آج پھر مولوی جی سے مار کھائی ہے؟ میں کیا جواب دیتا۔ خاموش قطار میں کھڑا رہا۔ مولوی جی بڑے سخت گیر انسان تھے۔ ان کے ہاں جو بچہ آتا ۔چند دن بعد بھاگ جاتا۔ میں نے بھی بھاگنے کی کوشش کی ۔گھر والے مار پیٹ کر پھر انھیں کے ہاں چھوڑ آتے۔ مولوی جی سے کہتے : یہ بیٹا ہم نے آپ کےسُپرد کیا۔ اس کی ہڈیاں ہماری اور ماس آپ کا ہے۔ اسے قرآن پڑھنا ہے اور ختم کرانا ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے ۔ آپ اِسے کس طرح پڑھاتے ہیں؟ مولوجی جی میری طرح جی،جی کہتے رہے اور امّاں ،ابّا اُنھیں تاکید کرتے رہے۔ وہ دن میرے لیے کسی نا گہانی آزمائش سے کم نہ تھا۔ اماں، ابا کو کیا بتاتا کہ مولوی جی مار ،مار کر ادھ مُوا کر دیتے ہیں ۔اس کے باوجود مجھے ہجے کر کے سبق پڑھنے میں دِقّت ہوتی ہے۔ چھے ماہ ناظرہ پڑھنے میں گزر گئے۔ اللہ بھلا کرے،گاؤں کے چودھری کا، جس کی مولوی جی سے کسی بات پر اَن بن ہو گئی ۔ مولوی جی ہفتہ کے اندر بوریا بستر گول کر کے چلتے بنے۔ ہماری تو جیسے عید ہو گئی۔ صبح دیر سے اُٹھنا اور اپنی مرضی سے جاگنا، میرے لیے کسی سہانے خواب سے کم نہ تھا۔ یہ سلسلہ بمشکل ایک ہفتہ چل سکا۔ چودھری جی نے اپنے گروپ کے حمایتی مولوی جی کو مسجد کا امام مقرر کروا دیا۔ ہم پر مصیبت کا ایک نیا سلسلہ وارد ہو گیا۔ ابھی پوہ بھی نہیں پھٹی کہ امّاں کی گرج دار آواز نے مجھے یوں چونکا کر اُٹھا دیا جیسے میں برسوں سےنیند کی گہری وادی میں سویا پڑا ہوں ۔ اماں نے رضائی اُٹھا کر پھینکی اور مجھے لُومٹر کی طرح کان سے پکڑ ا ۔ جلدی سے میرے منہ پر پانی کے دو چھینٹے مارے ۔ ہاتھ میں سپارہ دے کر کہا ۔ ناک کی سیدھ میں مسجد چلا جا۔ مولوی جی نئے آئے ہیں۔ آج تم اُن کے قریب بیٹھو گے تو وہ تمہیں نزدیک ہی بٹھایا کریں گے۔ اُن کی توجہ میں رہو گے تو جلد ناظرہ پڑھ کر قرآن پر آجاؤ گے۔ ہر آنے والے مولوی جی کے بارے میں اماں جی ایسا ہی حُسنِ زن رکھا کرتی تھی۔ میں گرتا پڑتا مسجد کی طرف ہولیا۔ مسجد گھر ذراسے فاصلے پر تھی۔ میرے سکول کے دوست بھی لُڑکھتے گرتے پڑتے چلے آرہے تھے۔ شیدا، اچھو، مٹھو، ننھا اور اجّو،سمیت ایک ایک کر کے مسجد کے دروازے پر آکر جمع ہو گئے۔ مِٹّھو نے کہا یار! اتنی سخت سردی میں پاؤں اکٹر گئے ہیں ۔میں تو ٹھنڈ سے مرا جا رہا ہوں۔ نئےمولوی جی ،پتہ نہیں کیسے ہیں؟ پہلے والے مولوی جی نے مار ،مار بُرا پنجر کر دیا تھا۔ ننھے نے کہا : یار! میری بڑی بہن بہت ظالم ہے۔ اس نے قرآن بی بی جی سے پڑھا ہے۔ مجھے یہاں ٹھنڈ میں مرنے کے لیے بھیج دیتی ہے۔ بی بی جی بہت اچھی ہے۔وہ مارتی نہیں ہے ۔مِٹّھو نے کہا :میں تو پڑھنا ہی نہیں چاہتا ۔مجھے تو ہل چلانے کا شوق ہے ۔میں نے تو سائیں عاشق والا بیل خرید لینا ہے ۔ آرام سے گاہی کریں گے۔ ہم آپس میں روزانہ آدھ گھنٹہ اسی طرح کی لایعنی باتوں میں گزار دیتے ۔تب تک فجر کی نماز ادا ہو جاتی ۔نمازی مسجد سے باہر نکلنا شروع ہو جاتے۔ نمازیوں کی مسجد سے برخاستگی کے بعد ہماری مسجد میں آمد ہو ا کرتی تھی۔ پڑھاکو اور ہوشیار بچے پہلی صف میں بیٹھ جاتے۔ میں اپنے رئیس المزاج دوستوں کے ہمراہ آخری صف میں بیٹھ جاتا۔ ایک سال اِسی اُدھیڑ بُن میں گزر گیا۔ چھے سات مولوی جی آئے اور گئے ۔ہمارا ناظرہ وہیں اور وہیں رہا۔ گھر والوں سے الگ پِٹتا تھا ۔ ہر آنے والے مولوی جی سے علاحدہ۔ گھر والے کہتے : تم دُنیا کے نالائق ترین بچے ہو۔مولوی جی کہتے : اتنے بڑے ہو کر گدھے ہی رہو گے۔ تمہیں الف، ب کی بھی سوجھ بوجھ نہیں ہے۔ دفعہ ہو جا ۔وہاں ایک ٹانگ پر کھڑا ہو جا ۔ زور زور سے الرحمن ،الرحیم اور الحمداللہ کے جوڑ کر کے پڑھو۔ جوڑ توڑ کا یہ سلسلہ دیر تلک یونہی چلتا رہا ۔ سکول میں پانچویں جماعت میں پہنچے۔ اماں نے ایک دن تنگ آکر بی بی جی کے پاس بٹھا دیا۔بی بی جی سے کہا: میرے اس نالائق بچے کو جیسے تیسے قرآن پڑھا دیں۔ایک دفعہ بس پڑھا دیں تاکہ میری محلے میں ناک رہ جائے۔اس نکمے نے تو مجھے بے عزت کروا دیا ہے ۔ میری نندیں کہتی ہیں :میں نے نالائق بیٹا پید ا کر رکھا ہے جسے الف، ب بھی نہیں آتی ۔ بی بی جی نے پیار سے مجھے پاس بٹھایا ۔ حروفِ تہجی کو ہجوں کے ساتھ پڑھانا اور لفظوں کو چھوٹا اور لمبا کر کے پڑھنے کا طریقہ سکھایا۔ بی بی جی نے مجھے موتی چور لڈو بھی دیا جسے میں نے پورا منہ میں ڈال لیا ۔سانس پھول گئی توآدھا نکال کر ہاتھ میں رکھا ۔ پھر جیب میں اس خیال سے ڈال لیا کہ چھٹی کے وقت راستے میں ذرہ ذرہ کر کے کھاؤں گا تو جلدی ختم نہیں ہوگا۔ بی بی جی کی شفقت،محبت اور اپنائیت کی بدولت تین ماہ میں ناظرہ مکمل کر لیا۔ بی بی جی بہت اچھی تھیں ۔ بڑی بہن سے سُنا تھا کہ بی بی جی کا اپنے خاوند سے کسی بات پر جھگڑا ہوگیا تھا۔ کبھی کبھی میں دوپہر کو بی بی جی کے گھر جاتا تو دیکھتا ۔وہ اکثرخاموش چارپائی پر لیٹی کسی سوچ میں غرق ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ ہمت کر کے میں نے پوچھ لیا ۔بی بی جی! آپ بچوں کے سامنے تو خوش رہتی ہیں ۔ جب اکیلی ہوتی ہیں تو اُداس ہو جاتی ہیں۔ بی بی جی نے کہا : کچھ نہیں بچے! بس ایسے ہی اُداسی چھا جاتی ہے اور میں خاموش ہو جاتی ہوں۔ تم کیا کھاؤ گے؟بی بی جی کے پاس جو کچھ گھر میں ہوتا۔وہ میرے سامنے رکھ دیتیں۔ ایک دن اماں سے پوچھا: بی بی جی کے خاوند کہاں ہیں ؟ میں نے بی بی جی کو اکثر اُداس دیکھا ہے۔ اماں نے گال پر تمانچہ رسید کیا اور کہا : تو ہر وقت بی بی جی کے گھر میں کیوں گُھسا رہتا ہے۔ مجھے کیا پتہ ؟ کیوں اُداس رہتی ہیں ؟وہ ایسی ہیں ہیں۔ تم بس پڑھائی پر توجہ دیا کرو۔ جی اماں جی ! اِس کے تمانچے کے بعد میری توجہ پڑھائی پر زیادہ اور بی بی جی کے چہرے پر کم رہتی۔ زور زور سے سبق کا اعادہ کر تے ہوئے میں بی بی جی کی طرف دیکھا کرتا تھا ۔وہ بھی مجھے کن انکھیوں سے دیکھتی تھیں۔ کبھی کبھی مسکرا بھی دیتی تھیں۔ مجھے بہت اچھا لگتا۔ سال بھر یونہی گزر گیا۔ پہلے پانچ پارے بی بی جی سے پڑھے۔ ایک دن بی بی جی کی طبیعت خراب ہوئی۔ حالات زیادہ بگڑ گئی ۔ایک ہفتہ کے اندر ان کی طبیعت ایسی بگڑی کہ ہسپتال لے جانا پڑا۔ اماں نے بتایا : انھیں ایک نامراد بیماری ہے ۔ اب ان کا وقت قریب ہے۔ وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گی۔ مجھے یہ سُن کر بہت دُکھ ہوتا تھا ۔میں سوچتا ۔ بی بی جی تو اتنی اچھی ہیں۔انھیں نامراد بیماری کیوہو سکتی ہے۔ یہ بیماری تو چودھری کو ہونی چاہیے جو آئے روز مولوی جی کو گاؤں سے نکال دیتا ہے ۔ میں بی بی جی کو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔ آخر وہی ہوا۔جس کا ڈر تھا۔ بی بی جی کو موت نے آن لیا۔ وہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے جُدا ہو گئیں۔ ہفتہ بھر مجھے بخار رہا۔ بھوک مٹ گئی ۔ کچھ بھی کھانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ اماں نے پیار سے بہلا کر مجھے امردو اور سیب کھلائے۔ اماں کا نرم رویہ بھی حیران کُن تھا۔ اماں ؛ بی بی جی کے اچانک انتقال سے ٹوٹ سی گئی تھیں۔ ظاہر نہیں کرتی تھیں لیکن ہم دونوں کی حالت ایک سی تھی۔ ایک دن ابا جی نے کہا : بی بی جی تو جنت پہنچ چکی۔اب اس کو مسجد بھیج دو۔ باقی پارے بھی پڑھ لے تو ہمیں سکون کو سانس آئے۔ مسجد کا نام سُن کر مجھے تو مارے خوف کے بخار ہو گیا۔ یہ والا بخار بی بی جی کے جانے والا نہیں تھا۔ ابا کے آگے کوئی پَر نہیں مار سکتا تھا۔ اگلی صبح اماں نے پوہ پھٹنے سے پہلے ہی مجھے جگا کر کہا : مولوی جی اذا ن دینے والے ہیں۔ تم اب روزانہ مولوی جی سے پڑھا کرو گے ۔ اب تم جلدی سے قرآن ختم کر لو ۔ تمہارے ابا نے کہا ہے ۔ جب تم قرآن ختم کر لو گے ۔وہ تمہیں سائیکل لے کر دیں گے۔ میں سائیکل ملنے پر خوش ہوا لیکن مولوی جی کے پاس پڑھنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھا۔ راستے میں سوچتا رہا : ابا نے سائیکل کا وعدہ کیا ہے تو چلو مولوی جی کی مار کھا کر جیسے تیسے قرآن ایک دفعہ ختم کر لیتے ہیں۔ سائیکل مل جائے گی تو سب دوستوں میں میری بلے بلے ہو جائے گی ۔اماں جی کی محلے میں بے عزتی نہیں ہوگی۔ ابا جی کو سکون کا سانس مل جائے گا۔ میری بھی خواہش پوری ہو جائے گی۔
آپ کی راۓ