ناول” ابن الوقت ” کاکرداری مطالعہ

مقالہ نگار:اقصٰی  اشرف / بی ایس اردو میقات ہفتم شعبہ اردو یونیورسٹی آف اوکاڑا

18 اکتوبر, 2023

ڈپٹی نذیر احمد کو اردو ادب میں پہلا ناول نگار ہونے کا شرف حاصل ڈپٹی نذیر احمد 1836 ء کو بجنور میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام مولوی سعادت علی تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی  اور پھر دلی کالج میں داخلہ لیا. انھوں نے بچوں اور بڑوں کے لیے بہت سی کتابیں لکھیں جیسے کہ ” مراۃالعروس” اور” منتخب الحکایات” وغیرہ اس کے علاوہ انھوں  نے بہت سے ناول لکھے جن کا مقصد معاشرے کی اصلاح کرنا تھا نذیر احمد نے اپنے تمام تر ناولوں میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیا ۔نذیر احمد کی مشہور تصانیف میں ” مراۃ العروس”،  "بنات النعش”، ” توبتہالنصوح "، ” فسانہ مبتلا” ، ” ابن الوقت ” اور ” ایامی ” شامل ہیں. نزید احمد ان کی ادبی خدمات پر حکومت برطانیہ کی جانب سے "شمس العلماء” کا خطاب بھی دیا گیا. ڈپٹی نذیر احمد 3نے مئ 1912 کو دلی میں وفات پائ.

ناول  "ابن الوقت” سیاسی اعتبار سے ڈپٹی نذیر احمد کا ایک عمدہ ناول ہےـابن الوقت کا پہلا ایڈیشن "انصاری پریس دہلی”سے 1898ءمیں شائع ہوا ۔ناول”ابن الوقت” ڈپی نذیر احمد کی خدمات میں سے ایک شاندار نمونہ ہے جس میں انھوں نے  اپنے دور کے تہذیبی اور سیاسی مسائل پر روشنی ڈالی۔ اس ناول میں1857ء کے غدر میں ہونے والے واقعات، انگریزوں کے مسائل اور ہندوؤں کے دیگر مسائل کو اجاگر کیا  ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار” ابن الوقت” ہے جو کہ مغربی تہذیب سے  متاثر نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس اس ناول کاکردار” حجتہ  الاسلام "مشرقی طرز زندگی کو اپنا ضامن قرار دیتا ہے- اس ناول میں اسی   طرز زندگی کی کشمکش کو بیان کیا گیا ہے۔ "ابن الوقت” ایک ایسا کردار ہے جو کہ عقل سے فیصلے کرنے کا قائل ہے جبکہ”حجتہ الاسلام "قرآن و حدیث کی مدد سے اس کے خیالات کی نفی کرتا ہے۔ خود ڈپٹی نذیر احمد بھی اپنے کردار”ابن الوقت” کے عقلی نظریے سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ناول میں کرداروں کو بڑی چابکدستی سے تراشا ہے۔ کردار نگاری کے حوالے سے ڈپٹی نذیر احمد نے محتلف فنی تدابیر اختیار کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین ابن الوقت کو "سر سید احمد خان” کا عکس قرار دیتے ہیں۔

ناول "ابن الوقت” کے مرکزی  کرداروں میں "ابن الوقت”، "نوبل” اور "حجتہ الاسلام "شامل ہیں۔ ناول کے ذیلی کرداروں میں "جان نثار”، "مسٹر شارپ”، "کلکٹر”، "بریو لیفٹننٹ” اور”سرشتہ دار”وغیرہ شامل ہیں۔ ناول کے نسوانی کرداروں میں”بادشاہ بیگم” اور "پھوپھو”شامل ہیں۔

ان تمام کرداروں میں ابن الوقت کا کردار مرکزی ہے مگر نوبل اور حجتہ الاسلام بھی کہانی میں ابن الوقت کےساتھ معاون کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ ناول کے نصف حصے تک نوبل ابن الوقت کے ساتھ ہوتا ہے مگر جب نوبل ولایت رخصت ہو جاتا ہے تو نصف حصے کے بعد حجتہ الاسلام کا کردار ناول میں نمایاں ہو جاتا ہے ۔ نوبل سے یہ کردار چھپا ہوا ہوتا ہے اور جب حجتہ الاسلام کا کردار کھل کر سامنے آتا ہے تو نوبل کا کردار پوشیدہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ذیلی کرداروں میں جان نثار  کا کردار بھی اہم ثابت ہوتا ہے مگر دیگر کردار اتنے  اہم ثابت نہیں ہوتے۔ اگر بات کریں نسوانی کرداروں کی تو اس ناول میں وہ اتنے اہم اور نمایاں نہیں نظر آتے۔ دونو ں نسوانی کردار ناول میں مختصر سا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔

"ابن الوقت” مرکزی کردار ہے۔تمام کا تمام ناول اسی  کردار  کے گرد گھومتا ہے۔  نذیر احمد نے ناول میں” ابن الوقت”کی شخصیت اور کردار پر خود سے کوئی تبصرہ نہیں کیاـ "ابن الوقت” ایک روشن خیال، خوددار، ہمدرد، ترقی کرنےکا حامی ،تاریخ شناس، متجسس ،مستقل مزاج اور عقل کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ اس کردار کی ایک اور بات بڑی اہم ہے کہ” ابن الوقت” انگریزی وضع کا قائل ہے۔ دراصل 1857 ءکے غدر کے بعد جو حالات پیدا ہوئے اس کے بعدمعاشرہ بہت سے گروہوں میں تقسیم ہو گیا۔ کچھ لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ انگریزی طرز زندگی کو اپنا لینا عقلمندی ہے کیونکہ اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اور کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ انگریزی وضع  دائرہ اسلام سے باہر کی شے ہے۔ یہ اسلام کے اصولوں پر پورا نہیں اترتی لہٰذا ہمیں انگریزی طرز زندگی کو نہیں اپنانا چاہیے۔ ابن الوقت پہلے نظریے کا قائل تھا ۔اس کے نزدیک انگریزی وضع کو اپنانا کوئی برائی نہیں تھی کیونکہ وہ عقل سے سوچتا تھا ۔ "ابن الوقت "کے کردار کی خصوصیت کے حوالے سے مثال ملاحظہ ہو :

“خدا جانے شاہجہان نے کیسی منحوس تاریخ میں اس کمبخت شہر کی بنیاد ڈالی تھی کہ امن کی کوئی پوری صدی اس بستی میں نہ گزری مگر اس بار کچھ ایسا سامان نظر آتا ہے کہ لوگ نادر شاہ کے واقعے کو بھی بھول جائیں گے۔”١

اس اقتباس سے "ابن الوقت "کے کردار کے متعلق جاننے میں مدد ملتی ہے ۔ان جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ” ابن الوقت "ایک تاریخ شناس انسان تھا۔ وہ اپنے دور کے اور اپنے شہر کے متعلق تاریخ پر عبور رکھتا تھا ۔ایک اور مثال  ملاحظہ ہو:

"ابن الوقت کو تو ہمیشہ کی عادت تھی کہ غیر ممالک کے حالات کو ہر ایک سے کرید کرید کر اور کھود کھود کر پوچھا کرتا تھا ۔”۲

مندرجہ بالا اقتباس سے دو باتوں کی نشاندہی ہوتی ہے ایک یہ کہ "ابن الوقت” ایک متجسس  انسان تھا اور دوسری بات یہ کہ اس کو انگریزی وضع سے اور انگریزی طرز زندگی سے لگاؤ تھا یعنی” ابن الوقت” انگریزی طرز زندگی کو جاننے اور اپنانے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اس حوالے سے ایک اور مثال ملاحظہ ہو:

“ یہ غدر فوج کی شورش گوری ہے یا اس کی ہنڈیاں مدت سے پک رہی تھی اور رعایا بھی فوج کی شریک حال ہے؟ حکومت انگریزی سے لوگ رضامند ہیں یا ناراض؟ اور ناراض ہیں تو کیوں؟ کہاں تک مذہبی خیال غدر کامحرک ہوا؟ مسلمان معتقدات میں یہ غدر داخل  جہاد ہے یا نہیں ۔ "٣

اس اقتباس کو پڑھ کر ہم ابن الوقت کے بارے میں یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ وہ وسیع ذہن کا مالک تھا۔ اس کی  سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کشادہ تھی۔ وہ بہت باریک بنیی سے چیزوں اور حالات و واقعات کا مشاہدہ کرتا تھا اور بات کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا تھا ۔” ابن الوقت” چونکہ انگریزی طرز زندگی کا قائل تھا اسی لیے اس نے جلدانگریزی وضع کو اپنا لیا۔ اس نے اپنے اباؤ اجداد کی اسلامی طرز زندگی کو پس پشت ڈال کر انگریزی طرز زندگی کو اپنایا۔ اس حوالے سے مثال واضح ہو:

“ صاحبو! مجھ کو اس سے پہلے اس طرح کے معزز جلسے میں حاضر ہونے کا اتفاق نہیں ہوا اور مجھے آپ  صاحبوں سے روبرو بات کرنے کی عادت اور صلاحیت دونوں نہیں …..”۴

یہ اقتباس اس تقریر کا حصہ ہے جو کہ ابن الوقت نے نوبل کی دعوت پر کھانے کے بعدکی تھی۔ یہ انگریزی وضع کی ایک روایت ہے جو کہ” ابن الوقت” نے انگریزی طرز زندگی کو اہمیت دینے کے لیے کی ۔اس بات سے” ابن الوقت” کے انگریزی وضع اپنانے کا ثبوت حاصل کر سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی قاری کو ” ابن الوقت”  کے متعلق ایسی باتیں ملتی ہیں جن کو پڑھ کر ہم  انگریزی طرز زندگی کا حوالہ دے سکتے ہیں ۔ابن الوقت کے لباس سے لےکر اس کے رہن سہن کی ہر ایک ادا میں انگریزی طرز زندگی جھلک رہی تھی۔” ابن الوقت "کی ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کرسٹان ہونے کا الزام بھی لگایا گیا۔

مرکزی کرداروں میں "نوبل” کا کردار بھی سامنے آتا ہے۔” نوبل "ایک انگریز فوجی تھا جس کی جان” ابن الوقت "نےغدر کے بعد بچائی تھی۔” نوبل "نے” ابن الوقت "کے گھر تین ماہ نو دن گزارے۔ اس مختصر وقت کے دوران دونوں کے درمیان دوستی کارشتہ قائم ہو گیا اور وہ ایک دوسرے سے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرنے لگے۔ ہم "نوبل "کے کردار کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ رحم دل،   مخلص ،متجسس اور عقلمند انسان ہے۔ نوبل کے کردار کے حوالے سے مثال ملاحظہ ہو:

“کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نوبل صاحب ابن الوقت سے ہندوستان کے رسم و رواج اور طرز تمدن اور معاشرے کے حالات دریافت کرتا۔”٥

اس اقتباس سے نوبل کے متجسس ہونے کا علم ہوتا ہے اور وہ ہندو معاشرہ سے لگاؤرکھتا تھا اور اس کے بارے میں جاننے کا شوق رکھتا تھا۔ ایک اور مثال ملاحظہ  ہو:

” اگر آپ نے یہ حال مجھ سے کہا ہوتا تو میں ہرگز جانثار کے پاس بھیجنے کا ارادہ نہ کرتا ۔افسوس کہ میں نے اپنے فائدے کے لیے اس کی جان خطرے میں ڈالی۔”٦

"نوبل” کے جملے اپنے غلام جان نثار کے لیے ہیں جس سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ نوبل ایک رحمدل انسان ہے۔ وہ  اپنے ذاتی مفاد کے لیے کسی اور کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ اس کے علاوہ اس نے ابن الوقت کا احسان ہمیشہ یاد رکھا اور ہر حال میں اس کی مدد کی۔ مثال کے طور پر وہ دعوت میں اپنے دوستوں کے درمیان ابن ا  لوقت کی ہمدردی کو بتانے کے لیے تقریر کرتا ہے اور کہتا ہے :

“ صاحبو! یوں تو آپ صاحبوں سے اکیلے  با مجمع میں ملنا   ہمیشہ خوشی کا موجب ہوتا ہے مگر آج رات کی ملاقات کی خاص وجہ …” ۷

نوبل کا ملازم جانثار بھی ناول کے زیلی کرداروں کا حصہ ہے اور بہت اہم کردار ہے جو کہ ناول کے آخری حصے تک نمودار ہوتا رہتا ہے۔  جان نثار     کے  لہجے میں بےچارگی ظاہر ہوتی ہے۔ ملازم کی حیثیت سے جان نثار  اپنے آقا کے ساتھ وفا کرنے والا ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ ہوشیار انسان ہے ۔ جان نثار کا خاکہ کچھ اس طرح سے ناول میں ملتاہے۔

“ ابن الوقت نے آنکھ بھر کر دیکھا تو اٹھائیس تیس برس کا جواں آدمی ہے۔ انگریزی خدمت گاروں کی سی وضع رکھتا ہے۔ دوپٹہ سر سے بندھا ہے اور پٹکا کمر سے ۔ "۸

مرکزی کرداروں میں حجتہ الاسلام کا کردار بھی مرکزی اہمیت کاحامل ہے جو کہ ابن الوقت سے مخالف سوچ رکھتا ہے۔ یہ انگریزی وضع کے خلاف نظر آتا ہے اور قرآن کریم کے حوالوں کا استعمال کر کے ابن الوقت کو اپنے نظریے کا قائل کرتے ہوئے نظر آتا ہے ۔حجتہ الاسلام کے جملے یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ مذہبی عقل و دانش رکھنے والا ،قرآن و حدیث کا علم جاننے والا،   دلائل سے بات کرنے والا اور دوسرے کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہے ۔مثال واضح ہو:

"انسان کسی کام کافاعل مستقل اور کسی چیز میں حقیقی موثر نہیں ۔اس مطلب کو”سورہ واقعہ” میں بڑی عمدہ مثال سے بیان کیا ہے”۔۹

اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کردار کی گرفت قرآن و حدیث پر مضبوط ہے اور یہ خالص مذہبی ہے ۔ایک اور جگہ ابن الوقت سے مکالمہ کرتے ہوئے دلائل بیان کرنے کے لیے اشعار کا سہارا لیتے ہوئے بھی نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر:

خاک کے پتلے نے دیکھ کیا ہی مچایا

ہے شور فرش سے لے کر عرش تک کر رہا اپنا زور                                        10

دونوں کرداروں میں ہمیں اختلاف دیکھنے کو ملتا ہےاور اس اختلاف کی وجہ سےناول میں کشمکش کی  صورتحال بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ابن الوقت کسی غیرفطری بات کو ماننے کا قائل نہیں اور اس سارے ناول میں حجتہ الاسلام ابن الوقت کو قائل  کرنے کے لیے دلائل پیش کرتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے مثال واضح ہو:

” ابن الوقت: ہمارے اور آپ کے درمیان لفظی اختلاف ہے۔ انسان کے اختیار آپ بھی مانتے ہیں مگر محدود اور ہم بھی مانتے ہیں کہ انسان کا اختیار ابھی تک محدود رہاہے” 11

ان دونوں کرداروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ڈپٹی نذیراحمد  خود بھی ابن وقت کےنظریے سے متفق نہیں اس لئے انھوں نے عقل اور مذہب دونوں کو الگ الگ عنوان بنا کر پیش کیا ہے۔

زیلی کرداروں میں  مسٹرشارپ بھی  ہے  جو کہ ایک انگریز ہے ۔نوبل کے جانے کے بعد مسٹر شارپ کلکٹر منتخب  ہو جاتا ہے اور یہ کردار ابن الوقت کو نہیں بھاتاکیونکہ نوبل کے جانے کے بعد سرشتہ دار نے   ابن الوقت کے بارے میں غلط معلومات فراہم کیں۔سرشتہ دار اور مسٹر شارپ کے درمیان ایک مکالمہ دیکھئے:

"کلکٹر:تم کبھی ابن الوقت صاحب کی ملاقات کوگئے ہو ۔

سرشتہ دار: میں بیچارہ محرر۔ میری کیا اوقات۔  راہ میں آمنا سامنا ہوا، سلام کر لیا۔”12

ان تمام کرداروں کے علاوہ ناول میں ذیلی کردارجیسا کہ زمیندار، چپڑاسی اور خانساماں وغیرہ بھی شامل ہیں۔ان  تمام کرداروں کا عمل دخل کچھ خاص نہیں ۔ اس کے علاوہ نسوانی کردار  بھی اپنا اپنا کردار ادا کر کے چلے جاتے ہیں۔

حوالہ جات:

1.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ۹

2.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ۴١

3.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ١٣

4.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ۴٦

5.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء، ص۴١

6.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ١٦

7.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ٦٥

8.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ۹

9.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ١۴

10.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء،ص ١۴١

11.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء، ص،۴۲١

12.ڈپٹی نذیر احمد،ابن الوقت،دہلی:انصاری پریس ،1888ء، ص،١١٥

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter