اسرائیل ظلم و جبر پر مبنی ایک ناجائز اور دہشتگرد یہودی اسٹیٹ ہے جسے استعماری اور سامراجی قوتوں کے ذریعہ ارض فلسطین پر قائم کیا گیا، پہلی جنگ عظیم (1914-1918ء) میں سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد برطانیہ نے فلسطین پر نہ صرف اپنا اثر و رسوخ دکھانا شروع کیا بلکہ مکمل طور پر آمرانہ سامراج قائم کیا جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف خطوں سے یہودی فلسطین میں آکر آباد ہونے لگے۔ دوسری جنگ عظیم (1939-1945ء) کے دوران جرمنی میں ہولوکاسٹ کا بھیانک سانحہ پیش آیا جس میں اڈولف ہٹلر نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کی جرمنی کے ساتھ جنگی خیانت اور برطانیہ کے ساتھ معاونت ومخبری کے پاداش میں نسل کشی کی اور کچھ یہودیوں کو یہ تاریخی جملہ کہتے ہوئے جلاوطن کردیا کہ "میں نے کچھ یہودیوں کو اسلئے زندہ چھوڑ دیا ہےتاکہ دنیا کو سمجھ میں آجائے کہ میں نے ان کی نسل کشی کیوں کی”۔
اس واقعہ کے بعد لاچاری کا عالم یہ تھا کہ ہٹلر کے ہاتھوں کچھ بچے ہوئے یہودی دوگز زمین کیلئے پوری دنیا سے بھیک مانگنے پر مجبور تھے، بڑی بڑی طاقتوں سے مدد کی گہار لگا رہے تھے مگر کوئی انہیں پناہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا،البتہ عربوں کے ساتھ ایک بہت بڑی منصوبہ بند سازش اور گیم کے تحت برطانیہ، امریکہ اور دیگر عیسائی مغربی طاقتوں نے فلسطین کی سرزمین پر ان یہودیوں کو جبراً لا بسایا، اور اقوام متحدہ نے 1947ء میں فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دے دی نیز 1948ء میں سر زمین فلسطین پر مختلف علاقوں میں بسے ہوئے پرانے اور نو آباد یہودیوں کے لئے باقاعدہ اسرائیل اسٹیٹ کے قیام کا اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اعلان بھی کردیا گیا بایں طور کہ 56٪ زمین یہودیوں کے حق میں اور 44٪ فلسطینیوں کے حق میں اور 1٪ "القدس/ یروشلم” کا علاقہ (جس کے اندر قبلۂ اول مسجد اقصی ہے، جسکی دینی اور تاریخی لحاظ سے اہمیت و فضیلت مسلم ہے) مشترکہ طور پر پوری دنیا کے یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے خاص کیا گیا تاہم اس تقسیم سے اہل عرب مطمئن نہیں تھے چنانچہ 1948ء ہی میں انہوں نے اسرائیل پر جنگی کارروائی شروع کردی مگر ہزیمت و پسپائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا کیونکہ اسرائیل کے ساتھ ہر محاذ پر نہ صرف امریکہ بلکہ مغربی طاقتیں کھڑی تھیں۔
اسکے علاوہ عرب کے متحالف ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ متعدد دفعہ 1967ء، 1973، 1985، میں بھی جنگیں لڑیں مگر ہر بار افرادی نقصانات کے ساتھ ساتھ کچھ زمینی رقبے بھی گنوا بیٹھے، اب تو حالت یہ ہے کہ اسرائیل پوری جارحیت کے ساتھ فلسطین کی 85٪ فیصد سے زائد حصوں پر قبضہ کر چکا ہے۔ یہی وہ تاریخی حقائق ہیں جن کی بنیاد پر 1948ء سے لیکر ہنوز اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ جاری و ساری ہے۔
حالیہ دنوں اسرائیل اپنے ہمنواؤں کے ایماء پر غزہ کے نہتوں پر جس وحشیانہ جارحیت اور ظلم و بربریت کا طوفان مچا رکھا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔غزہ کی فلک بوس عمارتیں زمیں دوز ہو چکی ہیں، پورا کا پورا علاقہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے، خواتین و اطفال، بوڑھے، عام شہری، مدارس ومساجد اور جامعات و مستشفیات کو بطورِ خاص نشانا بنایا جا رہا ہے گوکہ قیامت خیز منظر ہے ہر طرف لاشیں، چیتھڑے، جنازے، کفن، ملبے، بھوک مری اور سسکتی بلکتی کراہتی بے یارو مددگار مائیں۔
فلسطینی مزاحمتی تحریک کا رد عمل تو بس ایک بہانہ ہے در اصل یہ گریٹر اسرائیل کے خواب کی شرمندہ تعبیر کی جانب بڑھتا ہوا صہیونی قدم ہے جس کے روڈ میپ میں فلسطین ، اردن ، لبنان، عراق ، شام اور سعودی عرب کا بھی کچھ حصہ شامل ہے اور اس ہدف کی تکمیل میں”الكفر ملة واحدة” کے تحت امریکہ اور یورپی یونین سمیت دیگر عالمی طاقتیں یہودیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں نیز اسلامی شعائر کو مٹانے اور مسلمانوں کو حاشیہ پر رکھنے کیلئے ہر قسم کے آلات حرب و ضرب اور کیمیائی و جوہری اسلحے فراہم کر رہی ہیں گوکہ اس قضیہ میں مٍذہبی شدت و اختلاف اور تاریخی حقائق و شواہد کے باوجود مغضوب علیہم (یہود) اور ضالین (نصاریٰ) ساتھ ساتھ ہیں جس سے صاف واضح ہوتاہےکہ مسلمانوں کےتئیں ان کا منشاء کیا ہے۔
در حقیقت یہود دنیا کی وہ بدترین قوم ہے جس پر اللہ اور رسول کی لعنت و غضب ہے، اس مجرم قوم نے انبیاء کا قتل کیا، کتاب اللہ کی تکذیب کی، تورات میں تحریف کی اور واضح نشانیوں کےباوصف آخری نبی محمد ﷺ کا انکار کیا، جسکے پاداش میں ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس جانب اشارہ کیا ہے: "ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ” (آل عمران/112)
بلا شبہ یہود ایک مکار، بے وفاء اور دھوکے باز وقوم ہے یہ مسلمانوں سے کبھی بھی خوش نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ انکی تابعداری نہ کرنے لگیں” وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ (البقرہ/120) نیز یہی مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں، ارشاد ربانی ہے” لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا” (المائدة:82)
قضیہ فلسطین میں یہود کی غداری اور احسان فراموشی کوئی نیا معاملہ نہیں ہے بلکہ دور نبوی میں بھی ان کی شرارتیں طشت از بام ہوئیں جسکے پاداش میں انہیں ذلیل و رسوا ہونا پڑا، مدینہ میں یہودیوں کے تین قبیلے آباد تھے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ آپ ﷺ نے تینوں قبیلوں سے چند باتوں پر معاہدہ کیا تاہم انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ غدر و بے فائی کی اور اپنی دسیسہ کاری کا ثبوت پیش کیا جس کی وجہ سے اول الذکر دونوں قبیلوں کو یکے بعد دیگرے جلا وطن کیا گیا اور آخر الذکر کو قتل کر دیا گیا ۔
تاریخی طور پر نہ صرف مدینہ بلکہ یورپ اور دنیا کے مختلف خطوں سے انہیں دیش دروہی اور بد عہدی کے الزام میں کئی بار جلا وطن کیا گیا، انکی نسل کشی کی گئی، ان کا اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، بس "حبل من الناس” کا سہارا لیکر جی رہے ہیں اور زبردستی ارض فلسطین پر قابض ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے تمام انصاف پسندوں کی لعنت بٹور رہے ہیں ایک طرح سےیہ ذلت و رسوائی ہی ہے۔
پوری دنیا میں ان کی کل آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑ ہے جن میں سے 65 لاکھ اکثریتی طبقہ کی حیثیت سے اسرائیل میں رہتے ہیں اور پچاس لاکھ سے متجاوز امریکہ میں اور باقی دنیا کے مختلف ممالک میں اقلیتی حیثیت سے رہتے ہیں ، پوری دنیا کی آبادی میں ان کا فیصدی تناسب 0.2 ہے ، یہ اکیلے عربوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں مگر اس پورے گیم میں سب سے بڑا رول پلے انسانیت اور ڈیموکریسی کا جھوٹا دعویدار نالائق امریکہ کر رہا ہے جس طرح سے دہشتگردی اور اسلاموفوبیا کا نام لیکر عراق، شام، لبنان اور ليبيا وغیرہ میں سنی مسلمانوں کے خون کو سبوتاژ کرتا رہا اب اسکی میلی نگاہیں نہ صرف فلسطین پر بلکہ نئے نئے ٹرم و اصطلاحات کے ذریعہ خلیجی ممالک سمیت پورے خطہ عرب پر ہیں۔
افسوس کہ حقوقِ انسانی کی علمبردار خود ساختہ تنظیمیں فلسطین میں ہو رہے مظالم پر پوری طرح سے خاموش ہیں، اقوام متحدہ کومہ میں جا چکا ہے، عالمی قوانین کا جنازہ نکل چکا ہے، بین الاقوامی عدالتوں کی فائلیں نذر آتش ہو چکی ہیں اور یورپی تہذیب و اقدار کا مکمل طور پر پردہ فاش ہو چکا ہے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے سارے اصول و ضابطے اور قوانین و احکام صرف کمزورں پر اپلائی ہوتے ہیں سچ کہا ہے کسی نے
