دشمن بڑا شاطر ہے وہ قاتل بھی ہے اور فریادی بھی

أبو حماد عطاء الرحمن المدنی/ المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو۔

11 اکتوبر, 2023
یہود جن کی تاریخ ہمیشہ سیاہ رہی ہے جنہوں نے بیشمار نبیوں اور رسولوں کو قتل کیا وہ اپنے سوا تمام انسانوں کے جان ومال کو حلال سمجھا عہد شکنی اور سازشوں کو اپنی شناخت بنایا پوری دنیا کے اندر فتنہ و فساد پھیلانے کی پلاننگ کیا 1948ء سے لے کر آج تک فلسطین میں معصوم مسلمانوں کا خون بہایا اور لاکھوں فلسطینیوں کی زمین جائداد غصب کر کے انہیں بے گھر کیا اور آج پورے فلسطین کو خالی کرانے کی پلاننگ کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کیا ہوا ہے، آیئے اور دیکھیں کہ جس غزہ پٹی کو آج اسرائیلی حکومت پانی، بجلی اور ضروریات زندگی سے محروم کردیا ہے وہاں کون ظالم اور کون مظلوم ہیں ۔
 جاننا چاہئے کہ تاریخی حیثیت سے غزہ کا علاقہ نبی کریم ﷺ کے پردادا ہاشم کا علاقہ تھا انتقال بھی وہیں پاۓ اور وہیں مدفون ہیں۔ ساتویں صدی عیسوی میں مسلمان فلسطین میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے اور اس کو اسلامی مملکت کا ایک صوبہ بنایا۔ صلاح الدین ایوبی کے دور میں صوبے کی حیثیت ختم کرکے مملکات میں تقسیم کردیا گیا ۔  24 اگست 1516ء کو فلسطین پر ترکوں کی حکومت قائم ہوگئی اور درمیانی مختصر وقفے کے سوا چار سو سال تک ترکوں کی اس علاقے پر حکمرانی رہی۔
اپریل 637ء میں جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فلسطین میں داخل ہوۓ تو یہاں کوئی یہودی خاندان آباد نہیں تھا، 1267ء میں یہاں دو یہودی خاندان آباد ہوۓ 1745ء میں یہاں یہودیوں کی تعداد 12ہزار تھی۔  1897ء میں سوئزرلینڈ میں ہونے والی پہلی یہودی کانفرنس میں 200یہودی لیڈروں نے مل کر باسل پروگرام کا اعلان کیا اور یہودی صہیونی تحریک (world Zionist organization) کی بنیاد رکھی گئی اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ کہ وہ دس سے پچاس سال کے عرصے میں ایک یہودی سلطنت قائم کرکے دم لیں گے۔  فلسطین کو یہودی بنانے کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے 1901ء میں اس تنظیم کے تحت ہونے والی پانچویں کانفرس میں جے این ایف ( جیونیش نیشنل فنڈ) قائم کیاگیا تاکہ فلسطین کی زیادہ سے زیادہ زمین خریدی جاسکے۔
ان کے لیڈر ہرزل نے ترکی کے صدر سلطان عبد الحمید سے درخواست کی کہ فلسطین میں یہودیوں کو زمین خریدنے کی اجازت دی جائے ہم اس کی ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں،  لیکن سلطان عبد الحمید اس سے پہلے یہودیوں کو عثمانی سلطنت میں داخلے اور تین ماہ تک قیام کی اجازت دینے کا تجربہ کرچکے تھے، سلطان نے فلسطین کی ایک انچ زمین بھی دینے سے انکار کردیا۔  لیکن پہلی جنگ عظیم 1914-18ء کے زمانے میں انگریزوں کے ایما پر یہاں یہودی آبادکاری کا سلسلہ شروع کیا گیا ،  یہودیوں نے بھاری قیمت ادا کرکے یہاں زمینیں خریدنا شروع کردیں۔  بڑے بڑے یہودی سرمایہ داروں نے اس تحریک کو مالی مدد فراہم کی، عربوں نے اس پر توجہ نہ کی جس سے یہاں یہودی آبادی کار بڑھتے چلے گئےاور رفتہ رفتہ 1922ء تک یہ تعداد 33970 تک پہنچ گئی اور 1919ء میں عالم عرب کے قلب میں پہلا یہودی شہر تل ابیب بسایاگیا۔
برطانیہ کو ملنے والی مینڈیٹ کی مدت 1948ء میں ختم ہوئی تو اقوام متحدہ نے برطانیہ کے ایما پر فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور 55 فیصد علاقہ ہوشیاری سے آباد کی گئی یہودی آبادی کو دے دیا گیا جبکہ ملک کے اصل باشندوں یعنی آبادی کو 45 فیصد رقبہ دیا گیا۔یہودیوں نے اپنے حق میں ہونے والے اس فیصلے پر عمل درآمد کا بھی انتظار نہ کیا اور پیشتر اس سے کہ اقوام متحدہ ان کے سرپرست برطانیہ کی طرف سے انہیں 55 فیصد علاقے کا تحفہ دینے کا اعلان کرتا یہودی لیڈر ڈیوڈ بن گوریان 14 مئی 1948ء کی رات دس بجے آزاد اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا اور صدر ٹرومین نے اسرائیل کو اسی روز تسلیم بھی کر لیا اور محض دو دن کے بعد روس نے بھی اس کی تائید کردی۔  اس کے بعد جس قضیے کا آغاز ہوا وہ عربوں اور اور اسرائیل کے درمیان متعدد جنگوں اور اسرائیل کی خون آشامیوں کے باوجود تاہنوز تصفیہ طلب ہےاور غزہ پر آئے روز اسرائیلی حملے اسی کا تسلسل ہیں جن پر عالمی ضمیر مجرمانہ طورپر مہر لب ہے۔
مقبوضہ فلسطین  میں وہ مسلمان جو سازشوں اور خیانتوں سے بے پرواہ ہوتے ہوئے اپنے حق کے مطالبے کی جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں، انہیں اور ان کی تحریک کو غیر انسانی اور انتہائی ظالمانہ طریقہ سے کچل دیا جاتا ہے۔ عورتیں،  بچے اور بوڑھے صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں شکنجے و اذیت میں مبتلا ہیں اور انہیں بھیڑ بکریوں کی مانند تہہ تیغ کردیا جاتا ہے۔  یہ سب ظلم و ستم اور قتل وغارت دیکھتے ہوئے بھی نہ صرف یہ کہ انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والے مغربی حکومتیں کھڑی نہیں ہوتی بلکہ وہ امریکہ، برطانیہ اور دوسری صہیونیت نواز حکومتوں کی عملی حمایت اور زبانی تائید بھی کرتی ہیں، جیساکہ آجکل آپ دیکھ رہے ہیں  فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک سب ایک ہی آواز لگا رہے ہیں کہ اسرائیل مظلوم ہے اور فلسطین ظالم ، ضروت ہے کہ مسلم ممالک بھی متحد ہوکر ہر طرح سے مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دے کیونکہ دشمن بڑا شاطر ہے وہ رونا رو کر بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مظلوم فلسطینیوں کی مدد فرماۓ، انہیں جانی اور مالی نقصانات سے محفوظ رکھے، آمین یارب العالمین۔
أبو حماد عطاء الرحمن المدنی
المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو۔

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter