اٹھارہویں صدی عیسوی میں کشمیر کا حکمران مہتہ خان تھا۔ جس نے اپنی طاقت کا غلط اور بے
جا استعمال کر کے بیشتر ہندو خاندانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ۔ ہجرت کر نیوالے خاندانوں میں اُردو کے چند مشاہیر افراد کے خاندان بھی تھے۔ جو بعد میں اردو ادب کے لیے قیمتی سرمایہ ثابت ہوئے۔ ان میں مومن خان مومن، دیا شکر نسیم ، رتن ناتھ سرشار ، چکبست، اقبال ، آغا حشر کاشمیری ، آنند نرائن ملا اور علاقہ کیفی جیسی شخصیات شامل ہیں۔ اسی فہرست میں سعادت حسن منٹو کا نام بھی شامل ہے۔ جو اردو افسانے میں نہایت اہم اور معتبر شخصیت ہیں۔ سعادت حسن منٹو کے آباؤ اجداد عرصہ دراز سے کشمیر میں مقیم تھے۔ تھے۔ مہتہ خان کے مظالم سے تنگ آکر وہ بھی کشمیر سے ہجرت کر کے (ہندوستان) پنجاب چلے گئے ۔ وہاں جا کر ان کے آباؤ اجداد نے اسلام قبول کرلیا۔ اس سے پہلے کشمیر میں وہ ہندو پنڈت تھے۔ منٹو کو اس بات پر بہت ناز تھا کہ ان کا تعلق کشمیر سے ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے کہ انسان اپنی جائے پیدائش سے بے پناہ اور بے لوث محبت کرتا ہے اور منٹو میں یہ عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اگر انہیں کوئی بھی کشمیری دوست یا پھر کوئی اجنبی مل جاتا۔ تو بہت گرمجوشی سے اُس کا استقبال کرتے، گھنٹوں اُس کے ساتھ محو گفتگو رہتے اور سگریٹ بجھتے ہی نہیں دیتے۔ وہ بار بار اُنہیں باور کرواتے کہ میں کشمیری ہوں۔ پھر اسی دوران اُٹھ اُٹھ کر بیگ چڑھا کردوبارہ کشمیر ہی کی باتوں میں مصروف ہو جاتے۔ اور نہ صرف منٹو بلکہ اُن کا پورا خاندان کشمیر سے دور ہونے کے باوجود کشمیر سے ایک دلی اور والہانہ محبت رکھتا تھا۔ خاص طور پر منٹو کے والد کشمیری وضع کی ٹوپی اپنے سر پر رکھتے تھے- اگر انہیں کوئی کشمیری مزدور مل گیا تو اُن کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہتی ، وہ اُسے اپنے ساتھ گھر لے آتے ۔ بیٹھک میں بٹھا کر اسے چائے پلاتے، کھانا کھلاتے اور گھنٹوں اُس سے باتیں کرتے رہتے۔ منٹو کو ایسے کشمیریوں سے سخت نفرت تھی جو اپنی بیویوں کے ساتھ سخت رویہ رکھتے ہیں لیکن اس بات کے عملی طور پر شواہد نہیں ملتے ۔ وہ پورا کشمیر نہیں دیکھے تھے اور انھیں اس بات کا بے حد افسوس تھا ۔ جب علی گڑھ یونیورسٹی سے اُنہیں۔ تپ دق کا مریض قرار دے کر نکال دیا گیا تو وہ 1930ء کے لگ بھگ تین ماہ کے لیے کشمیر آئے تھے۔ کشمیر سے دلی و جذباتی لگاؤ رکھنے کے باوجود منٹو کی وضع قطع میں کشمیری رنگ نظر نہیں آتا تھا۔
مشہور ہے کہ ان کے پدر بزرگوار ایک وقت میں ڈیڑھ سیر یا من وٹی چاول کھا گئے تو ان کا نام "منٹو” پڑ گیا ۔ اس خاندان میں پنڈتوں کی سارسوات برہمن شاخ کا تذکرہ ملتا ہے۔ ہندوستان میں شاہمیری سلاطین کے دور میں ، جب بہت سے کشمیری خاندانوں نے اسلام قبول کیا تو عین ممکن) ہے کہ منٹو کے جد اعلی خواجہ رحمت اللہ (جن سے امرتسر کے منگو خاندان کا سلسلہ چلا) نے تب ہی اسلام قبول کیا ہو۔ ان کا خاندان سنی فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔اس حوالے سے مشہور کشمیری مورخ محمد الدین فوق کا کہنا ہے کہ
"کہتے ہیں ان کا بزرگ ایک ہی وقت شرط باندھ کر ڈیڑھ سیر یا من وٹی چاول کھا گیا تھا۔ اس وقت سے اس کا نام منٹو پڑ گیا۔ اس قوم میں ہندو مسلم دونوں شامل ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ من وٹی چاول کھانے والا اصل بزرگ پنڈت تھا۔ اس کی اولاد
میں سے جو بھی مسلمان ہوا ، وہ بھی منٹو ہی کہلایا”۔
( ۱: تاریخ اقوام کشمیر، جلد دوم، صفحہ نمبر 13)
منٹو کے جد امجد خواجہ رحمت الله کو ہی قرار دیا گیا ہے ان سے پہلے کا شجرہ نسب موجود نہیں ہے۔ یہ منٹو سے پانچویں پشت پر موجود ہیں ۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بزرگ اٹھارہویں صدی کے آخر میں پیدا ہوئے یا انیسویں صدی کے شروع میں ان کی ولادت ہوئی ہوگی ۔ یہ پیشے کے اعتبار سے سود اگر تھے۔
منٹو کے آبا چونکہ کشمیر میں دریائے سرسوتی کے کنارے آباد تھے۔ لہذا منٹو کشمیری پنڈتوں کی سار سوات برہمن شاخ کا حصہ تھے۔ "منٹو اور من وٹی” یہ دونوں ہی کشمیری پنڈتوں کی ذاتیں تھیں۔
یہ سرکاری ٹیکسوں کی وصولی کرنے والے سرکاری عہدیداران تھے۔ لفظ منٹو کشمیری زبان کے لفظ "منٹ” نکلا ہے جو کشمیری زبان میں تقریبا ڈیڑھ سیر کے قریب وزن کو کہتے ہیں ۔ وقت کی تیز روش سے یہ لفظ متاثر ہو کر منٹو بن گیا۔ خواجہ رحمت اللہ جنہوں نے من وٹی چاول کھائے’ تو ان کی اولاد میں سے جو ہندو ہی رہے۔ وہ من وٹی کہلائے اور جو مسلمان ہو گئے۔ وہ منٹو کہلائے ۔ اب کشمیری زبان میں "منٹ” تولنے والے ترازہ کو نہیں کہتے بلکہ اس سے مراد وزن لیا جاتا ہے ۔ سو معلوم ہواکہ منٹو کے نام کے پیچھے ان کے خاندان کا دولت مند ہوتا تھا اور اسی امیری کی بنا پر منٹو پورے خاندان کا نام پڑ گیا’ جو مسلمان ہو گئے انہوں نے اسی نام پر اکتفا کیا اور جو ان کے خاندان میں سے ہندوؤں کے مذہب پر قائم رہے وہ ” من وٹی” کہلائے چونکہ منٹو مذیب کے اعتبار سے مسلمان ہو چکے تھے۔ اسی لیے ان کا نام "سعادت حسن منٹو” رکھا گیا۔ لفظ سعادت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے "نیک ، خوش قسمت” جبکہ لفظ حسن سے مراد "اچھا ، احسن” وغیرہ۔ لفظ منٹو ان کی خاندانی نسبت کو ظاہر کرتا ہے۔ یوں ان کے پورے نام کا معنی نیک نصیب والا ، خوش قسمت انسان ، ایسا انسان جو اقبال مندی کے درجے پر فائز ہو۔ جس کی قسمت اُس کا بھر پور ساتھ دے۔منٹو 11 مئی 1912ء کو ضلع لدھیانہ کے علاقہ سمبرالہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام مولوی غلام حسین تھا۔ انہوں نے دو شادیاں کیں تھیں اور ان کی اولاد کی تعداد تقریبا بارہ ہے ۔ لفظ منٹو کے بہت سے تلفظات اردو میں موجود ہیں۔ سعادت حسن منٹو کے مطابق ہی ، کشمیر میں مختلف ذاتوں کے مختلف نام تھے۔ مثلاً "کچلو”، "نہرو” اور "سیرو” وغیرہ ، انہی میں منٹ، کشمیری زبان میں تولنے والے "بٹے” کو کہتے تھے۔ سو منٹو کے آباؤ اجداد کافی امیر تھے کہ وہ اپنی دولت کو بٹوں میں تو لا کرتے تھے۔ اس لیے وہ منٹو مشہور ہو گئے۔
اس حوالے سے ابو سعید قریشی لکھتے ہیں کہ:
"سعادت کہا کرتا تھا کہ”منٹ” کشمیری زبان میں ترازو کو کہتے ہیں۔ کشمیر میں ہمارے آباؤ اجداد کے یہاں دولت ترازو سے تلتی تھی۔ اس رعایت سے ہم منٹو کہلائے”
(۲: ابو سعید قریشی ۔ منٹو – صفحہ نمبر 21)
جس دوران منٹو بمبئی میں فلم کمپنی سے واستہ تھے تو اس دوران یہ افواہ بہت زور و شور سے پھیلی کہ منٹو کسی فلمی ادار کارہ کے عشق میں گرفتار ہو گئے ہیں ۔ جب یہ خبر ان کی والدہ تک پہنچی تو انہیں اپنے جوان بیٹے کی فکر ستانے لگی کہ کہیں وہ سچ سچ کسی کے دام فریب نہ آجائے تو انہوں نے بمبئی میں آکر سکونت اختیار کرلی۔ یہاں منٹو کی شادی شدہ بہن رہتی تھی۔ منٹو کی والدہ بھی اپنی بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر ہوگئیں۔ اس دوران منٹو نے ایک ٹوٹا پھوٹا سا گھر 9 روپے ماہوار کرائے پر لے لیا۔ منٹو کے تعلقات اپنے بہونئ کے ساتھ انتہائی خراب تھے۔ اس لیے وہ اپنی بہن کے گھر نہیں جاتے تھے۔ جب ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو گردشِ دوراں کے رحم و کرم پر اس طرح دیکھا تو بیٹے سے شادی کی بات کی کہ اس کی زندگی میں رنگینی پیدا ہو سکے۔ پہلے پہل تو منٹو نے انکار کیا لیکن ماں کے اصرار کے سامنے انہوں نے گھٹنے ٹیک دیئے۔
دلہن کے لیے "صفیہ بیگم ” کو چنا گیا۔ جن کا خاندان عرصہ دراز سے افریقہ میں قیام پذیر تھا لیکن خاندانی طور پر وہ کشمیری تھے۔ ان کے چچا "خواجہ شمس الدین” افریقہ کی پارلیمنٹ کے رکن بھی تھے۔ بھتیجی کے لیے لڑکا (منٹو) دیکھنے بمبئی پہنچ گئے۔ حالانکہ منٹو نے اپنے تمام تر حالات چچا خواجہ کے سامنے رکھے۔ اُن سے کچھ بھی نہیں چھپایا لیکن پھر بھی انہوں نے یہ رشتہ منظور کر لیا ۔یوں نکاح کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ اس بات پر منٹو خود بھی بہت حیران تھے۔ان کی جبیب بالکل خالی تھی۔ فلم کمپنی سے انہوں نے ڈھائی ہزار روپے وصول کرنے تھے’ جبکہ کمپنی کی طرف سے منٹو کو ایک پیسہ نہ ملا۔ البتہ کمپنی کے مالک کے سامنے یہ صورتحال آئی تو اس نے اپنی گرہ سے 500 روپے تک کے زیورات کا انتظام کیا۔
صفیہ بیگم کے والد افریقی پولیس انسپکٹر تھے جو ایک حادثے میں قتل ہو گئے تھے۔ منٹو کا نکاح صفیہ بیگم سے ہوا لیکن رخصتی فوری طور پر نہیں ہوئی ۔ بمبئی میں اُن کے سسرال رہتے تھے۔ ان کے بھر پور اصرار پر منٹو شام کا کھانا ان کے گھر کھاتے تھے۔کبھی کبھار اُن کی نظر اپنی منکوحہ پر پڑجاتی۔ وہ ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔ فقط یہ کہ اُن میں
بہت سی باتیں مشترکہ تھیں۔
اس حوالے سے انہوں نے اپنے دوست احمد ندیم قاسمی کو ایک خط میں لکھا کہ :
"میری شادی ؟ میری شادی ابھی مکمل طور پر نہیں ہوئی۔ میں صرف جان پایا ہوں کہ میری بیوی لاہور کے ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا باپ مرچکا ہے ۔ میرا باپ بھی زندہ نہیں۔ وہ چشمہ لگاتی ہے۔ میں بھی چشمہ لگاتا ہوں۔ وہ – 11مئی کو پیدا ہوئی ۔ میں بھی 11 مئی کو پیدا ہوا تھا۔ اُس کی کی ماں چشمہ لگاتی ہے۔ میری والدہ بھی چشمہ لگاتی ہے ۔ اس کے نام کا پہلا حرف بھی "S” ہے اور میرے نام کا پہلا حرف بھی "S” ہے۔ ہم میں اتنی چیزیں Commen ہیں ۔ بقایا حالات کے متعلق میں خود بھی نہیں جانتا ”
( ۳: احمد ندیم قاسمی، منٹو کے خطوط، صفحہ نمبر 41)
منٹو رات کا کھانا اپنے سسرال سے کھا کر واپس اپنی اُسی جگہ آجاتے۔ یعنی 9 روپے کرائے والے ٹوٹے پھوٹے گھر میں سوتے۔ منٹو رخصتی جلدی چاہتے تھے لیکن اُن کے پاس رہنے کے لیے کوئی اچھا گھر بھی تو نہیں تھا ۔ رخصتی سے پہلے انہوں نے ایک فلیٹ خریدا۔ جس کا کرایہ 35 روپے تھا ۔ اُس وقت اُن کی تنخواہ 40 روپے تھی یعنی فلیٹ کا کرایہ ادا کرنے کے بعد صرف 5 روپے باقی بچتے تھے۔ وہ اپنے معاشی حالات سے پریشان تھے۔ اس دوران انہوں نے فلم
"اپنی نگر” کی کہانی بھی لکھی ۔ اُس کا معاوضہ انہیں ملا۔ پھر ان کو 500 روپے فلم کمپنی کی طرف ملے تو انہوں نے گھر کے لیے ضروری سامان خریدا۔ بارات کے دن سب خریداری مکمل کرنے کے بعد منٹو کی جیب میں صرف ساڑھے چار آنے باقی بچے تھے۔ انہوں نے یہ بات اپنی بہن سے ٹیلی فون پر کی کہ میں تو بارات کی تیاری کر رہا ہوں لیکن جیب میں صرف ساڑھ چار آنے باقی بچے ہیں۔ اتنے میں تو سگریٹ اور ماچس کی
