شخصیت
پیدائش
اگست 1928
ساغرِ صدیقی کا حلیہ
بال لمبے لمبے ، آنکھیں خوشی کی منتظر ،دماغ خیالات کا مجموعہ، ہاتھ قلم، دل غم زدہ،
قد درمیان
پیدائش
ساغر صدیقی ۱۴ اگست ۱۹۲۸ ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد اختر تھا ایک انٹرویو میں ساغر صدیقی سے ان کے خاندان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کچھ اس طرح جواب دیا
” میری ماں دلی کی تھی، باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا، زندگی لاہور میں گزاری! میں بھی عجیب چوں چوں کا مربّہ ہوں“
بچپن
ساغر صدیقی اپنے بچپن کے حالات و واقعات کو کچھ طرح بیان کرتے ہیں
میری زندگی زنداں کی ایک کڑی ہے۔ ۱۹۲۸ء کے کسی ماہ میں پیدا ہُوا ہوں۔گھٹنوں کے بل چلنے کا زمانہ سہارنپور اور انبالہ کی آغوش میں گزرا۔ انبالہ اردو اور پنجابی بولنے والے علاقے کا سنگم ہے۔ ماں کی مامتا، باپ کی شفقت، کہاں اور کیسے پیدا ہُوا ہوں؟ یہ میرے لئے ”کسی مقدس سرائے کے غلیظ باڑھے میں“ کے سوا کچھ بھی نہیں ’یا‘ علی بابا چالیس چور ’کے پرسرار غار کی کہانی ہے۔ میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں خدا کو اس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟ بہرحال شاید میری تسکین قلبی کے لیے کسی کا نام بھائی رکھ دیا ہو۔ اسی طرح ایک وجود کا تذکرہ میرے بارے میں لکھنے والوں نے کیا ہے جو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پر نظر رکھنے والے صاحب فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہُوا بازو، کالی کملی میں چھپائے، احساس کے اُلٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی بہن ہوتا تو شاید یہ حال نہ ہوتا۔ میں نے لوگوں سے اپنا نام محمد اختر سُنا۔ البتہ ایک پرشکوہ ماضی کی سرسراہٹ میں نے اپنے پاؤں کے نیچے محسوس کی ہے۔
تعلیم
ساغرِ صدیقی ایک انٹرویو میں اپنی بتدائی تعلیم کے حوالے سے بتاتے ہیں
میں نے اردو اپنے گھر میں پڑھی۔ ایک چالیس پچاس سالہ بزرگ جن کا نام حبیب حسن تھا، بچوں کی تربیت و تعلیم کا بہت ذوق رکھتے تھے۔ یہیں مجھ میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ میری عمر سات یا آٹھ سال کی ہوگی کہ میں اردو میں اتنی مہارت حاصل کر چکا تھا کہ اکثر خط لکھوانے والے اپنی گذارشات کو میرے انداز بیان میں سن کر داد و تحسین سے نوازتے تھے۔ میں نے بچپن کا دور بھی غربت میں صبر و شکر سے گزارا ہے۔ جو کچھ ملتا اس پر بخوشی قناعت کرتا اس وقت کے تمام اردو روزناموں زمیندار، احسان، انقلاب کا مطالعہ میرا شغل تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شاید ہی میں نے آج تک اردو کا کوئی لفظ غلط پڑھا یا لکھا ہو۔ میں نے شروع میں ناصر حجازی تخلص رکھا، تقریباً دو ماہ بعد مجھے یہ تخلص واضح دکھائی نہ دیا۔ تب میں نے اپنا تخلص ساغر صدیقی پسند کیا، جواب تک موجود ہے۔ دس بارہ برس کی عمر میں، مَیں اپنے استاد حبیب حسن کے ساتھ امرتسر میں رہا کرتا تھا۔ میں چھوٹی عمر میں بھی بیس بائیس سال کا سنجیدہ نوجوان معلوم ہوتا تھا، میری عمر سولہ سال کی تھی جب ۱۹۴۴ ء میں امرتسر کی جامعہ السنہ شرقیہ ہال بازار میں جو کہ علوم شرقیہ کی بہترین درس گاہ تھی، ماہانہ طرحی مشاعرے ہوتے تھے، ان میں شرکت کرنا میرے لئے سب سے بڑی خوشی کی بات تھ
پہلا شعر
