دور حاضر: مسجد اقصیٰ اور فلسطین
ابو ریان رضوان انقرہ
دور حاضر الحاد و لادینیت کے خطرناک ترین چنگل میں پھنستا جا رہاہے، یہ کام اتنی باریکی سے کیا جا رہاہے کہ عام مسلمانوں کو خبر نہیں ہو پاتی اور ذہن اندر ہی اندر اسلامی تعلیمات پر اعتراضات کرنے لگتا ہے اور دل میں شکوک وشبہات گھر کرنے لگتے ہیں، جو طاقتیں اس کام میں مصروف ہیں وہ پورے منصوبوں کے ساتھ؛ کچھ اصطلاحات، کچھ سوالات مسلسل سنا سنا کر اور ہماری سماعتوں کے لئے قابل قبول بنا کر ہمارے دل و دماغ کو تیار کرتے ہیں اور کچھ تصویروں کے ذریعہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں، اس جال کو بڑے سوچے سمجھے انداز میں ڈراموں، کارٹونوں، تعلیمی اداروں، خبر رساں ایجنسیوں اور آج کے ڈیجیٹل ہتھیاروں کے ذریعہ اس طرح بچھایا گیا ہے جس سے ہم باسآنی ان کے شکار بنتے چلے جا رہے ہیں، اور وہ کھلونا کی طرح جس طرح چاہتے ہیں ہمارا استعمال کرتے ہیں، جب کچھ ذہن اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنی نا پختگی اور اسلام کا حقیقی فہم نہ ہونے کی وجہ سے یا اصل راستے سے ہٹ جاتے ہیں یا کسی جنگل میں کھو کر رہ جاتے ہیں،
اگر تعلیم کی بات کی جائے تو آج یہ صرف ذریعہ معاش بن کر رہ گئی ہے، مادیت نے اسے اغوا کر لیا ہے، پہلے علم بڑی چیز تھی آج دولت بڑی چیز ہے جس کے نتیجے میں تربیت کو ہم تقریباً بھول ہی چکے ہیں، جب تک تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو علم ناقص سمجھا جائے گا کیونکہ دانشوروں کا کہنا ہے کہ علم منزل ہے، تعلیم راستہ اور اس راستے کو جو چیز روشنی دکھاتی ہے اور ٹھوکروں سے بچاتی ہے وہ ہے تربیت، جس طرح بغیر تربیت کے صرف تعلیم کافی نہیں اسی طرح بغیر تعلیم کے صرف تربیت بھی نا کافی ہے، اگر اچھی تربیت نہ ہو تو انسان انسانیت سے عاری ہوگا، مادیت سے لیث اور مسلمان مسلمان تو رہےگا مگر اسلامی غیرت و حمیت اس سے مفقود ہوگا، علم زندگی کے لئے بہت ضروری ہے مگر صرف ملازمت کے لئے نہیں، آج ہم تعلیم کے بہانے اپنی معاشرتی شناخت کو بھی کھو رہےہیں، ہر تہذیب و ثقافت کے ارتقاء میں کسی دین کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، قرآن مجید میں ذکر و انثی اور شعوب و قبائل کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ آپس میں تعارف و پہچان ہو سکے ہر علاقے کے لوگ اپنی زبان و تہذیب کے ساتھ زندگی گزارے مگر اسلامی قدریں ایک ہونی چاہئیں، لیکن بہت سے تعلیمی ادارے بڑی چالاکی سے ہم سے ھماری زبان و تہذیب چھین رہےہیں، ہم یہاں دولت کی مخالفت نہیں کر رہے، کر بھی نہیں سکتے کیونکہ مسلمانوں کو ہر لحاظ سے مضبوط رہنے کی ضرورت ہے، عرض یہ ہے کہ ہماری پروش تربیت کے بغیر نہ ہو، اپنے بچوں کے اندر یہ احساس بیدار کریں کہ صرف اچھا روزگار اچھا انسان نہیں بناتا اچھے انسان کو اچھا روزگار بھی مل جاتا ہے، تربیت کے بغیر کوئی معاشرہ چاہے کتنا ہی امیر ہو اچھا معاشرہ نہیں بن سکتا،
دور حاضر میں ذرائع ابلاغ ملک و معاشرہ کی تشکیل میں بہت بڑا کردار نبھارہا ہے، سیاست کے تعلق سے ہو یا معیشت کے، حکومتوں اور حکمرانوں کو گرانے سے متعلق ہو یا بنانے کے متعلق، اخلاق و کردار کے بنانے کی بابت ہو یا بگاڑنے کی بابت، ذرائع ابلاغ کی بہت زیادہ اہمیت ہے،
آج فلسطینی مسلمانوں کو اپنی ہی سرزمین پر قابض، ظالم و بربر قوم نے مظلوم بنا کر رکھ دیاہے اور اپنے ناپاک منصوبوں کی تکمیل کے لئے پوری دنیا کے سامنے سینہ اونچا کر کے جس دہشت اور خوفناکی کا کھلے عام مظاہرہ کر رہےہیں یہ مظاہرے ان تنظیموں کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے اور بوڑھی انگلی دکھاکر ایک طرح سے ان کا منھ چڑھاتے نظر آتے ہیں جو اپنے عالمی ہونے کا دم بھرتی ہیں اور اپنے کو عالمی منصف گردانتی ہیں، یہاں پر صدر ترکی رجب طیب اردوغان کا ” دنیا ان پانچوں سے بھی بڑی ہے” والا مقولہ بہت موزوں لگتا ہے کیونکہ آج جنہیں عالمی قوت مانا جاتا ہے ان میں پانچ عناصر کے کردار بہت اہم ہیں، یہ اصل میں دوہرے کردار والے ہیں، جمہوریت کا دم بھرتے نہیں تھکتے مگر اقبال کے الفاظ میں ان کے "… چہرہ روشن، اندرون چنگیز سے تاریک تر” ہیں، تاریخ گواہ ہے ان کے چہرے کتنوں کو دھوکا دے چکے ہیں اور آج بھی چہرے بدل بدل کر ھمارے پیچھے لپکے چلے آرہے ہیں، ان سے ہوشیار رہنے کی سخت ضرورت ہے، ساتھ ہی تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ان مقامی چہروں کی بھی پہچان کرنی ضروری ہے جن کے بارے میں ایک متعصب میکاولے نے کہا تھا کہ "ہم ہندوستان میں ایسے لوگ تیار کریں گے جو شکل کے اعتبار سے تو مقامی ہوں گے لیکن فکر و خیالات میں ہمارے ہمنوا ہوں گے”، تعلیمی ادارے شروع سے ان کا سب سے بڑا ہتھیار رہے ہیں اور آج ذرائع ابلاغ -جن پر انہیں کا قبضہ ہے- کی اہمیت ہم سب کے سامنے ہے،
کیا آپ کا ذہن کبھی کھٹکا کہ یہ اسلام دشمن عناصر ایک طرف ان کے مقابلے میں نہتے فلسطینی مسلمان بھائیوں پر -ان کے نہتے ہونے میں بھی ہمارے مسلم حکمرانوں کا قصور کوئی کم نہیں ہے- ظاہری طور پر ظلم واستحصال کر رہےہیں تو دوسری طرف یہ روشن چہرے ذرائع ابلاغ کے ہتھیار سے ہم پر کس طرح باطنی طور پر حملہ آور ہیں، نہیں کھٹکا ہوگا نا! اور کھٹکے گا بھی کیسے کیوں کہ ہماری ‘آنکھیں تو ہیں مگر بصیرت سے محروم، کان ہیں مگر سننے سے محروم اور علم ہے مگر لا ینفع،’ جب سے مسئلہ فلسطین کا وجود ہوا، میرے خیال میں اسے مسئلہ قدس کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ مسئلہ قدس کی وجہ سے ہی فلسطین کا مسئلہ پیدا ہوا، وہ صہیونی ارض موعود کی بات کرتے ہیں مگر اس وقت ان کی نظر بیت المقدس کی طرف ہے جسے گراکر وہ اپنا معبد بنانا چاہتے ہیں جسے متعدد بار ڈھایا گیا اور سن ٧٠ عیسوی میں آخری مرتبہ تباہ کیا گیا تھا اور چونکہ یہودیت عبادت گاہ پر مبنی ایک مذہب ہے یعنی ان کے یہاں عبادت کے لئے معبد کا ہونا ضروری ہے اس لئے بہت سی رسمیں وہ معبد کے بغیر نہیں کرپاتے ہیں، اسی تباہ شدہ معبد کا ایک حصہ آج دیوار گریہ کے نام سے مشہور ہے جہاں یہ روتے اور گڑگڑاتے ہیں، اسی دیوار کے قریب ہی بیت المقدس یا مسجد اقصیٰ واقع ہے جسے گراکر دیوار گریہ کے ساتھ ملا کر وہ ھیکل سلیمانی/معبد تعمیر کرنا چاہتے ہیں، یہ بھی واضح رہے کہ آج سنگاگ کے نام سے یہودیوں کے جس عبادت گاہ کا ذکر ہم سنتے ہیں وہ ان کے مطابق اصل معبد نہیں ہے بلکہ اس تباہ شدہ معبد کی نمائندگی کے طور یعنی اسے اس طرح سے کہیں کہ کام چلاؤ بنایا گیا ہے کہ جب تک اصل معبد کی تعمیر نہیں ہو جاتی تب تک اس میں آمد و رفت کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ بہت سی عبادتیں وہ اصل معبد نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کر پا تے ہیں، اس سے آپ ان کے منصوبوں کا اندازہ لگاسکتے ہیں، ان کے نزدیک اپنے دعوؤں کی تکمیل کے لئے غیر یہودی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل کرنا کوئی غلط کام نہیں ہے، اسلام کو بدنام کرنے والوں کے قلم ان حقائق کے بیان کرنے میں رک جاتے ہیں اور زبان گنگ ہو جاتی ہیں،
بہرحال موجودہ مسئلہ کے پیش نظر سب سے بڑی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم مسلمان آج تک مسجد اقصیٰ اور مسجد قبة الصخرا کے فرق کو نہیں سمجھ پائے ہیں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہم کھلونا بنا دئے گئے ہیں کیونکہ مسجد اقصیٰ کے نام پر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ جو تصویر ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہے ہم بھی بغیر عقل لگائے اس پر یقین کر بیٹھے ہیں اس کا نتیجہ ہے کہ ہم بھی غیر شعوری طور پر اسی کام کو انجام دینے میں لگے ہیں جو وہ کر رہےہیں، ایسا آج اچانک نہیں ہوا ہے بلکہ سالوں سے اس کے پیچھے کوششیں ہو رہی ہیں تاکہ ہماری آنکھیں اسی تصویر سے مانوس ہو جائیں اور ہم اسے ہی مسجد اقصیٰ کے طور پر مان لیں اور اندر ہی اندر وہ مسجد اقصیٰ کو گرادیں اور ہم خوش فہمی میں رہیں کہ الحمد للّٰہ مسجد اقصیٰ محفوظ ہے، اصل یہ کہ جس تصویر کو عام طورپر ہمیں مسجد اقصیٰ کے نام پر دکھایا جاتا ہے (سنہرے رنگ کے قبے والی مسجد) وہ مسجد قبة الصخرا ہے، قبلئہ اول مسجد اقصیٰ نہیں ہے، قبة الصخرا وہی جگہ ہے جہاں سے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سفر معراج ہوا تھا، اس جگہ پر اس مسجد کی پہلی تعمیر اموی دور میں ہوئی تھی،
لھذا ہم اس شور شرابے کے جنگل میں گم ہونے کے بجائے حکمت و دانائی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ دشمن کے مقابلہ کی تیاری جاری رکھیں، خود بیدار رہیں، دوسروں کو بھی بیدار رکھیں، مقابلہ کے میدان میں ھمارا ہتھیار دشمن کے ہتھیار کی طرح نہ ہو بلکہ اس سے زیادہ مضبوط ہو۔
اے اللّٰہ ہمیں اپنے دین کی حفاظت کی توفیق دے۔
ابو ریان، انقرہ
آپ کی راۓ