ہر وہ چیز جو کسی بھی تحریر ی ہیت میں ہو متن کہلاتی ہے۔زبان کی تشکیل کا مرحلہ صوتی اکائی سے شروع ہوتا ہے یہ صوتی اکائی کسی بھی چیز پر تحریر کر دی جائے تو حرف بنتا ہے۔اکیلا حرف کوئی معنی نہیں دیتا جب تک وہ دوسرے حروف کے ساتھ مل کر لفظ نہ بنائے۔الفاظ کی دو اقسام ہوتی ہیں ایک قسم با معنی /کلمہ اور دوسری قسم بے معنی/مہمل ہوتی ہے۔با معنی الفاظ مل کر جملہ بناتے ہیں اور زبان کی تشکیل مکمل ہوتی ہے۔ اُردو بین الاقوامی زبان ہے اور صدیوں سے ہی اس میں ادب تشکیل ہوتا رہا ہے۔اُردو ادب مزید دو حصّوں میں منقسم کیا گیا ہے،ایک شاعری اور دوسرا نثر۔ان دونوں حصّوں کو کیسے لکھا جائے،کیسے پڑھا جائے اور کیسے سمجھا جائے یہ تشکیلِ قرأت ہے۔
تشکیلِ قرأت کے مباحث میں دورِ جدید میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جسے علامت کہتے ہیں۔ اُردو ادب میں لفظ علامت لغوی اعتبار سے انگریزی لفظ سِمبل(Symbol)کا ترجمہ ہے جو تمثال کے طور پر لیا گیا ہے۔یہ یونانی لفظ سمبالین(Symboline)سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں دو چیزوں کو ایک ساتھ رکھنا۔ علامت کیا ہوتی ہے۔ لُغت کی رو سے علامت کا مطلب سراغ،نشان اور اشارہ ہے۔نظم و نثر میں جب کسی چیز کا براہ ِراست اظہار نہ کیا جائے تو اس کے لیے متبادل راستہ اختیار کرتے ہوئے علامت کا استعمال کیا جاتا ہے۔شاعری میں علامت تو ایک لازمی چیز ہے بلکہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔شاعری میں شاعر بعض الفاظ کو ان کے حقیقی معنوں کی بجائے ان کے مجازی معنوں میں استعمال کرتاہے۔جب کوئی لفظ اپنے حقیقی معنوں کی بجائے اپنے مجازی معنی واضح کرے تو یہی علامت ہے ۔علامت کے معنی کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا یوں رقم طراز ہیں:
”علامت کے اس معنی میں اگرچہ تشبیہ اور استعارہ کے عناصر بھی شامل ہیں تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب تخلیقی زبان نے ترقی کی اور دو مماثل حقیقتوں میں وجہ اشتراک کی مختلف جہتوں کے لیے تشبیہ،استعارہ،تمثال اور پیکر وغیرہ الفاظ وضع ہوئے تو علامت کو بھی الگ مفہوم عطا کیا گیااور مقصود ایک ایسا اشارہ تھا جو کسی شے کے ذکر سے ذہن کو بالواسطہ طور پر اس شے کے بنیادی وصف کی طرف منتقل کر دے۔’’ ] 1[
ڈاکٹر سہیل احمد خان علامت کا مفہوم سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ زیادہ تر علامتیں قدیم دیو مالائی کہانیوں،لوک داستانوں یا تاریخی حوالوں کے ذریعے ادب میں وارد ہوئی ہیں۔جس نئے مفہوم میں انہیں استعمال کیا جارہا ہے وہ نیا ادب بڑی حد تک پرانی علامتوں کے سہارے چل رہا ہے۔ پاکستانی ادب میں علامت نگاری کی تحریک پاکستان بننے سے قبل اُردو شاعری میں شروع ہو چکی تھی۔منیر نیازی،جیلانی کامران،وزیرآغا،عرش صدیقی اور اعجاز فاروقی نے نئی نئی علامات کو اپنی شاعری میں استعمال کیا۔اُردو نظم میں علامہ اقبال ؒ نے اپنی شاعری میں علامتوں کا استعمال کیا۔علامہ اقبالؒ کا مطمح نظر چونکہ مقصدی شاعری تھا،اس لیے جب وہ کوئی علامت استعمال کرتے،ان کے پڑھنے والوں کو اس کے مفاہیم و معانی پہلے ہی سے معلوم ہوتے۔ان کی علامت”شاہین’’کے بارے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ اس کا مفہوم پہلے سے ہی متعین تھا۔اس طرح ان کے مرد مومن کے بارے میں ان کے قارئین مکمل طور پر جانتے ہیں۔وہ کسی چیز کو اخفا میں نہیں رکھنا چاہتے تھے بلکہ وہ اسلامی زندگی کی ازسرِ نو تشکیل کے خواہاں تھے۔میرا جی اُردو میں علامت نگاری کے جدید نظریات کے سرخیل ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد عقیل اپنے مضمون میں نئی علامتی ”نظم’’ میں میراجی کی علامت نگاری کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہیں کہ میرا جی کی ساری کوشش یہ رہی کہ انسان کی نفسیاتی کیفیتیں،خیال کی لمحاتی لہریں اور افراد کے ذاتی تجربے جو کسی شخصی عدم توازن کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں ،اس کا اظہار شعر میں ہونا چاہیے۔
وزیر آغا اُن علامت نگاروں میں سے ہیں جنہوں نے علامت نگاری کے اس رُخ کو اپنایا ،جس میں شاعری میں علامتوں کا حُسن اُجاگر ہو۔وزیر آغا صرف شاعر نہیں بلکہ جدید اُردو شاعری کے نقاد بھی ہیں اور اس طرح وہ اُن پیچیدگیوں سے بھی اچھی طرح واقف ہیں جن سے ابہام نا صر ف اشعار کی تفہیم میں خارج ہوتا ہے بلکہ علامتوں کا بغیر جانا بوجھا اور یک قلم مبہم استعمال شعر کو بالکل مہمل بنا دیتا ہے اس لیے وزیر آغا اپنی علامتوں کے ساتھ ساتھ وہاں تک جاتے ہیں جہاں وہ ایک اشارے یا خیال کی پہچان کا کام کر کے قاری کو خیالات کے سمجھنے میں مدد دیں نا یہ کہ اُسے بھول بھلیوں میں پھنسا دیں اور ترسیل و تفہیم کا گلہ گُھٹ جائے۔یورپ میں علامتوں کی مختلف صورتیں سامنے آتی ہیں مگر اُردو ادب میں علامت نگاری کی توضیع اس طرح نہیں ملتی جیسے اہلِ مغرب میں ملتی ہے۔جدید اُردو شاعری اور نثر میں علامت نگاری پہلے کی نسبت زیادہ جامع ملتی ہے۔پروفیسر ممتاز حسین نے اپنی ایک تقریر کے موقع پر کہا کہ علامت کو اس کے مخالفین تضحیک کے طور پر ملامت کہا کرتے تھے۔فہیم اعظمی حقیقت پسندی کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے کچھ اس طرح اظہار ِخیال کرتے ہیں:
”جب حقیقت پسندی کا دور تھا اور مقصدیت کے نظریے کے تحت طرز ِاظہار کو اتنا عام فہم بنانا تھا کہ لیکھک کا پیغام عام قاری تک بسہولت پہنچایا جا سکے۔حالانکہ حقیقت پسندی کے دور میں بھی بھرپور علامتوں کا استعمال ملتا ہے، لیکن وہ علامتیں اس خیال اور مرافقہ (ASSOCIATION)تک محدود ہوتی تھیں جنہیں مصنف اپنی تحریروں کا موضوع بناتا تھا۔یہ کسی خارجی حقیقت کے ایک مقصد کے تحت شعوری طور پر علامتوں کے ذریعہ اظہار کا طریقہ تھا۔’’]2[
علامت نگاری تصّورات اور جذبات کے اظہار کا فن ہےلیکن علامت نگاری میں ان تصّورات اور جذبات کا براہ ِراست بیان نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی جسمی پیکروں کے ساتھ ان کے واضح تقابل کے ذریعے ان کی صراحت کی جاتی ہے بلکہ دوسری اشیاء کے ذریعے قاری کے ذہن میں ان خیالات کی بازآفرینی کرتے ہیں اور اس بازآفرینی میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ اشیاء ان خیالات کی علامتیں ہیں۔علامت ہر عہد میں ادب میں اپنی جگہ آپ بنائے ہوئے ہے ہیر رانجھا،سسی یا سوہنی کے نام ہماری لوک داستانوں کے نام ہیں۔گُل و بلبل،شمع و پروانہ بھی علامتوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ نثری ادب میں علامت کا واضح استعمال افسانہ نگاری میں ملتا ہے۔ انتظار حسین کے افسانوں ”زرد کتا’’ اور”بندر اور مکھی’’ میں علامت کے ذریعے انسان کو انسانیت کے مرتبے اور درجے سے گرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔نثر میں با نسبت شاعری کم علامت استعمال ہوتی ہے مگر جب نثر میں علامت کا استعمال ہوتا ہے تو نثر کے حُسن میں نکھار آجاتا ہے اور نثر جاندار ہو جاتی ہے۔ ایسی نثر رومانی یا شاعرانہ نثر کہلاتی ہے۔محمد حسین آزاد،ا بو الکلام آزاد اور نیاز فتح پوری کی نثر کو رومانی یا شاعرانہ نثر کہا جاتا ہے ۔علامت نگاری ایسا فن ہے جو حیوانِ ناطق کی جبلت کے قریب ہے یہ فن آدمی کے ساتھ پیدا ہوا جسے ہم حقیقت نگاری کہتے ہیں،ہو سکتا ہے کسی دور میں وہ بھی علامت نگاری ہو ۔کیونکہ ہمارا لکھا اور بولا ہوا ہر لفظ علامت ہوتا ہے۔ جدید ادب میں علامت نگاری کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ اس میں بے پناہ جامعیت اور دعوتِ فکر و نظر ہے۔
اساطیر تخلیقی ادب میں ہمیشہ سے ہی بہت اہمیت کی حامل رہی ہے۔جدید تخلیقی ادب میں اساطیر کا شعوری اور غیر شعوری استعمال بہت عام ہے ۔جہاں جدید تخلیق کار قدیم تخلیقات سے انحراف کرتا ہے وہی اساطیر کے معاملے میں روایتوں پر انحصار بھی کرتا ہے۔اساطیر کے لیے انگریزی میں لفظ”متھ(Myth)’’ ہے اور یہ یونانی لفظ موتھاس سے ماخوذ ہے۔جس کے معنی ہیں زبانی بولے ہوئے الفاظ۔اہلِ عرب نے قدیم قصّوں کو فیبل (Fable)، متھ(Myth)، لیجنڈ(Legend)اور رومانس(Romance) میں تقسیم کیا ہے۔ اساطیر ایسے قصّے ہیں جو قصّہ گو زبانی سنایا کرتے تھے۔یہ قصّے فرضی ہوتے تھے یعنی ان کی واقعیت اور ان کے کردار حقیقی نہیں ہوتے تھے۔ اس طرح یہ اساطیر ہمارے دور کے فکشن سے بہت قریب ہیں۔اساطیر کے مافوق الطبعاتی واقعات اور کردار حقیقی نہیں تھے مگر ان کی تمثالیت ہر دور میں حقیقت کے قریب تھی۔ اساطیر کے استعمال سے جدید ادب میں جمالیاتی اور ڈرامائی تاثر پیدا کرنا مطلوب ہوتا ہے۔ فہیم اعظمی اس بارے میں بیان کرتے ہیں:
”اساطیر ادبی جمالیات کو اجاگر کرنے میں بڑی معاون ثابت ہوتی ہیں، ان کو نہایت کامیابی سے ادب پاروں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہمارے لیے بے شمار علامتیں مہیا کرتی ہیں۔ کبھی ارادی طور پر اور کبھی غیر ارادی طور پر ہمارے ایمیجز کا حصہ بن کر۔ ان کو کسی مخصوص عقیدے ،نظریہ یا منطق اور عقلی دلائل کی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا اور نہ ان کی ابتدا اور ان کے متن کو حقیقت نگاری کے معیار سے سمجھا جا سکتا ہے ہاں کسی ادب پارے میں ان کے علامتی عمل پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔’’]3[
قصّہ گوئی سے انسان کی دلچسپی فطری ہے ۔قصّہ گوئی کا فن اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان۔ تحقیق کے مطابق انسانی تاریخ کی ابتداء قدیم مصر سے ہوتی ہے۔فضل حق قریشی کے مطابق دنیا کا سب سے پہلا افسانہ مصر کے ”شاہ خافری’’ (4800ق م) کے عہد کا ہے۔ہندوستان میں بھی داستان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ مہا بھارت کے مختلف حصے مختلف زمانوں میں لکھے گئے لیکن عام طور پر اسے پانچویں،چھٹی صدی ق م سے منسوب کیا جاتا ہے۔داستان اُٗردو نثر کے ارتقاء کی پہلی کڑی ہے۔ داستانوں کے مطالعہ سے جہاں اُردو نثر کی ارتقائی منازل سے آشنائی ہوتی ہے وہاں قدیم تہذیب و معاشرت سے بھی آگاہی ہوتی ہےکیونکہ داستانیں اپنے دور کی تہذیب و معاشرت کی عکاس بھی ہوتی ہیں۔
ابوالاعجاز حفیظ صدیقی نے داستان کی تعریف یو ں کی ہے”داستان کسی خیالی اور مثالی دنیا کی وہ کہانی ہے جو محبت،مہم جوئی اور سحر و طلسم جیسے غیر معمولی عناصر پر مشتمل اور مصنف کے آزاد اور زرخیز تخیل کی تخلیق ہو’’۔داستانوں میں مافوق الفطرت عناصر کی تحیر خیزی،حُسن و عشق کی رنگینی،مہمات کی پیچیدگی اور لُطفِ بیان ہوتا ہے۔ مختصر افسانہ اور ڈرامہ کے برعکس داستان کے اصول کسی نے متعین نہیں کیے تھے اس لیے ہر داستان گو کو بڑی آزادی تھی لیکن داستانوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں کچھ ایسی چیزیں مشترک بھی ملتی ہیں جنہیں داستان نگاروں کی اکثریت نے ملحوظ رکھا۔اِنہیں کو داستان کے فنی اصول سمجھنا چاہیے۔یہ اصول مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ طوالت