ساغرِ صدیقی نے شعر ۱۴ برس کے عرصے میں ہی کہنے لگے تھے اور اپنے بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے۔ شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے۔ان کا پہلا کچھ یوں تھا
اس کشتی حیات کے لنگر کو توڑ دو
تہذیب نو کے شیشہ و ساغر کو توڑ دو
ادبی سفر
تقسیم ہند کے بعد ساغر صدیقی لاہور آ گے اور پھر ہمیشہ اسی شہر میں رہے۔ لاہور آ کر آپ نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کے مقابلے میں بھی شرکت کی۔ بلکہ ساغر کی خواہش تھی کہ یہ ترانہ فلمایا جائے اور سینما میں بھی دکھایا جائے۔ ساغر نے فدا شاہ جہان پوری اور نعیم شاہ کے ساتھ مل کر ترانہ لکھا اور فلمایا اور ریجنٹ سینما میں یہ سکرین پر دکھایا گیا۔ ساغر نے فلم ”انقلاب کشمیر“ بھی بنائی۔ اس کے علاوہ ساغر ہفت روزہ ”تصویر“ کے اڈیٹر رہے اور پھر اس کے بند ہونے پر ہفت روزہ ”فلمی اخبار“ کا ڈیکلیریشن منظور کروایا۔
ساغرِ صدیقی اور نشہ
ڈاکٹر مالک رام لکھتے ہیں
۱۹۶۲ ء کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے تھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور خاص ہمدردی سے انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خود ساغر کے دوستوں میں سے بیشتر نے ان کے ساتھ ظلم کیا۔ یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اور اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔ اس کے بعد اس نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو میں آنا جانا چھوڑ دیا اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اداروں کے کرتا دھرتا اس کے کام کی اجرت کے دس روپے بھی اس وقت ادا نہیں کرتے تھے، جب وہ ان کے در دولت کی چوکھٹ پر دس سجدے نہ کرے۔ اس نے ساغر کے مزاج کی تلخی اور دنیا بیزاری اور ہر وقت ”بے خود“ رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور وہ بالکل آوارہ ہو گیا۔ نوبت بایں جا رسید کہ کہ کبھی وہ ننگ دھڑنگ ایک میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس، بال بکھرائے ننگے پانو۔ منہ میں بیڑی یا سگریٹ لیے سڑکوں پر پھرتا رہتا اور رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دکان کے تھڑے یا تخت کے اوپر یا نیچے پڑا رہتا
ساغرِ صدیقی اور ایوب خان
پاکستان کے سابق صدر ایوب خان ایک دفعہ ہندوستان کے دورے پر آئے، اس موقع پر ایک نغمہ گایا گیا جو انکے دل کے تاروں کو چھو گیا، ایوب خان کو یہ نغمہ اس قدر اچھا لگا کہ اس نغمہ نگار شاعر سے ملنے کا ارادہ ظاہر کر دیا، جب صدر ایوب خان کو شاعر کے متعلق یہ بتایا گیا کہ اس شاعر کا تعلق پاکستان سے ہے تو وہ حیران رہ گئے۔ پاکستان واپس جاتے ہی صدر ایوب نے اس شاعر سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ اسے تلاش کیا جائے اور میرے سامنے لایا جائے، صدر کا حکم سنتے ہی ماتحتوں نے کوششیں شروع کر دیں ۔ ساغر صدیقی داتا دربار کے باہر کمبل میں لپٹے ہوئے زمانے کی ستم ظریفی پر شکر ادا کر رہے تھے، لاکھ منتوں سماجتوں کے باوجود شاعر نے ایوب خان کے پاس جانے سے انکار کر دیا، آخر کار جب بے حد اصرار بڑھ گیا اور ماتحت زبردستی پر اتر آئے تو اس فقیر نے پاس پڑی ہوئی ایک سگریٹ کی ایک خالی ڈبیا اٹھائی، اس میں سے ایلو مینیم کی فویل نکالی (جسے عام زبان میں کلی یا پنی بھی کہتے ہیں ) دکاندار سے نہایت مؤدبانہ انداز میں قلم مانگا اور اس فویل پر 2 سطریں تحریر کرتے ہوئے کہا کہ جاؤ یہ صدر صاحب کو جا کر دے دو۔
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
تصانیف
ان کی تصانیف میں ‘زہر آرزو’، ‘غم بہار’، شب آگہی’، ‘تیشہ دل’، ‘لوح جنوں’، ‘سبز گنبد’، ‘مقتل گل’۔ ”کلیات ساغر ” شامل ہیں
ساغر کا ایک اور ایسا کام ہے جو شائد اس کا نام زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ معروف کلام ”دما دم مست قلندر“ ساغر صدیقی کی تخلیق ہے۔
کلام کی خصوصیات
تصور محبوب ، ماضی پرست، ہجر و فراق ، جذبہ حب الوطنی، سیاسی رنگ ، قنوطیت، ناامیدی
ساغرِ اور پاگل خانہ
ساغر اپنے نشے کی وجہ سے جیل میں بھی تین ماہ رہا اس کے دوست چاہتے تھے کہ اسے جیل سے پاگل خانے بھیج دیا جائے مگر مجسٹریٹ کے سامنے ساغر کے انکار پر ایسا نہ ہوسکا۔
آخری وقت
جنوری1974ء میں اس پر فالج کا حملہ ہوا اس کا علاج بھی چرس اور مارفیا سے کیا گیا۔ فالج سے تو بہت حد تک نجات مل گئی، لیکن اس سے دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ پھر کچھ دن بعد منہ سے خون آنے لگا۔ اور یہ آخر تک دوسرے تیسرے جاری رہا۔ ان دنوں خوراک برائے نام تھی۔ جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ اب وہ دن دور نہیں جب وہ کسی سے چونی نہیں مانگے گا۔ساغر صدیقی کے آخری ایام داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرے۔اور ان کی وفات بھی اسی فٹ پاتھ پر ہوئی۔
ساغر کی تاریخَ وفات کے متعلق میں نے کچھ کتابوں میں 18 جولائی پڑھا ہے جبکہ وکیپیڈیا پہ 19 جولائی لکھا ہوا ہے۔ اگر کسی علم میں درست تاریخ ہو تو مطلع فرمائیں۔ بہرحال جولائی 1974ءصبح کے وقت اس کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جا کر اسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
کتبہ
اسے کس نے کفن پہنایا اور کون لوگ دفن کرنے قبرستان گئے۔ یہ شکستِ ساغر کی آخری گمشدہ کڑی ہے اور جس طرح کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اُس نے کس ماں کی گود میں آنکھ کھولی؟ کس باپ کی شفقت سے محروم ہوا؟ اور کس بھائی نے اُسے پیار سے پکارا اس طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ اُسے قبر میں اُتارنے والے کون تھے؟ اُس کی آخری آرام گاہ پر لگا ہوا ایک کتبہ پڑھ رہا ہوں۔ جس پر یہ الفاظ کنندہ ہیں
’ عاشق کو سجدہ کرنے کی مستی میں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کہ اُس کی پگڑی کہاں گری ہے اور اُس کا سر محبوب کے قدموں پر کس انداز سے گرتا ہے۔ ‘
آخری الفاظ
ساغر صدیقی کہا کرتے تھے کہ "لاہور میں بہت قیمتی خزانے دفن ہیں مگر انہیں آسانی سے تلاش نہیں کیا سکتا ۔”
حرفِ آخر
فراز احمد اپنی تحریر میں لکھتے ہیں
ساغر کی قبر پر کچھ عرصہ قبل حاضری دی۔ آج قبر کی حالت بہت بدل چکی ہے۔ اب تو یہاں میلہ بھی لگتا ہے۔ کیسا عجب ہے یہ سماج کہ اپنی زندگی میں سڑکوں پر ننگے پیر پھرنا والا یہ درویش جو اکثر خالی پیٹ سوتا تھا آج اس کی قبر پر لنگر تقسیم ہوتا ہے۔ ناجانے اس کے مہربان دوست اس کی زندگی میں کہاں تھے۔ انہوں نے کیوں ساغر کو نشے سے نہ بچایا۔ ساغر کے قتل میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں۔ میں کافی دیر ساغر کی قبر سے ٹیک لگائے بیٹھا رہا۔ساغر 1974 ء میں مرا مگر ہم تو اب تلک نہ بدلے ہم نے کئی ساغر اسی طرح مار دیے۔ آج اس کی قبر پر ٹائلیں ہیں مگر اس کا ساغر کو کیا فیض وہ تو تمام عمر فٹ پاتھ پر رُلتا رہا۔ یہ سچ ہے کہ ساغر کا اپنی بربادی میں خود بھی بڑا ہاتھ ہے مگر اس کو اس حال تک پہچانے والے اس کے گرد پائے جانے والے درندے تھے، جنہوں نے دوستی جیسے مقدس رشتے کو داغ دار کیا۔ جنہوں نے ساغر کے کلام سے کمائے مال سے تا عمر عیش کی اور وہ آج بھی اس کی قبر پر فاتحہ تک پڑھنے کے روادار نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی
آوارہ جنوں
تجمل حسین لکھتے ہیں:
اس کو بے مہرتی عالم کا جملہ کہتے ہیں ! مرگئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا ! میرے علم و مشاہدہ کے مطابق یہ شعر بہت سے مرنے والوں کے تذکرے میں استعمال ہوتا رہا ہے. لیکن اس کا جس قدر صحیح اطلاق ساغر صدیقی پر ہوتا ہے ، شاید کسی اور پر نہ ہو میں ساغر صدیقی کو اس دور سے جانتا ہوں جب میں ایم اے او کالج امرتسر میں پڑھتا تھا اور اس شہر کی علمی و ادبی فضا مختلف اور ممتاز سخنوروں کے کلام سے گونج رہی تھی۔ اس دور میں سائز ایک اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار اور ذی شعور انسان بھی تھا۔ میں نے اسے کئی مرتبہ بھی معلوں میں بھی سنا اور کئی مشاعروں کی غلغلہ انگیز فضا میں بھی۔ ہر چند کہ وہ اس کی شاعری کا عہد آغاز تھا۔ مگر اس کے فکر و خیال کا بانمکین اس کے ایک ایک شعر سے نمایاں تھا۔ پھر اس کی آواز کا سوز و سرور اس پر مستزاد تھا۔ وہ جس محفل میں پڑھنا سن افکار اور حسن آواز کی بنیاد پر محفل یہ ایک سحر طاری کر دیتا۔ اس کی شاعری کے عروج کا زمانہ آیا تو برصغیر تقسیم ہوگیا۔ گئے ہوئے قافلوں کے ساتھ ساتو نے بھی اس سرزمین پر قدم رکھا ، مگر یہاں کی اقتصادی اور سما جی آب و ہوا اس کو راس نہ آئی اس کی زندگی سے ترتیب و تنظیم کے خطوط رفتہ رفتہ مدھم ہونے لگے، دن بات نا ہموار حالات کا مقابلہ کرتا اور درد میں ڈوبے ہوئے شعر کتنا۔ بس اُس کے یہی دو مشاغل تھے، خود سے آنا مرحوم نے میرے اس خیال کی تائید یوں کی ہے کہ ۔
زندگی جبر مسلسل کی طرح کائی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں.
مشاعرہ لاہور زرعی اصلاحات
محمد ایوب خاں نے پاکستان میں خودرگی اصلاحات نافذ کیں اور ہر شاعر و ادیب کو یہ حکم ملا کہ دوران زرعی اصلاحات کے گیت گائے تو ایک مشاعرہ لاہور کے اوپن ایئر تھیٹر میں منعقد ہوا جس میں سب شاعروں نے اس حکم کی بجا آوری میں زرعی اصلاحات کو سراہا اور جب لوگ کہیں سے ساغر صدیقی کو ایک چادر میں لپیٹ کر لے آئے اور انہیں روشنی اور مائکرو فون کے سامنے کر دیا تو انہوں نے اپنی غزل کے اس شعر
پر چادر اتار کر مشاعرہ پر پھینک دی کہ
مجھے وطن کے غریبوں کو ڈھانپنے کے لیے قبائے خواجہ اقلیم کی ضرورت ہے
اور مشاعرہ فرش سے اڑ کر عرش پر جا پہنچا۔ اس غزل میں اس وقت کے حکمران ٹولے کو ساغر صدیقی نے بتایا تھا کہ عوام کو اس نام نہاد زرعی اصلاح کی نہیں اصل میں کس کس چیز کی ضرورت ہے۔ ساغر صدیقی فرہاد کی مانند کسی ایک لئے یا کسی ایک شیریں کا نہیں پوری انسانیت کا عاشق تھا۔ اسی لیے وہ اپنی بظاہر بے بضاعتی کے باوجود ہر طاہر کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا تھا اور اس طرح سوچتا کہ ۔
سر بلند اپنا لو بجھا سرنگوں قاتل کی تیغ ہم مستقبل پر ؟ سر اپنا اٹھا کر لے گئے
ہر چند کہ یہ شور ساغر صدیقی کا نہیں ہے لیکن اس تیور کے بے شمار اشعار اس کے دیوانوں میں آپ کو مل جائیں گے "عظیم پہاڑا اور لوح جنوں میں ۔ !
وہ در یار پر ہو تو اتنا امن پسند شہر میں ہوتا کہ کہتا ہے۔
میں نے پلکوں سے دریار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
میرزا ادیب لکھتے ہیں
فراز عرش کا ٹوٹا ہوا تاره
میرزا ادیب
ہال کے بڑے دروازے کے سامنے ایک خوبصورت کار آ کر رکی۔ مشاعرے کے منتظم نے فوراً آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ جو صاحب کار میں سے نکلے انہیں بڑی عزت و احترام کے ساتھ ہال کے اندر پڑی ہوئی ایک اور پچی کر سی تک پہنچا دیا گیا۔ معلوم ہوا آپ ایک معروف شاعر ہیں
دو تین منٹ بعد ایک صاحب آئے. ان کے اردگرد عقیدتمندوں اور مداحوں کا ایک ہجوم نظر
آرہا تھا۔ مشاعرے کے منتظم نہیں بھی بہت عزت واحترام کے ساتھ اندر لے گئے۔
وقفے وقفے بعد شاعر آتے گئے اور بال کی اور نیچی کرسیوں کے نصیب جاگتے گئے۔ اسی اثنا میں ایک سانولے رنگ کا آدمی آیا۔ شانوں پر سیاہ چادر ، بال بکھرے ہوئے ، نگے سرنگے بیان ، چہرے پر گردو غبار کی کافی موٹی تہ جمی ہوئی آنکھیں شب بیداری سے سوجی ہوئیں اور ٹانگیں لڑ کھڑاتی ہوئیں۔
منتظم نے اس پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالی اور جیب سے الائنٹ نکال کر ان سگریٹ سلگا نے لگا۔ کئی لوگوں نے اسے دیکھا۔ بعضوں نے منہ پھیر لیے۔ بعض اشاروں ہی اشاروں میں ایک دوسرے سے کچھ کہنے لگے۔ دو تین شخصوں نے ازراہ رحم اس سے غیریت دریافت کی۔ اس کا جواب تھا ۔
فقیروں کا حال اچھا ہے ”
فقیر احمد چل گیا ۔ سب نے اسے دیکھا نگر صرف ایک لمحے کے لیے۔ وہ سب سے آخری کرسی پر بیٹھ گیا اور جلد ہی بیزار ہوکر یا گھر کہ ہاں سے باہر نکل گیا کسی نے بھی اسے روکنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
میں سوچتا ہوں اگر یہ فقیر سید نشا اللہ خاں کا ڈھنگ نا بہتا تو لوگوں سے ضرور پوچھتا ۔
صاحب ابھی مشاعرہ شروع نہیں ہوا "لوگ جواب دیتے جناب لوگ جمع ہوتے جاتے ہیں ، سب آجائیں تو شروع ہونا ہے.صاحب ہم تو اپنی غزل پڑھے دیتے ہیں۔ یہ کہ کر وہ جبیب میں دوبارہ ہاتھ ڈالتا ایک پھٹا پرانا کا غذ نکالتا اور غزل پڑھنی شروع کر دیتا۔
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
وہ جنکے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ کہ بڑا اندھیرا ہے
فراز عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارا
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے
بصیر توں پہ اجالوں کا خوف طاری ہے
مجھے یقین دلاؤ بڑا اندھیرا ہے
جسے زبان خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ بڑا اندھیرا ہے
بنام زہرہ جبینیان خطه فردوس
کسی کرن کو جگاؤ بڑا اندھیرا ہے
خیر غزل پڑھ کر، اسلام علیک کہہ کر چلا جاتا۔ مگر زمین و آسمان میں سناٹا چھا جاتا۔
ترانہ
ساغر صدیقی نے ایک قومی جذبے کے تحت ایک ترانہ لکھا تھا جسے فلمانے کے لیے فدا نے جو انتظامات فراہم کیے وہ خاصے مایوس کن تھے۔ ساغر تو ویسے ہی بے گھر تھا اور نعیم ہاشمی کے مالی حالات بھی دگرگوں تھے لیکن ان تینوں محب وطن شاعروں نے کسی نہ کسی طرح ترانہ فلما ہی لیا اور جب پہلی مرتبہ ریجنٹ سینما میں اسے دکھایا گیا تو قومی پرچم پر ساغر صدیقی کی آواز میں اس کا ہی لکھا ہوا ترانہ ” سلام اے قائد اعظم یہ فلم کے اختتام پر قومی پرچم کے احترام کی علامت بن گیا۔ ساغر صدیقی نے ترانہ لکھ کر نئی مملکت پاکستان کے ساتھ کروڑوں عوام کی نظریاتی وابستگی کو نئی زندگی اور نیا ولولہ دیا تھا۔ اور کمیونسٹ اربوں اور شاعروں نے ساغر صدیقی کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا تھا، لیکن ساغر صدیقی نے قوم پرست فنکار کی حیثیت سے اسے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔ قومی ترانے کی فلم کی کامیاب تکمیل کے بعد اس نے کشمیر کے موضوع پر آزادی پسندوں کی بعد جدوجہد کو فلمبند کرنے کے منصوبے کا اعلان کر دیا۔
ساغر کی مدہوشی
ساغر کے ساتھ چل کے کبھی میکدے میں سن
اتنی حدیث بادہ و ساغر بُری نہیں
ساغر کا کام شعر کہنا تھا اور اس کام کو وہ بہادروں کی طرح کر رہا تھا۔ وہ معاشرے کے گہرے شعور کے ساتھ تخلیق فن میں مگن تھا۔ اتنا مگن کہ اسے اپنے آپ کا کبھی ہوش نہ رہا۔ بابا عالم سیاه پوش اور حفیظ قندھاری سے دوستی نے اسے مدہوشی سے لذت آشنا کہ دیا۔ اس معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے بے ہوشی ساغر کے لئے بہت ضروری تھی. اس کی راہیں بند تھی اس کے گرد محرومیوں کا جال تنگ ہوتا جا رہا تھا اور زندگی کی جس سچائی کا وہ مبلغ تھا وہ اسے کہیں بھی نظر نہ آتی تھی اور جس بے حسی کی دیواروں میں گرا ہوا تھا انہیں توڑنے کے لیے اس کے پاس صرف احساس کا ہتھیار تھا، جسے تیز اور منتقل کرنے کے لیے وہ مدہوشی کے گنگناتے بادلوں سے گہری دوستی کر چکا تھا۔
ساغر صدیقی کی شاعری کے فنی و فکری پہلو
ساغر صدیقی کے کلام میں غالب کا فلسفہ ، داغ کی شوخی اور میر کی سادگی نہ سہی، مگر اس کے باوجود وہ ایک انفرادی طرز اظہار رکھتا ہے اور یہ اچھی بات ہے کہ اسی ایک چیز نے اس کو اہل سخن میں نمایاں بنا دیا ہے ۔ بنیادی خیال کی صداقت، علمت ، بلندی اور سادگی و پرکاری کے ساتھ اپنے بیان کے لیے قدم قدم پر وہ رسمیں الفاظ اور جملوں کا سہارا لیتا ہے۔ بولتی ہوئی رویوں اور جھکتے ہوئے قافیوں کے ساتھ وہ اپنی غزل کو اس طرح آراستہ کرتا ہے کہ اس کا ہر شعرظاہری حسن کے ساتھ ساتھ معانی و مفہوم کی گرمائی اور گہرائی کا بھی ایک دل آویز نمونہ بھی جاتا ہے۔ اس ضمن میں مرحوم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
میں نے پلکوں سے دریار پر دستک دی ہے میں، وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
الفاظ اور استعارے کا استعمال
ساغر مرحوم کی شاعری کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے اشعار میں معانی کی گونج اور الفاظ کی کھنک قاری کے ذہن میں ایک ایسی فضا تیار کرتی ہے ، جو اس کے دل ودماغ کو ایک شدید قسم کے تاثر کی گرفت میں لے لیتی ہے ، اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے کمال فن کا اعتراف نہ کرنا بہ مذاقی
ہی نہیں بلکہ ایک فن کار کے ساتھ بہت بڑی زیادتی بھی ہے۔ میرے نزدیک شعر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تلوار کی طرح کاٹے اور تیر کی طرح پیوست ہو جائے اور ساغر کے بیشتر اشعار میں یہ سحر نگاری بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس کے بعض اشعار ایسے ہیں جیسے کسی نے آل اور شہد کو ہم آمیز کر کے رکھ دیا ہو۔ اس کے کچھ اشعار ایسے بھی ہیں، جنہیں پڑھ کر ان پر انگاروں سے کھیلتی ہوئی شبنم کا گمان گذرا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کو ان استعار میں اس حقیقت کی نمایاں جھلک نظر آئے گی ۔
نالہ حدودِ کوئے رسا سے گزر گیا
اب درد دل علاج و دوا سے گزر گیا
فکری مطالعہ
داخلیت
موضوعات
ساغر صدیقی کی شاعری میں ناامیدی، حب الوطنی، قنوطیت ، حسرت ،ہجر و فراق اور محبوب کا تصور ملتا ہے۔
ساغر صدیقی کے ہاں تصور دنیا ایک منفرد تصور ہے جو انکی شاعری میں جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے ۔ لاہور کی بربادی پھر خود ساغر صدیقی کا معروف شاعروں میں شمار ہوتے ہوئے سڑک پہ آ جانا قدم قدم پہ لوگوں کے دھوکے ،بے روزگاری ، نشے کی لت کا لگ جانا ، لوگوں کے طنزیہ جملے اور رویوں کا سامنا کرنا پڑا تو انکے شاعری میں دنیا کی تلخی بے بسی بے حسی نظر آتی ہے ۔
جامِ عشرت کا ایک گھونٹ نہیں
تلخئ آرزو کی مینا ہے
زندگی حادثوں کی دنیا میں
راہ بُھولی ہوئی اِک حَسینہ ہے
ساغر صدیقی
کوئی تازہ اَلم نہ دکھلائے
آنے والے خوشی سے ڈرتے ہیں
لوگ اب موت سے نہیں ڈرتے
لوگ اب زندگی سے ڈرتے ہیں
(ساغرؔ صدیقی)
تصور موت
موت برحق ہے ہر نفس نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے ساغر صدیقی کی شاعری میں بھی موت کا تذکرہ ملتا ہے ۔ساغر صاحب کے ہاں جو تصور موت پایا جاتا ہے وہ اسلام کے مطابق ہے ۔ ساغر صدیقی نے موت کو زندگی کی اک کڑی بتلایا ہے ۔انہوں نے اپنی شاعری میں کہیں کہیں موت کو زندگی سے زیادہ راحت بخش کہا ۔
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی
ساغر صدیقی
جانتا تھا کہ مجھے موت سکون بخشے گی
وہ ستم گر تھا سو جینے کی دعا دی اس نے
ہر شاعر کے ہاں تصور انسان مختلف ہے ۔ جیسی شاعر کی نفسیات ہوگی ویسا ہی تصور ہو گا ۔ ساغر صاحب کو دوستوں نے دھوکہ دیا ، غم دکھ پریشانی اٹھانی پڑی سڑکوں پہ فقیروں کی طرح چند روپے کی خاطر پھرتے رہتے ان کے ہاں جو تصور انسان ملا ہے ۔ وہ اندھیرے میں گمراہی میں گرا ہوا انسان ہے اسے ایک روشنی میں لے جانے والے سہارے کی ضرورت ہے ۔
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے
بنام زہرہ جبینان خطہ فردوس
کسی کرن کو جگاؤ بڑا اندھیرا ہے
شاعری میں محبوب کے ظاہری حسن ظاہری خد و خال پہ بات کرنا سراپا حسن ہے ۔ ساغر صدیقی کے ہاں محبوب کی تعریف و توصیف بھی ملتی ہے ۔
اے حسن لالہ فام! ذرا آنکھ تو ملا
خالی پڑے ہیں جام! ذرا آنکھ تو ملا
شاعری میں کسی شہر کی بربادی کا ذکر کرنا شہر آشوب ہے ۔ ساغر صدیقی نے بھی اپنی شاعری میں قیام پاکستان کے وقت کے حالات کو قلم بند کیا ہے اس وقت لاہور کی جوحالت تھی لٹے پٹے قافلے جو ہجرت کر کے ہندوستان سے پاکستان آئے ۔ وطن سے ہر کسی کو پیار ہوتا ہے ساغر نے اس بربادی کا ذکر اپنی شاعری میں بھی کیا ہے ۔
مُجھ کو خزاں کی ایک لُٹی رات سے ہے پیار
میں رونقِ بہار کا قائل نہیں ہُوں دوست
ہزاروں پُھول کِھلے، اپنا قافلہ نہ رُکا
دِلوں پہ داغ لیے ہم چَمن سے گزرے ہیں
ہمیں سے منزلِ فکر و نظر جواں ساغرؔ
ہمیں جو وادیء شعر و سُخن سے گزرے ہیں
تصور غم
اغر کے فن کی ایک نہاں خوبی یہ بھی ہے کہ وہ فلسفیانہ بات کو بھی سلجھے ہوئے قلندرانہ اسلوب میں بیان کرنے کا ڈھنگ جانتا ہے. اس نے اپنے غم کو بہت سے غمزدہ لوگوں کے غم کی علامت سمجھ رکھا تھا اور اپنے علاوہ دو سروں پر بنے ہوئے حادثات کو بھی نظم کرنے میں اسے کمال حاصل تھا۔ مطالعے کی تنہائیوں میں اس کا کلام ان حقائق کی بڑی واضح شہادتیں پیش کرتا ہے، مثال کے طور پر
جگمگاتے ہیں وحشتوں کے دیار
عقل نے آدمی کو بیچ دیا
ساغر صدیقی کی حالات زندگی جو دیکھا جائے تو آخری ایام میں وہ فقیروں کی صورت داتا صاحب کے پاس مانگتے ہوئے پائے جاتے ۔ دوستوں کے دھوکوں نے انھیں مزید رنجیدہ کر دیا ۔ وہ دوست جو جو ایک سکے کے بدلے ساغر صاحب کی غزل یا اشعار کے جاتے اور اپنے نام سے مشہور کروائے۔
میری غربت نے اڑایا ہے میرے فن کا مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں،،!!
ہر شاعر کے ہاں شاعری میں وصال و ہجر کا عنصر ملتا ہے ساغر صدیقی کی شاعری میں بھی وصال کی خواہش نظر آتی ہے
میری نگاہ سے تو دُور ہے ، دل و جاں سے پر تو قریب ہے
یہ فراق ہے نہ وصال ہے ، تیری شفقتوں کا یہ حال ہے
فنی مطالعہ
قافیہ
قافیہ کے لغوی معنی ہیں
"پے در پے آ نے والے” لگا تار آ نے والا”پیچھے پیچھے آ نے والا” اصطلاح میں وہ ہم آ واز الفاظ جو غزل یا پابند نظم کے مصروں کے آ خر میں اور ردیف ھونے کی صورت میں ردیف سے پہلے آ تے ہیں،،،قافیہ کہلاتے ہیں۔۔۔۔۔
ساغر صدیقی نے اپنی شاعری میں قافیہ کا استعمال بھی کیا ہے مثال کے طور پہ۔۔۔
جفا و جور کی دنیا سنوار دی ہم نے
زہے نصیب کہ ہنس کے گزار دی ہم نے
سنوار،گزار ۔۔۔ قافیہ ہیں
ردیف
شعر کے آ خر میں جوں کے توں دوہرائے جانے والے الفاظ”ردیف” کہلاتے ہیں۔
##ردیف کا مطلب ہے” جوں کے توں دہرائے جانے والے الفاظ”..
ساغر کی شاعری ردیف قافیہ پہ پورا اترتی ہے .
جفا و جور کی دنیا سنوار دی ہم نے
زہے نصیب کہ ہنس کے گزار دی ہم نے
ہم نے ، ہم نے ردیف ہے
مطلع !
مطلع طلوع ھونے سے ہے…اس کا معنی ” طلوع ہونے کی جگہ” ہے…… اصطلاح میں غزل کا پہلا شعر جس کے دونو ں مصرعے ہم قافیہ ھوں ،مطلع کہلاتا ہے.
..بزمِ کونین سجانے کے لیے آپؐ آئے
شمعِ توحید جلانے کے لیے آپؐ آئے
یہ شعر ساغر کی نعت کا مطلع ہے جو ہم ردیف اور ہم قافیہ بھی ہے ۔
غزل کا دوسرا شعر بھی ہم قافیہ ھو تو "مطلع ثانی” کہلاتا ہے
مقطع!
مقطع قطع کرنے سے ہے۔۔۔اس کا لغوی معنی "کاٹ دینے کی جگہ” یا ” ختم کر دینے کی جگہ” ھے۔۔
اصطلاح میں غزل یا پابند نظم کا وہ آ خری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے "” مقطع” "” کہلاتا ہے۔۔۔۔۔
وقت کی چند ساعتیں ساغرؔ
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو
مقطع کے لیے تخلص ضروری ہے۔یہ عربی کا لفظ ہے[i]
تلمیح
تلمیح کی تعریف یہ ہوتی ہے کہ کسی بات، شخص یا موقع کو غیر واضح یا بغیر مستقیم طور پر ذکر کر کے اشارہ کرنا۔ تلمیح اکثر زبانی یا غیر زبانی طریقوں سے کی جاتی ہے تاکہ واقعی منظور ہونے والی بات سامنے واضح نہ لگے، اور لوگ اسے سمجھ سکیں۔
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں
مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں
ساغر صدّیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جفا و جور کی دنیا سنوار دی ہم نے
زہے نصیب کہ ہنس کے گزار دی ہم نے
کلی کلی ہمیں حیرانیوں سے تکتی ہے
کہ پت جَھڑوں میں صدائے بہار دی ہم نے
خیالِ یار کی رنگینیوں میں گم ہو کر
جمالِ یار کی عظمت نکھار دی ہم نے
اسے نہ جیت سکے گا غمِ زمانہ اب
جو کائنات ترے در پہ ہار دی ہم نے
وہ زندگی کہ جسے زندگی سے نسبت تهی
تمہاری زلف پریشاں پہ وار دی ہم نے
کچھ ایسا سرد ہوا جذبہِ وفا ساغر ؔ
خود اپنی ذات کو ہنس ہنس کے خار دی ہم نے
ساغرؔ صدیقی
آپ کی راۓ