صنف نازک کے ساتھ صنفی بنیاد پر تشدد انسانیت کے خلاف ہے: مولانا مشہود خاں
كرشنانگر/ كيئر خبر
صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 روزہ ملک گیر مہم کا 25 نومبر سے آغاز ہوا ہے –
واضح ہو کہ 7 فروری 2000 کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے باضابطہ طور پر 25 نومبر کی تاریخ کو *خواتین کے خلاف پر تشدد سلوک کے خاتمے* کے عالمی دن کے طور پر منانا شروع کیا، ویسے تو اس کا آغاز 1981 سے ہی ہو گیا تھا، جب ڈومینیکن ریپبلک کے آمر رافیل ٹولیجا نے حقوق نسواں کی تین کارکنوں کو بیدردی سے قتل کرنے کا حکم دیا تھا، ان کی ہدایت کے مطابق میرابل کی تین بہنوں کو قتل کر دیا گیا تھا، اسی مناسبت سے اس سال خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کی 44 ویں کڑی ہے، اس سال کا موضوع ہے UNITE!خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لئے سرگرمی ، چونکہ اقوام متحدہ میں نیپال کا اپنا ایک خاص مقام ہے، سو نیپال میں بھی یہ عالمی دن بڑے ہی اہتمام کے ساتھ پورے ملک میں منایا جاتا ہے، کرشنا نگر نگر پالیکا وارڈ نمبر 2 میں بھی اس مناسبت سے پروگرام رکھا گیا جس کی صدارت کرشنا نگر نگر پا لیکا کی ڈپٹی میئر آرتی دیوی چودھری نے کی۔ پروگرام کے مہمان خصوصی لمبنی مدرسہ بورڈ کے نائب صدر *مولانا مشہود خاں نیپالی* نے اپنے خطاب میں *اسلام میں خواتین کے حقوق* پر تفصیلی خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ اسلام نے خواتین کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے جو حقوق فراہم کئے ہیں، وہ پوری دنیا کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت قرار دیا جانا، انہیں تاریخ انسانیت میں پہلی مرتبہ وراثت میں حقوق کا دیا جانا اسی مقام ومرتبے کو ظاہر کرنے کی کچھ شکلیں ہیں۔
اسی طرح مولانا نیپالی نے ملک میں خواتین کے خلاف آئے دن ہو رہے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 2023 ،2024 کے ایک سالہ ریکارڈ کے مطابق عورتوں کے خلاف پر تشدد واقعات کے اعداد چونکا دینے والے ہیں، محض ایک سال میں 3678 واقعات پیش آئے ہیں، نیز یہ انکشاف مزید چونکا دینے والا ہے کہ ان واقعات کو انجام دینے والے 88 فیصد رشتے دار ، جاننے والے , عزیز و اقارب اور پڑوسی وغیرہ ہیں۔ اسی بنا پر اسلام نے خواتین کو جہاں با اختیار بنایا ہے وہیں پردے کا بھی حکم دیا ہے۔
اس پروگرام کی نظامت تھما دیوی اپادھیائے شعبہ خواتین و اطفال کے چیف نے کیا۔
پروگرام کو کامیاب بنانے میں کرشنا نگر کے کے پولیس انسپکٹر لچھمن اولی ،وارڈ نمبر 2 کے وارڈ صدر کرشن کمار گپتا، وارڈ صدر ہری پال چترویدی، راشٹریہ مدرسہ سنگھ نیپال کے مرکزی ممبر عبدالنور سراجی، اسی طرح سے حقوق نسواں کی مختلف تنظیموں کے ذمے داران، مختلف شعبوں میں کام کرنے والی سرکاری و غیر سرکاری خواتین کا بڑا ہاتھ ہے، جن کی بڑی تعداد پروگرام میں موجود رہی۔
آپ کی راۓ