آپ آسان سمجھتے ہیں منور ہونا 

ثناءاللہ صادق تیمی ، مکہ مکرمہ 

19 جنوری, 2024

منور رانا کی وفات غیر متوقع نہیں ہے ، ان کی طبیعت کی ناسازی کی اطلاع سامنے آتی رہی ہے، اس کے باوجود موت کی اس اطلاع سے شدید تکلیف ہوئی ۔ عزيز گرامی شاہنواز صادق تیمی نے جس وقت یہ اطلاع ساجھا کی ، ہم ڈاکٹر حشرا لدین المدنی کے ساتھ تھے ، ہم دونوں اداس ہوگئے اور دیر تک ان کے محاسن پر گفتگو ہوتی رہی۔ غفر اللہ لہ و رحمہ و ادخلہ فسیح جناتہ۔

منور رانا کو پوری دنیا میں ان کی منفرد شاعری کے لیے جانا جاتا ہے ۔ انہوں نے پوری دنیا کی سیر کی ، مشاعرے پڑھے اور اپنی ایک خاص شناخت بنائی ۔ انہوں نے اپنی شاعری اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں چھاپی اور خاصی شہرت حاصل کی ۔انہیں بالعموم "ماں ” کے لیے یاد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس مقدس رشتے کو بڑی خوب صورتی سے شاعری میں ڈھالا اور جیسے ایک ٹرینڈ سیٹ کردیا۔ لیکن رشتوں کی یہ اچھوتی شاعری صرف ماں تک محدود نہیں رہتی ، ان کے یہاں بھائی ، بہن ، بیٹی اور باپ یہ سارے رشتے ایک الگ طرح کی خوشبو اور ایک الگ طرح کی مٹھاس کے ساتھ آتے ہيں اور غزلیہ شاعری کے موضوعاتی کینوس کو وسیع کرنے کا کام کرتے ہیں ۔

یہ ایسا قرض ہے کہ میں ادا کر ہی نہیں سکتا

میں جب تک گھر نہ لوٹوں ماں میری سجدے میں رہتی ہے

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں

صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا

خدا نے یہ صفت دنیا کی ہر عورت کو بخشی ہے

کہ وہ پاگل بھی ہوجائے تو بیٹے یاد رہتے ہيں

اے اندھیرے دیکھ لے منہ تیرا کالا ہو گیا

ماں نے آنکھیں کھول دیں گھر میں اجالا ہوگیا

رو رہے تھے سب تو میں بھی پھوٹ کر رونے لگا

ورنہ مجھ کو بیٹیوں کی رخصتی اچھی لگی

وہ تو بیوی ہے دکھ سکھ میں صبر کرتی ہے

ورنہ بازار کی عورت تو محل مانگے ہے

گھر میں ہوتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں دھان کے پودوں کی طرح ہوتی ہیں

مشہور فن کاروں کے ساتھ اکثر ہی یہ ظلم ہوتا ہے کہ ان کے فن کا کوئی ایک زاویہ ایسا روشن ہو جاتا ہے کہ ان کے بقیہ سارے زاویے پس پردہ چلے جاتے ہیں ۔ منور رانا کو ” ماں ” پر شاعری کے لیے جانا جائے ، یہ اچھی بات ہوسکتی ہے لیکن انہیں صرف اسی لیے جانا جائے تو یقینا اس فن کار پر ظلم ہے ۔ اس مضمون میں یہ کوشش ہوگی کہ منور رانا کے فن کے مختلف گوشے روشن ہوکر قارئین کے سامنے آ جائیں ۔

میں نے جس حد تک منور رانا کو پڑھنے کی کوشش کی ہے ، مجھے یہ محسوس ہوا ہے کہ ان کا فن مشرقی تہذیب وثقافت اور ہند اسلامی طرز زندگی کے خمیر سے نکلا ہے۔ وہ دیہی زندگی کے صالح اقدار کو اپنی شاعری کے توسط سے نہ صرف زندہ کرتے ہيں بلکہ ان کی صالحیت کو پرکشش بنا کر ان کے لیے دلو ں میں شوق پیدا کردیتے ہیں۔ ان کے یہاں اگر آپ تلمیحات پر غور کریں تو آپ پائیں گے کہ وہ ان تاریخی واقعات اور شخصیات کو پیش کرتے ہیں جن کے یہاں یہی خوبی پائی جاتی ہے اور جو باطل کے مقابلے حق کے علم بردار ماتے جاتے ہیں ۔ وہ صارفیت زدہ شہری زندگی کی تیزی سے کڑھتے ہیں اور اس نے زندگیوں کو جس طرح پریشانیوں سے دوچار کیا ہے ، اس کا نوحہ لکھتے ہیں ، بطور حاص مزدور ، کمزور اور بے بس طبقوں کی بے بسی کو وہ الفاظ ہی نہیں دیتے ان میں روح پھونک دیتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ مدرٹریسا کے کسی اسکول میں پہنچ گئے ہيں ۔

شرم آتی ہے مزدوری بتاتے ہوئے ہم کو

اتنے میں تو بچوں کا غبارہ نہیں ملتا

مرے گھر کے درو دیوارکی حالت نہیں دیکھی

برستے بادلو! تم نے بھی میری چھت نہیں دیکھی

ماں باپ کی بوڑھی آنکھوں میں اک فکر سی چھائی رہتی ہے

جس کمبل میں سب سوتے تھے اب وہ بھی چھوٹا پڑتا ہے

تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہيں دیتے

ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہيں

کسی دن پیاس کے بارے میں اس سے پوچھیے جس کی

کنویں میں بالٹی رہتی ہے رسی ٹوٹ جاتی ہے

شریف انسان آخر کیوں ایلیکشن ہار جاتا ہے

کتابوں میں تو یہ لکھا تھا راون ہار جاتا ہے

دشمنی نے کاٹ دی سرحد پہ آخر زندگی

دوستی گجرات میں رہ کر مہاجر ہو گئی

وہ ہندوستان کی اس تہذیب کے علم بردار ہيں جس میں مذہب انسان کو بہتر انسان بناتا ہے ، اس کا تزکیہ کرتا ہے ، اسے ہمدردی اور محبت کی نعمت سے نوازتا ہے اور ہر طرح کے ظلم و ناانصافی کے خلاف لا کھڑا کرتا ہے ۔اس خاص تناظر میں ان کے لفظیات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ انسان کا اسلوب اس کے اندورن کا غماز تو ہوتا ہی ہے ۔

فرشتے آکر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں

وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

گلے ملنے کو آپس میں دعائیں روز آتی ہیں

ابھی مسجد کے دروازے پہ مائیں روز آتی ہیں

کوئی پڑوس میں بھوکا ہے اس لیے شاید

مرے گلے سے نوالہ نہیں اترتا ہے

منور رانا کا غم سماجی ہے ، وہ معاشرے کے المیے کو دیکھ کر روتے ہیں ، ان کے یہاں احتجاج کی لے بھی تیز ہے لیکن اس سب کے باوجود نعرہ بازی یا مذہب بیزاری کی کیفیت دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ ان کے یہاں ترقی پسند شاعری کے عناصر مل جائیں گے لیکن ترقی پسندوں کے اصول اور رویے بہرحال مفقود ہيں اور یہ وہ چيز ہے جو انہيں معتبر بھی بناتی ہے اور منفرد بھی ۔

کسی کو دیکھ کر روتے ہوئے ہنسنا نہیں اچھا

یہ وہ آنسو ہیں جن سے تخت سلطانی پلٹتا ہے

کہیں ہم سرفروشوں کو سلاخیں روک سکتی ہیں

کہو ظلِ الٰہی سے کہ زندانی پلٹتا ہے

ان کی تربیت دین دار بزرگوں کے زیر سایہ ہوئی ہے ، مولانا ابوالحسن علی ندوی کے خطے سے ان کا تعلق ہے ، علی میاں کے پریوار سے ان کے راہ ورسم رہے ہیں اور ان تمام بنیادوں کا گہرا اثر منور رانا کی شاعری اور شخصیت پر نظر آتا ہے ۔ یہ بات اپنے آپ میں اہم ہے کہ وہ مشاعرے کی دنیا میں رہ کر بھی محترم رہے ہیں اور اپنی شاعری کے ساتھ اپنی شرافت اور تہذیبی رفعت کے لیے جانے جاتے ہیں ۔ وہ خود ایک انٹرویو میں بتاتے ہيں ” میں جب دشمنوں کے متواتر حملوں سے ٹوٹنے لگتا ہوں ، پریشانیاں مجھے تھکانے لگتی ہیں تو میں ہمیشہ کی طرح آج بھی سویرے اٹھ کر فجر کی نماز پڑھتا ہوں ، قرآن کریم کھولتا ہوں ، سورہ فتح اور سورہ نوح پڑھتا ہوں ۔ دیوار سے سر ٹیکتا ہوں اور جی بھر کے روتا ہوں۔ اس کے بعد میں پروردگار سے صرف اتنا کہتا ہوں ، تجھ سے کچھ چھپا نہيں ہے ۔ تجھے معلوم ہے کہ تیرے علاوہ کسی سے ڈرتا نہيں ہوں ، تیرے علاوہ کسی سے مانگتا نہيں ہوں ۔ یہ بھی تیرے علم میں ہے کہ اپنے جانتے بھرتیرے کسی بندے کو نقصان نہيں پہنچایا۔ اب میں مصیبت میں گھرا ہوں، پریشان ہوں تو یہ تیری ذمہ داری ہے کہ مجھے مصیبتوں سے نکال۔ اسی وقت سے میری پریشانیوں کی دھوپ اپنی تمازت کو کھونا شروع کردیتی ہے اور میری زندگی پھر سے خوشگوار ہوجاتی ہے ۔(ماہنامہ چہار سو ص 19مارچ ، اپریل 2016)

دبے کچلے لوگوں کے غموں کو شاعری بناتے ہوئے منور رانا اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرتے کہ ان کے بدتر حالات کے ذمہ دار جہاں اور عوامل ہیں وہیں ارباب اقتدار بھی ہیں ، وہ سیاست کی بدمعاشیوں کو آئینہ دکھاتے ہیں ، ملک کی گنگا جمنی تہدیب اور مشترکہ وراثت پر ہوئے حملوں پر وہ خاموش نہيں رہتے ، فرقہ واریت ، مسلم دشمنی اور ان جیسے دوسرے موضوعات کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں اور براہ راست مکالمہ کی کیفیت پیدا کرلیتے ہیں ۔ ندافاضلی اور بشیر بدر جیسے شعراء کے یہاں بھی عام سماجی تانے بانے کے بکھرنے کا غم موجود ہے لیکن جو براہ راست گفتگو کی کیفیت منور رانا کے یہاں ملتی ہے اور جس طرح ان کے شعروں میں ملت کا درد چھلکتا ہے اور جس قسم کی لفظیات سے وہ کام لیتے ہیں ، وہ کیفیت ہمیں کہیں اور نہیں ملتی ۔ ان اشعار پر غور کیجیے؛

ہماری بے بسی دیکھو انہيں ہمدرد کہتے ہیں

جو اردو بولنے والوں کو دہشت گرد کہتے ہیں

بس اتنی بات پر اس نے ہمیں بلوائی لکھا ہے

ہمارے گھر کے اک برتن پہ آئی ایس آئی لکھا ہے

چلو چلتے ہیں مل جل کر وطن پر جان دیتے ہیں

بہت آسان ہے کمرے میں وندے ماترم کہنا

تجھ کو اے خاک وطن میرے تیمم کی قسم

تو بتادے جو یہ سجدوں کے نشاں کہتے ہیں

منور رانا کا مشاہدہ گہرا ہے ، انہوں نے اپنے سماج کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے ، وہ اسی سماج کا باضابطہ حصہ ہیں ، محنت کش طبقہ ہو ، سیاست داں ہوں ، بڑے تاجر ہوں یا بڑے پڑھے لکھے لوگ منور رانا کا ان سے بلا کسی واسطے کے تعلق ہے اور وہ ان تمام طبقات کو بخوبی سمجھتے ہیں ، ان کے مثبت و منفی رویوں کو شاعری میں اس طرح پرولیتے ہیں کہ شاعری سماج کا مکمل آئینہ ہوجاتی ہے ۔

منور رانا نے جان بوجھ کر غزلیہ شاعری کو زمین سے جوڑنے کی کوشش کی ، انہوں نے رشتوں کے ساتھ ساتھ اس کے اندر صالح اقدار کے عناصر پیوست کرنے کا نیک کام کیا ، ان کی شاعری ہند اسلامی تہذیب و ثقافت کا مظہر بن جاتی ہے ، البتہ اس کی وہ خاص کوشش کرتے ہیں کہ وہ عام لوگوں کی پہنچ سے باہر بالکل بھی نہ ہو ، انہوں نے جس طرح عام زندگی کے الفاظ ، گرہستی کے عناصر ، خاندانی تعلقات کی اصطلاحات ، بناؤ سنگھار، لباس پوشاک ، زیور زیورات اور آئے دن کے استعمال کی چيزوں کو غزلیہ شاعری میں فٹ کیا ہے وہ انہیں کا حصہ ہے اور اس اعتبار سے کہا جانا چاہیے کہ انہوں نے شاعری کو محلات سے نکال کر عام جھگی جھونپڑی تک پہنچا دیا۔ آپ محسوس کریں گے کہ ان کے یہاں داغ اسکول کے رائج الفاظ و اصطلاحات کا گزر کم کم ہوا ہے ۔ وہ شہری زندگی کی ایلیٹ کلاس کی پر تعیش زندگی کی بجائے عام محنت کش لوگوں کی عام زندگی کو انہیں کے الفاظ و محاورات برتتے ہوئے کمال ہنرمندی سےغزل بنا دیتے ہیں۔

بازاری پیٹی کوٹ کی صورت ہوں ان دنوں

میں صرف ایک رموٹ کی صورت ہوں ان دنوں

سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

اب بچے بھی غریبی کو سمجھنے لگے شاید

یہ جاگ بھی جاتے ہیں توسحری نہیں کھاتے

بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں پر

غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال دیتی ہے

یہ ممکن ہی نہیں چھیڑوں نہ تجھ کو راستہ چلتے

تجھے اے موت میں نے عمر بھر بھوجائی لکھا ہے

مہاجر نامہ در اصل ان کے تمام قومی و ملکی افکار کی آئینہ دار نظم ہے ۔ یہاں بھی ان کی وہی شخصیت اور وہی فن رونما ہوتا ہے ۔ مہاجر نامہ کے ان اشعار پر غور کیجیے ۔

ہماری اہلیہ تو آگئیں ،ماں چھٹ گئی آخر

کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں

یہ خود غرضی کا جذبہ آج تک ہم کو رلاتا ہے

کہ ہم بیٹے تو لے آئے بھتیجا چھوڑ آئے ہیں

اذاں دیتے تھے ہم تو صبح کا آغاز ہوتا تھا

ہم اس بستی کے سب لوگوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں

جہاں کے عالموں سے ساری دنیا درس لیتی ہے

وہ تکیہ چھٹ گيا ہم سے وہ ندوہ چھوڑ آئے ہيں

یوں بغور دیکھیے تو منور رانا کی شاعری مٹی سےجڑی ہوئی ہے ، عام لوگوں کے دکھ درد کو انہوں نے شاعری کا جامہ پہنایا ہے ، رشتوں کو غزل بنانے کی پہل کی ہے ، اس تہذيب و ثقافت کی بازیافت کی کوشش کی ہے جس میں مذہب انسان کو ہمدردی اور محبت کی راہ پر چلاتا ہے اور جو ہندوستان کی حسین روایت رہی ہے اور ہر اس ناروا سیاسی یا سماجی رویے کے خلاف پرزور احتجاج کیا ہے جو اس حسین روایت کو میلا کرنے یا اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور اس پورے مرحلے میں شاعری عوام کی زبان میں کی ہے ، لفظیات ان کے بالکل اپنے ہیں ، انہوں نے گرے پڑے لفظوں سے اپنی شاعری کا گھروندہ تعمیر کیا ہے اور کہنا چاہیے کہ نقادوں کے لاکھ ناک بھوؤں چڑھانے کے باوجود وہ اس میں کامیاب رہے ہیں اور وہ وقت جلد آنے والا ہے جب وہ اس خصوصی حوالے سے سند مان لیے جائیں گے ۔

بڑے بڑوں کو بگاڑا ہے ہم نے اے رانا

ہمارے طرز میں استاد شعر کہنے لگے

وہ دشمن ہی سہی آواز دے اس کو محبت سے

سلیقے سے بٹھا کر دیکھ ہڈی بیٹھ جاتی ہے

منوررانا اپنی منفرد شاعری کے لیے جانے گئے حالاں کہ ان کی نثر ان کی شاعری سے کہیں زيادہ منفرد اور عمدہ ہے ۔ مجھے تومحسوس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری در اصل ان کی نثر کا ہی امتداد ہے ۔ ان کی نثر میں بے ریائی ، سادگی میں پرکاری ، سامنے کی باتیں ، سامنے کے الفاظ اور سامنے کی تشبیہات و استعارات سے بنا ہوا نثر کا پورا نظام پایا جاتا ہے ۔ ان کے مطالعے کا نہیں پتہ لیکن ان کا مشاہدہ کافی عمیق ہے اوردنیا کو جس طرح انہوں نے دیکھا ہے ، اور اپنی تحریروں میں جس طرح اسے برتا ہے ، وہ انداز قاری کو محظوظ بھی کرتا ہے اور مہمیز بھی۔ میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ ان کی شاعری کے ساتھ ان کی نثر کے بھی مداح ہوتے جا‏ئیں گے ، خوشی کی بات یہ ہے کہ ” بغیر نقشے کا مکان ” اور ” چہرے یادرہتے ہیں ” جیسے نثری سرمایوں کا چرچا عام ہونے لگا ہے ۔

منور رانا کا ایک اور اہم پہلو ان کا عملی پہلو ہے ، جہاں انہوں نے تہذیبی اقدار و روایات کی حفاظت پر ابھارنے والے اشعار کہے وہیں انہیں جینے کی بھی کوشش کی ۔ اصولوں کی بات کی تو عملا بھی برت کر دکھلایا اور ایک وقت آیا جب انہوں نے نہ صرف ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ واپس کردیا بلکہ پوری قوت سے اپنے موقف پر ڈٹ کر ثابت کیا کہ وہ صرف گفتار کے نہیں کردار کے بھی غازی ہیں۔ وزیر اعظم نے جب ان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے یہ شرط رکھی کہ ان کے ساتھ بقیہ دوسرے ادباء شعراء کو بھی وزیر اعظم ہاؤس بلایا جائے ۔شاعر جب اپنے اصول جینے بھی لگے تو وہ قوم وملت کے ذہن و دل میں بس جاتا ہے ۔ منور رانا کی وفات پر عام و خاص لوگوں کے آنسو یہی کچھ بتا رہے ہیں ۔

بادشاہوں کو سکھایا ہے قلندر ہونا

آپ آسان سمجھتے ہیں منور ہونا

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter