جھوٹ بولنا مومن کی شان نہیں

ابو حماد عطاء الرحمن المدنی/ المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو

7 دسمبر, 2023
جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے اور یہ ایسا گناہِ کبیرہ ہے کہ قرآن کریم میں، جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ” فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ”. آل عمران : ٦١  ”لعنت کریں اللہ کی ان پر جو کہ جھوٹے ہیں۔“
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان کوئی بات بلا تحقیق کے اپنی زبان سے نہ نکالے، اگر وہ ایسا کرتا ہے، تو پھر اس کی جواب دہی کے لیے تیار رہے، ” وَلا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُوْلَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا” الإسراء: ٣٦
 ”اور جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل در آمد مت کیا کر، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہوگی "۔
انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اللہ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اللہ کے سامنے قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:  "مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ’ ق : ١٨
 ”وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے۔“
یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اسے یہ نگراں فرشتے محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ فرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:” إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ” النحل: ١٠٥
 ”پس جھوٹ افترا کرنے والے تو یہ ہی لوگ ہیں، جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے ".
 ایک دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ” النحل: ١١٦
 ”اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے، ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلانی چیز حلال ہے اور فلانی چیز حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگادو گے، بلا شبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ لگاتے ہیں، وہ فلاح نہ پاویں گے۔“
امام احمد نے بلال بن حارث مزنی سے روایت کیا ہے کہ رسولِ اکرم نے فرمایا: ” إن الرجل ليتكلم بالكلمة من رضوان الله عز وجل ما يظن أن تبلغ ما بلغت يكتب الله عز وجل له بها رضوانه إلى يوم القيامة وإن الرجل ليتكلم بالكلمة من سخط الله عز وجل ما يظن أن تبلغ ما بلغت يكتب الله عز وجل بها عليه سخطه إلى يوم القيامة ”. مسند أحمد۔
"انسان بعض اوقات معمولی بات سمجھ کرکوئی کلمہ خیر بولتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، اس کا ثواب اللہ تعالیٰ اپنی رضا دائمی سے قیامت تک کیلئے لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ اللہ کی ناراضی کا (معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے، اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ ووبال کہاں تک پہنچے گا؟ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔“ رسول اللہ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا ہے۔  عن صفوان بن سليم أَنَّهُ قَالَ : ” قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ جَبَانًا ؟ فَقَالَ:  نَعَمْ ، فَقِيلَ لَهُ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ بَخِيلًا؟ فَقَالَ: نَعَمْ ، فَقِيلَ لَهُ: أَيَكُونُ الْمُؤْمِنُ كَذَّابًا ؟ فَقَالَ:  لَا .  ” شعب الإيمان للبیہقی.
حضرت صفوان بن سلیم بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول سے پوچھاگیا کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا ”ہاں“ پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا ”ہاں۔“ پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا: ”نہیں ،اہل ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا۔ امام البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو رسول اللہ نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے، لہٰذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ خصلت نفاق سے متصف ہے۔
عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما عن النبي – صلى الله عليه وسلم – ، قال : أربع من كن فيه كان منافقا ، ومن كانت خصلة منهن فيه كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها : من إذا حدث كذب ، وإذا وعد أخلف ، وإذا خاصم فجر ، وإذا عاهد غدر” رواہ البخاري ومسلم .
 حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آنکہ وہ اسے چھوڑدے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکہ دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔“
 ایک صالح معاشرے کافرد ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے ،اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کرپاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکاریں۔ حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ:
"ما كانَ خلقٌ أبغضَ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ منَ الكذبِ ولقد كانَ الرَّجلُ يحدِّثُ عندَ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ بالكذبةِ فما يزالُ في نفسِه حتَّى يعلمَ أنَّهُ قد أحدثَ منها توبةً”. رواہ الترمذي
”نبی اکرم کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند نہیں تھی، چنانچہ آپ کو اگر کسی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتا کہ وہ دروغ گو ہے، تو آپکے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اس وقت تک آپ کا دل صاف نہیں ہوتا، جب تک یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اس نے اللہ سے اپنے گناہ کی نئے سرے سے توبہ نہیں کرلی ہے” ۔
اللہ رب العزت ہمیں جھوٹ بولنے سے بچائے اورپوری زندگی سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ابو حماد عطاء الرحمن المدنی
المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter