تعارف
احمد ندیم قاسمی اردو ادب میں افسانہ نگار ،شاعر مدیر اور کالم نویس کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ آپ کا اصل نام "احمد شاہ "تھا۔ آپ نومبر 1916ء کو خوشاب کے ایک گاؤں انگہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد کا نام غلام نبی تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی اور پھر شیخو پورہ کیل پور اور بہالپور سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنا مکس کیا۔ آپ نے ۱۹۴۸ء میں شادی کی۔ آپ کے ہاں دو بیٹیوں اور ایک بیٹےنے جنم لیا۔ آپ نے سرکاری دفتروں میں کام کرنے کے علاوہ مختلف رسالوں کی ادارت بھی کی۔ آپ کچھ رسالوں کے مدیر اور کچھ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ آپ مجلس ترقی ادب لاہور کے ناظم اعلی بھی مقرر ہوئے۔ آپ ترقی پسند تحریک کے سرگرم رکن اور سیکرٹری جنرل بھی مقرر ہوئے ۔ ۱۹۶۳ء میں آپ نے اپنا ادبی پرچہ” فنون” جاری کیا ۔ آپ روز نامہ اخبار” امروز "سے بھی وابستہ ہوئے اور اس میں اپنے مظاہر لکھتے رہے۔ آپ کو آپ کی ادبی خدمات کے سلسلے مختلف اعزازات وانعامات سے نوازا گیا۔ آپ کے افسانوی ادب میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں۔ جو اب تک منظر عام پر آچکی ہیں۔ آپ کے افسانوی مجموعے جو کہ چوپال (۱۹۴۰ ) ،بگولے (۱۹۴۱ء ) طلوع و غروب (۱۹۴۲ء) گرداب (۱۹۳۳ء ) سیلاب (۱۹۴۴)، آنچل (۱۹۴۵)، آبلے (۱۹۴۶ء)، آس پاس (۱۹۴۸)، در و دیوار,(۱۹۴۹)، سنانا (۱۹۵۲) بازار حیات (۱۹۶۱) برگ خیال (۱۹۶۴) گھر سے گھر تک (۱۹۶۷ء)، کپاس کا پھول ( ۱۹۷۴ء) اور نیلا پھر (۱۹۸۰ء) نام سے منظر عام پر آئے۔
احمد ندیم قاسمی کے پہلے افسانے میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں۔
” احمد ندیم قاسمی کا پہلا افسانہ کونسا ہے۔ یہ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا۔ اس لئے کہ اب تک نہ تو اس کی نشاندہی کی گئی۔ نہ یہ دوبارہ چھپا۔ اور نہ کسی مجموعے میں شامل ہوا۔ حتی کہ خود قاسمی صاحب کو پوری طرح یادہ رہا کہ کب چھپا تھا۔”
انھوں نے مجھے اپنے ایک خط میں لکھا تھا جس کا عنوان "بت تراش ” تھا۔ اختر شیرانی مرحوم کے رسالہ "رومان "میں شاید ۱۹۳۷ ء کی اشاعت میں درج ہوا تھا
” میرے افسانے لیکن یہ مجھے ملا فروری ۱۹۳۹ء کے” رومان” میں ۔ گویا اس کی دستیابی ندیم کے افسانہ نگاری کی عمر دو سال بڑھ گئی۔ احمد ندیم قاسمی پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ قاسمی زندگی کی صداقتوں اور لطافتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اور پھر ان کو تخلیقی انداز میں سامنے لے کر آتے ہیں۔ مشرق کی تہذیب اور تربیت سے ان کا قلم پوری طرح سے آراستہ و پیراستہ ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں دیہاتی زندگی کو جس طرح حسن تخلیق سے پیش کرتے ہیں وہ شاید ہی کسی اور افسانہ نگار میں نظر آئے۔ ان کے افسانوں میں تہذیب اور ماحول کی رنگارنگ عکاسی ملتی ہے۔ رسم ورواج تہذیب و تمدن اور زمینی ماحول کی خوشبو ان کے افسانوں میں رچ بس گئی ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں۔
” ابتدائی افسانوں میں دو زندگی کے مفسر اور آخر آخر ایک ایسے ناقد اور وائی بن کر سامنے آئے جس کے یہاں زندگی اور ادب دو الگ الگ چیز میں نہیں بلکہ اکائی بن گئی ہے”
آپ نے ۲۰۰۶ ءکو لاہور میں وفات پائی۔
تہذیب
تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے اس کا مطلب ہے پاک اور اصلاح کرنا ، شائستہ اور آراستہ کرنا اور معاشرے کے انداز اصول وغیرہ ۔ کسی معاشرے کے رویے جو شائسته و آراستہ اصولوں اور اخلاق کے دائرے میں قید ہوں، اور اس سماج میں رہنے والے لوگ ان رویوں ، اصولوں اور نظم وضبط کے تحت زندگی گزار رہے ہوں اس کو تہذ یب کہا جاتا ہے۔ تہذیب میں کسی بھی قوم کے معاشرتی و سیاسی نظام اور علوم وفنون ، رسم و رواج، عقائد، رہن سہن،لباس، اعلی اخلاقی اقدار سماجی رشتے، موسیقی ،فنون لطیفہ وغیرہ تہذیب کے اہم عناصر شمار کیے جاتے ہیں ( تعلیم یافتہ ہونا، تہذیب یافتہ ہونے کی شہادت ہے۔ اس کے ذریعے سے ہی انسان مہذب بنتا ہے۔ اور جب انسان مہذب بن جاتا ہے تو وہ ہر معاملہ اور فیصلہ سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ معاشرے کی اعلی اخلاقی اقدار انسان کے مہذب ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ڈاکٹر غلام فرید لکھتے ہیں۔
"فنون لطیفہ بھی کسی تہذیب کے حسن تا سب کے نماند و قصور کئے جاتے ہیں شاعری کو ان فنون میں اولیت حاصل ہے۔ عام طور پر موسیقی اور شاعری کو لازم وملزوم سمجھا جاتا ہے۔ آواز آہنگ کا رشتہ بھی شاید قدیم ہے۔ شاعری کے اور ان کو موسیقی کے سروں سے جوڑا جاتا ہے۔”
غلام فرید ،انتظار حسین کے انسانوں اور ناولوں میں تاریخی و تہذیبی شعور ( اسلام آباد وفاقی اردو یونیورسٹی برائے قانون سائٹس اور ٹیکنالوجی۔ ۲۰۱۷ ) ص ۱۳۳ جیسا کہ رسم و رواج شادی کی رسومات تہذیب و مذہب دونوں میں شامل ہیں۔ یا پھر یوں کہنا بجا ہوگا کہ دونوں کا حسین امتزاج ہے۔ کھیل تماشوں کے حوالے سے ڈاکٹر غلام فرید لکھتے ہیں
"کھیل تماشے ویسے تو تہواروں کے ذیل میں آتے ہیں اور قدیم تہذیبوں میں میلے ہی میں بہت سے آئٹمزشامل ہوتے تھے ۔ مثلا مشاعرے، کہانیاں، سرکس ، کھیل ( گھڑ دوڑسے کبڈی تک ) اور مختلف بازار و غیرہ۔”
انتظار حسین کے افسانوں اور ناولوں میں تاریخی و تہذیبی شعور بین ۳۱
ثقافت
ثقافت بھی تہذیب کی طرح عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے صداقت اور مہارت۔ ثقافت کا مادہ ث ق اور ف ہے۔ مختلف جگہوں اور لغات میں اس کے معنی مختلف بتائے گئے ہیں کچھ شخصیات نے ثقافت اور اکٹھا کر کے اس کے لیے لفظ کلچراستعمال کیا ہے۔ اور کچھ شخصیات نے تہذیب کے لیے Civilization لفظ رہتا ہے۔
ڈاکٹر فاروق عثمان اپنی کتاب اردو ناول میں مسلم ثافت میں جمیل جالبی کی کتاب "پاکستانی کلچر سے ثقافت کی تعریف یوں کرتے ہیں میں نے اللہ ثقافت اور منہ سب کو یکجا کر کے ان کے لیے ایک تقلا مچھر استعمال کیا ہے جس میں تہذیب اور ثقافت دونوں کے ماہیم شامل ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کچھ ایک ایسا لفظ ہے جو زندگی کی سرگرمیوں کو خواوو واتی ہوں یا مساوی خارجی ہوں یا داخلی احاطہ کر لیتا ہے۔”
ندیم قاسمی انیسویں صدی کا ایک اعلی درجے کا افسانہ نگار ہے۔ احمد ندیم قاسمی کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا اور ان کے افسانوں پر ترقی پسندی کے اثرات نظر آنے کے ساتھ ساتھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے کرداروں پر زندگی مہربان ہوتی ہے۔ قاسمی کے افسانے اپنے عہد کے دیہاتی سماج کی عکاسی کرتے ہیں۔ کہ کس طرح وہاں کے لوگ اپنی تہذیب و ثقافت میں شامل چیزوں سے جڑے ہوئے تین اور انہی کے تحت ہی اپنی زندگی کا ہر پہلو گزارتے ہیں۔ قاسمی کے افسانوں میں متوسط طبقہ کے لوگوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ وہ اصلاح معاشرہ پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قاسمی کا مقصد صرف اصلاح معاشرہ ہے۔ قاسمی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بنیاد بنا کر بڑی ہنر مندی سے اپنے افسانوں کے پور میں سمو دیتے ہیں۔ اور یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں معاشرے میں اعلی اخلاقی اقدار میں شامل ہوتیں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو کھیل تماشے کا تعلق تہذیب سے نہیں ہوتا مگر چونکہ قدیم میلوں میں مشاعروں اور کہانیوں کے ساتھ ساتھ کھیل تماشے بھی میلوں کے زمرےمیں آتے ہیں اور میلے ٹھیلے انسان کی تہذیب وثقافت سے وابستہ ہیں۔ قاسمی کے افسانہ گنڈاسا کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز بڑکو ڈی کے کھیل تماشا سے شروع ہو رہا ہے۔ اور ان کو لوگ پورے جوش و خروش کے ساتھ منعقد کرتے ہیں
"اکھاڑہ جم چکا تھا۔ طرفین نے اپنی اپنی چوکیاں چن لی تھیں۔ پر کوڑی کے کھلاڑی جسموں پر تیل مل کر بجتے ہوئے اصول کے گرد گھوم رہے تھے”
اس افسانہ میں ایک معاشرتی مسئلہ کو پیش کیا گیا ہے۔ اور وہ مسئلہ گاؤں کے دو خاندانوں کے درمیان قتل و غارت پر مبنی ہے۔ گاؤں کا نیک بزرگ آگے بڑھتا ہے اور دونوں خاندانوں کے درمیان روایتی طور پرلڑائی کو روک دیتا ہے۔
افسانہ گنڈاسا میں انتقام اور خون کے رشتوں میں وفا کا موضوع ملتا ہے۔ اس حوالے سے بیان ملتا ہے اس افسانے میں باپ کے خون کا دو گنا بدلہ لینے اور حوالات کی قید کھانے کے باوجود بھی ماں بیٹا میں انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی اور ماں اپنے بیٹے کو مزید اس کا انتقام لینے پر اکساتی ہے اور مولا انتقام کی آگ میں اس قدر اند ھا ہو جاتا ہے کہ اس سے کوئی ہمدردی بھی کرتا ہے تو وہ اسے روک دیتا ہے۔”
اس افسانے میں اور قابل غور نقطہ نظر دوستی کا بھرم ہے۔ قدیم عہد سے لیکر آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی دوستی کا بھرم قائم و دائم ہے۔ جیسا کہ ازل سے چلا آرہا ہے۔ تا جا اپنے دوست مولے کے ساتھ اس خطر ناک لڑائی میں بھی پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ مولے کے ساتھ کندھاملا کر کھڑا رہتا ہے۔
"ا سے بھینچ کر گلے لگایا
اس روز تم اور تمھارا گھوڑا میرے کام نہ آتے تو آج میں پھانسی کی ری میں توری کی طرح لٹک رہا ہوتا ۔”
ہمارے یہاتی سماج میں رہنے والے افرادز یادہ تر نا خواندہ ہوتے ہیں وہ اپنی تہذیب وثقافت میں یہ بات شامل کر لیتے ہیں کہ مرد کبھی رو نہیں سکتا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مرد روحانی و جسمانی سطح پر بہت مضبوط ہے۔ قاسمی نے یہاں اس بات کی نفی کی ہے کہ مرد بھی آخر کار انسان ہے، وہ زمانے کی مشکلوں سے ، خود سے لڑ لڑ کر تھک جاتا ہے۔ مرد کے غموں اور دکھوں کو نہ تو کوئی سنے والا ہوتا ہے اور نہ ہی ان حالات میں اس کو کوئی کندھا دینے والا ہوتا ہے کہ وہ غم اور دکھ بھول کر خوشی کی طرف گامزن ہو سکے۔ ان حالات میں مرد دکھتا بھی ہے، خود کو بے بس بھی محسوس کرتا ہے اور روتا بھی ہے۔ اس حوالے سے اقتباس ملاحظہ ہو
"وہ اپنا سر پیتے ہوئے اچانک رک گئی اور بہت نرم آوازی جیسے دور سے ہوئی تو تو رویا ہے موئے مولے گنڈا ہے والے نے چار پائی پر بیٹھتے ہوئے اپنا باز آنکھوں پر رگڑ کر اور لرزتے ہوئے ہونٹوں سے بالکل معصوم بچوں کی طرح ہوئے بولا تو کیا اب روؤں بھی نہیں ۔”
قاسمی نے اس افسانے میں کھیل تماشا، معاشرتی مسائل اور دوستی کے بھرم کے ساتھ ساتھ سماج میں پائی جانے والی معاشرتی لڑائی کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اور وہ معاشرتی لڑائی چوری ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی بیان کیا ہے برائیوں کو ختم کرنے کے لیے سماج میں ایسے غیرت مند اور حیادار لوگ موجود ہیں۔ جو اس برائی کا تنہا مقابلہ اور سامنا کر کے اس پر قابو پانے کا حوصلہ بھرم رکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ” سفارش اس کے اہم افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ افسانہ سماج میں غریب لوگوں کے مسائل کو بیان کرتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے مسائل کے حل کے لیے سماج میں اثر ورسوخ لوگوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اور وہ انھیں نظر انداز اور التفات نظر کر کے اپنی مصروفیات اور کاموں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ قاسمی یہ بھی بتاتے ہیں انھیں اپنے اس رویے پر احساس شرمندگی اور احساس ندامت بھی ہوتی ہے۔ وہ خود سے احساس شرمندگی اور احساس ندامت سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں کر سکتے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ایک نوجوان ہے جو کہ ایک نوجوان ہے ۔ ندیم نے کہانی کو چھوٹے چھوٹے واقعات میں بیان کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ایک واقعہ کے گرد کہانی کو بنا ہے۔ اور وہی واقعہ شروع سے آخر نیک کہانی کے پس منظر میں رہتا ہے۔میں بھی چلایا جاتا ہے۔ اور اس کو سفر کے مقاصد اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ آج کے جدید دور میں جب انسان ترقی کی منازل طے کر رہا ہے تو وہاں جدید ترین ایجادات مختلف اشیاء، ٹرانسپورٹ وغیرہ کی ضرورت میں ہمارے سامنے آگئیں ہیں۔ وہاں تانگہ آج بھی ہماری تہذیب وثقافت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ افسانہ سفارش ہمارے سامنے ایک غیر اخلاقی بات کو سامنے لاتا ہے وہ یہ کہ ہم غلطیاں خود کرتے ہیں اور اسکا ارتکاب نہ کرتے ہوئے اپنی غلطی کا ذمہ دار اور قصور وار دوسروں کو خبر اتے ہیں۔ حالانکہ وہ اس رویے کے مستحق نہیں ہوتے وہ تو صرف سچ کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے انکے افسانے سے اقتباس ملاحظہ ہو
"بڑے احمق آدمی ہو۔ میں نے اسے ڈانٹاء”
میں نے نوکر سے پو چھا کیا تم نے اسے
بتا دیا ہے کہ میں موجود ہوں ۔ جی ہاں
نوکر بولا بس میرے منہ سے نکل گیا؟”
احمد ندیم قاسمی کا تعلق ترقی پسند تحریک سے رہا ہے۔ اور آپکا شمار ترقی پسند تحریک کے ایسے افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی ایک الگ انفرادیت قائم کی۔ آپ نے افسانوں میں دیہی زندگی کو موضوع بنا کر پنجاب کی دیہاتی زندگی کو پیش کیا ہے اور اس کو درد، خلوص اور دردمندی جیسی صفات سے بھر دیاہے۔ آپ نے زندگی کی نئی حقیقتوں کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ افسانہ کپاس کا پھول میں بے سہارا افراد کی مفلسی، بدحالی، جہالت، جاگیرداروں کی حکمرانی اور عورت کے استحصال کو موضوع بنایا ہے۔ اس افسانے کے پہلے حصہ میں سماج میں رہنے والی ایک عورت کی مفلسی اور بدحالی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اور اپنی موت کو ہر وقت خوش آمدید کہنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ اس حوالے سے احمد ندیم قاسمی کے افسانے سے اقتباس ملاحظہ ہو
"وارث علی سے کہہ کر مولوی عبدالمجید سے اس پر خاک پاک سے کلمہ شہادت بھی لکھ لیا تھا۔ ڈرتی ہوں اسے بار بار نکالوں گی تو کہیں ناک پاک جگہ پر بکھر نا جائے۔ بس یوں سمجھ لو کہ ہی وہ اٹھا ہے کہ میں اسے یادشہزادیاں پڑھتے سلاتی ہوں گی۔ کپاس کے پھولوں کی روٹی سے تیار ہوتا ہے۔ یہ کٹڑائن کے ٹکڑے کی طرح کھڑ کھڑ ہوتا ہے”
اس افسانے کے دوسرے حصے میں سیاسی شعور کی ترجمانی کی گئی ہے۔ اس کا موضوع ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں مسلمانوں پر ہندوؤں کی طرف سے کیے گئے ظلم وستم قتل و غارت اور عورت کے استحصال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ عورتوں کی عزتوں کو کس طرح اچھالا گیا اور ان عورتوں نے ہندوؤں کے ظلم وستم سے کس طرح بیچ کر پنجاب کے شہر لاہور میں پناولی۔ اس منصر کو قاسمی بڑی ہنرمندی اور دردمندی سے بیان کرتے ہیں۔ اس افسانے میں دردمندی ، احسان جیسے موضوعات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب اس افسانے کی عورت تاجو راحتاں کا استحصال کیا گیا اور اس کی عزت کو ہندوؤں نے اچھالا تو دوسری عورت تاجو راحتاں کو اپنا جسم ڈھانپنے کے لیے اپنا موت کی آرزو میں بنایا گیا کفن دردمندی اور خلوص، محبت، حیا اور انسانیت کی خاطر دے دیتی ہے۔
آپ کی راۓ