مملکت سعودی عرب کا قومی نشان کھجور کا درخت کیوں؟۔
ابو حماد عطاء الرحمن المدنی/ المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بہت سے ممالک جن وجوہات کی بناپر کئی چیزوں کو اپنے ملک کا قومی نشان قرار دیتا ہے ان میں سے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ چیزیں صرف اسی ملک میں پائی جاتی ہیں۔ جیسے : آسٹریلیا نے کنگارو جانور کو اور لبنان نے دیودار کے درخت کو اپنا قومی نشان قرار دیا ہے اور ہمارا ملک نیپال نے لالی گڈانس پھول اور ڈانفے پرندہ کو نیپال کی شناخت قرار دیا ہے، وغیرہ۔۔ یا دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ چیزیں اس ملک میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ یا یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے کہ ان چیزوں کا وجود اس ملک کو دوسرے ملکوں سے نمایاں کرتا ہے۔
تاہم مملکت سعودی عرب نے کھجور کے درخت کو اپنی علامت اور رمز کے طور پر صرف اس لئے نہیں اپنایا کہ یہ درخت صرف سعودی عرب میں بکثرت موجود ہے بلکہ اس کے اختیار کرنے کے پیچھے تاریخی اور ثقافتی حقائق کا بڑا عمل دخل ہے۔
مملکت سعودی عرب نے جن وجوہات کی بنا پر کھجور کے درخت کو اپنا قومی نشان قرار دیا ان میں سے کچھ اس طرح ہیں:
پہلی وجہ – کھجور کے درخت سے محبت : تاریخی حیثیت سے مملکت سعودی عرب کی سرزمین میں میں کھجور کا درخت کھیتوں اور گھروں میں ہمیشہ پایاگیا اور یہاں کے لوگوں کے دلوں میں اس درخت سے محبت اور لگاو قدیم زمانوں سے بطورِ وراثت چلی آرہی ہے ،کیونکہ یہ ایک مبارک درخت ہے اس کے اندر بڑے فوائد اور عظیم خصوصیات موجود ہیں، یہ سخت ترین ماحولیاتی حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے بڑی سخاوت و فیاضی سے بنی نوع انسان کو بھرپور غذا فراہم کرتا ہے، اس درخت کا ہر حصہ قابل استعمال ہے سایہ دار ہونے کے ساتھ یہ خوراک، گھریلو ضرویات میں استعمال ہونے والے برتن، پنکھے، فرنیچر کے مختلف چیزیں، ایندھن کے لئے جلاون گھر بنانے میں مٹیریل، اس کے علاوہ عرب کی سخت گرمی سے بچاو کے لئے سایہ دار، اس درخت کے اندر جتنی خوبیاں ہیں وہ دوسرے درختوں میں مفقود ہیں۔ قدیم زمانے میں کھجوریں صرف یہاں کے باشندوں کی خوراک ہی نہیں تھیں، بلکہ کاروباری معاملے بھی ان کے ذریعے طے پاتے تھے، مثلاً : جائداد کی خریداری، قرض کی آدائیگی، شادی میں عورتوں کے مہر، دیت، غلاموں کی آزادی وغیرہ یہ سارے معاملات کھجوروں کے ذریعے مکمل ہوتے تھے، اسی طرح اسلامی فوجوں کے لئے کھجور سب سے زیادہ مناسب خوراک تھی۔
دوسری وجہ:
خیروبرکت والا درخت ہے: جیساکہ ہم جانتے ہیں جزیرہ نما عرب اسلام کا گہوارہ رہا ہے ، اس نے کھجور کے درخت کو مسلمانوں کے دلوں میں ایک عظیم مقام دیا اور آج تمام مسلمان کھجور کے درخت کو بابرکت درخت کے طور پر دیکھتے ہیں اس درخت کی خوبی کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک سے زیادہ جگہوں پر کیا ہے اور صحیح احادیث میں بھی نبی کریم ﷺ نے اسے بیان فرمایا ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام کی دردزہ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” وهذي إليك بجذع النخلة تساقط عليك رطبا جنيا” سورۃ مریم : 25
"اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، یہ تیرے سامنے تازہ پکی کھجوریں گرادے گا”۔
اس درخت کی قدروقیمت اور اس کے عظیم فائدے کی وجہ سے صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کی ایک جماعت نے آیت کریمہ میں” شجرۃ طیبۃ ” جس کی تشبیہ کلمہ طیبہ سے دی گئی ہے کھجور لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ” ألم تر كيف ضرب الله مثلا كلمة طيبة كشجرة طيبة أصلها ثابت وفرعها في السماء. تؤتي أكلها بإذن ربهاويضرب الله الأمثال للناس لعلهم يتذكرون” . سورة إبراهيم : ٢٤ – ٢٥
"کیا آپنے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔ جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل لاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتاہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔”
” کلمۃ طیبۃ” سے لا الہ الا الله اور ” شجرۃ طیبۃ ” سے کھجور کا درخت مراد ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کھجور کا ایک خوشہ لایاگیا ، تو آپ نے اسی آیت کا پہلا حصہ تلاوت فرمایا اور فرمایا: "کہ پاک درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے”۔ مستدرک حاکم
صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے بتلاوٴ وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کے مشابہ ہے؟ جس کے پتے نہیں جھڑتے نہ جاروں میں نہ گرمیوں میں، جو اپنا پھل ہر موسم میں لاتا رہتاہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میرے دل میں خیال آیا کہ کہہ دوں وہ درخت کھجور کا ہے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ مجلس میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ہیں اور وہ دونوں خاموش ہیں، تو میں بھی خاموش رہا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ درخت کھجور کا ہے۔ جب یہاں سے اٹھ کر چلے تو میں نے اپنے والد سے یہ ذکر کیا ۔ تو میرے والد نے کہا: اے میرے پیارے بیٹے! اگر تم یہ جواب دے دیتے تو مجھے تمام چیزوں کے مل جانے سے بھی زیادہ محبوب تھا۔ بخاری۔
یہ جنتی درختوں میں سے ایک ہے جیساکہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:”وجعلنا فيها جنات من نخيل وأعناب وفجرنا فيها من العيون ” سورۃ یونس : 34
"اور ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات بناۓ اور اس میں چشمے جاری کیئے۔”
نیز فرمان الہی ہے: ” فيها فاكهة والنخل ذات الأكمام ” سورۃ الرحمن: 11
"اس میں میوے ہیں اور خوشے والے کھجور کے درخت ہیں۔ "
ان سب کے علاوہ اس مبارک درخت کے پھلوں کے بہت سارے طبی اور غذائی فوائد بھی ہیں جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
تیسری وجہ – کھجور کا درخت قابلِ عزت ہے:
رب کائنات نے کھجور کے درخت کو کئی خصوصیات سے نوازا ہے جو دیگر درختوں میں دستیاب نہیں ہیں، ان میں چند خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
1- کھجور کا درخت شدید گرمی کی لہروں، خشک موسم، ریگستانی طوفان اور ضرورت سے زیادہ گرمی برداشت کرتا ہے۔
2- اپنی ساخت اور جسمانی نوعیت کی وجہ سے خشک سالی اور بارش کی کمی کے حالات میں بھی بڑھنے کی طاقت رکھتا ہے۔
3- یہ پانی بھرے ہوئے علاقوں کو برداشت کرسکتا ہے، جہاں پانی کی سطح بلند ہوتی ہے اور ہوا کی کمی رہتی ہے۔
4- کھجور کا درخت آبپاشی کے پانی میں نمکیات کی زیادہ مقدار رکھتا ہے جو ماحول کو محفوظ رکھنے اور ریگستانی ہونے سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
5- کھجور کا درخت ماحول دوست ہے اس سے نکلے ہوئے تمام چیزوں سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے، کیونکہ اس درخت میں بہت سارے فائدے مخفی ہیں، اس کے ریشے سے رسیاں اور سامان رکھنے کے اشیاء بناۓ جاتے ہیں، اس کے پتوں سے ٹوکریاں، ٹوپیاں بنائی جاتی ہیں، اس کی ٹہنیوں سے پھل اور سبزیاں رکھنے کے لئے خوبصورت ٹوکریاں اور کنٹینر بناۓ جاتے ہیں۔ ہلکا پھلکا فرنیچر جیسے کرسیاں اور بستر بناۓ جاتے ہیں اس کی گٹھلیوں سے تیل نکال کر استعمال کیا جاتا ہے، اور بچے ہوۓ کو جانوروں کے چارے کے طورپر استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے تنے کو کچے گھروں کی چھتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔مملکت سعودی عرب کے لوگوں نے اس درخت کو اپنا قومی نشان بنا کر جوعزت اسے بخشی ہے اس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی، یہ بات قابل دید ہے کہ کھجور کے درخت کی خصوصیات میں صبر اور جود و کرم ہیں جو کہ اہل عرب کے اوصاف کے مطابق ہیں ، کسی نے سچ کہا ہے کہ انسان بیٹا ہے اپنے ماحول کاہے۔
وﷺ وبارک علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعين۔
أبو حماد عطاء الرحمن المدنی
المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو۔
آپ کی راۓ