مزید امجد کی نظم نگاری میں رومانوی تحریک کے اثرات ملتے ہیں ان کی نظموں میں محبوباؤں کے نام ملتے ہیں۔ ان کے ہاں اختر شرانی جو کہ ایک رومانوی شاعر ہیں ان کا اثر زیادہ ملتا ہے۔ ایک طرف تو مجید امجد جدیدیت کی طرف سفر کر رہے تھے دوسری طرف رومانیت کا لب و لہجہ بھی ان کے ہاں ملتا ہے۔جہاں پر لوگ رومانیت کی طرف زیادہ رجوع کر رہے تھے۔ وہاں ترقی پسند تحریک نے ادب برائے مزدور کا نعرہ بلند کیا یعنی ایسا ادب جو عام آدمی کی زندگی پر مبنی ہو۔ ان کی شاعری میں ترقی پسند عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔
جس جگہ روٹی کے ٹکڑے کو ترستے ہیں مدام
سییم و زر کے دیوتاؤں کے سینے قسمت غلام
شاعری کا اہم موضوع عشق ہے۔ اپنی شاعری میں شاعر براہ راست عشق کا بیان کرتے ہیں اور کہیں علامتی انداز بھی اپناتے ہیں۔ مجید امجد کی شاعری میں جو عشق پایا جاتا ہے۔ وہ ارضی عشق ہے۔ زمینی لوگوں کے ساتھ عشق ہے۔
ابتدائی شاعری میں کلامی ان کے ہاں خیالی عشق ہے یعنی وہ خود کلامی کے ذریعے عشق کا بیان کرتے ہیں۔ان کی مشہور نظمیں زیل میں ہیں۔ سربام، گلی کا چراغ، جوانی کی کہانی، التماس اور کون۔
نازنیں اجنبی شہر محبت ہوں میں
میں تیرے دیس کے اطوار سے نا واقف ہوں
مجید امجد کے ہاں تصور حسن پایا جاتا ہے۔ انہوں نے ایسا حسن پیش کیا۔ جس میں فطرت اور محبت کے عناصر نظر اتے ہیں۔ حسن و عشق کے ساتھ ساتھ محبوب کی سراپہ نگاری بھی پائی جاتی ہے۔ ان کی نظم "توسیع شہر” سے شہر سے شعر ملاحظہ ہو:
شام کے وقت کوہ کا منظر جیسے بھولا ہوا طلسمی خواب
مجید امجد کی شاعری فطرت کے گرد گھومتی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں فطرت کو ایسے بیان کرتے ہیں جیسے فطرت سے بہت لگاؤ ہو۔ اس حوالے سے ان کی نظم "کوہستان کے سفر کے دوران”, "توسیع شہر” "بھری بھری فصلوں”
مجید امجد کی نظموں میں باقیات محل دستاویزات تک محدود نہیں۔ ان کی شاعری سوچ میں لگاؤ پیدا کر رہی ہے۔ ںھ ان کے ہاں مناظر فطرت کی عکاسی بھی ملتی ہے۔
اسی لیے انہیں فطرت کا شاعر بھی کہتے ہیں۔
مجید امجد سماج کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں سماجی، تاریخی اور تہذیبی شعور پایا جاتا ہے۔ وہ کسی بھی تحریک سے وابستہ نہیں تھے۔ انہوں نے جرنیلوں سے پلٹ کر سماج پر لکھا ہے تہذیب میں وہ سانس لے رہے تھے اس تہذیب کی عکاسی اپنی شاعری میں کی۔ انہوں نے معاشرے اور زندگی گزار کر چلے گئے۔اس معاشرے کا بیان مجید امجد کے کلام میں واقع سطح پر اسی طرح کا رد عمل ملتا ہے۔ مجید امجد، راشد اور فیض سے اس لیے الگ ہیں کہ ان کی شاعری میں معاشرت کا بیان ان کی نسبت مشہور ہے۔ ان کی نظم "روز و شب دیکھتا ہوں” میں:
یہ دنیا بے ربط سی ایک زنجیر
یہ دنیا نامکمل یہ ایک تصویر ہر دنیا میرے خوابوں کی تعبیر
رشید امجد کی شاعری میں سماجی اور سیاسی منظر پایا جاتا ہے۔ سماج میں وہ طبقاتی کشمکش پہ بات کرتے ہیں۔ سماج پر ایسی منظر کشی کی وہاں پر واقعہ نگاری سے بھی کام لیا۔ سماج سسٹم کی مخالفت بھی کی۔مجید امجد کا یہ خاصہ تھا کہ سادہ اسلوب میں گہری بات کرتے تھے۔ ان کی نظموں میں طبقاتی فضا کا شعور ہے۔ ترقی پسند تحریک کے عناصر ملتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کا عام آدمی ان کا موضوع رہا۔ وہ باقاعدہ طور پر کسی تحریک سے وابستہ نہ تھے۔ میں پاکستان کے بعد سب سے بڑا مسئلہ جو لوگ ہجرت کر کے آئے تھے۔ ان کے لیے گھروں کا بندوبست کرنا تھا۔ 1947ء کا واقعہ ہر فرد کے لیے داخلی تکلیف کا سبب بنا۔ جہاں تعلیم کے اثرات ہر شعبے پر پڑے اور سب پر بھی پڑے۔
اگر اس مقدس زمیں پر میرا خون نہ بہتا
اگر دشمنوں کے گرانڈھیل کے نیچے میری کھڑکڑاتی ہوئی ہڈیاں خندقوں میں نہ ہوتی
مجید امجد نے وقت کی گردش کو محسوس کیا۔ شاعری میں ٹھہراؤ نہیں ملتا۔انہوں نے وقت کے اندر ہی اپنی زندگی کو ڈھالا اور اپنی شاعری میں جدید لوگوں کو جگا دی۔مجید امجد اس دور کا وہ واحد فلسفی ہے۔ جس کے ہاں سب سے زیادہ جو تصور ابھرا ہے۔ وہ وقت کا احساس جاری رکھنا ہے۔کبھی کبھی نواسہ لکھنا ہے ان کے ہاں خدا کا متبادل وقت ہے شعر ملاحظہ ہو:-
ظہور کو نو مکاں چکا سب میں ہوں
نظام سلسلہ روز شب فقط میں ہوں
موت کا تصور رومانوی رویے سے ابھرتا ہے۔ وہ زندگی کا قائل ہے جس میں زندگی کی خوشیاں ہوں ان کے نزدیبک تصور ہے کہ موت کی جستجو کوئی نہ کرے زندگی کے کم وقت کے لیے ہے۔ ہمیں طریقے سے وقت گزارنا چاہیے۔ اگر کوئی بندہ عشق میں ناکام طور پر اظہار نہ کرے بلکہ لطف اندوزی میں ظاہر کرنے لگے۔ ان کی نظمیں زیل میں ہیں۔ خود کشی، رخصت، شرط
ہئیتی تجربات کے چار انداز ملتے ہیں پہلا دور آغاز سے 1940ء، دوسرا دور 1941ء سے 1958ء، تیسرا دور 1959ء سے 1966ء, چوتھا دو 1967ء سے 1974ء۔
ان میں امجد نے مثنوی، ترکیب بند، ترجیح بند، مسدس کو بڑے شوق سے لکھا۔ اس حوالے سے صبح جدائی، صبح نو، قیدی دوست نظمیں اہم ہیں۔
کاش میں تیرے گن گوش میں بندہ ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں
تو تیرے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تیری زلفوں سے باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا تیرا اتنا ملول
تین مصروں پر مشتمل نظم کو مثلث کہتے ہیں مجید امجد نے مثلث کی ہیت پر بھی نظمیں لکھی ہیں۔ اس حوالے سے نظم مطلوع عرض میں ہے:
بہتی راوی تیرے نٹ پر کھیت اور پھول اور پھل تی ہزار برس بوڑھی تہذیبوں کی پھل بل
دوستیوں پہ جیوت جوڑی ایک ہالی اور ایک پل
علامت نگاری کسی چیز کو علامت بنا کر معاشرے کا نقشہ قائم کرنا ہے۔ سن کی مشہور نظمیں یہ ہیں۔
کنواں، ایک کوہستانی سفر کے دوران میں،گاڑی میں، توسیع
آپ کی راۓ