اسلام ایک فطری دین ہے جو انسان کے تمام فطری تقاضوں کو من وعن پورا کرتا ہے ۔بھاگ دوڑ، جدوجہد، انتظام وانصرام اور محنت ومزدوری ایک مرد کے شایان شان تھی تو اسلام نے انتظامی امور سے لے کر کسب معاش تک کی ذمہ داری مردوں کے سپرد کی تاکہ عورتوں کو گھر سے نہ نکلنا پڑے اور ان کو گھریلو ذمہ داری دیگر اسی مقام کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ۔
اس تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا آج کے مسلم معاشرہ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ دیگر اقوام کی طرح مسلم عورتیں بھی ہرمیدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں ۔ وہ کون سا کام رہ گیا ہے جسے ایک عورت انجام نہیں دے رہی ہے ۔ قطع نظر اس سے کہ عورت بھی ہر کام کرسکتی ہے دینی نقطہ نظر سے دیکھیں کہ کیا اسلام عورت کو ہر کام کرنے کی چھوٹ دیتا ہے ، عورت کو ہرمیدان میں نکل کر مردوں کے ساتھ کام کرنا چاہئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں ۔ مردوں کے شانہ بشانہ چلنے اور ہرمیدان میں عورتوں کے کام کاج کی وجہ سے زمانے میں جو فتنےاور برائیاں عام ہیں ہماری نظروں سے مخفی نہیں ہیں اس لئے مسلم خواتین کو چاہئےکہ اپنی ذمہ داری اور اپنی حدود کو سمجھے اوراسی حد میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے ۔
کسب معاش کے تعلق سے مسلم خواتین اب اپنے شوہروں پر منحصر نہیں رہنا چاہتی ہیں ، بلکہ مغربی تہذیب میں جس طرح آزاد ہوکر عورتوں کو کماتے ہوئے دیکھا جارہا ہے اس کی نقالی مشرقی ممالک کی مسلم عورتیں بھی کررہی ہیں جو بیحد افسوسناک اور اسلام مخالف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کردار والے مسلمان نہیں ، صرف نام والے مسلمان بنتے جارہے ہیں اور غیروں کی مشابہت اختیار کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کررہے ہیں ، دراصل اس طرح کے کھلے ماحول نے مسلمانوں میں الحادوارتداد کا دروازہ کھولا اور آج بے شمار مسلم لڑکیاں اغیار کی گود میں جابیٹھی ہیں، روزبروز یہ سلسلہ بڑھتا جارہاہے اورجو کبھی اسلام کے پاسبان ومحافظ تھے وہی اسلام پر انگشت نمائی کرکے اپنوں اور غیروں کے لئے فسق وفجور اور کفر وضلالت کا سبب بن رہے ہیں ۔ العیاذ باللہ
مندرجہ بالا پس منظر میں کہنا چاہتاہوں کہ مسلم عورتوں کو ہوش کا ناخن لینا اور آزادی کے نام پر عزت وآبرواور دین وملت کا نقصان نہیں کرنا چاہئے ، اس سلسلے میں خواتین کے سرپرست اصل ذمہ دار ہیں، انہیں اپنے گھر کی بہن ، بیٹی ،بیوی اور بہو ؤں کو فتنے کی آماجگاہوں سے دور رکھنا چاہئے خصوصا کسب معاش کے لئے بلاضرورت گھر سے باہر نہیں جانے دینا چاہئے ۔
بلاشبہ سماج میں ایسی بھی خواتین ہیں جن کو مزدوری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کوئی ان کا کفیل نہیں ہوتا ہے ایسی خواتین شرعی حدود میں رہتے ہوئے گھر میں یا گھر سے باہر رہتے ہوئے مزدوری کرسکتی ہیں ۔ وہ مزدوری کرتے ہوئے ہمہ وقت یہ احساس رکھے کہ وہ مسلمان ہے تاکہ اسے کیسے اور کس طرح مزدوری کرنا ہے یہ پاس ولحاظ رہے ۔ اسی طرح وہ خواتین جن کو نوکری کی ضرورت نہیں ہے پھر بھی نوکری کرنا چاہتی ہیں تو نوکری کرنا عورت کے لئے جائز ہے تاہم حالات کا دراسہ کرے کہ جو نوکری کرنا چاہتی ہے وہ اسلامی اعتبار سے جائز ہےیا نہیں، یا اس نوکری کی وجہ سے کہیں وہ فتنے میں مبتلا تو نہیں ہوگی یا کیا شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے وہ نوکری کرسکتی ہے؟ ان ساری باتوں کا اندازہ لگائے ۔ اگر عورت کو حلال نوکری ملتی ہے اور اس کے کرنے میں شرعی طور پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور اس میں عورت کے لئے دینی اعتبار سے کوئی نقصان نہیں ہے تو ایسی نوکری کرنے میں حرج نہیں ہے۔
اب چلتے ہیں مضمون کے اصل حصہ سوشل میڈیا کے دور میں "ورک فرام ہوم "(گھربیٹھے کام)سے جڑ کر کمانے والی مسلم خواتین کی طرف ۔چونکہ خواتین گھر میں ہوتی ہیں اور بہت سی خواتین کو گھریلو کام کرنے کے بعد کافی وقت مل جاتا ہے یا گھریلو کام سے فرصت نہ بھی ملتی ہو تو بھی اس وقت سوشل میڈیا کے توسط سے پیسہ کمانا چاہتی ہیں ۔ اس بابت دو قسم کی خواتین پائی جاتی ہیں ۔
پہلی قسم : ایک قسم کی خواتین وہ ہیں جو سوشل میڈیامثلا یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک وغیرہ پر ناچ گانے، فحش ویڈیوزاورجنسی مسائل کی ویڈیوز بناکر نشر کرتی ہیں اور عوام کی ویوز کی بدولت پیسہ کمانے کا سستا موقع ہاتھ آجاتا ہے ۔یاد رکھیں ، آپ اس طرح سے پیسے تو کمالیں گے مگر ایک ایک حرکت کا اللہ کے یہاں آپ کو حساب دینا ہوگا اور یہی نہیں بلکہ جتنے لوگ اور جب تک آپ کی پوسٹ اور ویڈیوز دیکھتے اور شیئر کرتے رہیں گے ان سب کا گناہ آپ کے سر جائے گا۔
کچھ مسلم لڑکیاں جن میں پڑھی لکھی خواتین بھی شامل ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ ان کی ویڈیوز میں کوئی حرج نہیں ہیں اور لوگوں کی دیکھا دیکھی قسم قسم کی ویڈیوز بنابناکر سوشل میڈیا پہ مشہور ہونے اور پیسے کمانے کی غرض سے نشر کرتی ہیں آپ بھی ان کاموں سے رک جائیں ۔
چاہے شعروشاعری کی ویڈیوہو، کھانے بنانے کی ویڈیوہو، طبی نسخے کی ویڈیو ہو، گھریلوکام کاج کی ویڈیو ہو، جنسی مسائل کی ویڈیوہو، پڑھنے پڑھانے کی ویڈیو ہو، یہ ساری ویڈیوز آپ کے لئے تباہی کا سبب ہیں ۔ یاد رکھیں کہ ایک عورت سراپا فتنے کا باعث ہے ، آپ ویڈیو میں اپنا ہاتھ دکھاتے ہیں یاچہرہ دکھاتے ہیں یاپورا بدن دکھاتے ہیں یا بغیر جسم کے صرف آواز رکارڈ کرتے ہیں ، یہ سب فتنہ سامانی ہیں ۔ ایک عورت کو بغیر ضرورت کےاجنبی مردوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے پھر پرکشش انداز میں ویڈیو بناکر سوشل پلیٹ فارم پر جہاں پوری دنیا کے لوگ دیکھ اور سن سکتے ہیں نشر کرنے کی کیسے اجازت ہوگی ؟ اے کاش میری اس بات سے کسی بہن کو نصیحت مل جائے ۔
دوسری قسم: سوشل میڈیا کے توسط سے کمانے والی ایک قسم کی خواتین وہ ہیں جن کو ویڈیوز بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی ، نہ اس میں آواز رکارڈ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ صرف کچھ دیکھنے یا پیسہ لگانے یا اسائنمنٹ بنانے جیسے کام کرنے ہوتے ہیں ۔
گھر بیٹھے خواتین بالخصوص ضرورت مند خواتین اس دوسری قسم سے فائدہ اٹھاکر پیسہ کماسکتی ہیں مگر اس قسم کی نوعیت کے کام کےلئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔ آپ اس طرز کا کوئی کام کرنا چاہتی ہیں تو پہلے اس کام کی مکمل تفصیل جانیں پھر اس کے بارے میں علماء سے رہنمائی حاصل کریں اور جب آپ کو معلوم ہو کہ یہ کام اسلامی اعتبار سے کرنا جائز ہے پھر اس کام کوکرنا شروع کریں ۔ اس سلسلے میں کچھ مفید باتوں سے آپ کو آگاہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔
(1) ویڈیودیکھنے والاکام : بہت سارے کام ایسے ملیں گے جن میں آپ سے کہاجائے گا کہ آپ کو کچھ نہیں کرنا ہے ، بس ویڈیوز دیکھنا ہے، وہ دراصل مختلف قسم کے پرچار ہوتے ہیں ، ان ویڈیوز کو دیکھیں، لائک کریں اور دوسروں کو شیئر بھی کریں ساتھ ہی اس کے چینل کو سبسکرائب بھی کرنا ہوتا ہے ۔ اس قسم کے کام سے جڑنے کے لئے پہلے آپ سے ایک بڑی رقم وصول کی جاتی ہے ۔
اس کام کے بارے میں آپ کو صحیح بات بتادوں کہ ایسا کوئی کام نہ کریں جس میں آپ کو ویڈیوز دیکھنی پڑے، لائک کرناپڑے اور شیئر کرنا پڑے اور سبسکرائب کرنا پڑے ۔ویسے بھی یہ فضول ولغو کام ہے مزید برآں یہ ویڈیوز دراصل تجارتی اداروں کے پرچار ہوتے ہیں اور آپ نہیں جانتے ہیں کہ کون سی تجارت حلال ہے اور کون سی حرام ، اسی طرح ان میں کون فرضی تجارت ہےاورکون فریبی ہے یا سود وحرام کام میں ملوث ہے پتہ نہیں چلے گا ، نیز پرچار میں کتنی غیراخلاقی وفحش تصویر، موسیقی اور جاندار کی تصاویر ہوں گی ۔ آپ اگر ان ویڈیوز کو دیکھتی ہیں، لائک کرتی ہیں ، شیئر کرتی اور چینل سبسکرائب کرتی ہیں توان ویڈیوز سے متعلق گناہگاہوں کے گناہ میں آپ بھی شریک ہوتی ہیں بلکہ شیئر کرکے دوسروں کو بھی گناہوں کی دعوت دیتی ہیں اس لئے ویڈیوز دیکھنے والے کاموں سے دور رہیں ۔
(2) اسائنمنٹ ورک: آج کل بہت ساری خواتین اسائنمنٹ ورک کرتی ہیں ، اس میں پہلے ایک موٹی رقم رجسٹریشن کے نام پر طلب کی جاتی ہے پھر مخصوص تعداد میں ممبر کو جوڑنا بھی ہوتا ہے مثلا سات ممبر کو اس ادارہ سے جوڑنا ہوگا اور پھر کچھ لکھنے کا کام دیا جاتا ہے ، اس کو تیار کرکے ادارہ کو دینا ہے ، اس لے بدلے ادارہ معمولی پیسہ دیتا ہے ۔
آپ اس طرح کا کوئی بھی اسائمنٹ والا کام نہ کریں جس میں آپ کو پہلے موٹی رقم دینا پڑے اور سات یا دس افراد کو جوڑنا بھی پڑے ۔ آپ سے جو رقم لی جاتی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ کے ساتھ سات لوگوں کی رقم مل کر کتنی رقم بن جاتی ہے آپ نے اندازہ لگایاہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ ادارہ آپ کے پیسے سے کماتا ہے اور اسی کمائی سے تھوڑا آپ کو دیتا ہے ۔
آپ اسائنمنٹ کا صرف وہی کام کریں جس میں کوئی رقم لگانی نہ پڑے اور کوئی ممبر ایڈ نہ کرنا پڑےاور وہ اسائنمنٹ ورک فی نفسہ حلال بھی ہو، اگر ایسا کام نہ ملے تو اس کام کو چھوڑ دیں ۔
(3)خریدوفروخت کا کام : بہت ساری آن لائن تجارت اور آن لائن دوکانیں ہیں ۔ یہ تجارتی ادارے لوگوں کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ ان سے جڑ کر کام کیا جائے یعنی ان کے سامان کو فروخت کریں یا ان کے سامان کا پرچار کریں ۔ اس قسم کی تجارت میں حرام وحلال کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں اس لئےآپ جو کام کرنا چاہتی ہیں پہلے اس کی نوعیت جانیں پھر کسی عالم سے رہنمائی لے کر ہی شروع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں ۔
بنیادی طور پر یہ معلوم رہے کہ حرام چیز کا پرچار کرنا جائز نہیں ہے اور حلال چیز کا پرچار بھی غلط طریقے سے یعنی جھوٹ بول کر یا غلط وصف بتاکر بیچنا جائز نہیں ہے لہذا ایسے پرچار والا کام نہ کریں جس میں غیرشرعی پہلو ہو۔ اسی طرح آن ئن خریدوفروخت میں ایک چیز بیچنے کے بعد جب تک خریدار اس پہ قبضہ نہ کرلے دوسرے سے بیچنا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح یاد رہے کہ جب آپ کسی ادارہ سے نہیں جڑے ہیں اور لوگوں کواس ادارے کا سامان دکھاکر بیچتے ہیں تو لوگ سمجھیں کہ آپ ان چیزوں کے مالک ہیں ، اسلام کی رو سے یہ عمل جائز نہیں ہے ۔ نبی ﷺ نے ایسی چیز کو بیچنے سے منع کیا ہے جو ہماری ملکیت نہیں ہے ۔ ہاں کسی ادارے سے جڑے ہیں تو ادارے کا وکیل بن کر جس قیمت میں بیچنے پراتفاق ہوا ہے بیچ سکتے ہیں ۔دکیل کے لئے منافع لینے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ مالک کہے میرا فلاں سامان اتنے کا ہے ، اس میں تم اپنا منافع رکھ کر آگے بیچو، مجھے فلاں سامان کی اتنی قیمت چاہئے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مالک کہے تو میرے متعین قیمت پر سامان بیچو میں تمہیں ہر سامان پر اتنا منافع الگ سے دوں گا۔ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں ۔
(4) ذاتی ایپس یا بلاگ وویب کے ذریعہ کمانا: بہت سی خواتین ٹکنالوجی کا استعمال جاتی ہیں تو خود کی کوئی اپلیکیشن بنالیتی ہیں یا ویب و بلاگ بناکر ایڈسن سے پرچار لے کر کماتی ہیں ۔ اس معاملہ میں اتنا کہوں گا اور آپ بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ گوگل کے ذریعہ آپ پرچار لیتے ہیں تو عموماآپ کو نہیں معلوم ہوگا کہ جس تجارت کے بارے میں پرچار ہے اس تجارت کی کیا حقیقت ہے، اس میں حرام وحلال کا کیا پہلو ہےبلکہ اپنی آنکھوں سے اس پرچار میں ہی متعدد خامیاں اور اسلام مخالف امور کا مشاہدہ کرتی ہوں گی جیسے موسیقی ، جاندار کی تصویر، غیرشرعی تجارت کا پرچار اور فحش تصاویر وغیرہ اس لئے گوگل سے پرچار لے کر کمانے کی کبھی نہ سوچیں ۔ اس سے بہتر ہے محنت ومزدوری کرکے کمائیں اگر آپ کوگھریلو اعتبار سے کمانے کی ضرورت ہے ،اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے میرے بلاگ پرمیرا ایک مضمون "یوٹیوب کی کمائی پر نوجوانوں کی فریفتگی اور اسلام” سے مطالعہ کریں ۔
(5) انوسٹمنٹ پلان:کمائی کرنے کے بہت سارے مواقع انوسٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں ۔مختلف قسم کے اداروں میں پیسے لگاکر روزانہ یا ماہانہ کی بنیاد پر عمومامتعین منافع دیا جاتا ہے ۔ اس قسم سے متعلق جو بھی آن لائن انوسٹمنٹ ادارے ہیں آپ آنکھ بند کرکے اس میں پیسہ لگاکر کمائی کرنا شروع مت کریں ، پہلے اس ادارہ کی مکمل جانکاری حاصل کریں پھر ان ساری تفصیل کو مستند عالم سے بتاکر رہنمائی حاصل کریں تاکہ آپ کا پیسہ حلال جگہ انوسٹ ہو اور آپ کی کمائی حلال ہو۔ بہت سارے فراڈی ادارے ہوتے ہیں جو آپ سے پیسہ لے کر غائب ہوجائیں گے، پتہ بھی نہیں چلے گا اور بہت سارے ادارے حرام تجارت یا سودی لین دین میں ملوث ہوتے ہیں ان سے کمائی کرنا جائز نہیں ہے اور اسی طرح بہت سارے تجارتی ادارے حلال چیزوں کی تجارت تو کرتے ہیں مگر لین دین ، معاملات، طریق کار اور منافع میں شرعی قباحتیں ہوتی ہیں اس لئے کسی بھی انوسٹمنٹ پلان سے جڑنے سے قبل اس کے بارے میں آگاہی ضروری ہوتی ہے اور آگاہی کے ساتھ اس ادارہ میں رقم لگانا شرعا جائز ہے کہ نہیں یہ بھی جاننا ضروری ہے۔
میں نے یہاں پر صرف پانچ قسم کے ذرائع آمدنی کا ذکر کیا ہے جبکہ آج دنیا میں گلوبلائزیشن کی وجہ سے ہزاروں ذرائع معیشت پائے جاتے ہیں ، ان سب کو یہاں ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے ، ہمارا اصل مقصود وہ مسلم خواتین ہیں جو گھروں میں فارغ البال ہونے کی وجہ سے اور لوگوں کی دیکھادیکھی کسی بھی طرح سے پیسے کمانے کی ہوڑ میں لگی ہوئی ہیں ، مقصد ہوتا ہے پیسہ آنا چاہئے، چاہے جس طرح سے ہو۔ یہ غلط سوچ ہے ۔ اللہ تعالی نے آپ پر کس قدر مہربانی کی ہے، اس نے آپ کو فکرمعیشت سے آزاد کیا ہے تو اس کا غلط فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ اپنی فرصت کو رب کی طرف سے غنیمت جان کر دین وایمان کے لئے محنت کریں ۔ آپ واجبات کی ادائیگی (جن میں گھریلو اور فرائض دین دونوں شامل ہیں ) کے بعد دینی کتابوں کا مطالعہ کریں ، جید علماء کے علمی بیانات سے مستفید ہوں ، خود کو عبادت وذکر کے لئے متفرغ کریں اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی علم وعمل کی طرف راغب کرنے کی جدوجہد کریں ۔آج سوشل میڈیا کی بدولت عورتوں میں بہت بے راہ روی پائی جاتی ہے ، ان کو راہ راست کی طرف رہنمائی کا کام کریں ۔ آپ روزانہ کا ایک منظم شیڈول بنالیں جس میں گھریلوکام وکاج سے لے کر علم وعمل اور دعوت وتبلیغ سارے امور درج ہوں اور اس شیڈول کے مطابق اپنے شب وروز گزاریں ۔ اس طرح آپ کے اوقات بھی عمدگی سے گزریں گے اور آخرت بھی سنورتی رہے گی۔ ہم سب کو خصوصا عورتوں کو ہمہ وقت یہ حدیث دھیان میں رہنا چاہئے ۔نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا۔(صحیح الترمذی:2417)
اللہ تعالی سے دعا کرتاہوں کہ امت کی بہنوں کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرما اور ان علم کے مطابق عمل کی توفیق دے ۔ آمین
آپ کی راۓ