وہ معمر ہے مگر جوان معلوم ہوا۔ میں گھنٹوں اُسے دیکھتا رہتا ۔سر جھکائے اپنے کام میں مگن ۔کسی کی پروا نہیں۔ کوئی آرہا ہے ۔کوئی جا رہا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ دو چار دن ایسے ہی کن انکھیوں سے دیکھتے گزر گئے۔ آخر مجھ سے رہا نہ گیا۔ مارکنگ چھوڑ کر میں اپنی سیٹ سے اُٹھا۔ ہولے ہولے ڈگ بھرتا ہوا اُس کے پاس چلا گیا۔ السلام علیکم سر! کیسے ہیں آپ۔وعلیکم السلام ! جی بیٹا! فرمائیے ؛کیسے آنا ہوا۔ خیریت ہے ۔میں آپ کے کس کام آسکتا ہوں۔ میرے پاس بات کرنے کا بظاہر کوئی جواز نہ تھا۔ سرِدست جو ذہنی میں آیا ؛زبان پر گویا ہو گیا۔ مجھے ایک ریڈ پنسل چاہیے تھی۔مل سکتی ہے۔ کیوں نہیں ! یہ لیجیے۔میرے پاس تو پورا ڈبہ موجود ہے۔ آپ کو جب چاہیے؛مجھ سے لے لیا کریں۔ مجھے کچھ دے کر خوشی ہوتی ہے۔ کیا آپ کو دینے سے خوشی ہوتی ہے؟اُس نے مجھ پر سوال داغ دیا۔میں نے لجاجت میں جواب دیا ۔جی کیوں نہیں ۔انسان کچھ دینے اور کچھ لینے کی درمیانی کیفیت میں ہمیشہ اضطراب و اطمینان کی لذت و اذیت سے محظوظ ہوتا رہتا ہے۔ بہت خوب! کیا فلسفیانہ جواب ہے میاں! یہاں میرے پاس بیٹھو۔ میں گھبرا یا کہ مجھے کام کرنا ہے اور ابھی بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔ عمر اور سِن رسیدگی کا لحاظ کرتے ہوئے میں قریب پڑی خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ آپ کا نام کیا ہے اور آپ کس کالج میں پڑھاتے ہیں۔ میں نے اپنا نام بتایا اور کالج کا ذکر بھی کیا۔ کہنے لگے بہت خوب! آپ تو پھر شاہ حسین کےملنگ ہوئے ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ شاہ حسین کون تھے اور ان کا تصوف کےبارے میں نکتہ نظر کیا تھا؟میں نے جواب میں کہا کہ شاہ حسین لاہور کے معروف صوفی بزرگ تھے۔ایک ہندو لڑکے مادھو سے ان کی دوستی ہوگئی تھی جس کی نسبت سے مادھو لال حسین کہلائے جانے لگے ۔ان کا نکتہ نظر یہ تصوف ؛محبت،امن اور رواداری تھا۔عمر بھر انھوں نے غیر مسلم کے ساتھ نہایت عمدہ برتاؤ کیا جس کے نتیجے میں سیکڑوں غیر مسلم اسلام میں داخل ہوئے ۔ ماشا اللہ! بھئی کیا بات ہے ۔آپ تصوف کے بارے میں خاصا علم رکھتے ہیں۔ میں نے کہا۔زیادہ علم نہیں۔ آپ ایسے ذی شعور اصحاب کی صحبت سے جو کچھ سُنا اور جانا؛ اُسے دہرا دیتا ہوں۔ اچھا ! میں سب سے ایک سوال کیا کرتا ہوں۔اگر آپ اجازت دیں تو آپ سے بھی پوچھ لوں۔ میں نے کہا ۔ضرور۔ کہنے لگے کہ نا تو پڑھنا ہے اور نا یاد کرنا ہے۔پھر کیا کرنا ہے؟میں نے کہا کہ ۔۔۔۔ میرے ذہن میں بہت سے جواب آئے لیکن قطعیت سے کسی ایک پر میں مطمئن نہ ہو سکا ۔میرے اضطراب کو بھانپ کر کہنے لگے ۔اچھا ! میں بتابتا ہوں۔ نا یاد کرنا ہے اور نا پڑھنا ہے بلکہ سمجھنا ہے۔ جب انسان پڑھنے اور یاد کرنے کے چکر میں پڑھ جاتا ہے تو انسان رٹو طوطا بن جاتا ہے جس کے پاس معلومات کا خزینہ تو موجود ہوتا ہے لیکن یہ معلومات ؛مشاہدے کی کسوٹی سے تجربے کی بھٹی تک منتقل یعنی کندن ہونے سے پہلے ہی پژمردہ ہو کر اپنا تاثر کھو دیتی ہیں۔اس لیے کسی چیز کے بارے میں معلومات اکھٹا کرنے اور اسے حافظے کا حصہ بنانے سے قبل اس کے بارے میں جاننے کی جستجو کا عمل پورا کریں ۔ جستجو کے عمل کی انجام دہی کے نتیجے میں جو گیان حاصل ہو گا؛ وہ پڑھنے اور یاد کرنے کی اذیت سے نجات دلا دے گا۔میں نے کہا۔بہت خوب! اب مجھے اجازت دیں ۔میں تھوڑا کام کر لوں۔ یہ کہہ کر میں اپنی کرسی پر آبیٹھا اور مارکنگ میں مصروف ہو گیا۔ دو ہفتے یونہی گزر گئے ۔ وہ میری طرف دیکھتے اور بےنیاز محرمانہ مسکرا دیتے ۔ میں بھی جواب میں متبسم نگاہوں سے اس شفقت کا جواب لوٹا دیتا۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں سنٹر پہنچتے ہی مارکنگ میں مصروف ہوگیا ۔قریباً دس بجے ہوں گے۔وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آج مارکنگ کرنے کو جی نہیں چاہتا ۔سوچا کہ ایک کپ چائے پی جائے اور آپ سے کچھ باتیں کی جائیں۔ میں نے کہا ۔ضرور۔آپ تشریف رکھیے۔ میں ابھی چائے بناتا ہوں۔ مارکنگ سنٹر میں چائے کی سہولت موجود نہ ہونے کی وجہ سے میں چائے کا سامان اور کپ خرید کر لے گیا تھا۔وہ مجھ سے چائے بنوا کر ضرور پیتے تھے البتہ دودھ پتی اور چینی کا انتظام خود کرتے تھے۔میں نے چائے بنائی اور بڑے سفید کپ میں پیش کی۔ایک گھونٹ لے کر گویا ہوئے کہ میری زندگی کا ایک اُصول ہے ۔میں نے کہا ۔وہ کیا ؟جواب میں کہنے لگے۔ Life is a Strange Journey۔میں نے کہا۔ اس کی وضاحت بھی کیجئے۔ کہنے لگے۔ آج سے پانچ برس قبل مجھے کینسر کا مرض لاحق ہوا تھا۔ میں آخری اسٹیج پر پہنچ چکا تھا۔ بستر پر پڑے پڑے یاسیت کی آخری حد کو چھونے والی اذیت ناک کیفیت سے دوچار تھا۔ عیادت کرنے والے کہتے تھے ،یہ ابھی گیا تو ابھی گیا۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ایک دن رب تعالیٰ سے کہا کہ اب مجھ سے یہ اذیت برداشت نہیں ہوتی۔مجھے اُٹھا لے یا اِس بیماری کو اُٹھا لے۔ مجھے امتحان میں نہ رکھ کہ تو تُو جانتا ہے کہ میں ایک نکما طالب علم ہوں اور عمر بھر امتحانات سے بھاگتا رہا ہوں۔ میں اس امتحان میں کیسے پاس ہو سکتا ہوں۔ میں ایوب ؑ نہیں ہوں میں محمد عمر سندھو ہوں اور جٹ ہوں ۔مجھے اس طرح نہیں مرنا ۔مجھے خوشی سے اس دُنیا سے جانا ہے۔ یہ بے قراری اور بے چینی جو میرے اہل وعیال کو میری وجہ سے لاحق ہے ۔میں اس پچھتاوے کو اپنے ساتھ لے کر نہیں جانا چاہتا کہ مجھے مارنے والوں کی دُعائیں قبول نہیں ہو رہیں اور ان کا تیری رحمت سے بھروسہ اُٹھ رہا ہے ۔ پھر وہ رونے لگے اور خاموش ہو گئے۔ میں حیرت زدہ اُن کی طرف دیکھنے لگا۔آنسو پونچھ کر مسکرائے اور کہنے لگے کہ رب تعالیٰ نے میری فریاد سُن لی اور میں روز بروز اچھا ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے چنگا بھلا ہوگیا۔ اب میں 70 برس کا ہوں اور جوا ن دکھائی دیتا ہوں ۔میری کمر میں کوئی خم نہیں اور نگاہ بھی کم نہیں ہوئی اور طاقت بھی جاٹوں والی ہے ۔ پھر وہ مسکرانے لگے اور وہی جملہ دہرایا کہ Life is a Strange Journey۔میں نے کہا ۔بہت خوب۔یعنی آپ نے سینے میں بہت سے اَسرار چھپا رکھے ہیں۔ کہنے لگے۔ بات یہ ہے کہ میں نے ایک مجذوب کی تیس برس خدمت کی ہے۔ میں نے لاہور میں اسے اپنے ہاتھوں سے دفنایا تھا۔لوگ اُس بزرگ سے حد درجہ بیزار تھے کہ کوئی اُس کو منہ نہ لگاتا تھا۔ وہ مجذوب تھا اور لاف گزاف بکتا رہتا تھا۔ کسی کو اپنے قریب نہ آنے دیتا تھا۔ میری اُس سے پہلی ملاقات فیصل آباد میں ہوئی ۔میں جب اُس کے قریب گیا تو اُس نے مجھے بھی لاف گزاف اور طعن و ملامت سے اپنے قریب آنے سے ٹوکا مگر میں اُس کے پاس خود بہ خود کھنچتا چلا گیا۔ پتہ نہیں کب اور کیسے میری اُس سے دوستی ہو گئی اور وہ میرے ساتھ بیس برس رہا۔ اُس نے مجھ پر اپنے برتاؤ کی مزاحمت کو برداشت کرنے کی میری صلاحیت کو بار ہا دفعہ آزمایا مگر میں نے ٹھان لی تھی کہ اس بزرگ کو نا اُمید نہیں ہونے دوں گا۔ میں کامیاب رہا اور وہ مجھ سے خوش ہوا۔ اُس نے مجھے دُعا دی تھی کہ محمد عمر سندھو!جاؤ تم یونہی مسکراتے رہو گے اور ہر طرح کی آزمائش میں ثابت قدم رہو گے۔ وہ چلا گیا مگر ہمیشہ مجھ میں اپنا آپ چھوڑ گیا۔ اُس کی یاد آتی ہے تو خود کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ پھر رونے لگے ۔آنسو پونچھ کر حسبِ عادت مسکرانے لگے۔میں خاموش اُنھیں سنتا رہا۔ کرسی سے اُٹھے اور اپنی نشست پر جا کر مارکنگ میں مصروف ہوگئے۔ گفتگو کا یہ معمول دو ماہ جاری رہا۔ آخری دن میں اُن سے الوداع ہوئے بغیر مارکنگ سنٹر سے لوٹ آیا۔ زندگی بڑی پُر اسَرار ہے۔ بظاہر جو دکھائی دیتا ہے ،حقیقت میں ویسا نہیں ہوتا۔ جس کی حقیقت اظہر الشمس ہے وہ بھی نظر کا دُھوکا ہے۔ سب کچھ لکھا ہوا ہے۔ صاحب ِ اختیار کوئی نہیں ہے۔ ہم کٹھ پُتلیاں ہیں۔ باگ کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ مثبت سوچ انسان کو مردود ہونے سے بچا لیتی ہے۔ سچائی کو اعتراف کی حاجت نہیں ہوتی۔ وقت نے گزرجانا ہے؛ اِسے روک کر بیٹھنے والے کا سفر رُک جاتا ہے۔ ہر دن نیا دن ہے ،بیتے دن کی بیکار یادوں سے اِسے مت گہناؤ۔ انسانوں کو ان کے ظاہری حلیے سے مت آنکو،پتہ نہیں کون کیا لیے بیٹھا ہے۔ یہ وہ جملے ہیں جو گفتگو کے دوران میرے حافظے میں محفوظ رہ گئے ۔ انسان اپنے روئیے سے پہچانا جاتا ہے۔ انسانوں کے اُٹھنے بیٹھنے اور طرزِ گفتار سے ان کی اصالت اور نقالت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ مذہب،مسلک،فرقہ، انفراد،تشخص، وصف،نمائندگی،برتری،سبقت،امارت وغیرہ سب کھوکھلے پیراہن ہیں جن کے اندر بھیڑئیے، گیڈر، لومڑ، سور، خنزیر،کُتے،بِلے موجو دہوتے ہیں جنھیں با آسانی ٹٹول کر دیکھا جا سکتا ہے۔
آپ کی راۓ