2۔ دلچسپی
3۔ حُسن و عشق
4۔ مافوق الفطرت عناصر
5۔ محیّر العقول واقعات
6۔ داستانوں کے کردار
7۔ اسلوب
داستانیں عام طور پر طویل ہوتی ہیں اور مدت دراز تک قارئین اور سامعین کو مصروف رکھتی ہیں۔یہ طوالت مہم در مہم، حادثہ در حادثہ اور کہانی در کہانی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔مہم در مہم کی مثال داستان امیر حمزہ کے علاوہ آرائش ِمحفل و حاتم طائی کے ساتھ سفر اور کہانی در کہانی کی بڑی مثال الف لیلیٰ ہے۔داستان کی طوالت کے لیے مبالغہ ضروری ہے اس حوالے سے شمس الرحمن فاروقی نے مبالغہ کو داستان کے لے فائدہ مند قرار دیا ہے۔ اطہر پرویز مبالغے کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
”مبالغہ کی یہ صفت یوں تو ادبیات کا ایک عنصر ہوتا ہےلیکن قدیم فکشن میں یہ عنصر غیر معمولی طور پر حاوی ہے ’’۔ ]4[
دلچسپی داستان کی بنیادی خوبی ہے۔ اگر داستان دلچسپ نہ ہو تو وہ مدت تک سامعین و قارئین کی توجہ جذب نہیں کر سکتی ۔ہماری داستانوں کے قصّے اس قدر دلچسپ ہیں کہ سننے اور پڑھنے والے ان میں محو ہو کر رہ جاتے ہیں۔ داستانوں میں ایک اور قدر مشترک حُسن و عشق کا عنصر ہے۔ داستان کا ہیرو محبوب کے حصول کے لیے بالعموم مختلف مہمیں سر کرتا نظر آتا ہے۔تاہم بعض داستانیں اس سے مبّرا بھی ہیں۔مثلاً الف لیلیٰ میں سوتے جاگتے کی کہانی میں حُسن وعشق کا کوئی ذکر نہیں۔چونکہ داستان کی دنیا شاہی دنیا ہوتی ہے۔اس لیے اس میں طلسم،رزم،بزم، حُسن و عشق اور عیاری پائی جاتی ہے۔شمس الرحمٰن فاروقی داستان کے لیے طلسم کو اہم قرار دیتے ہیں۔رزم،بزم، حُسن و عشق اور عیاری کے حوالے سے عبدالحلیم شررلکھتے ہیں:
”داستان کے چار فن قرار پائے گئے ہیں رزم،بزم،عشق اور عیاری۔ان چار وں متون میں لکھنو کے داستان گو یوں نے ایسے ایسے کمال دکھائے جن کا اندازہ بغیر دیکھے اور سنے نہیں ہو سکتا۔’’ ]5[
داستانوںمیں مافوق الفطرت عناصر کی بھرمار ہوتی ہے ۔جن ،پریاں اور جادُوگر ایسے کارنامے سر انجام دیتے نظر آتے ہیں جن کی عام زندگی میں مثال نہیں ملتی۔مشکل وقت میں اچانک کسی بزرگ کا ظہور ہونا اور مشکلات سے نبردآزما ہونے کے لیے کراماتی انگوٹھی،چھڑی وغیرہ کا عطا ہونا معمولی بات ہے۔داستان اور ناول کے درمیان بنیادی فرق بھی یہی ہے۔گیان چند جین داستان میں مافوق الفطرت عناصر کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ضروری حصہ قرار نہیں دیتے ۔اس نظریے کے برخلاف اطہر پرویز کہتے ہیں کہ داستان کے پلاٹ سے مافوق الفطرت عناصر نکال دیے جائیں تو وہ داستان داستان نہیں رہے گی۔”فسانہ عجائب’’کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رفیع الدین ہاشمی مافوق الفطرت عناصر کے حوالے سے لکھتے ہیں :
”فسانہ عجائب کے پلاٹ میں مافوق الفطرت عناصر بنیادی طور پر کار فرما ہیں واقعات کے اتار چڑھاؤ،نشیب و فراز اور انتہا طرف سفراور خاتمہ سب اجزاءمیں یہ عناصر دخیل ہیں۔’’ ]6[
اساطیر میں محّیر العقول واقعات سے مراد ایسے واقعات ہیں جن کو تسلیم کرنا انسانی عقل کے بس کی بات نہیں ہے۔ان میں انبیاء اکرامؑ کےمعجزات سے لے کراساطیری دیو مالائی قصّے کہانیوں میں شامل واقعات ہیں۔ مثلاً: نبی کریمﷺ کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو جانا،حضرت موسیٰؑ کی چھڑی کا اژدھا بن جانا وغیرہ۔داستانوں کے مرکزی کردار عام طور پر بادشاہ،وزیر،شہزادے،شہزادیاں اور وزیر زادیاں ہوتی ہیں۔عام آدمیوں کا ذکر پیشہ ور ملازمین کی حیثیت سے آتا ہے۔قصے کے مرکزی پلاٹ میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ داستانوں کے کردار مثالی ہوتے ہیں۔اگر شہزادہ بہادر ہے تو اکیلا بڑے سے بڑے لشکر کا مقابلہ کر سکتا ہے۔اگر شہزادی خوبصورت ہے تواس میں حُسن و جمال کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔اس کے علاوہ جو کردار اچھا ہےوہ شروع سے آخر تک اچھا اور جو کردار برا ہے وہ ابتداء سے انتہا تک برائی میں مصروف نظر آتا ہے۔گویا ان کرداروں میں کوئی ارتقاء نظر نہیں آتا۔
داستان کے اسلوب کے لیے فصاحت و بلاغت کو بنیادی قرار دیا گیا ہے کہ فصاحت زبان ہی داستان کو ادب کے دائرے میں لاتی ہے۔داستان کے لیے صریع الفہم ہونا بھی ضروری ہے تا کہ سننے اور پڑھنے والے کی دلچسپی قائم رہے۔تحریری داستانوں میں اس کی خلاف ورزی صرف”فسانہ عجائب’’میں کی گئی ہے۔ڈاکٹر گیان چند نے داستان کے مندرجہ بالا فنی اصولوں کے اعادے کے بعد داستان کی یہ تعریف متعین کی ہے:
”رومانوی داستانوں میں ایک خیالی دنیا ،خیالی واقعات کا بیان ہوتا ہے اس پر تخیلیت کا رنگین قرمزی بادل چھایا رہتا ہے۔ اس میں کوئی فوقِ فطری مخلوق نہ بھی ہو تب بھی اس میں جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں وہ حقیقی سے زیادہ تخیلی ہوتے ہیں۔فوق الفطرت کی تحّیر خیزی،حُسن و عشق کی رنگینی،مہمات کی پیچیدگی،لُطفِ بیان اِنہیں عناصر سے داستان عبارت ہے۔ایک دل کو اٹکا لینے والی کیفیت اور اس کے بعد ایک فرحت وآسودگی کا احساس داستان اور داستان گو کا تحفہ ہے۔’’ ]7[
تشکیلاتِ قرأت میں اسلوب کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اسلوب سے مراد تحریر لکھنے کا ڈھنگ طریقہ اور سلیقہ ہے جو ایک لکھنے والے کو دوسرے لکھنے والے سے ممتاز بناتا ہے۔تخلیقی ادب کی تاریخ میں دو عوامل ہمیشہ کارفرما رہےایک نظریہ اور دوسرا اسلوب۔ادبی اصطلاح میں سُبک یا اسلوب سے مراد ہے کسی مصنف کے فہم و ادراک کی خاص روش اور اس کے بیان وافکار کو اس ترکیب کلمات،انتخاب الفاظ اور طرزِتحریر کرتے ہوئے سمجھا جائے۔اسلوب ایک طرزِاظہار ہے جس کو انسان اور انسانی شخصیت کا آئینہ کہنا چاہیے یعنی کسی شخص کی تحریر سے اس کی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے اور تحریر شخصیت و کردار کی آئینہ دار ہوتی ہے۔فہیم اعظمی تخلیقی ادب کی ابتداء کی نشاندہی کے لیے کچھ یوں رقم طراز ہیں:
”انیسویں صدی عیسوی مشرق اور مغرب میں تخلیقی ادب کے لیے بڑی سازگار ثابت ہوئی۔ اُردو ادب نے بھی مقدار کے نہیں تو معیار کے لحاظ سے جلدی جلدی تخلیقی ادب کی کئی منزلیں طے کیں۔ تھوڑے ہی عرصے میں اصلاحی ،کلاسیکی، رومانی، نیچری اور کسی حد تک تمثیلی ادب تخلیق ہوا۔’’ ] 8[
بلاشبہ ابتداء میں اُردو ادب پر بیرونی عناصر تاخیر سے اثر انداز ہوئے ۔ہرگز اس سے یہ مراد نہ تھا کہ تخلیقی ادب سے وابستہ سرگرمیوں سےہم دنیا کے مقابلے میں بے بہرہ تھے۔جن دنوں اُردو ادب ترقی کے میدان میں اترا اسی دور میں بیک وقت یورپ میں کئی ایک تحریکیں جاری تھیں۔رومانیت،نیچریت یہاں تک کہ تمثیلی ادب کی تحریکیں جنہیں بودیلیر،رمباد،دیلری اور ملارمے وغیرہ نے شروع کیا تھا ،اپنے عروج پر تھیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں سماجی اور سیاسی نظریہ ادب میں کار فرما ہوا۔ ابتدا ءمیں یہ صرف روایت اور بورژو اقداروں سے انحراف کے طور پر ظاہر ہوا۔اس انحراف نے”ریڈ یکلیزم’’ کو جنم دیا۔مغرب کی جدید ادبی تحریکیں تجریدیت،سریلیت اور ساختیات یہ ایسی تحریکیں تھیں جنہوں نے نظریہ اور اسلوب دونوں میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کیں۔روش ندیم اور صلاح الدین درویش اپنے مضمون سرئیلزم اور دادا ازم میں کچھ اس طرح سے قلم فرسائی کرتے ہیں:
”غرض اُردو شعر و ادب میں جدیدیت کی تحریک کے زیر اثر تقلیدی اور ہیئتی تجربے کی سطح پر ہمیں کہیں کہیں سرئیلی عناصر دکھائی دیتے ہیں۔لیکن بحثیت مجموعی جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو سرئیلی عناصر کے تمام شعر ڈھونڈ سکتے ہیں لیکن سرئیلزم کہیں دکھائی نہ دے گا،اس کی وجہ یہ ہے کہ برصغیر کے تمام شعر و ادب میں دکھ،زوال اور شکست کا گہرا تجربہ،مشاہدہ اور تجزیہ دکھائی دیتا ہے۔چنانچہ یہی صورتحال اُردو فن پارے کو ”ورائے واقعیت’’نہیں ہونے دیتی۔ کام کے لیے سرئیلی طریقہ کار یا کرافٹ مین شپ (Craftmanship) کو تو بروئے کار لایا جا سکتا ہے لیکن اس کے نیچے دھڑکتی اور شور مچاتی دنیا حقیقی ہے جو واقعیت سے کنارہ کش نہیں ہو سکتی۔’’] 9[
جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے ان ادبی تحریکوں نے فرائڈ کے نفسیاتی نظریات سے اثرقبول کیا۔ ہیگل، نتیشے،کیرک گارڈ جیسے فلسفیوں کے خیالات نے بھی اسلوب اور نظریے کو متاثر کیا لیکن مارکس اور فرائڈ دوایسی شخصیات تھیں جنہوں نے ادب میں ایک جامع سیاسی و سماجی نظریے کی بنیاد ڈالی اور اسلوبِ بیان کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔مغرب کی جدید تحریکوں کا جائزہ لیں تو ہمیں خالص ادب اور غیر نظریاتی ادب کے دعووں کے باوجود تضادات نظر آتے ہیں۔ہم ان کے نظریہ اور تحریر کے اسلوب میں یگانگت نہیں پاتےاگر کوئی یگانگت ملتی ہے تو وہ صرف روایت سے انحراف اور بغاوت کی،جو شاید ہر جگہ کے ادب کے فعال ہونے کا ثبوت ہے۔جدیداُردو ادب میں مغرب کی تجریدی،سرئیلی،ساختیاتی یا سمبالک تحریکوں کا جو اثر نظر آتا ہے وہ صرف اسلوب میں ہے۔اُردو ادب میں جب ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی تو اس میں وہ تمام عوامل کار فرما تھے جو کہ اس دور کی اشتراکی تحریک میں تھے۔ترقی پسند تحریک کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید قلم فرسائی کرتے ہیں:
”رومانیت اور حقیقت نگاری کی تحریکیں ایک طویل عرصے تک الگ الگ جہت میں سفر طے کرتی رہیں۔ترقی پسند تحریک کی ابتدا ہوئی تو یہ دونوں دھارے آپس میں مل گئے چنانچہ ترقی پسند تحریک نے اقبال کی رومانیت سے تخلیقی قوّت اور جوش کی رومانیت سے بغاوت کا جذبہ حاصل کیا۔پریم چند کی حقیقت نگاری نے اسے زمین کی طرف متوجہ کیا اور ان سب کے امتزاج کو بھی نوعِ انسان کی بہبود میں صرف کرنے کے لیے ادیب کی فکر کو داخل سے خارج کی طرف پیش قدمی کی راہ دکھائی۔اہم بات یہ ہے کہ رومانی فنکاروں نے تخلیق کے میدان میں داخلی مطلق العنانی حاصل کی تھی اور خارج کو بدلے بغیر اپنی ایک الگ تخئیلی دنیا داخل میں سجا لی تھی۔ لیکن ترقی پسند تحریک کے ادباء نے پہلی ضرب اخلاقیات پر لگائی اور پھر معاشرے کی چند اہم قدروں کے خلاف علم بغاوت کھڑا کر دیا۔’’ ] 10[
یعنی نظریہ جس میں سماجی انقلاب کے ذریعے سوشلسٹ معاشرے کا قیام اور اشتراکیت کی منزل کی طرف سفر، ادب کو عوام تک پہنچانے کے لیے اور اس کے ذریعے اشتراکیت کے پیغام کا ارسال ، اور نتیجتاً اسلوب کو آسان، عام فہم اور منطقی بنانا ،عقیدے اور مذہب میں مادیت کو جگہ دینا جو شاید مسلمان ترقی پسند ادیبوں کے لیے سب سےمشکل کام تھا اور اس کے لیے اکثر نے سماجی نظریہ اور اسلوب کو اپنانے کے باوجود اپنے اسلاف کے بہت سے کارناموں اور اپنی بہت سی روایتوں کو مادی اور انقلابی سطح پر پرکھنے کی کوشش کی اور اس طرح اپنی مشکل کو ریشنلائز کیا۔مثلاً یہ کہ نبیوں کو انقلابی کہا،حسینیت کو ظلم و استبداد کے خلاف ایک سمبل بنایا۔فہیم اعظمی اپنا نقطہ نظر کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
”اسلامی مساوات کو اشتراکیت کے قریب لائے اور اسلامی سوشلزم جیسی اصطلاح مستعمل ہوئی ۔ یہ سب مسلمانوں کے بنیادی عقائد اور اشتراکی نظریے کے درمیان سمجھوتے کے مترادف تھا۔ جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے اس میں حقیت پسندی ،صاف گوئی، بورژ و اخلاقی قدروں سےانحراف، سہل پسندی اور ابلاغ کو بنیاد بنایا گیا۔ یہ تحریک ایک عرصے تک ہمارے تخلیقی ادب کی روح رواں بنی رہی ۔ اس میں اسلوب اور نظریہ دونوں اجزا شامل تھے اور اس طرح یہ ہمارے ادب کی تاریخ میں سب سے بڑی اور جامع تحریک کہی جا سکتی ہے’’۔]11[
اُردو ادب میں قرأت، تعبیر اور تنقید انتہائی اہمیت کا حامل موضوع ہے۔تعبیر کے معنی ہیں کسی فن پارے کے معنی بیان کرنا اور تنقید کے معنی ہیں کسی فن پارے کی خوبیاں اور کمزوریاں بیان کرنا،یعنی اس کی فنی قدر کا مرتبہ مقرر کرنا۔بیسویں صدی کے نامور مغربی نقاد ٹی۔ایس۔ایلیٹ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف(Experiment in Criticism)میں لکھا ہے”تنقید سانس لینے کی طرح ناگزیر ہے۔’’بقول ڈاکٹر عبدالقیوم تنقید ناگزیریت ادب میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔تخلیق کسی بھی درجے معیار کی ہو تنقید کے بغیر پنپ نہیں سکتی۔اس کے بغیر ادبی ذوق میں کوئی تازگی پیدا نہیں ہو سکتی ،حد تو یہ ہے کہ بڑے تخلیقی کارنامے اچھی تنقید کے بغیر وجود میں نہیں آتے۔گویا ادب میں تنقید حد درجہ قدر و منزلت کی حامل ہوتی ہے۔اُردو میں تنقید کا آغاز انیسویں صدی کے آخر انجمن پنجاب کے جلسوں سے ہوا ۔مولانا محمد حسین آزاد کے لیکچر کو اُردو میں عملی اور نظری تنقید کا نقطہ آغاز کہا جا سکتا ہے۔آزاد کے بعد اُردو میں تنقید کو باضابطہ اور فکر انگیز بنانے میں حالی کا مقدمہ شعر و شاعری انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی کے مطابق ہم ادب کے عام قاری ہوں یا تنقیدی قاری ہوں دونوں ہی حیثیتوں میں ہم فن پارے کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ ہر فن پارہ تعبیر کا تقاضہ کرتا ہے۔قاری یا تنقیدی قاری کی حیثیت میں عموماً ہم اس مفروضے پر عمل کرتے ہیں کہ معنی کے اعتبار سے کوئی فن پارہ دو حال سے خالی نہ ہو گا:
1۔ فن پارے کے معنی صرف وہی نہیں جو پہلی قرأ ت پر ہماری سمجھ میں آئے تھے یا
2۔ فن پارے میں اتنے ہی معنی نہیں جتنی پہلی قرأ ت پر ہمیں نظر آئے تھے۔
شمس الرحمان فاروقی کچھ یوں رقم طراز ہیں:
”کہ جب ہم کسی تحریر کے بارے میں گمان کر لیتے ہیں کہ وہ وہ فن پارہ ہے، تو ہم یہ بھی گمان کر لیتےہیں کہ اس کے معنی کے بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔اور یہ اختلاف صرف دوپڑھنے والوں کے درمیان نہیں،بلکہ خود ہمارے اندر بھی ہو سکتا ہے۔یعنی ممکن ہے ہم کسی وقت کسی فن پارے کے کچھ معنی بیان کریں اور دوسرے وقت ہم خود اسی فن پارے کے معنی کچھ اور بیان کریں’’۔]12[
فیض کی نظم ”صبح آزادی’’ایک اچھی نظم کے طور پر گردانی گئی۔ کیونکہ اس نظم میں ہمیں متنبہ کیا گیا کہ تمہیں سیاسی آزادی تو مل گئی ہے لیکن اصل آزاادی ملنا ابھی باقی ہے۔ اس نظم میں ایک معنی اور بھی ہے، اور وہ یہ کہ نظم اس تشدد،غارت،ظلم اور بہیمیت کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن اس عام تاثر کے برخلاف سردار جعفری نے اس نظم کو ناکام ٹھہرایا۔ چونکہ نظم سیاسی طور پر غیر پختہ تھی لہذا وہ شاعری کے طور پر بھی ناکام تھی۔
کسی فن پارے کے معنی کسی شخص کے لیے کبھی کچھ ہو سکتے ہیں کبھی کچھ، یہ دوسری صورت ہے جو فن پارے کی قرأ ت یا اس پر تنقیدی اظہار خیال کے دوران عموماً پیش آتی رہتی ہے۔ادب کی قرأ ت،بلکہ ادب کی تنقید یا تنقیدی قرأ ت کی بنیادی صورتحال میں بہت سے مسائل اور سوالات مضمر یا زیر زمیں ہیں۔مثلاً ”فن پارہ’’کسے کہتے ہیں؟اس کا تعیّن کس طرح کرتے ہیں کہ فلاں فن پارہ ہے یا نہیں؟اور اگر ہے تو اچھاہے یا خراب۔”قرأ ت’’ کے معنی ہیں کہ قاری بھی کوئی شے ہےاور فن پارے کا قاری اسے کہیں گےجو فن پارے کی زبان سے بخوبی واقف ہو۔
”زبان’’ سے ہم وہی مراد لیتے ہیں جو چاہتے ہیں مثلاً جن اصولوں یا جن رسومیات یا جن تہذیبی تصورات اور شعریات کی رو سے کوئی فن پارہ با معنی بنتا ہے انہیں فن پارہ کی”زبان’’ میں شمار کریں یا نہ کریں یا شمار کریں تو کس حد تک،یہ فیصلہ ہم کرتے ہیں۔”معنی’’سے مراد یہ ہے کہ کسی فن پارے کو بڑھ چڑھ کر جو کچھ ہمیں حاصل ہو سکتا ہے وہ اس فن پارے کے معنی ہیں۔
تنقید کے نام سے جو تحریریں عموماً سامنے آتی ہیں انہیں پڑھ کر اُلجھن یا مایوسی کا احساس زیادہ تر اسی وجہ سے ہوتا ہےکہ تنقیدی تحریر میں تنقیدی نظریہ بہت کم دکھائی دیتا ہے۔یعنی اپنے آپ نظریے کو عمل میں لاتے ہوئے تنقید لکھتے ہیں تو وہ کس طرح رونما ہوتی ہے۔فاروقی اس بارے میں بیان کرتے ہیں:
”کہ کسی فن پارے کے معنی بیان کرنا اور اس پر تنقید کرنا ایک ہی کار گزاری کے دو پہلو ہیں۔معنی بتائے اور سمجھائے بغیر تنقید نہیں ہو سکتی اور تنقید کیے بغیر آپ معنی بیان نہیں کر سکتے۔ ”تعبیر’’سے مراد ہے،کسی فن پارے کے معنی بیان کرنا، اور تنقید سے مراد ہے، (1) کسی فن پارے کی خوبیاں یا کمزوریاں بیان کرنا ،یعنی اس کی فنّی قدر کا مرتبہ مقرر کرنا، اور (2) فن پارے کے بارے میں ایسے بیانات وضع کرنا جن کا عمومی اطلاق ان فن پارے پر ہو سکے جو ایک ہی نوعیت کے ہیں یا ایک ہی صنف سے تعلق رکھتے ہیں۔ دراصل تنقید اورتعبیر باہم اُلجھے ہوئے دھاگے ہیں اور اِن کا آپس میں اُلجھا ہوا ہونا بعض اوقات مشکل پیدا کرتا ہے’’۔]13[
اُردو ادب میں تخلیق و قرأتِ متن کےمباحث پربہت محدود بحث ملتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ موضوع خالصتاً لسانی مباحث سے تعلق رکھتا ہے۔جب بھی کوئی صنف تشکیل پاتی ہے تو اذہان میں مختلف قسم کے سوال پیدا ہوتے ہیں مثلاً کہ یہ صنف کن اُصول و ضوابط کومدِّنظر رکھ کر لکھی گئی۔اُن اُصولوں تک رسائی اسلوبیاتی مطالعہ کے علاوہ ممکن نہیں اس لیے اس مقالے میں تخلیق و قرأتِ متن کےمباحث پر روشنی ڈالی گئی ہےتاکہ اُردو ادب کے قارئین کے لیے آسانی ہو۔
حوالہ جات
1۔ وزیر آغا،ڈاکٹر،اُردو شاعری کا مزاج،مشمولہ،اُردادب کی تحریکیں،انورسدید،ڈاکٹر،کراچی: انجمن ترقی اُردوپاکستان،2020ء،ص103
2۔ فہیم اعظمی،آرا ء،کراچی:مکتبہ صریر،1992ء،ص 95
3۔ ایضاً،ص 124
4۔ اطہر پرویز،داستان کا فن،علی گڑھ:اُردو گھر،2010 ء،ص17
5۔ عبدالحلیم شرر،گزشتہ لکھنؤ،نئی دہلی:س ن،ص 149
6۔ رفیع الدین ہاشمی،سرور اور فسانہ عجائب،لاہور:سنگ میل پبلیکیشنز،1991ء،ص87
7۔ گیان چند،پروفیسر،اُردو کی نثری داستانیں،لکھنؤ:اترپردیش اُردو اکادمی،1987ء،ص49
8۔ فہیم اعظمی،آرا ء،کراچی:مکتبہ صریر،1992ء،ص 23
9۔ روش ندیم ،صلاح الدین درویش،سرئیلزم اور دادا ازم،مشمولہ ،ادبی تحریکات و رجحانات، مرتبہ انور پاشا، دہلی:
عرشیہ پبلیکیشنز،جلد دوم،2014ء،ص522
10۔ انور سدید،ڈاکٹر،اُردو ادب کی تحریکیں،کراچی انجمن ترقی اُردو پاکستان،2020ء،ص434،435
11۔ فہیم اعظمی، آراء،کراچی:مکتبہ صریر،1992ء،ص 25
12۔ شمس الرحمٰن فاروقی، قرأت،تعبیر،تنقید،مشمولہ،متن کی قرأت،صغیر افراہیم،علی گڑھ:شعبہ اُردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،2007ء،ص 11
13۔ ایضاً،ص 17
آپ کی راۓ