افسانے کا عنوان: نواب صاحب کا بنگلہ
مصنف کا نام: غلام عباس
تجزیہ:-
اردو ادب میں افسانہ نگاروں کی طویل فہرست میں ایک نمایاں نام غلام عباس کا بھی ہے۔ ان کا شمار بیسویں صدی کے معروف افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اپنی افسانہ نگاری کی بدولت انھوں نے خاصی شہرت حاصل کی ۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ آنندی ،دوسرا جاڑے کی چاندنی اور تیسرا کن رس کے نام سے شائع ہوا۔ غلام عباس کا انداز دوسرے افسانہ نگاروں سے خاصا مختلف تھا وہ سنسنی خیز واقعات اور اہم کرداروں کے ذریعے قاری کو جکڑنے کی بجائے انسانی زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل اور محرومیوں کو اپنی تحریروں کا حصہ بناتے ہیں۔ان کے گہرے مشاہدے کی بدولت عام انسانوں کی زندگی کا ایسا پہلو جو ہماری نظروں سے بچ گیا ان کے افسانے کا موضوع بنا۔ ان کی تحریروں میں طنز، تمسخر کی بجائے سنجیدگی پائی جاتی ہے ۔
وہ اپنی کردار نگاری کے زریعے معاشرے کی سچائیوں اور تلخیوں کا پردہ چاک کرتے ہیں ۔انسان کے ظاہر اور باطن کے تضاد کو جس خوبصورت انداز سادہ پیرائے میں اوور کوٹ میں بیان کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ جس میں ایک مفلس شخص مصنوعی طریقے سے خود کو امیر ظاہر کر رہا ہوتا ہے لیکن پھر ایک سڑک حادثہ اس کے مرنے پر اس کے افلاس اور ظاہر داری کا بھید کھولتا ہے ۔غلام عباس کا طرزِ تحریر ایسا سادہ اور رواں ہے کہ قاری آسانی سے ان کی بات سمجھ لیتا ہے ۔شوکت صدیقی ان کے متعلق لکھتے ہیں:-
"غلام عباس کے ساتھ اردو افسانے کا ایک عہد ختم ہو گیا۔”
انھوں نے ہر افسانہ ایک مختلف تکنیک اور انداز سے لکھا ۔ ان کے تمام افسانے خواہ حیرت انگیز نا ہوں اثر انگیز ضرور ہیں۔
افسانہ بہ عنوان نواب صاحب کا بنگلہ ایک معاشرتی برائی چوری پر لکھا گیا ہے ۔افسانہ اپنے اندر کئی موضوعات سمیٹے ہوئے ہے جیسے امیر غریب کا فرق، تصنع و بناوٹ ، حسب و نسب وغیرہ ۔
افسانے کا آغاز منظریہ ہے جس میں مرکزی کردار نواب صمصام الدولہ کے گھر رات تین بجے اک منظر بیان کیا گیا ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ نواب صاحب رات کو سوتے ہوئے اچانک کھڑکے کی آواز سے اٹھ بیٹھتے ہیں ۔پہلے تو وہ سوچتے ہیں کہ ہوا کا شور ہو گا پھر انھیں یاد آتا ہے کہ دروازے کھڑکیاں تو انھوں نے خود بند کیے تھے ۔اس طرح کی کئی سوچیں ان کے ذہن میں آتی ہیں۔دماغی الجھن یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ کوئی عمر رسیدہ شخص ہے جس کا حافظہ کمزور ہو چکا ہے اور وہ دماغ پر زور ڈال کر سوچ رہا ہے۔خیر وہ فکر مندی سے بیوی کو سوتا چھوڑ کر ڈرائینگ روم کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دونوں ہی اس گھر میں رہتے ہیں ورنہ کسی اور کو آواز دے لیتے۔ڈرائینگ روم میں دیکھتے ہیں کہ کچھ سامان گرا پڑا ہے جس سے انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ گھر میں واقعی کوئی چور گھس آیا ہے۔ وہ دلیری سے باقی گھر کا جائزہ لیتے ہیں۔
پھر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نواب صاحب اور بیگم اکیلے کیوں رہتے ہیں۔
"کیونکہ ان کا اکلوتا صاحب زادہ مدت ہوئی کاروبار کے سلسلے میں کسی دور دراز ملک میں جا کر وہیں کا ہو کر رہ گیا اور دونوں صاحب زادیاں شادی کے بعد اپنےاپنے شوہر کے گھر آباد ہو گئی ” ۔
یہ ایک المیاتی صورتحال بھی ہے کہ والدین اولاد کو اتنی محبت سے پالتے ہیں مگر کب اولاد اپنے پائوں پر کھڑی ہو جاتی ہے تو وہ والدین کو چھوڑ کر کہیں اور جا بستی ہے اور والدین پھر اکیلے ہی رہ جاتے ہیں۔ نواب صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
اس کے بعد نواب صاحب کے خاندانی پس منظر اور شہرت کا ذکر ہے۔
"اُنھیں اکثر شہری تقریبات میں شمولیت کے دعوت نامے آیا کرتے تھے۔اس کی وجہ ان کء اعلیٰ نسبی ، خاندانی وجاہت اور شرافت تھی ۔انھیں فخر تھا کہ ان کا شجرہ نسب کئی واسطوں سے نادر شاہ افشار سے ملتا ہے "۔
مشرقی ثقافت میں اونچے حسب و نسب کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے جو جتنے اونچے خاندان سے ہو گا معاشرے میں اتنی ہی عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔نواب صاحب کا شمار بھی معززین شہر میں ان کی اعلیٰ نسبی کی وجہ سے ہوتا تھا۔
افسانے میں ایک طرف تو رات تین بجے کی کہانی چل رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ کچھ اضافی جملے نواب صاحب کی شخصیت ،خاندان اور گزشتہ زندگی کے بارے میں ہیں جس سے نواب صاحب کی ساری زندگی قاری کی آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔
واپس منظر کی طرف آئیں تو نواب صاحب ایک ایک کمرے کا جائزہ لینے کے بعد توشہ خانہ کا دروازہ اندر سے بند پا کر پولیس کی دھمکی دے کر کھلواتے ہیں ۔ باہر آنے والا شخص حلیے سے چور معلوم نہیں ہوتا تو اس کا تعارف پوچھتے ہیں وہ بتاتا ہے کہ اس کا نام بشیر ہے انگریزی اردو جانتا ہے چوری کی نیت سے آیا تھا مگر اس نے سخت دھوکہ کھایا ۔نواب صاحب کے استفسار پر کہ دھوکہ کیسے کھایا ؟ وہ بتاتا ہے کہ سنسان جگہ دیکھ کر اس نے چوری کا ارادہ کیا بنگلے کے باہر لگا ان کے نام کا بورڑ بھی اس کے لیے کشش کا باعث بنا مگر گھر میں آ کر مایوسی ہوئی کیونکہ ایک چیز بھی چرائے جانے کے قابل نہ تھی ۔ دقیانوسی فرنیچر ، نا نقدی نہ اسلحہ حتی کہ ایک پین بھی نہیں ۔۔وہ مشورہ دیتا ہے کہ اپنے نام کا بورڈ ہٹوا لیں تاکہ کوئی اور چور دھوکہ نہ کھائے ۔
مزید بتاتا ہے کہ وہ بیڈ روم میں بھی گیا ۔ تجوری اور الماری میں سے خاندانی شجرہ نسب کے کاغذات کے سوا کچھ نہ ملا ۔ مایوس ہو کر جانے لگا تو میز سے ٹھوکر لگی اور صاحب کی آنکھ کھل گئی۔ وہ یقین سے کہتا ہے کہنواب صاحب اسے پولیس کے حوالے نہیں کریں گے کیونکہ پولیس موقع واردات پر آئے گی تو ان کی مصنوعی خاندانی وجاہت کا پول کھل جائے گا ۔ جبکہ نواب صاحب کے بنگلے کا تو یہ حال تھا ۔
"نواب صمصام الدولہ کے بنگلے میں تو ایک چیز بھی ایسی نا تھی جو چرائے جانے کے قابل ہو تو آپ اپنے جیسوں کو کیا منہ دیکھائیں ”
اپنا منہ بند رکھنے کے بدلے وہ کچھ نقدی کا مطالبہ کرتا ہے جو نواب صاحب اپنی بیگم سے ایک دوست کو دینے کہ کہہ کر مانگتے ہیں ۔ اور یہیں کہانی ختم ہو جاتی ہے ۔
افسانے کا انجام المیاتی ہے ۔کہ کس طرح بڑے بڑے لوگ جھوٹی شان و شوکت قائم کرتے ہیں تاکہ لوگوں پر ان کا رعب پڑ سکے جبکہ حقیقت حال ان کی نواب صاحب کے بنگلے کی سی ہوتی ہے جس میں چور کو چوری کے لیے ایک قلم بھی نہیں ملتا۔
اگر افسانے کی کردار نگاری کی بات کی جائے تو کل تین کردار ہمارے سامنے آتے ہیں مرکزی کردار کا نام نواب صمصام الدولہ تہور یار بہادر جنگ ہے۔ ان کی عمر اور حلیہ کچھ یوں بیان ہوا ہے ۔
"نواب صمصام الدولہ کی عمر کوئی پچیس برس کی ہو گی ۔ تھے تو وہ چھوٹے قد کے مگر ہاتھ پائوں میں بڑا کس بل تھا۔ سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی روشن آنکھیں، کڑبڑی مونچھیں، کتابی چہرہ جس سے شکوہ بردباری اور حلم ٹپکتا تھا”۔
اس کے علاوہ ان کے مکالمے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ تحمل مزاج، مشفق، عاجز اور رحمدل طبیعت کے مالک ہیں۔
غلام عباس کی کردار نگاری کا ایک خاصہ یہ ہے کہ وہ اپنے افسانوی کرداروں کے تعارف کے لیے لمبی چوڑی تفصیلات نہیں لکھتے بلکہ چند سطروں میں ہی بیان کر دیتے ہیں۔ یہ خصوصیت اس افسانے میں بھی موجود ہے ۔ دوسرا کردار بشیر نامی چور کا ہے اس کا بھی مختصر تعارف یوں کرواتے ہیں ۔
"دبلا پتلا نوجوان ، پتلون اور سویٹر پہنے، گلے کے گرد مفلر بڑے والہانہ انداز میں لپیٹے، انگریزی فیشن کے بال جو گدھی کے قریب گچھے دار ہو گئے تھے ، باریک باریک مونچھیں ، لمبی لمبی قلمیں
اس کے مکالمے ظاہر کرتے ہیں کہ ہے تو چور مگر نا تجربہ کار ہے ، تعلیم یافتہ بھی ہے با ادب اور نرم مزاج بھی ہے۔
تیسرا کردار نواب صاحب کی بیگم کا ہے جن کی عمر اور حلیہ افسانے میں درج نہیں ۔
اگر مکالمہ نگاری کی بات کی جائے تو کرداروں کے مکالمے ان کی عمر صنف اور شخصیت کے آئینہ دار ہیں ۔
افسانے میں مکالموں کی بھر مار ہے کچھ مختصر اور کچھ کافی طویل ہیں ۔
نواب صاحب کے تمام مکالمے مختصر ہیں جیسے:-
کون ہو؟
دھوکہ کھایا؟ کیسا دھوکہ ؟
وہ کیونکر؟
وغیرہ
چور کے تمام مکالمے طویل ہیں۔کچھ ایک پیراگراف سے بھی زائد کے ہیں ۔کیونکہ ان میں واقعے کا بیان ہے اور وضاحتی اسلوب اپنایا گیا ہے ۔
جبکہ نواب بیگم کے تمام مکالمے حد درجہ مختصر ہیں۔
منظر نگاری اور جزئیات نگاری کسی بھی کہانی کی جان ہوتی ہے۔ اس افسانے میں منظر نگاری اور جزئیات نگاری اتنی جاندار ہے کہ سارا منظر قاری کی آنکھوں کے سامنے متحرک کر دیتی ہے ۔ نواب صاحب کے گھر کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے ۔
بنگلے ہی ڈرائینگ روم کے علاوہ چار بیڈ روم تھے ۔
پھر جزئیات نگاری بھی بڑی شاندار ہے ۔
یہ دقیانوسی صوفہ سیٹ، یہ پرانا قالین، جس میں جگہ جگہ سوراخ ہیں، یہ پرانی گول میز، یہ بے ڈھنگی تپائیاں، جن کا روغن اتر چکا ہے ۔ دیوان پر یہ میلا سا پلنگ پوش بچھا ہے۔
نکنیک کے اعتبار سے یہ بیانیہ افسانہ ہے ۔اس کا راوی واحد غائب ہے جو کہانی سنا رہا ہے مگر خود کہانی کا حصہ نہیں ہے۔
اسلوب کی بات کی جائے تو وہ سادہ مگر کسی حد تک وضاحتی ہے ۔آسان الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے ۔کوئی تشبیہ ، استعارے یا بھاری بھر کم الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا ۔ جس کی وجہ سے یہ افسانہ عام فہم ہے ۔الغرض یہ افسانہ موضوع اور صنف کے اعتبار سے ایک شاندار افسانہ ہے۔
آپ کی راۓ