے ہوئے بتایا کہ میرا ایک بیٹا ہے جس کا نام نصیر ہے۔ میرا خاوند ہماری شادی کے آٹھ سال بعد ایک حادثہ میں فوت ہو گیا۔ میرے خاوند کے فوت ہونے کے بعد گھر کے تمام اخراجات کی ذمہ داری میرے سر پر آ پڑی۔ میں پڑھی لکھی تو تھی نہیں لہذا گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لئیے مجھے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا پڑا۔ مجھے اپنے بیٹے کو پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ میں چاہتی تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑا افسر بن جائے اور میری باقی ماندہ زندگی بھی سکون سے گزر جائے۔ میں صبح اپنے بیٹے کو سکول چھوڑتی پھر اپنے کام پر چلی جاتی۔ میں نے بھی دوسری ماؤں کی طرح اپنی آنکھوں میں سپنے سجائے ہوئے تھے کہ میرا بیٹا جب پڑھ لکھ جائے گا اور اسے اچھی سی ملازمت مل گئی تو اس کے لئیے چاند سی دلہن بھی لے آؤں گی۔ میں اپنے بیٹے کے بہتر مستقبل کی خاطر دن رات محنت کرتی۔ ایک دن وہ بھی آ گیا جب اس نے مجھے بتایا کہ میں نے ایم اے کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر لیا ہے۔ میں اس دن بہت خوش تھی، میری دعائیں اور محنتیں رنگ لے آئیں۔ میں نے اس کے پاس ہونے کی خوشی پر پورے محلے میں مٹھائی بانٹی۔ کچھ دنوں کی تگ ودو کے بعد میرے بیٹے کو ایک اچھے ادارے میں ملازمت مل گئی۔ میری خوشی دیدنی تھی۔ اب میرا ایک ہی ارمان تھا کہ اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجا ہوا دیکھوں۔ ایک دن میں نے اپنے بیٹے سے اس کی شادی کی بات کی کہ میری نظر میں دو تین لڑکیاں ہیں، بہت اچھے گھر سے ہیں اور خوبصورت بھی ہیں۔ میں کل ہی تمھارے رشتے کے لئیے بات کروں گی۔ نصیر نے جب یہ سنا تو اس نے دو ٹوک جواب دیا کہ میں تو صرف منزہ سے ہی شادی کروں گا۔ وہ میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ میں نے جب اس کے منہ سے یہ بات سنی تو بہت پریشان ہوئی۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ میں تمھارے لئیے بہت خوبصورت اور اچھے خاندان سے دلہن لے کر آؤں گی مگر نصیر کی ایک ہی ضد تھی کہ شادی کروں گا تو صرف منزہ سے ہی۔ میں نے اپنے بیٹے کو بہت سمجھایا مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہا۔ بالآخر مجھے اس کی ضد ماننی پڑی۔ میں لڑکی کے والدین سے ملنے اور لڑکی کو دیکھنے ان کے گھر چلی گئی۔ لڑکی کے والدین نے ہماری کافی آؤ بھگت کی۔ مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ باہمی رضامندی سے یہ رشتہ طے پا گیا اور تین ماہ کے بعد شادی کی تاریخ مقرر کر دی گئی۔ تین ماہ کے بعد میرے بیٹے کی شادی ہو گئی اور میں اپنے گھر اپنی بہو لے آئی۔ میری بہو واقعی بہت خوبصورت تھی۔ میں خوش تھی کہ میرے بیٹے کا گھر بس گیا ہے۔ اسے ملازمت بھی مل گئی اور میں اپنی بہو بھی لے آئی۔ منزہ زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی رہتی اور عموماً خاموش ہی رہتی۔ مجھ سے زیادہ بات چیت نہ کرتی۔ اگر میں اس سے کوئی بات کرتی تو صرف ہوں ہاں میں جواب دیتی۔ ایک دن میں نے اپنی بہو سے کہا کہ میرے ساتھ باتیں کیا کرو اور گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں بھی میرا ہاتھ بٹا دیا کرو۔ میں نے صرف اتنا ہی کہا تو یکدم وہ بھڑک اٹھی اس نے کہا کہ آئندہ میرے کسی کام میں دخل نہ دینا۔ اس کا یہ جواب سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ شام کو نصیر جب دفتر سے گھر آیا تو پتہ نہیں منزہ نے میرے بیٹے کو کیا الٹی سیدھی پٹی پڑھائی کہ وہ مجھے ہی کہنے لگا کہ ماں جی وہ جو کرتی ہے اسے کرنے دیا کریں۔ اس نے اتنا کہا اور گھر سے باہر نکل گیا۔ میں حیران پریشان وہیں ساکت کھڑی رہی۔ وہ مکمل طور پر میرے بیٹے کے حواس پر چھا چکی تھی۔ وہ جو کچھ بھی کہتی نصیر اس کی ہاں میں ہاں ملاتا رہتا۔ شب و روز انہی حالات میں گزرتے رہے اور میں اپنی بہو کی جلی کٹی سنتی رہی اگر میں اپنے بیٹے سے اس کے رویے کی بات کرتی تو وہ سنی ان سنی کر دیتا۔ ایک دن مجھے اپنے ایک رشتے دار کی شادی میں شرکت کرنے دوسرے شہر جانا پڑا جہاں مجھے ایک ہفتہ تک رکنا تھا۔ میں شادی سے دو دن پہلے ہی دوسرے شہر روانہ ہو گئی اور جاتے ہوئے اپنے بیٹے اور بہو کو گھر کا خیال رکھنے کی تاکید کر گئی۔ شادی کی تقریبات سے فارغ ہونے کے بعد میں واپس اپنے گھر آئی۔ جونہی میں اپنے گھر کے دروازے پر پہنچی تو دروازے پر لگا تاکہ دیکھ کر حیران و پریشان ہو گئی۔ میں دوڑتی ہوئی اپنی ہمسائی کے گھر پہنچی اور اپنے بیٹے اور بہو کے بارے میں پوچھا اور اسے بتایا کہ میرے گھر پر تالہ لگا ہوا ہے۔ میں نے اپنی ہمسائی سے مزید پوچھا کہ کیا انہوں نے تمھیں کچھ بتایا ہے کہ وہ کہاں گئے ہیں۔ ہمسائی نے ایک رقعہ میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے اسے کہا کہ ذرا پڑھ کر بتاؤ کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ جوں جوں وہ رقعہ پڑھتی گئی مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میں زمین کے اندر دھنستی جا رہی ہوں اور میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری تھے۔ مجھ میں چلنے کی بھی سکت نہ رہی۔ رقعے میں لکھا تھا کہ ماں جی ہم بہتر مستقبل کی خاطر بیرون ملک جا رہے ہیں اور بہت جلد آپ کو بھی اپنے پاس بلا لیں گے۔ میرے بیٹے اور بہو کا اس طرح بتائے بغیر چلے جانے پر میں بہت روئی اور سوچنے لگی کہ وہ کس کے سہارے مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ شام تک میں اپنی ہمسائی کے گھر ٹھہری رہی پھر میں اپنے ایک رشتے دار کے گھر چلی آئی۔ وہ اچھے لوگ تھے انہوں نے مجھے کسی چیز کی کمی نہیں آنے دی۔ کچھ عرصہ تک تو نصیر کے خطوط آتے رہے اور ہر خط میں مجھے جلد اپنے پاس بلانے کا وعدہ کرتا۔ اس نے نہ تو اپنا وعدہ پورا نہ خود مجھے ملنے آیا اور آخر کار اس کے خطوط بھی آنے بند ہو گئے۔ میں دن رات روتی رہتی کہ میں نے لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنے بیٹے کو پالا پوسا، پڑھایا لکھایا اور وہ میری ساری امیدوں پر پانی پھیر کر یوں مجھے اکیلا چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ چلا گیا۔ مجھے خود بھی نزیراں کے حالات سن کر بہت دکھ اور افسوس ہوا۔ میں نے اسےحوصلہ اور تسلی دیتے ہوئے کہا کہ مجھے امید ہے کہ تمھارا بیٹا جلد تمھیں ملنے کے لئیے آ جائے گا۔ میں اکثر دیکھتی کہ نزیراں اپنے بیٹے کو یاد کر کے روتی رہتی۔ سردیوں کے دن شروع ہو چکے تھے اور آج کل کافی سردی پڑ رہی تھی۔ ناشتہ نزیراں ہی تیار کرتی تھی مگر آج وہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ میں سوچنے لگی کہ خیر ہو وہ آج وہ صبح صبح کہاں ہے۔ میں نزیراں کو دیکھنے اس کے کمرے میں گئی۔ جونہی میں کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کی تصویر اپنے سینے سے لگائے زراوقطار رو رہی ہے۔ میں نے اس کا بازو پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی تو محسوس ہوا کہ اسے تو بہت تیز بخار ہے۔ میں نے اس کا بازو پکڑ کر اٹھایا اور کہا کہ تجھے تو بخار ہے میں تمھارے لئیے یہیں ناشتہ بجھواتی ہوں اور ساتھ دوائی بھی۔ تم دوائی لے لینا تمھارا بخار اتر جائے اور شام تک تم بالکل بھلی چنگی ہو جاؤ گی۔ میں اپنے گھریلو کام کاج میں مصروف ہوگئی اور شام کو اپنے کلینک پر چلی گئی۔ رات کو جب واپس گھر آئی تو فوراً نزیراں کے کمرے میں چلی آئی تاکہ اس کا حال احوال پوچھ سکوں۔ دیکھا تو اسے بدستور بخار تھا۔ میں نے دوائی دی اور انجکشن بھی لگا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد نزیراں کو دوبارہ چیک کیا تو وہ چارپائی پر بے سدھ لیٹی ہوئی ہے اور بخار ابھی تک نہیں اترا۔ میں نے اپنے شوہر ڈاکٹر یعقوب کو فون کیا کہ نزیراں کا بخار کم نہیں ہو رہا اسے ہسپتال میں داخل کروانا پڑے گا۔ نزیراں کا ہسپتال میں علاج معالجہ جاری رہا مگر اس کا بخار اتر ہی نہیں رہا تھا۔ اللّہ تعالٰی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہسپتال میں داخلے کے تیسرے دن وہ اپنے بیٹے کو بہت یاد کرتی رہی اور آنکھوں میں آنسو بھی جاری تھے کہ نزیراں نے آخری ہچکی لی اور اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی گئی۔ کیونکہ نزیراں کے کسی رشتے دار کا اس کے پاس آنا جانا نہیں تھا، اس کا بیٹا بھی بیرون ملک جا کر اپنی ماں کو بھول گیا نہ ہی واپس مڑ کے آیا اور وہ رہتی بھی ہمارے پاس تھی لہذا اس کے کفن دفن کا انتظام بھی ہم نے ہی کیا۔ مجھے اس کے بیٹے پر بہت غصہ آ رہا تھا کہ کس طرح وہ اپنی بیوی کی کہنے میں آکر اپنی بوڑھی بیوہ ماں کو اکیلا چھوڑ کر بیرون ملک چلا گیا اور پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ اس کی ماں کس حال میں ہے اور کس طرح دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہو گی۔ نزیراں کو فوت ہوئے تقریباً چار ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ ایک دن صبح کے وقت میں اپنے گھر پر تھی اور کچھ دیر پہلے ہی ناشتہ کیا کہ اچانک گھر کی ڈور بیل بجی۔ میں نے اپنے ملازم ظہور سے کہا کہ دیکھو کہ باہر کون ہے اور کس سے ملنا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد ظہور نے آکر بتایا کہ ایک شخص گیٹ پر کھڑا ہے اور کہہ رہا کہ میں نے آپ سے ملنا ہے۔ میں نے کہا کہ تم نے اس کا نام اور ملنے کی وجہ نہیں پوچھی۔ ظہور نے کہا کہ بی بی جی میں نے پوچھا ہے مگر وہ کہہ رہا ہے آپ سے مل کر سب کچھ بتا دوں گا۔ میں نے ظہور سے کہا کہ تم اسے بٹھاؤ میں ابھی آتی ہوں۔ جونہی میں کمرے میں داخل ہوئی تو اس شخص کو دیکھ چونک گئی۔ اس شخص کی شکل و صورت بالکل اس تصویر سے مل رہی تھی جو کہ نزیراں کے پاس تھی۔ میں اپنے حواس بحال کرتے ہوئے اس سے آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے اپنا نام نصیر بتایا۔ اس نے بتایا کہ میری ماں کا نام نزیراں ہے۔ ہم جس محلے میں رہتے تھے وہاں سے پوچھتے پوچھتے آپ کے پاس آیا ہوں۔ اس نے مزید بتایا کہ میں بیرون ملک چلا گیا تھا اب میں اپنی ماں سے ملنے آیا ہوں۔ میں نے غصے سے اسے کہا کہ تمھیں اب اپنی ماں کی یاد آئی ہے۔ وہ تمھیں دن رات یاد کر کے روتی رہی اور تمھارے آنے کا انتظار کرتے کرتے اس جہان فانی سے دور چلی گئی۔ نصیر نے جب یہ سنا تو زاروقطار رونے لگا۔ میں نے نصیر کو کہا کہ تمھیں ذرا بھی شرم نہ آئی اپنی بیوی کے کہنے پر اپنی بیوہ بوڑھی ماں کو بے آسرا چھوڑ کر اور بغیر بتائے یوں رات کے اندھیرے میں بیرون ملک چلے گئے۔ وہ اپنی غلطی پر بہت نادم اور شرمندہ تھا۔ نصیر نے بتایا کہ میری بیوی نے جھوٹ سچ بول کر مجھے اپنی ماں سے دور کر دیا تھا۔ اس نے مزید بتایا کہ بیرون ملک پہنچ کر منزہ نے اپنا اصلی روپ دکھانا شروع کر دیا۔ دن کو وہ اکثر سوئی رہتی اور راتیں اپنے دوستوں کے ہمراہ گزارتی۔ اس کی روز روز کی ناجائز فرمائشوں نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔ ایک دن اس نے مجھے کسی جھوٹے کیس میں پھنسوا کر جیل بھجوا دیا۔ میں اپنی ماں سے بھی رابطہ نہ کر سکا اور بڑی مشکل سے جان چھڑا کر یہاں پہنچا ہوں تاکہ اپنی ماں سے مل کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ سکوں مگر میری ماں میرا انتظار کرتے کرتے مجھ سے بہت دور چلی گئی۔ نصیر رو رو کر التجائیں کرنے لگا کہ مجھے میری ماں کی قبر پر لے چلیں تاکہ جو غلطی مجھ سے ہوئی ہے اس کی معافی مانگ سکوں۔ میں نے ظہور کو بلا کر کہا کہ پہلے تم نصیر کو ناشتہ کرا دو پھر اسے نزیراں کی قبر پر لے جانا کہ شائید اس کی ماں کی روح کو قرار مل جائے۔
افسانہ نگار۔ سجاد انعام سہارن
لاہور (پاکستان)
آپ کی راۓ