دیے کو بجھاتی شعلوں کو بھڑکاتی ہے
آندھی کو بھی دنیا داری آتی ہے
ایسے میں عالم اسلام کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں، اسلامی قیادتوں کا مثبت رول دو چند ہو جاتا ہے مگر افسوس یہ بیچارے بے بس نظر آ رہے ہیں انکی صفوں میں اتحاد نہیں، ان کے اندر وہ مطلوبہ ایمانی، سیاسی، اور دفاعی قوت و رعب و دبدبہ نہیں کہ جس سے دشمنوں کی ہوا اکھڑ جائے، ان کی صفوں میں ماتم بچھ جائے، انکے ناپاک عزائم خاک میں مل جائیں اور ہزیمت و شکست ان کی مقدر بن جائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں امت مسلمہ کو ایمان و عقیدہ اور اتباع سنت کا حکم دیا ہے وہیں جنگی حالات سے نبردآزمائی اور دفاعی پوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے علم، سائنس و ٹیکنالوجی، جسمانی قوت و ہمت، سیاسی حکمت و بصیرت ، اقتصادی و عسکری قوت، آلات حرب و ضرب اور جوہری اسلحوں سے لیس ہونے کی تاکید کی ہے تاکہ دشمنوں اور منافقوں پر رعب و دبدبہ قائم کیا جا سکے، جیسا کہ آیت ذیل کی تفسیر میں بیشتر مفسرین نے اسی مفہوم کی طرف اشارہ کیا ہے:”وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (الانفال/60) "یعنی دشمنوں سے مقابلہ کے لئے طاقت بھر قوت اکٹھا کرو اور گھوڑوں کو تیار رکھو جسکے ذریعہ اللہ کے دشمنوں، اپنے دشمنوں اور ان منافقین پر رعب قائم کر سکو جنہیں صرف اللہ جانتا ہے اور اللہ کی راہ میں جو بھی خرچ کرو گے بلا کسی ظلم کے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا”۔
ہاں یہ اور بات ہے کہ اگر دشمن صلح کی جانب مائل ہوں اور ان سے مقابلہ کرنے کی تمہارے پاس طاقت نہ ہو تو صبر و توکل کرتے ہوئے تصالح کا راستہ اختیارکر لینے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ آگے کی آیت میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اس اہم اصول کی جانب رہنمائی کر رہا ہے:”وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَٱجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ” (الانفال/61)
محترم قارئین! مسئلہ فلسطین کی بابت جو مسلم قیادتیں حسب طاقت کوشش کر رہی ہیں اور انہوں نے اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے انکے تئیں ہم حسن ظن رکھتے ہے اللہ انہیں مزید طاقتور بنائے، مگر حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت بڑی طاقتوں کے سامنے تقریباً تمام مسلم ریاستوں کی حیثیت بے معنی لگ رہی ہے، ظالموں کے خلاف دبے الفاظ میں چند مذمتی جملوں کے سوا کوئی سخت موقف نہیں اپنا رہے ہیں، ہر کسی کی اپنی اپنی پالیسیاں اور مفادات ہیں ورنہ اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود بیشتر مسلم ممالک نے اب تک اسرائیل کے ساتھ ہر طرح کے روابط کو بحال کیا ہوا ہے چہ جائیکہ ان کے اندر جذبۂ فاروقی اور غیرت ایوبی پیدا ہو۔
امتِ مسلمہ کے انہیں حالات اور ایمانی پژمردگی و جبانت و بزدلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا:”يُوشِكُ الأممُ أن تَداعَى عليكم، كما تَداعَى الأكَلةُ إلى قصْعتِها، فقال قائلٌ: ومن قِلَّةٍ نحن يومئذٍ؟ قال: بل أنتم يومئذٍ كثيرٌ، ولكنَّكم غُثاءٌ كغُثاءُ السَّيلِ، ولينزِعَنَّ اللهُ من صدورِ عدوِّكم المهابةَ منكم، وليقذِفَنَّ اللهُ في قلوبِكم الوهْنَ، فقال قائلٌ: يا رسولَ اللهِ وما الوهْنُ؟ قال حبُّ الدُّنيا وكراهيةُ الموتِ (سنن ابي داود/4297،السلسلہ الصحیحہ للالبانی/ 958)
"یعنی عنقریب دنیا کی قومیں تم پر اس طرح سے پل پڑیں گی جیسا کہ کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں ، آپ ﷺ سے پوچھا گیا کیا اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم ہوگی؟ فرمایا نہیں!بلکہ تمہاری تعداد زیادہ ہوگی لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کی جھاگ کے مانند ہوگی اور اللہ دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب و دبدبہ نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں "وہن” پیدا کر دے گا، وہن کی بابت استفسار کرنے پر آپ ﷺ نے فرمایا ” دنیا کی محبت اور موت سے نفرت”۔
ذرا غور کریں کرسچن کمیونٹی کے بعد 57 اسلامی ممالک پر مشتمل دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی مسلمانوں کی ہے جن کی تعداد ڈیڑھ ارب ہے اس کے باوجود باطل طاقتیں روز افزوں انہیں لقمہ اجل بنا رہی ہیں آخر اس کے کیا وجوہات ہیں؟ ناقدانہ اور منصفانہ تجزیہ کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مذکورہ اسباب کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی صفوں میں اسلام کے نام پر جو منافقین روافض و خوارج گھسے ہوئے ہیں یہی پورا معاملہ خراب کر رہے ہیں جو بظاہر تو ہیرو بنتے ہیں مگر بباطن اپنی منافقت جابجا ثابت کرتے رہتے ہیں، پوری تاریخ شاہد عدل ہے کہ انہوں نے ہمیشہ سنی مسلمانوں کے لہو سے کھیلا ہے خصوصا رافضی ایران فوجی اور جوہری طاقت رکھنے کے باوجود دشمنوں کے بجائے ہمیشہ مسلم امہ کے ساتھ بے وفائی کیا ہے، عربوں کے خلاف سابقہ جنگوں میں ہر بار اسرائیل کا سپورٹ کیا ہے اور سعودی عرب جوکہ بالترتیب پاکستان ، ترکی ، انڈویدشیا، مصر اور ایران کے بعد چھٹے نمبر پر طاقتور میں شمار ہوتا ہے اور اکیلے ایٹمی طاقتوں سے مقابلے کی سکت بالکل نہیں رکھتا ہےمگر ایران اسے مشتعل کرکے جنگ کی آگ میں جھونکنا چاہتا ہے اور خود پورے خطے میں رفض و تشیع کا بیج بوکر مکہ و مدینہ پر شیعیت کا جھنڈا گاڑنا چاہتا ہے یہی اس کے ناپاک عزائم ہیں اسکے باوجود ہمارے کچھ سنی بھائی سعودی بغض و حسد اور عداوت و تعصب میں خمینیت کا مالا جپتے ہیں اور اس کی جھوٹی قیادت کے گرویدہ ہیں جس کی پوری تاریخ ہی سیاہی پر مشتمل ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا کوئی تحریک ان کے ایجنڈوں پر کاربند ہو کر مسلمانوں کا بھلا کر سکتی ہے؟ اور ملک کو آزاد کرا سکتی ہے؟ جواب نفی میں ہے کیونکہ غزہ کی موجودہ بھیانک صورتحال ہمیں بتاتی ہے کہ جتنی بھی خارجی اور روافض فکر کی تنظمیں تھیں سب کی سب آزادی فلسطین کا نعرہ لیکر ظاہر ہوئی تھیں مگر اب حالت یہ ہے کہ عین موقع پر اسرائیل کو آنکھ دکھانے کے بجائے بلوں میں چھپی ہوئی ہیں، ان کی ساری انجرجی سنی مسلمانوں کی تباہی پر صرف ہوتی ہے جنہیں یقین نہ آئے بلاد شام اور اطراف کے ممالک پر ایک نظر ضرورڈا لیں۔
ضرورت ہے کہ مسلم قیادتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر مظلوموں کی فریاد رسی اور مقدسات اسلامیہ کی حفاظت کے لئے آگے بڑھیں، اپنی سیاسی، اقتصادی اور ڈپلومیسی اختیارات کے ذریعہ ظالموں پر دباؤ بنائیں، صفوں میں گھسے ہوئے منافقین کو پہچانیں اور 75 سالوں سے ذہنی ڈپریشن اور نفسیاتی مرحلوں سے گزر رہے نہتے فلسطینیوں کو پھر سے اپنی آبائی سرزمین میں سانس لینے کے لئے” أنصر أخاك ظالما أو مظلوما” کے تحت مستقل انصاف دلائیں اور ساتھ ہی انفرادی طور پر ہم عام لوگوں کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ، ایمان و عقیدہ کی درستگی، اصلاح نفس اور رجوع الی اللہ پر توجہ دیں، علوم و فنون اور سائنس و ٹکنالوجی سے لیس ہوں اور مظلوم بھائیوں کیلئے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھیں۔
دعا ہے کہ الہ العالمین تو مظلوم فلسطینیوں کی غیبی مدد فرما، پوری دنیا میں امن و سلامتی قائم کر دے، ظالم صہیونیوں اور انکے انصار و معاونین کو ہلاک و برباد کردے، ان کے صفوں کو منتشر و متزلزل کر دے، انہیں اپنی گرفت میں لے لے اور ان پر دردناک عذاب نازل فرما دے۔ ٭٭٭
آپ کی راۓ