مکہ رائل کلاک ٹاور اور ابراج البیت
ابو حماد عطاء الرحمن المدنی/ المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو
ابراج البیت کا محل وقوع:
ابراج البیت سعودی عرب کے مقدس شہر مکہ مکرمہ میں خانۂ کعبہ اور مسجدِ حرام سے چند میٹر کے فاصلے پر واقع 7 طویل القامت ٹاوروں پر مشتمل ایک عظیم الشان کمپلیکس ہے۔ سعودی حکومت کے ملکیہ اس کمپلیکس کے ہر ٹاور میں ایک ہوٹل واقع ہے۔ مرکزی ٹاور کو مکہ رائل کلاک ٹاور کا نام دیا گیا ہے جو کہ اس وقت دنیا کی تیسری بلند ترین عمارت ہے۔
ابراج البیت کیوں تعمیر کیا گیا؟
تاریخی اور مصروف ترین شہر مکہ مکرمہ کے وسط میں اقع ابراج البیت اوراس کا وسطی مینار یعنی مکہ رائل کلاک ٹاور اس شہر کی جدت کے آئینہ دار ہیں۔ اس کمپلیکس کی تعمیر شاہ عبد العزیز کے اوقاف کے منصوبے کے تحت ہوئی اور اس کے نتیجے میں ہر سال حج کے لئے مکہ مکرمہ آنے والے لاکھوں مسلمانوں کو رہائش کی آرام دہ سہولیات میسر آ سکیں۔ حجاج کی سہولت ہی کی غرض سے اسے مسجدِ حرام کے بالکل قریب تعمیر کیا گیا تھا۔ ہر سال حج کے موقع پر حجاج ابراج البیت میں واقع ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں۔
ابراج البیت کی خصوصیات:
ابراج البیت کے وسط میں واقع دنیا کے تیسرے بلند ترین بُرج مکہ رائل کلاک ٹاور کے دائیں بائیں 6 چھوٹے یا قدرے کم بلند برج بھی قائم ہیں۔ ان ساتوں عمارات میں ہوٹل بھی ہیں اور یہ رہائشی مقاصد کے لئے بھی استعمال ہوتی ہیں۔ ابراج البیت کمپلیکس کی تعمیر کا آغاز 2004ء میں ہوا جب کہ 2012ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ کمپلیکس کا 2012ء میں افتتاح ہوا اور اس کی تیاری پر ڈیڑھ بلین ڈالر لاگت آئی۔ کمپلیکس کے وسط میں موجود مکہ رائل کلاک ٹاور سطح زمین سے 601 میٹر بلند ہے۔ تاہم، ٹاور کی آخری منزل کی چھت کی سطح زمین سے بلندی 530 میٹر ہے جب کہ اس کی آخری منزل کا فرش سطح زمین سے 494 میٹر بلند ہے۔ ابراج البیت کی بالائی منازل میں قائم کی گئی نظارہ گاہ جہاں مرکزِ رویتِ ہلال بھی موجود ہے، کی سطح زمین سے بلندی 484 میٹر ہے۔ عمارت کی تعمیر میں سٹیل، کنکریٹ، شیشے اور سنگِ مرمر وغیرہ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ابراج البیت کمپلیکس نہایت وسیع و عریض رقبے پر واقع ہے اور اسے سعودی بن لادن گروپ نے تعمیر کیا ہے جو کہ سعودی عرب کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی ہے۔ یہ دنیا کی دوسری سب سے زیادہ لاگت سے تعمیر ہونے والی عمارت ہے جس کی تیاری پر 15 بلین ڈالر خرچ ہوئے۔ جہاں آج ابراج البیت کمپلیکس واقع ہے وہاں 2002ء تک قلعہ اجیاد واقع تھا جو کہ اٹھارہویں صدی عیسوی میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر تعمیر کیا گیا تھا۔ سعودی حکومت نے حجاج کرام کو رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لئے اس تاریخی قلعے کو گرا کر اور یہاں موجود پہاڑ کو توڑ کر ابراج البیت جیسا عظیم الشان کمپلیکس تعمیر کیا ہے۔
مکہ رائل کلاک ٹاور کی خصوصیات کیا ہیں؟
جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، 4 بہت بڑے بڑے کلاکس مکہ رائل کلاک ٹاور کے بلند ترین مقامات پر اس کے چاروں طرف لگے ہوئے ہیں۔ ان کلاکس کے پاس بیک وقت 2 عالمی ریکارڈ ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ دنیا کے سب سے بڑے کلاکس ہیں اور دوسرا یہ کہ یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ بلندی پر نصب کئے گئے کلاکس ہیں۔ رات کے وقت ان کلاکس میں لگی 10 لاکھ ایل ای ڈی لائٹس اس ٹاور کو ایک سبز اور سفید مشعل کا روپ دے دیتی ہیں۔ مینار کی شمالی اور جنوبی سمتوں میں لگے کلاکس کے اوپر تکبیر یعنی اللہ اکبر نہایت نفاست اور خوش خطی سے کُندہ کیا گیا ہے۔ جب کہ مکہ رائل کلاک ٹاور کی مشرقی اور مغربی سمتوں میں لگے کلاکس کے اوپر کلمہ طیبہ نہایت خوبصورت اور دلنشیں انداز میں کُندہ کیا گیا ہے۔ مینار کی چوٹی پر بالکل گلوب جیسی ایک گول مٹول نظارہ گاہ ہے جس کے ارد گرد شیشے کی کروی دیواریں ہیں۔ مینار کی چوٹی کو چمکتے ہوئے سونے کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت ٹکڑوں کو جوڑ کر بنائے گئے ہلال سے سجایا گیا ہے جس کا وزن 35 میٹرک ٹن ہے۔ مکہ رائل کلاک ٹاور کی بالائی منازل میں متعدد ثقافتی سہولیات و خدمات کا اہتمام کیا گیا ہے جن میں ایک مرکز برائے رویتِ ہلال اور کائناتی حقائق سے متعلق ایک عجائب گھر بھی شامل ہیں۔ مکہ رائل کلاک ٹاور کی کُل 120 منازل ہیں جبکہ اس میں مجموعی طور پر 96 لفٹس لگائی گئی ہیں۔
ابراج البیت میں کیسے ایلیویٹر سسٹمز زیرِاستعمال ہیں؟
چونکہ مکہ رائل کلاک ٹاور سمیت پورے ابراج البیت کمپلیکس میں مقیم رہائشیوں اور ان میں بنے ہوٹلوں میں ٹھہرنے والے مہمانوں کی ایک بڑی تعداد نے ہر روز 5 مرتبہ نمازوں کی ادائیگی کے لئے اپنے کمروں یا فلیٹس سے نکل کر مسجدِ حرام میں جانا ہوتا ہے اور پھر وہاں سے واپس آنا ہوتا ہے لہٰذا ان ساتوں میناروں میں لگے ایلیویٹر سسٹمز یعنی افراد اور اشیاء کو بار بار اوپری منازل سے نیچے اور نچلی منازل سے اوپری منازل تک لے جانے کے لئے لگائی گئی لفٹس کے چلنے اور رُکنے کے طریقۂ کار کو ایک نہایت جدید اور تخلیقی انداز میں منظم کیا گیا ہے تاکہ وہ افراد کو نہایت برق رفتاری سے اور بغیر کسی قسم کی پریشانی کے بار بار اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر منتقل کرتی رہیں۔ ان لفٹس کو مربوط انداز میں چلانے کے لئے گروپ کنٹرول سسٹمز استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ یہ بیک وقت آئیں اور جائیں اور کسی ایک منزل پر کم لفٹس اور زائد مسافروں کی وجہ سے کسی قسم کی دھکم پیل کا مظاہرہ نہ ہو۔ مزید برآں، آرٹیفیشل انٹیلی جینس یا مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے یہ ایلیویٹر سسٹم خود اس بات کا اندازہ لگا لیتا ہے کہ کس وقت اسے کس منزل پر جانا چاہئے اور پھر وہاں سے سوار ہونے والے مسافروں کو کس فلور پر پہنچانا چاہئے۔ یوں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے اس نظام کو اس قابل بنا دیا گیا ہے کہ یہ بیک وقت اور آن کی آن میں ساتوں میناروں میں موجود 75 ہزار لوگوں کو ابراج البیت کمپلیکس سے باہر پہنچا سکتا ہے۔
ابو حماد عطاء الرحمن المدنی
المرکز الاسلامی کاٹھمنڈو
آپ کی راۓ