دنیاکے کئی ممالک میں جہاں مذہبی تنازعات اکثر شہ سرخیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور سماج کو بانٹ دیتے ہیں، نیپال صدیوں سے مذہبی رواداری اور بقائے باہمی کے علمبردار کے طور پر کھڑا رہا ہے۔ اس قوم کے ثقافتی تانے بانے میں بنے ہوئے روایات اور عقائد کے تنوع نے نیپالی سماج میں ایک منفرد ہم آہنگی اور اجتماعیت کو فروغ دیا ہے۔ تاہم، حالیہ واقعات نے اس ہم آہنگ بقائے باہمی کے خطرات سے دو چار ہونے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ سرلاہی کے ضلعی ہیڈکوارٹر ملنگوا میں پیش آنے والا واقعہ، جہاں ایک مذہبی رسم کے دوران ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں گزشتہ پانچ دنوں سے کرفیو نافذ ہے موصولہ خبر کے مطابق اب دن کا کرفیو ہٹا لیا گیا ہے، یہ حادثہ سماجی توازن کے نازک ہونے کی علامت ہے لہٰذا اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں مشترکہ کوششیں کرنی چاہیے۔ ان خطرناک رجحانات کے چلتے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نارائن کاجی شریسٹا نے جمعہ کو اس مسئلے کو حل کرنے اور آگے بڑھنے کا راستہ طے کرنے کے لیے مختلف تنظیموں اور سرکاری اداروں کے ساتھ میٹنگ بلا کر بروقت قیادت کا مظاہرہ کیا۔
اس اہم اجتماع کے دوران، نائب وزیر اعظم شریسٹا نے اس بات پر زور دیا کہ نیپال کی طاقت اس کی مذہبی رواداری میں پنہاں ہے، یہ ایک بنیادی اصول ہے جو ہمارے معاشرے کی بنیاد رہا ہے۔ مذہبی عقائد کی آڑ میں انتشار اور منافرت کے بیج بونے کی کوششوں کا مشاہدہ کرنا مایوس کن ہے۔ درحقیقت، پائیدار ہم آہنگی تب ہی حاصل کی جا سکتی ہے جب کمیونٹیز افہام و تفہیم، احترام اور یکجہتی کے ساتھ اکٹھے ہوں۔ میٹنگ میں ہندو، بدھ مت، مسلم اور عیسائی عقائد کی نمائندگی کرنے والے مذہبی رہنماؤں کی شرکت دیکھی گئی، جو نیپال میں شمولیت اور تنوع کا ثبوت ہے۔ ان مذہبی رہنماؤں نے صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے مذہبی ہم آہنگی کی مشترکہ اپیل جاری کی۔ مذہب کی آڑ میں کی جانے والی غیر آئینی اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف ان کا اجتماعی موقف اتحاد اور باہمی احترام کا ایک واضح مطالبہ ہے۔ اپیل میں بجا طور پر ایسے اقدامات کی مذمت کی گئی ہے جو نیپال کی تاریخ، روایات اور ہم آہنگی کے دیرینہ جذبے کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران ملک نے پریشان کن واقعات کا مشاہدہ کیا ہے، جہاں کچھ لوگوں نے مذہب، ذات پات اور فرقے کی بنیاد پر نفرت کا پرچار کیا ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ نیپال کے تکثیری معاشرے کے جوہر کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔ ہر شہری کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسے اقدامات کی بلاشبہ مذمت کرے اور جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنے کے لیے تندہی سے کام کرے۔ پولیس انتظامیہ کو ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرے میں صدیوں سے قائم مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ اتحاد محض ایک خواہش نہیں ہے بلکہ نیپالی قوم کے استحکام اور خوشحالی کی ضرورت ہے۔ آج ہم ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمارے آج کے اعمال کل ہمارے معاشرے کی رفتار کا تعین کریں گے۔ آئیے اتحاد، افہام و تفہیم اور تعاون کی دعوت پر توجہ دیں۔ آئیے ہم ان قدیم اقدار کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعادہ کریں جنہوں نے نیپال کو ایک منفرد اور ہم آہنگ ملک بنایا ہے۔ ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھیں جو نسلوں سے ہماری میراث رہی ہے۔
آپ کی راۓ