افسانہ۔۔ ہرجائی
افسانہ نگار۔ سجاد انعام سہارن۔ لاہور (پاکستان)
کمرے میں ہلکی روشنی کا بلب جل رہا تھا اور رات کے پچھلے پہر خنکی بڑھ جانے کی وجہ سے اردگرد کے ماحول پر مکمل سکوت چھایا ہوا تھا۔ نجمہ کرسی پر بیٹھی کافی پریشان دکھائی دے رہی تھی اور نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ مسلسل روئے جا رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ میں نے اپنی زندگی میں کیا گنوایا اور کیا پایا۔ اس نے کسی پر بھروسہ کر کے نادانی کی یا اپنی کامیاب زندگی کے خوابوں کی تعبیر پائی۔ نجمہ نے بھی کسی پر بھروسہ کیا اور زندگی کے سہانے خواب دیکھنے لگی مگر اس کے وہ خواب ایک ٹھوکر سے کانچ کے ٹکڑوں کی طرح بکھر گئے۔ شاہد نے نجمہ کو معذوری کا طعنہ دے کر ٹھکرا دیا حالانکہ کہ وہ پہلے سے ہی جانتا تھا کہ اس کی ایک ٹانگ میں نقص ہے اور اسے چلنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔ شاہد نے اپنی سحر انگیز اور پیار بھری باتوں سے نجمہ کو شیشے میں اتار لیا اور وہ یہ بھول ہی گئی کہ معذوری اس کا مقدر ہے اور اسے تمام زندگی معذوری کے ساتھ ہی گزارنی ہے۔ شاہد اور نجمہ کے گھر ایک ہی گلی میں تھے اور ان کے والدین کے آپس میں کافی اچھے مراسم تھے۔ نجمہ پڑھائی میں بہت ذہین تھی۔ شاہد بھی اچھے نمبروں سے پاس ہو جاتا۔ چونکہ نجمہ اس کا بھائی اور شاہد کا بچپن اکٹھے ہی گزرا اسی لئیے پڑھائی میں ان تینوں کا اکثر مقابلہ رہتا کہ کون اچھے نمبروں سے پاس ہوتا ہے۔ نجمہ ہمیشہ اپنی جماعت میں اول آتی۔ نجمہ کا باپ ایک مقامی دفتر میں ملازم تھا اور ان کی مالی حثیت زیادہ اچھی نہیں تھی جبکہ شاہد کا باپ کاروبار سے منسلک تھا اور ان کی مالی حیثیت کافی مستحکم تھی۔ نجمہ تعلیمی منازل طے کرتی ہوئی دسویں جماعت میں پہنچ گئی۔ اب وہ میٹرک کے امتحانات میں مصروف تھی اور اس کی کوشش تھی کہ وہ اچھے نمبروں سے پاس ہو جائے۔ میٹرک کے امتحانات اپنے مقررہ وقت پر شروع ہو گئے۔ امتحانات سے فراغت کے بعد اسے نتیجے کا شدت سے انتظار تھا۔ جب نتیجے کا اعلان ہوا تو نجمہ نے اپنے سکول میں اول پوزیشن حاصل کی۔ نجمہ اور اس والدین اپنی بیٹی کی کامیابی پر بہت خوش تھے۔ شاہد نے بھی اپنے سکول میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ نجمہ نے ایف ایس سی کرنے کے لیے ایک قریبی کالج میں داخلہ لے لیا۔ وقت اپنی رفتار کے ساتھ گزرتا رہا۔ نجمہ نے ایف ایس سی کا امتحان بھی اعزازی نمبروں سے پاس کر لیا۔ سردیوں کی ایک دوپہر کو نجمہ اپنے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ اس نے دروازہ کھولا تو سامنے شاہد اپنے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ لئیے کھڑا تھا۔ اس نے پوچھا کہ تمھاری امی کدھر ہیں۔ نجمہ نے بتایا امی کسی کام سے بازار گئی ہوئی ہیں۔ شاہد نے کہا کہ جب وہ واپس آئیں تو یہ شاپنگ بیگ انہیں دے دینا اور ساتھ ہی مناسب موقع جانتے ہوئے کہنے لگا کہ مجھے تم بچپن سے ہی بہت اچھی لگتی ہو۔ تم ذہین ہو اور تمھاری باتیں بھی بہت دلچسپ و متاثر کن ہوتی ہیں۔ میں آنے والے وقت میں تمھیں اپنانا چاہتا ہوں۔ اس نے اتنا کہا اور فوراً واپس چلا گیا۔ نجمہ کافی دیر تک وہیں ساکت کھڑی رہی۔ جب اسے کے حواس بحال ہوئے تو وہ جلدی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ وہ خوشی سے نہال ہو رہی تھی کہ شاہد مجھے اتنا چاہتا ہے حالانکہ وہ میری معذوری سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔ شاہد اب اکثر نجمہ کے گھر آتا جاتا ادھر اُدھر کی باتیں اور ہنسی مذاق کرتا اور کچھ دیر بعد اپنے گھر واپس چلا جاتا۔ نجمہ اب بہت خوش رہتی مگر دل میں دعا بھی کرتی کہ شاہد اپنی بات پر ثابت قدم رہے اور مجھے دھوکہ نہ دے۔ وقت اپنی برق رفتاری سے گزرتا رہا اب نجمہ نے بی ایس سی کا امتحان بھی امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا۔ نجمہ کچھ دنوں سے محسوس کر رہی تھی کہ شاہد کا آج کل ہمارے گھر آنا جانا کم ہو رہا ہے اور اب وہ مجھ سے باتیں کرنے سے بھی کترانے لگا ہے۔ ایک دن وہ نجمہ کے گھر آیا تو سیدھا اس کی امی کے پاس گیا اور پیغام دیا کہ میری امی نے آپ کو ہمارے گھر بلایا ہے اور کہا ہے میں نے بازار سے چند سوٹ خریدنے ہیں آپ میرے ساتھ چلیں اس نے اتنا کہا اور فوراً وہاں سے نکل گیا۔ نجمہ اس کے اس رویے سے بہت حیران تھی کہ اسے آج کیا ہو گیا ہے پہلے تو اس نے ایسے کبھی نہیں کیا۔ نجمہ اسے اپنا وہم خیال کرنے لگی کہ ہو سکتا ہے اسے کوئی ضروری کام ہو یا کہیں جانا ہو۔ ایک ہفتہ اسی طرح گزر گیا۔ ایک دن وہ کسی کام سے نجمہ کے گھر آیا اور موقع ملتے ہی وہ شاہد سے کہنے لگی کہ میں کافی دنوں سے محسوس کر رہی ہوں کہ تم مسلسل مجھے نظر انداز کر رہے ہو۔ سچ سچ بتاؤ تمھارے دل میں کیا ہے۔ اگر ایسی ویسی کوئی بات ہے تو فوراً مجھے بتاؤ۔ نجمہ کے اتنا ہی کہنے کی دیر تھی کہ شاہد کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور کہنے لگا کہ تم ہوتی کون ہو مجھ سے سوالات کرنے والی۔ میری مرضی میں جو کچھ بھی کروں اور ہاں میرا خیال اب اپنے دل سے نکال دو۔ تم اپنی دونوں ٹانگوں پر تو صحیح طرح سے چل نہیں سکتی میرے ساتھ تمام زندگی کیسے چل سکتی ہو۔ بڑی آئی مجھ سے ناطہ جوڑنے والی۔ شاہد نے اتنا کہا اور فوراً وہاں سے نکل گیا۔ نجمہ کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں اور ساتھ ہی آنسوؤں کا سیلاب اس کی آنکھوں میں امڈ آیا۔ وہ چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی مگر شاید آواز اس کے گلے میں ہی دب کر رہ گئی۔ آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ نجمہ سوچنے لگی کہ اس نے مجھے اس لئیے ٹھکرا دیا ہے کہ میں معذور ہوں۔ اسے اپنے قسمت پر کوئی شکوہ نہیں تھا مگر گلہ تھا تو شاہد کی بیوفائی اور جھوٹے وعدوں پر۔ روتے روتے کب نجمہ کو نیند آئی پتہ ہی نہیں چلا۔ صبح اس کی امی نے اٹھایا کہ نجمہ اب اٹھ جاؤ دیکھو دن چڑھ آیا ہے۔ تم ہو کہ اب تک سوئی ہوئی ہو۔ وہ نیند سے بیدار ہوئی ہاتھ منہ دھویا اور ناشتہ کرنے بیٹھ گئی۔ اس نے تھوڑا سا ناشتہ کیا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگی تو پیچھے سے اس کی ماں نے آواز دی کہ نجمہ کیا ہوا ناشتہ کیوں بیچ میں چھوڑ کر جا رہی ہو۔ نجمہ نے جواب دیا کہ امی مجھے بھوک نہیں ہے جتنا میں نے کھانا تھا کھا لیا۔ نجمہ نے کافی سوچ و بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ شاہد کی بیوفائی اور بے رخی کو دل پر نہیں لگائے گی۔ میں اپنی پڑھائی پر پوری توجہ دوں گی، اس معاشرے میں ایک اچھا مقام حاصل کروں گی اور اس معذوری کو اپنی کامیابیوں کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دوں گی۔ ایک دن نجمہ کالج سے واپس آئی تو اس کی ماں نے بتایا کہ تمھارے باپ کا تبادلہ راولپنڈی ہو گیا ہے اور ہم سب کو ایک ہفتے تک وہاں جانا پڑے گا۔ نجمہ نے دل میں سوچا کہ چلو اچھا ہوا ہم سب وہاں جا رہے ہیں اور اب اس ہرجائی سے بھی آئندہ کبھی سامنا نہیں ہو گا۔ مزید برآں میں اپنی پڑھائی بھی دلجمعی کے ساتھ جاری رکھ سکوں گی۔ نجمہ اور اس کے والدین راولپنڈی منتقل ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر نجمہ نے تعلیمی کامیابیوں کو برقرار رکھا اور ایم ایس سی کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ بعد ازاں اس نے دن رات محنت کی اور سی ایس ایس کا امتحان بھی اچھے نمبروں سے پاس کر لیا۔ نجمہ اپنی اس کامیابی پر خوشی سے سرشار تھی اور اس کے والدین بھی اپنی بیٹی کی کامیابی پر بہت خوش تھے۔ نجمہ کو راولپنڈی میں ہی ملازمت مل گئی اور وہ باقاعدگی کے ساتھ دفتر جانے لگی۔ ایک دن وہ اپنے دفتر پہنچی تو اسے بتایا گیا کہ تمھارا تبادلہ گوجرانولہ ہو گیا ہے اور جلد ہی تمھیں وہاں جانا ہو گا۔ کیونکہ نجمہ کا بچپن گوجرانولہ میں ہی گزرا تھا اور اس کی بہت سی تلخ اور شیریں یادیں یہاں سے وابستہ تھیں وہ نہیں چاہ رہی تھی کہ وہ دوبارہ اسی شہر میں جائے مگر ملازمت کا تقاضہ سمجھتے ہوئے اسے وہاں جانا ہی پڑا۔ وہاں نجمہ کو دفتر کی طرف سے رہائش کا بھی انتظام کر دیا گیا۔ وہ اب باقاعدگی کے ساتھ دفتر جانے لگی۔ ایک دن اسے پتہ چلا کہ اس کی ایک کلاس فیلو جس کا نام روبینہ تھا اسی شہر میں رہتی ہے اور ایک اچھے ادارے میں ملازم ہے۔ نجمہ نے اس سے رابطہ کیا اور ملنے کے لئیے اس کے دفتر پہنچ گئی۔ جونہی نجمہ اس کے دفتر میں داخل ہوئی روبینہ نے اس کا پرتپاک استقبال کیا۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔ دونوں ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ روبینہ نے نجمہ کی بہت خاطر مدارت کی اور اپنے گھر آنے کی بھی دعوت دی جسے نجمہ نے اگلی بار آنے کے وعدے کے ساتھ قبول کر لی۔ باتیں کرتے کرتے وقت کا احساس بھی نہ ہوا نجمہ نے گھڑی کی طرف دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ یہاں آئے ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے لہذا اس نے اجازت چاہی اور اپنے دفتر کی طرف چل دی۔ کافی دنوں تک دفتری مصروفیات کے باعث وہ روبینہ سے رابطہ نہ کر سکی۔ ایک دن اس نے فراغت محسوس کرتے ہوئی اپنی سہیلی روبینہ کو فون کیا اور اسے بتایا کہ اگر تم فارغ ہو تو میں تمھیں ملنے کے لئیے آ جاؤں۔ روبینہ نے کہا کہ ہاں میں فارغ ہوں تم ابھی آ جاؤ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ روبینہ کے دفتر پہنچی تو دیکھا کہ اس کے دفتر میں پہلے سے ہی ایک خاتون بیٹھی ہوئی ہے۔ روبینہ نے نجمہ سے اس کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ یہ میرے بچپن کی سہیلی صنوبر ہے۔ وہ روبینہ سے کچھ ادھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی بعد ازاں وہ واپس اپنے گھر جانے کے لئیے اٹھ کھڑی ہوئی اور روبینہ کے دفتر سے چلی گئی۔ جب وہ روبینہ کےدفتر سے نکل گئی تو نجمہ نے پوچھا کہ تمھاری یہ دوست مجھے کافی پریشان لگ رہی تھی۔ روبینہ نے کہا کہ ہاں تم نے صحیح اندازہ لگایا ہے۔ اس کا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ بھی معذور۔ میں کسی دن تمھیں اس کے گھر لے کر جاؤں گی۔ نجمہ نے کسی مناسب موقع پر صنوبر کے گھر جانے کی حامی بھر لی۔ ایک دن نجمہ اپنے دفتری امور میں مصروف تھی کہ فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف روبینہ تھی وہ کہہ رہی تھی کہ اگر تم شام کے وقت فارغ ہو تو ہم دونوں صنوبر کے گھر چلیں۔ نجمہ نے آج شام کو آنے کا وعدہ کر لیا۔ حسب وعدہ وہ روبینہ کے گھر پہنچ گئی تھوڑی دیر نجمہ وہاں رکی بعد ازاں دونوں صنوبر کے گھر جانے کے لئیے نکلیں اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اس کے گھر پہنچ گئیں۔ دروازے پر صنوبر نے دونوں کا استقبال کیا اور انہیں اپنے ڈرائنگ روم میں لے آئی۔ صنوبر نے چائے اور دیگر لوازمات کے ساتھ دونوں کی خوب خاطر مدارت کی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ انہیں دوسرے کمرے میں لے آئی جہاں بیڈ پر ایک بچہ لیٹا ہوا تھا۔ صنوبر نے بتایا کہ یہ میرا بیٹا ہے اور دونوں ٹانگوں سے معذور ہے اور یہ اسی طرح ہی بیڈ پر لیٹا رہتا ہے۔ ہم میاں بیوی اس کی وجہ سے بہت پریشان رہتے ہیں اور اس کا کافی علاج بھی کروایا ہے مگر اسے کوئی افاقہ نہیں ہو رہا۔ اتنا بتانے کے بعد صنوبر اونچا اونچا رونے لگ پڑی۔ ہم دونوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے جلد شفا یاب ہونے کی دعا دی۔ کچھ ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں کہ اس دوران ڈور بیل بجی۔ صنوبر دروازہ کھولنے کے لئیے چلی گئی۔ نجمہ اور روبینہ بھی واپس جانے کے لئیے اٹھیں تو یکدم نجمہ کے اوسان خطا ہو گئے دیکھا تو سامنے شاہد کھڑا ہوا تھا۔ وہ دل میں کہنے لگی ہاں یہ تو وہی ہے جسے میں لاکھوں میں پہچان سکتی ہوں۔ جس نے محض مجھے معذوری کا طعنہ دیتے ہوئے ٹھکرا دیا تھا۔ نجمہ کے اوسان کچھ بحال ہوئے تو فوراً وہاں سے چلنے کے لئیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ شاہد نے بھی اسے پہچان لیا تھا وہ اس کی منتیں کرتے ہوئے کہنے لگا کہ کچھ دیر رک جاؤ اور باقاعدہ معافیاں مانگتے ہوئے کہنے لگا کہ خدا کے لئیے مجھے معاف کر دو۔ مجھ سے بہت بڑی بھول ہو گئی کہ معذور سمجھتے ہوئے میں نے تجھے ٹھکرایا اور دھوکہ دیا۔ یہ میرے اس کئیے ہی کی سزا ہے جو میں اس معذور بیٹے کی صورت میں بھگت رہا ہوں۔ شاہد بار بار روتے ہوئے معافیاں مانگتا رہا۔ نجمہ کے لئیے اب ایک لمحہ بھی وہاں رکنا محال ہو رہا تھا۔ نجمہ نے روبینہ کا بازو پکڑا اور تقریباً بھاگتے ہوئے وہاں سے نکل آئی۔ سارے راستے وہ یہی سوچتی رہی کہ میں نے تو کبھی بھی شاہد کو بد دعا نہیں دی نہ ہی اپنی معذوری کا رونا رویا اور نہ ہی کسی سے شکوہ کیا۔ گھر پہنچنے تک نجمہ نڈھال ہو چکی تھی اور گھر پہنچتے ہی بستر پر گر پڑی اور زاروقطار رونے لگی کہ قدرت کس طرح اپنا انتقام لیتی ہے اور بعض اوقات انسان اپنے کئے کی سزا اسی دنیا میں ہی پا لیتا ہے۔
آپ کی راۓ