فورٹ ولیم کالج اور باغ و بہار

مقالہ نگار: محمد ناصر باجوہ بی ایس اردو میقات: ششم یونیورسٹی آف اوکاڑہ

23 مارچ, 2024

ایسٹ انڈیا کمپنی ملکہ الزبتھ کے عہد حکومت میں 1600ء میںایک تجارتی کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا جسے ،، Governer and company of Merchants Trading into East indies,,
کا نام دیا گیا اس کا کام صرف تجارتی مقصد کے لیے تھا سیاسی امور سے کوئی دلچسپی نہ تھی پھر اس تجارتی کمپنی کا نام مختصر کر کے ,,ایسٹ انڈیا کمپنی،، رہ گیا اور اس نام سے یہ تاریخ میں معروف ہوٸی آنگریز جو تھے وہ تجارت کی غرض سے برصغیر میں آیا کرتے تھے اور انہوں نے اپنے قدموں کو مضبوط بنانے کے لیے برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی لگائی ڈاکٹر مبارک احمد کے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بارے میں دو مقالات اور بھی شامل ہے ,,منشی صاحب،، اور ,,ایسٹ انڈیا کمپنی،،
ہم ہمیشہ یہ دیکھتے ائے ہیں کہ انگریز بغرض تجارت ائے اور مالک بن گئے اول یہ کہ مغل حکومت کا دبدبہ ختم ہو چکا تھا مرکزی حکومت کے فقدان کی وجہ سے صوبے خود مختار ہو گے لیکن اتحاد ختم ہو گیا پھر جب انگریزوں نے دیکھا کہ ان کی کمزوریوں کو لڑائیوں کو تو انگریز فریق بن کر تجارتی مراعات اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کے باہمی نفاق، خودغرضی، نااہلی، عیاشی، غداری، نے جنم لیا 1857ء میں بنگال میں میسور 1843ء میں سندھ 1856ء میں اودھ اور 1849ء میں 1800ء پنجاب فتح ہوا اور پھر 1800ء علامتی مغل حکومت ختم ہو گئی
بہادر شاہ ظفر رنگون جلا وطن ہوا اور اگلے برس ملکہ وکٹوریہ نے قیصر ہند کا لقب اختیار کر کے ہندوستان کو برطانوی مقبوضات میں شامل کر لیا
ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے کردار ادا کر چکی تھی 1858ء میں اسے سرکاری طور پر ختم کر دیا
       فورٹ ولیم کالج
انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کرنا چاہا تو انہوں نے دو بندوں کے ذمہ یہ بات لگائی  لارڈ ویلزلی اور گل کرسٹ کہ اپ پورے جو برصغیر ہیں اس کا سروے کرو اور سروے کر کے ہمیں بتاؤ کہ کس طریقے سے برصغیر پر قبضہ کیا جا سکتا ہے تو پھر سروے کر کے ان کو بتایا گیا کہ جب تک اپ مقامی بولی کو نہ سیکھ پاؤ گے اس وقت تک آپ ہندوستان پر قبضہ نہیں کر پاؤ گے تو پھر انہوں نے مقامی بولی کو سیکھنے کے لیے فورٹ ولیم کالج قائم کیا اور اس میں جو طالب علم ہوں گے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم ہوں گے،
کلکتہ کا یہ فورٹ ولیم کالج بذات خود تاریخی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اہم سیاسی قیدیوں کو یہاں رکھتے تھے چنانچہ 1857ء  کی جنگ آزادی کے وقت واجد علی شاہ کو فورٹ ولیم میں نظر بند کیا گیا کالج میں مشرقی زبانوں اور بالخصوص اردو کی تحصیل کا بہترین انتظام کیا گیا چنانچہ اردو، ہندی، عربی، فارسی، اور بنگالی، کے باقاعدہ شعبے تھے جن کے سربراہ انگریز تھے جو بلحاظ عہدے پر پروفیسر کہلاتے تھے جبکہ مقامی اساتذہ منشی اور پنڈت کہلاتے تھے عام خیال یہی رہا ہے کہ گل کرسٹ کالج کا پہلا پرنسپل تھا لیکن محمد عتیق صدیقی کی تحقیقات نے اسے غلط ثابت کر دیا گلکرسٹ شعبہ اردو کا پروفیسر تھا پرنسپل ایک پادری ریورنڈ ڈیوڈ براؤن تھا
ڈاکٹر جان گل کرسٹ
( آپ 1759ء میں ایڈنبرا سکاٹ لینڈ میں پیدا ہوئے)
ڈاکٹر جان بار تھوک تو گل کرسٹ کا فورٹ ولیم کالج کے قیام، مقاصد، لاٸحہ عمل، اشاعت کتب، نصاب سازی،  جیسے اہم امور سے گہرا تعلق رہا
(9 جنوری 1841ء کو پیرس میں انتقال کیا)
ان کی سوانح عمری میں غالبا یہی دو تاریخیں قابل اعتماد ہیں ڈاکٹر گل کرسٹ 1782ء میں ہندوستان وارد ہوتا ہے گلکرسٹ چار سال تک کالج کے ساتھ منسلک رہا چار سال کے بعد وہ صحت کی خرابی کی بنا پر انگلستان چلے گیا 1805ء  میں ایڈمبرا یونیورسٹی سے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری حاصل کی،

عتیق احمد صدیقی نے اپنی تالیف ,,گل کرسٹ اور اس کا عہد،، میں گل کرسٹ کا ایسٹ انڈیا کمپنی میں بطور اسسٹنٹ سرجن اور ملازمت وغیرہ وہ غلط ثابت کیا ہے
گل کرسٹ کی تعلیم کے حوالے سے عتیق احمد صدیقی کا یہ کہنا ہے کہ یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ریکارڈوں اور گل کرسٹ کی تحریروں نیز اس کی تصانیف کے سرور پر جو 1805ء تک ہندوستان میں چھپی تھی کسی جگہ بھی اس کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا اضافہ نظر نہیں آتا ہندوستان لوٹنے کے بعد اس کے وطن ایڈمبرا کی یونیورسٹیوں نے اس کی علمی خدمات کا اعتراف کرنے کے لیے ایل ایل ڈی کے اعزازی سند اس کو عطا کی جس کے بعد اس کو ڈاکٹر گل کرسٹ لکھا جانے لگا،
جان گل کرسٹ کا فورٹ ولیم کالج سے تعلق
جان گل کرسٹ چار سال تک کالج کے ساتھ منسلک رہا فورٹ ولیم کالج کو بامقصد ادارہ بنانے کے لیے ایسے نصاب کی ضرورت تھی جسے ہندوستان میں وارد ہونے والے کمپنی کے اہلکار اردو سے واقف ہو لیکن یہ ذمہ داری بھی گل کرسٹ کو سونپی گئی گل کرسٹ کے سامنے دو راستے تھے یا پہلے سے موجودہ اردو ادب سے کام لیا جائے کیونکہ نثر نہ ہونے کے برابر تھی بالفاظ دیگر شاعرانہ کلیات سے نصاب مرتب ہو لیکن یہ گل کرسٹ کے لیے ناقابل قبول تھا اس ضمن میں ڈاکٹر گل کرسٹ کا یہ بیان قابل توجہ ہے
,, ابھی ہندوستانی نثر میں ایک بھی ایسی کتاب موجود نہیں جو قدر و قیمت اور صحت کے اعتبار سے اس قابل ہو کہ میں اپنے شاگردوں کو پڑھنے کے لیے دے سکوں کسی ایسی جگہ سے شہد نکالنا میرے بس کی بات نہیں جہاں مکھیوں کا چھتا ہی نہ ہو چنانچہ دوسرا راستہ اختیار کرنا ضروری ہوگیا یعنی نصابی کتب کو خود تیار کرنا گل کرسٹ اس مقصد کے لیے مقبول داستانوں کے تراجم سلیس اردو میں کروانے پر زور دیا،،

فورٹ ولیم کالج کا نصاب
کالج کے قیام کے بعد نصاب کا مسئلہ تھا ارباب کالج کے سامنے دو صورتیں تھی یا تو نئی نصابی کتب مرتب کروائی جاتی یا پہلے سے موجودہ ادبی مواد سے کام چلایا جائے لیکن کالج کے مخصوص مقاصد کے لحاظ سے دو صورتیں    نا قابل قبول تھی اردو نثر کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا آج تک اس کو علمی مباحث کے لیے استعمال ہی نہ کیا گیا تھا اس ضمن میں ڈاکٹر گل کرسٹ کا بیان یوں ہے,, ایک مفید زبان کے پروفیسر کی حیثیت سے ہر طرح کی صحیح ادبی کتابیں میں خود تصنیف تیار کراؤں یوں سلیس سادہ نثر میں مقبول و عام قصوں اور داستانوں کے تراجم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اس مقصد کے لیے ہندوستان بھر کے اہل علم، اہل قلم، کلکتہ میں جمع کر لیے گئے تصنیف و تالیف کا یہ سلسلہ 20 برس تک جاری رکھا اس دوران 19 اہل قلم نے 60 کے قریب کتابیں تحریر کی کالج کا مقصد وہ کمپنی کے ملازمین کی تعلیم و تربیت تھا نہ کہ مشرقی علوم کو ترقی دینا اس کا اندازہ کالج کے نصاب سے بھی لگایا جا سکتا ہے طالب علم کے لیے ضروری تھا وہ قانون، تاریخ، جغرافیہ، پولیٹیکل، اکنامک، کمسٹری، حیاتیات، اور فلسفہ، ضرور پڑھے زبانوں میں لاطینی، یونانی، سنسکرت، عربی، اور فارسی، لازمی تھی جبکہ انگریزی اور فرانسیسی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی زبانیں نصاب بھی شامل تھیں
فورٹ ولیم کالج کی مطبوعات
 ,, ابھی تک کسی نے فورٹ ولیم کالج کی تالیفات کی فہرست مرتب نہیں کی ہے اور نہ تو صحیح طور پر معلوم ہو سکا کہ کالج کے زیر اہتمام کتنی کتابیں تصنیف، تالیف، یا ترجمہ ہوئی لاکٹ نے 9 مارچ 1813ء کو کتابوں کی جو تفصیل کالج کونسل کو بھیجی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک 89 کتابیں طبع ہو چکی تھی اور ان کی طباعت پر   2 لاکھ 64 ہزار 10 ایک سو چھ روپے چھ انا اور ایک پائی یا ایک پیسہ خرچ ہوا تھا راقم السطور نے جو فہرست مرتب کی ہے اس میں کتابوں کی مجموعی تعداد 147 ہے جن میں متبوعہ 14 اور غیر مطبوعہ 53 کتابیں شامل ہے لیکن اس فہرست کی بھی مکمل ہونے کا دعوی نہیں کیا جا سکتا،،

                                     دیگر   مصنفین
میرامن، شیر علی افسوس، نہال چند لاہوری، مظہر علی ولا، للو لال قوی، خلیل علی خاں اشک، حیدر بخش حیدری، میر بہادر علی حسینی، مرزا علی لطف، مرزا قاظم علی جواں، مولوی اکرام علی، بینی نارائن جہاں،
                            باغ و بہار مصنف میر امن
میر امان المعروف میر امن کے حالات زندگی کے بارے میں بالعموم تاریخی اور تذکرے خاموش ہیں ان کے حالات کا سب سے اہم ماخذ باغ و بہار میں شامل ان کا دیباچہ ہے جس کے مطابق 1733ء  میں دلی میں پیدا ہوئے خاندانی جاگیردار تھے مگر شاہ درانی کے حملہ میں جب گھر بار لٹ گیا اور بعد ازاں سورج مل چاٹ نے جاگیر بھی چھین لی تو 1761ء میں تلاش  معاش میں عظیم آباد (پٹنہ) پہنچا مگر پریشان حالت سے تنگ آ کر کچھ عرصہ بعد اہل و عیال کو چھوڑ کر کلکتہ کا رخ کیا جہاں نواب دلاور جنگ کے چھوٹے بھائی محمد کاظم کی اتالیق مقرر ہوئے دو سال تک تو گزار لیے پھر نباہ کی صورت نظر نہ ائی تب میر بہادر علی حسینی کی توسط سے فورٹ ولیم کالج میں بطور منشی ملازم ہو گئے جہاں ڈاکٹر جان گل کرسٹ کی ایماں پر 1801ء میں باغ و بہار کا ترجمہ کیا اگلے سال ہی واعظ کاشفی کی ,,اخلاقی موحسنی،، کا ترجمہ,, گنج خوبی،، کے نام سے کیا شاعری میں لطف تخلص تھا مگر بقیہ حالات کے طرح کلام بھی اصرار کے پردوں میں نہا تھا صرف 1806ء  تک میر امن کی حیات کا پتہ چلتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے گویا قدیم زمانہ کی مانند ایک داستان گو آیا محفل کو رات بھر داستان سے برمایا اور صبح دم رخصت ہو گیا
باغ بہار سب سے پہلے امیر خسرو کی فارسی داستان تھی ,,قصہ چہار درویش،، پھر اس کو اس کے بعد اس کو عطا حسین خاں تحسین نے ,,نو طرز مرضع،، کے نام سے تخلیق کیا پھر میر امن نے ,,باغ و بہار،، کے نام سے 1801ء   جان گل کرسٹ کی فرمائش پر اس کا ترجمہ کیا

بحوالہ:
             تاریخ ادبیات اردو، خواجہ محمد زکریا
           اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ ، ڈاکٹر سلیم اختر

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter