ن م راشد کا اصل نام نذر محمد راشد ہے۔ آپ 1910 ء کو اکال گڑھ جو کہ گوجر انوالہ کا قصبہ ہے’ وہاں پر پیدا ہوئے ۔ انکے دادا راجا غلام رسول چشتی طیب عالم اور شاعر بھی تھے۔ راشد صاحب کے والد راجا فضل چشتی بھی شعری ذوق رکھتے تھے۔ انھیں فارسی شاعری سے بہت لگاؤ تھا۔
آپ 1926ء میں گورنمنٹ سکول اکال گڑھ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اسی سال اعلیٰ تعلیم کے لئے گورنمنٹ کالج لائل پور میں داخلہ لے لیا۔ آپ نے 1928ء میں یہاں سے
انٹر کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور کے ادبی مجلہ” راوی” کے ذمہ دار
ایڈیٹر بنے۔. انھوں نے عملی زندگی کا آغاز ملتان میں کمشنر آفس میں
معمولی ملازمت سے کیا۔ 1933ء میں راشد کو
بطور ڈائریکٹر
آل انڈیا ریڈیو میں اچھی ملازمت مل گئی۔
1943ء میں انھیں فوج میں عارضی کمیشن ملا۔ انھوں نے مختلف ممالک میں بطور ” پبلک ریلیشنز آفیسر” اپنی خدمات بھی سر انجام دیں۔
آپ 1948ء میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد ریجنل
ڈائر یکٹر کے طور پر مختلف ریڈیو اسٹیشنوں پر کام کرتے رہے۔ 1952 ء میں انھوں نے اقوام متحدہ میں ملازمت اختیار کرلی ۔ مختلف ممالک میں بطور ڈائریکٹر اطلاعات بھی کام کیا ۔ 1973 ء میں انھوں نے باقاعدہ ریٹائر منٹ لے کے’ لندن میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور یہیں پر 19 اکتوبر 1975ء کو انتقال کر گئے۔
راشد کو بچپن سے ہی علمی وادبی ماحول میسر رہا اس لئے وہ شروع سے ہی شعر و سخن کی طرف مائل تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس شوق میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ وہ پوری توجہ سے لکھنے کی طرف راغب رہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ زمانہ طالب علمی ہی سے بطور شاعر معروف ہو گئے۔
راشد صاحب کی تصانیف ذیل میں ہیں:-
ماورا
"ایران میں اجنبی”
"لا =انسان”
"گمان کا ممکن”
راشد کی نظموں میں سماجی ذمہ داری کا احساس پایا جاتا ہے۔ وہ ایک نئے جہان کی تلاش میں ہیں۔ اس حوالے سے اسکی نظمیں زیل میں ہیں:-
"وادی پنہاں”
"رقص”
"اتفاقات”
"رات کے سناٹے”
"دریچے کے قریب”
"انتقام”
"اجنبی عورت”
"نمرود کی خدائی”
"تیل کے سوداگر”
” اتفاقات”، "رات کے سناٹے” ، "دریچے کے قریب”
ن م راشد کے ہم عصر شعرا میں "مجید امجد”، "ناصر کاظمی”، "منیر نیازی”، "فیض احمد فیض”، "میرا جی” اور "فراق گورکھپوری” شامل ہیں۔ "حلقہ ارباب ذوق” اور علامہ اقبال کی ” مشرقی تحریک” سے وابستہ رہے ۔ راشد صاحب نے مروجہ روایات کو توڑا ترقی پسند نظریات سے بغاوت کی۔ ن م راشد نے روایت سے انحراف کیا۔ اسی بنا پر وہ "باغی شاعر” کہلائے۔ بقول ن۔م راشد:-
اس مینار کے سائے تلے کوئی یاد ہی ہے
اپنے بےکار خدا کی مانند
قدیم اردو شاعری
میں اگر تصور انسان دیکھا جائے تو وہ مختلف رنگوں میں ملتا ہے۔ میر تقی میر اپنے غم میں رہنے والے، غالب انا پرست انسان ہیں۔ نظیر اکبر آبادی کے ہاں انسان دوستی کا تصور ملتا ط ہے۔ لیکن
راشد کے ہاں ایسا انسان ہے ۔ جو خواب دیکھتا ہے۔ غلامی کی زنجیروں کو توڑنا چاہتا ہے۔ بلکہ وہ خدا کو بھی تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ ہی جدیدیت کی خصوصیات ہیں۔ بقول شاعر:-
دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو
وہیں رہا ہے شب و روز پیچ و تاب انھیں
سماجی ذمہ داریوں اور نئے جہاں کی تلاش کے حوالےسے انکی نظم "وادی پنہاں” کا شعر ملاحظہ ہو۔
مجھ کو ہے اب تک تلاش زندگی کے تازہ جولاں گاہ کی اور بے زاری سی ہے
ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں کہ
” یہ نہیں ہے کہ راشہ خدا کے منکر ہیں۔ انھوں نے بہت سی نظموں میں مغرب کے خدا کے
وجود کو تسلیم کیا ہے اور مشرق کے خدا سے انکار کر کے دراصل خدا کی نا انصافی کو نشانہ طنز بنایا ہے۔”
راشد اپنے جذبات
کا بر ملا اظہار کرتا ہے۔ وہ معاشی اور معاشرتی استحصال کرتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں پردہ داری کا خیال بھی نہیں رکھتا۔
اس تخت خواب کے نیچے جگہ
آج میں نے دیکھ پایا ہے لہو
تازہ درخشاں لہو
علامت نگاری بھی راشد صاحب
کے ہاں پائی جاتی ہے۔ راشد نے روایت سے ہٹ کر شاعری کی۔ انکی نظموں میں علامت نگاری کا جو انداز پایا جاتا ہے۔ وہ ہماری پرانی شاعری سے بالکل ہٹ کر ہے ۔
ن۔م راشد کی شاعری میں تشبیہات و استعارات کا بھی استعمال پایا جاتا ہے۔ انکی نظم "آنکھوں کے جال”
کا شعر ملاحظہ ہو:-
ہے عشق کا ہیجان آدھی رات اور تیرا شباب
تیری آنکھ اور میرا دل عنکبوت اور اسکا بے چارہ شکار
احمد نذیر لکھتے ہیں کہ ۔
"نظم آزاد میں قافیے اور ردیف میں سخت پابندی اور نجات مل جانے کی وجہ سے نئی طرح کی ٹھوس تشبیہات چلتی پھرتی زندگی سے آتی ہیں۔ کبھی کبھی ان میں مشاہدہ اور
احساس ایک ہو جاتا ہے۔”
ان کی شاعری میں تلمیح کا استعمال بھی نظر آتا ہے۔ وہ تاریخی واقعات و حادثات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بناتا ہے۔
کر چکا ہوں آج عزم آخری
شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوک زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی بلند
ڈاکٹر آفتاب احمد لکھتے ہیں:-
” راشد نے بعض تاریخی اور مذہبی تلمیحات کو جس طرح اپنی جدید طرز احساس کی نظموں میں استعمال کیا ہے۔ اسکی مثال نہیں ملتی ۔”
راشد کی نظموں میں ترکیب سازی بھی ملتی ہے ۔ انکی نظموں میں فارسی تراکیب بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب احمد لکھتے ہیں کہ:-
راشد کے مزاج کی کلاسیکیت اور اسکے مفت آور انتخاب الفاظ سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اسکے ہاں فارسی استعمال
غالب ہے۔”
ن م راشد نے بیت سے انحراف کیا ہے۔ انکی شاعری میں ردیف قافیہ، مقطع، مطلع نہیں پایا جاتا۔ وہ اپنی مرضی جو کچھ معاشرے میں ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ اسی کو لکھ رہا ہے۔ جیسا کہ جدید نظموں میں موسیقیت کا عنص ختم ہوچکا ہے لیکن راشد کی نظموں میں
مو سیقیت پائی جاتی ہے۔
اس حوالے سے انکی نظم "آنکھوں کا فسوں” قابل ذکر ہے۔
ہے تیرے باتھوں میں مگر لرزش ہے کیوں ؟
کیوں تیرا پیمانہ ہونٹوں سے تیرے ہٹتا نہیں
خام و نو آموز ہے تو ساحره
کر رہی ہے اپنے فن کو آشکار
کیونکہ راشد ایک باغی شاعر ہے۔ اس نے ہیئت سے انحراف کیا۔راشد صاحب اپنے مشاہدے اور تجربات سے اپنے عہد کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔
کرشن چندر لکھتے ہیں :-
میرے خیال میں فنی و فکری اعتبار ” دریچے کے قریب” بہترین نظم ہے۔ شاعر اپنی محبوبہ کو صبح کے وقت اپنی خوابگاہ کے دریچے سے ایک مشرقی شہر کا نظارہ کراتا ہے ۔ اور پرانی مسجد کے مینار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔”
آ میرے پاس در بچے کے قریب دیکھ کسی پیار سے انوار سحر چومتے ہیں
مسجد کے میناروں کو
راشد کی نظموں میں
اساطیری تہذیب بھی ملتی ہے۔ وہ دیو مالائی تہذیب کو بھی اپنی شاعری میں شامل کرتے
ہیں-
راشد لکھتے ہیں کہ:-
الہیٰ تیری دنیا میں ہم انسان رہتے ہیں
غریبوں، جاہلوں، مردوں کی’ بیماروں کی دنیا ہے
یہ دنیا بے کسوں’ لا چاروں کی دنیا ہے
ن۔م راشد موضوعاتی سطح پر صرف مذہب سے انحراف ہی نہیں کرتے بلکہ مذہب کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ سن کے ہاں مذہب سے انحراف نہیں کے ساتھ ساتھ تمثیل نگاری بھی پائی جاتی ہے۔
ریگ صبح عید کی مانند زرتاب و جلیل
ریگ صدیوں کا جمال
ن۔م راشد تہذیبی عناصر کو بھی اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً حمد و ثناء، صحرا ، گھاس اور بلب وغیرہ
انکی نظم ” تسلسل کے صحرا میں ” یہ سب پایا جاتا ہے۔
تسلسل کے صحرا میں
اک ریت ٹیلے کی آہستہ آہستہ ریزش
کسی گھاس کے نا مکمل جزیرے میں اک جاں بل
آپ کی راۓ