ڈبیا ہی آئے گی۔ ان کی بارات 26 اپریل 1939ء کو صفیہ بیگم کے گھر گئی۔ ان کی شادی میں فلمی حلقے کئ اداکاراؤں، ڈائریکٹروں اور کئی افراد مرزا مشرف ، بابور راؤ پٹیل، ہیروئن پدما دیوی، ڈی بلموریا ، ای بلموریا نے شرکت کی ۔ اس طرح صفیہ بیگم منٹو کی شریک حیات بن کر ان کے گھر مستقل طور پر آگئیں۔ ان کے آنے سے منٹو کی زندگی میں چہل پہل سی ہونے لگی ۔ فطری طور پر صفیہ بیگم سلیقہ شعار، بلند حوصلہ شریک حیات ثابت ہوئیں۔ جنہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر منٹو کا ساتھ دیا۔ 1940ء میں ان کا پہلا بچہ عارف پیدا ہوا۔بچپن سے لے کر عمر کے آخری حصے
تک منٹو کی ہر ادا غیر روایتی اور نرالی تھی ۔ انہوں نے ہمیشہ دوسروں سے الگ راہ اپنائی ۔ وہ اس راہ پر نہ چلتے تھے۔ جس پر سب لوگ جلتے تھے بلکہ وہ خود کو منفرد بناتے تھے ۔ اگر ان کی زندگی پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ والد کی وفات کے بعد اُن کے رشتہ داروں نے اُن کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا۔ ان کے حقوق سلب کیے۔ انہیں تنقید و مخالفت کا نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجہ کے طور پر منٹو میں خود اعتمادی کی کمی ، احساس کمتری پیدا ہو گئی ۔ انسانی رشتوں پر سے ان کا اعتماد اُٹھ گیا۔ یوں بچپن ہی سے ان کی زندگی. میں ایک کمی سی رہ گئی ۔ جو اخیر دم پھر کبھی پوری نہ ہوئی۔ انہوں نے روایت پرستی سے گریز کیا اور فنی صلاحیتوں کو اپنے معیار پر تو لا- انہیں مطالعہ کا بھی بے حد شوق تھا جو ان کی آئندہ زندگی میں بے حد فائدہ مند ثابت ہوا۔
بچپن میں ایک بار ایک شعبدہ باز اللہ رکھا کے ساتھ بھرے ہجوم کے سامنے ننگے پاؤں انگاروں پر چلے اور اُف تک نہیں کہا۔ یہ واقعہ اُن کی جرات اور نفسیاتی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ بطور تخلیق کار ان کی آنیوالی زندگی میں اُن کا معاون ثابت ہوا۔ زندگی کی تلخیوں کے سامنے انگاروں پر چلنا کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ بدنامی بھی اُنہیں داغدار نہ کر سکی بلکہ وہ بلند حوصلے سے زندگی کے مصائب کا سامنا کرتے رہے۔ انہیں مشہور ہونے کے لیے ہر جائز و نا جائز طریقہ استعمال کرنا پڑا۔ شرارتیں کرنا اور شوخ مزاجی ان کا خاصہ تھی۔
شہرت کے لیے انہیں افواہیں پھیلانے نے کا بھی بہت شوق تھا۔ ان کی افواہیں بہت دلچسپ اور لوگوں کو حیران کر نیوالی ہوتی تھیں۔ وہ ایک ہی دن میں دوسرے شہر تک پہنچ جائیں۔ ان کا بچین مالی مشکلات سے بھرا ہوا تھا ۔ وہ شوخ مزاج نوجوان تھے۔ ان کی شوخیوں میں جا بہ جا سیماب مزاجی نظر آتی تھی ۔ ان کی طبیعت میں اضطراب تھا۔ بے چینی تھی کہ بڑھتی چلی جاتی تھی۔ آوارہ گردی اور قمار بازی ان کی طبیعت میں رچ بس گئی۔ انہوں نے جوے سے بھی اپنے دل کو بہلانے کی کوشش کی ۔ دل کے سکون کے لیے کبھی خود کو انقلاب کے دلاسے سے بہلاتے ، کبھی فرضی محبوباؤں کے خیالات سے آباد کرتے۔ قبرستانوں میں تنہا پھرنا، تکیوں کا رُخ کرنا، شراب، جوا، نشہ، رنڈی بازی، آوارہ گردی سمیت ہر طرح کے مشغلے کو منٹو نے اپنایا ۔ زندگی کے تلخ تجربات نے منٹو کو حقائق زیست سے آشنا کیا۔ انہیں کتب بینی کا بھی شوق تھا۔ کوٹھوں پر جانا، رنڈیوں کی زندگی، عورت کے معاشرتی مقام سے آگہی، مرد کی ہوس ناک فطرت غرضیکہ ان تمام عوامل کے نقوش منٹو کے بچپن پر نقش ہو گئے۔ انہوں نے اپنے ابتدائی ایام میں آسودگی نہیں دیکھی بلکہ رنج والم کا سامنا کیا۔ تو ان کی فطرت امیر لڑکوں سے قطعا مختلف تھی۔ اُن کا ذہین ہمیشہ کسی نہ کسی خلش اور اضطراب کا شکار رہتا تھا۔
اس حوالے سے منٹو خود لکھتے ہیں کہ:
"یہ وہ زمانہ تھا جب میں نے آوارہ گردی شروع کی تھی۔ طبیعت ہر وقت اچاٹ رہتی تھی۔ ایک عجیب قسم کی کھد بدب ہر وقت دل و دماغ میں ہوتی رہتی تھی”۔
(۴: سعادت حسن منٹو، لاؤڈ سپیکر صفحہ نمبر 230)
تپ دق کے مرض نے اُن کے پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچایا ۔ اس بیماری نے اُن کے لیے حصول تعلیم کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے منقطع کر دیا لیکن اب زندگی گزارنے کے لیے ملازمت کا حصول بھی ضروری تھا۔ بیوی بچوں کو پالنے کے لیے وہ تلاش معاش کے لیے لاہور آئے۔ "انجمن حمایت اسلام” کے ادارہ تحریر میں شامل ہوئے۔ ان کی طبیعت کو یہ نوکری بھلی نہ لگی پھر
"لالہ کرم چندے” کے "پارس” میں ملازمت اختیار کرلی ۔ تنخواہ تو چالیس روپے مقرر ہوئی لیکن دس پندرہ روپے ماہوار ہی ملنے لگے۔
انہوں نے موہنی ہاسٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لیا۔ جس کا کرایہ پانچ روپے تھا۔ اُس کا ارد گرد کا ماحول انتہائی آلودہ اور عجیب سا تھا۔
اس حوالے سے ابو سعید قریشی لکھتے ہیں کہ:
"ہاسٹل ایسے علاقے میں تھا جہاں بد روحیں وغیرہ نہیں بنی تھیں۔ ادھر ادھر کھیتوں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پڑے رہتے تھے ۔ ادھر پانی اکھٹا رہتا تھا۔ چنانچہ ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ مچھروں کے چھینٹے آتے اور کانوں میں ہوائی جہاز گونجتے” ۔
(۵: ابو سعید قریشی ، منٹو، صفحہ نمبر 71)
اخبار بارس میں ان بے باک صحافت کے لیے کوئی جگہ نہ تھی بلکہ جھوٹ اور غلاظت اس اخبار کا خاصہ تھی لہذا انہوں نے خود ” پارس” اخبار سے ملازمت ختم کردی۔منٹو صرف بائیس سال کے تھے۔ جب وہ بمبئی میں نزیر لدھیانوی کے فلمی رسالہ "مصور” کے ادارہ تحریر کا حصہ بنے – یہ تقریبا 1936ء کا زمانہ تھا۔ یہاں منٹو کی تنخواہ چالیس روپے مقرر ہوئی لیکن رہائش کا کوئی معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اخبار کے دفتر میں رات ٹھہرنا پڑتا اور اس مد میں دو روپے اُن کی تنخواہ میں سے کاٹ لیے جاتے۔ تھوڑے ہی عرصے میں "مصور” کی کافی شہرت ہوئی۔ نذیر لدھیانوی کو منٹو سے بہت ہمدردی تھی۔ وہ چاہ کر بھی منٹو کی تنخواہ نہ بڑھا سکے۔ پھر منٹو مشہور صحافی راؤ پٹیل کی فلم
"پر بھات”. کے خلاصے کا ترجمہ کیا جو بہت مشہور ہوا۔
امپیریل فلم کمپنی میں ان کی تنخواہ چالیس روپے سے بیس روپے تک آگئی۔ منٹو اس کمپنی میں فلموں کے لیے مکامات لکھتے تھے۔ اس کا مالک اروشیر ایرانی تھا۔ وہ شہرت کے بغیر کسی کی تعریف نہیں کرتا تھا۔
منٹو نے اپنے دوست شمشیم کے ذریعے مالک کو باور کر دیا کہ میرے پاس فلمی پلاٹس موجود ہیں جنھیں "سلوسلائیڈ پردے” پر لانے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے شمیشم لکھتے ہیں:
"میں نے صنعت فلم سازی میں منٹو کی اہمیت پر چند جملے کہتے ہوئے کہا کہ منٹو کے پاس فلم کہانیوں کے ایسے ایسے پلاٹ ہیں کہ اگر یہ سلو سلائیڈ میں تبدیل ہو کر پردے پر آ جائیںتو تمہاری کمپنی سارے ہندوستان میں مشہور ہو جائے گی ۔ میری یہ گفتگو سن کر ارو شیر کہنے لگا کہ ہم کو معلوم ہے کہ منشی منٹو ا چھا ڈائیلاگ لکھتا ہے لیکن انڈسٹری میں یہ نیا آدمی ہے۔ ہم اسٹوری پر اس کا نام کیسے دے سکتے ہیں۔ یہ بیجنس کا معاملہ ہے۔ ہم مجبور ہیں ۔ میں نے کہا اس میں مجبوری کی کوئی بات نہیں ۔ کل جو نئے تھے، آج وہ پرانے ہو چکے اور جو آج نئے ہیں وہ کل پرانے ہو جائیں گے۔ دنیا کا کارخانہ یوں ہی چلتا ہے تم منٹو کا اسٹوری بناؤ سکسسز ہوگا”۔
( ⁶: شمیم، منٹو مر گیا، منٹو زندہ باد)
اس دوران منٹونے ایک فلم کی کہانی بھی لکھی لیکن لوگوں نے کمپنی کے مالک میں یہ بات باور کروا دی کہ منٹو کسی اور بہتر کمپمنی کی تلاش میں ہے ۔ لہذا منٹو کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ فلم سٹی سے فراغت کے بعد منٹو امپریل فلم کمپنی سے منسلک ہوگئے ۔ آل انڈیا ریڈیو میں اس کمپنی سے الگ ہونے کے بعد ملازم ہوئے۔ انہیں 150 روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ ادارت "مصور” سے دوبارہ منسلک ہونے کے بعد انہیں وہاں سے نکال دیا گیا۔ منٹو نے تقریبا ڈیڑھ سال تک آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کی۔
ریڈیو آرٹسٹ منٹو کو بہت چاہنے لگے۔ منٹو نے ریڈیائی ڈرامے بھی لکھے ۔ جو عام لوگوں میں بہت مشہور ہوئے۔ ریڈیو کی ملازمت سے سبکدوش ہو کر اگست 1942ء میں بمبئی جا کر نذیر لدھیانوی کے ” مصور” سے پھر منسلکہو گئے۔ کچھ عرصہ ہفت روزہ
” کارواں” میں بھی کام کیا۔
آپ کی راۓ