"منٹو اور فن خاکہ نگاری”

مقالہ نگار نرجس بتول ایم فل اسکالر یونیورسٹی آف سرگودھا

12 ستمبر, 2023

اردو ادب میں خاکہ نگاری ایک مشکل لیکن دلچسپ فن ہے۔ ہر عام شخص اس کے معیارات پر  پورا نہیں اتر سکتا۔ خاکہ نگاری،  سوانح عمری کی طرح کا ایک فن ہے  لیکن یہ اس سے بہت منفرد کام ہے۔ مختلف تجربات کی روشنی میں شواہد اور  حوالہ جات سے ملنے والی معلومات سامنے رکھتے ہوئے خاکہ نگاری کا مرحلہ آسان بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں خاکوں میں  ناقدین و قارئین کے سامنے شخصی حالاتیں بھی لائے جاتے ہیں اور اسی سے ایک اچھا خاکہ تخلیق پاتا ہے۔ انسان فطری طور پر اکیلا زندگی نہیں  گزار سکتا۔ اسے معاملات حیات کو نبھانے کے لیے اپنے دوست، ساتھیوں کی ضرورت  ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے انسان دوسروں کے بارے میں جاننے کے لیے بیتاب رہتا ہے۔ تجسس اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ اس کی تمام خوبیاں اور صلاحیتوں کو اپنے معیار پر پرکھتا ہے اور اسی لیے ایک آدمی کا بہترین مطالعہ دوسرا آدمی ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔دوسروں کو جاننے کے لیے سراپاگاری، کردار نگاری اور سوانح نگاری کے ساتھ ساتھ  خاکہ نگاری ذریعہ اظہار ہے۔ انسان کی شخصیت کی کتابی صورتخاکہ کی صورت میں پیش کی جا سکتی ہے۔ مختلف لکھاریوں نے مختلف شخصیات کے خاکے لکھے۔ جس سے عام انسان بھی ان شخصیت کے عکس کو اپنی نظروں کے سامنے پاتے ہیں۔ لکھاری کے تخیلاتی زور پر جتنا چاہیں شخصیت کو پہچان سکتے ہیں۔ خاکہ نگاری کی صلاحیت ہمیشہ رہنے کے لیے ہے۔ اس کا ادب میں ایک منفرد مقام ہے اور یہ ایک مخصوص فن کے طور پر سامنے آتا ہے۔ خاکہ نگاری کے حوالہ سے مختلف سوالات ذہن میں آتے ہیں جیسا کہ خاکہ نگاری کیا ہے؟ اس کے شخصی اوصاف کیا ہیں اور یہ دوسری اصناف ادب سے کس طرح ممتاز ہے ؟ ادب میں کسی عمارت یا منصوبے کی شکل تو نہیں ہے مگر الفاظ کے ذریعے شخصیت کے جسمانی خدوخال کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ اس کو پڑھنے کے دوران قاری کے دماغ میں اس شخصیت کا مکمل عکاس آ جاتا ہے۔خاکہ ایک نثری صنف ہے اور انگریزی میں اسے لفظ اسکیچ کا متبادل خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا موضوع انسانی شخصیت ہے۔ اس کو کردار نگاری  سے الگ مفہوم میں سمجھنا ہوتا ہے۔ اردو میں جیسے ہی لفظ خاکہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ ہم خود بہ خود اس کے مفہوم سے واقفیت حاصل کر لیتے ہیں۔

اس حوالے سے نثار احمد فاروقی  اپنے مضمون

"اردو میں خاکہ نگاری” میں لکھتے ہیں:

 

” اچھا خاکہ دراصل کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ ہے۔ مرقع نگاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا عندیہ ظاہر نہ ہونے دے بلکہ صرف مشاہدات اور واقعات کی بے لاگ عکاسی کرے”

(۱: صفحہ نمبر 30)

لکھاری اپنے فن کے اظہار کے لیے کچھ اضافی چیزوں کا استعمال کرتا ہے جیسا کہ نقطہ سنجی اور لطیف مزاجی  وغیرہ۔ خاکہ نگاری میں طنز اور ہجو کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس کے لیے خلوص نیت اور ایمانداری لازمی جزو ہے۔ یہ کسی بھی شخصیت کا نسبتاً اختصار سے بیان ہے۔مرزا فرحت اللہ بیک نے نذیر احمد کی خاکہ نگاری لکھ کر مستقبل کی خاکہ نگاری کی طرح ڈالی۔ انہوں نے اردو ادب میں پہلی مرتبہ شخصیت کی خامیوں اور کمزوریوں سے محبت کرنا سکھایا۔ مولانا کے خاکوں میں انداز بیان تنقیدی مقالے کی صورت کا بھی ہے۔ اس طرح مولانا خاکہ نگاری کرتے ہوئے تمام طریقہ کار کو استعمال کرتے نظر آتے ہیں ۔

محمد شفیع دہلوی کی خاکہ نگاری پر مشتمل کتاب

"دلی کا سنبھالا” نے خاکہ نگاری کی دنیا میں ایک اور اضافہ کیا۔ انہوں نے اپنی نقش نگاری و الفاظ کے ذریعے کی۔ دہلی کی معروف شخصیات کی حلیہ نگاری کی۔ آپ ٹکسالی زبان بولتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اسی زبان کا استعمال اپنے خاکوں میں بھی کیا۔

ڈاکٹر صابرہ سعید لکھتی ہیں:

"انہوں نے (محمد شفیع دہلوی) زباندانی کے جوہر دکھائے۔ اسلوب و بیان دلکش اور دلبرانہ قسم کا ہے۔ بلا لحاظ زبان و ادب "دلی کا سنبھالا” خاکوں کی معیاری کتاب ہے”۔

(⁶ : صفحہ نمبر 45)خاکہ نگاری کی یہ خوبی ہے کہ قاری شخصیت سے واقف نہیں ہوتا لیکن خاکہ پڑھ کر اسے شخصیت کے ہر پہلو کا اندازہ ہو جاتا ہے یہ صنف مقبول تو رہی ہے لیکن اس میں موثر کرداروں کا بیان کب ملتا ہے موثر کرداروں سے مراد وہ کردار جو خاکہ نگار کے زمانے میں موجود ہوں۔سعادت حسن نے کئ شخصیات کے خاکے بھی تحریر کیے۔ انہوں نے یہ خاکے  اپنے دوست احباب کی کردار سازی اور مزاج وعادات کو وضاحت سے پیش کیا۔  انہوں نے”میراصاحب” کے نام سے بانی پاکستان محمد علی جناح کا خاکہ لکھا۔ جن میں ان کی زندگی پر روشنی ڈالی ۔ آپ کا اصل نام "محمد علی جناح” تھا۔ آپ کے والد گجراتی زبان بولتے تھے- منٹو کی قائدا عظم سے ایک ملاقات ہوئی۔ جس کے بارے میں منٹو لکھتے ہیں:

 

"مجھ سے پہلے اور کئی امیدوار جمع تھے۔ سب کے سب اپنی اسناد کے پلندے بغل میں دبائے کھڑے تھے۔  میں بھی ان شامل ہو گیا۔ بڑے مزے کی بات ہے کہ اسناد تو ایک طرف رہیں۔ میرے پاس ڈرائیونگ کا معمولی سا لائسنس تک نہیں تھا۔ اس وقت میرا دل صرف اس خیال سے دھڑک رہا تھا کہ بس اب چند لمحوں میں قائد اعظم کا دیدار ہونے والا ہے ۔ دل کی دھڑکن کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ قائد اعظم پورچ میں نمودار ہوئے۔ سب اٹینشن ہو گئے۔ میں ایک طرف سمٹ گیا۔ ان کے ساتھ ان کی دراز قد اور پتلی ہمشیرہ بھی تھیں۔ جن کی متعدد تصویریں میں اخباروں اور رسالوں میں دیکھ چکا تھا”

( حوالہ نمبر: ۷)

آغا حشر کاشمیری  کی شخصیت پر منٹو نے "آغا حشر کاشمیری سے دو ملاقاتیں”  کے نام سے خاکہ تحریر کیا ۔ جس میں انھوں نے آغا حشر کو اردہ کے بہترین ڈرامہ نگار کے طور پر پیش کیا ۔ ان کی عیاش اور گالم گلوچ والی طبیعت کا تذکرہ بھی کیا ۔ ان کے ڈراموں کے نام خواب ہستی، رستم و سہراب، مرید اشک، آنکھ کا نقشہ، یہودی لڑکی، خوبصورت بلا اور سفید خون بہت مشہور ہوئے۔ منٹو نے حشر کاشمیری کا مشہور طوائف ” مختار بائی” سے عشق کا حوالہ بھی اس خاکے میں دیا۔

” داروغہ ابراہیم سے جب میں نے آغا صاحب کے متعلق کچھ اور پوچھا تو اس نے وہی باتیں بتائیں – جو ہزار مرتبہ سن چکا تھا کہ وہ پرلے درجے کا عیاش ہے ۔ دن رات شراب کے نشے میں دھت رہتے ہیں۔ بے حد گندہ ذہن ہے۔ ایسی ایسی گالیاں ایجاد کرتے ہیں کہ مغلظات میں جن کی کوئی مثال نہیں ملتی ، بڑے سے بڑے سے آدمی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ کمپنی نے فلاں فلاں سیٹھ نے، جب اُن سے ایک بار ڈرامے کا تقاضا کیا تو انہوں نے اس کو اتنی موٹی گالیاں دیں جو ہمیشہ اس کے دل میں آغا صاحب کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے کافی تھیں۔”

(حوالہ نمبر: ۸)

اردو کے رومانوی شاعر اختر شیرانی بھی منٹو کے حلقہ احباب میں شامل تھے۔ یہ پہلے رومانوی شاعر ہیں جنہوں نے شاعری میں "عورت” سے خطاب کیا۔ منٹو نے شیرانی کی عادات، مزاج ، اطوار، شراب نوشی ، مختلف لڑکیوں سے اُن کے عشق اور گھر والوں سے اُن کے اختلافات کا تذکرہ کیا۔

 

اس حوالے سے منٹو لکھتے ہیں:

"ادھر ادھر کی باتیں کرتے اور بیتے کافی دیر ہو گی۔ اختر صاحب کا کھانا آیا اور جس طریقے سے آیا۔ اس سے میں ئے یہ جانا کہ ان کے گھر والوں کے تعلقات کشیدہ ہیں ۔ بعد میں اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔ ان کے والد مکرم حافظ محمود شیرانی صاحب ان کی شراب نوشی کے باعث بہت نالاں تھے ۔ تھک ہار کر انہوں نے اختر صاحب کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ ”

(حوالہ نمبر:۹)

سعادت حسن منٹو کے معاصر کرداروں میں ایک. مشہور کردار "ملکہ ترنم نور جہاں” کا ہے۔ جنھیں موسیقی وراثت میں ملی۔ ان کو شراب نوشی اور تمام ایسی عادات سے سخت نفرت تھی۔ فلم ڈائریکٹر شوکت نور سے ان کی شادی ہوئی لیکن نبھا نہ ہو سکا۔ نور جہاں کی باکمال آواز کے بارے میں منٹو لکھتے ہیں:

 

"نور جہاں کی آواز میں اب وہ لوچ، وہ رس، وہ بچپنا ، وہ معصومیت نہیں رہی ، جو اس کے گلے کی امتیازی خصوصیت تھی لیکن پھر بھی نور جہاں، نور جہاں نور جہاں ہے ۔ گو لتا منگیشکر کی آواز کا جادو آج ہر جگہ چل رہا ہے۔ پھر بھی نور جہاں کی آواز فضا میں بلند ہو تو کان اس سے بے اعتنائی نہیں برت سکتے۔ نور جہاں کے متعلق بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ وہ راگ ودیا اتنا ہی جانتی ہے ۔ جتنا کوئی استاد ہے، وہ ٹھمری گاتی، خیال گاتی ہے، دھر پدگاتی ہے اور

ایسا گاتی ہے، گانے کا حق ادا کرتی ہے۔ موسیقی کی تعلیم تو اس نے یقینا حاصل کی تھی۔ وہ ایسے گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ جہاں کا ماحول یہی تھا لیکن ایک چیز خداداد بھی ہوتی ہے۔”

(حوالہ نمبر ۱⁰)

 

اس کے علاوہ منٹو نے اپنے معاصر کلدیپ کو ر ، انور کمال پاشا، رفیق غزنوی، چراغ حسن حسرت، ستارہ، نواب کاشمیری، دیوان سنگھ مفتون ،بابو راؤ پٹیل،۔ نرگس، اشوک کمار، نسیم بانو، باری صاحب اور شیام کے دلچسپ خاکے تحریر کیے۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter