اردو ادب کے معروف شاعر،محقق ،نقاد ،مکتوب نگار ڈاکٹر جاوید اغا کا اصل نام جاوید اقبال ہے آپ نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں غزل، نظم اور مکتوب نگاری شامل ہیں
خط لکھنا ایک فن ہے جس طرح زندگی اپنی راہیں خود بنا لیتی ہے اسی طرح خط اپنی باتیں خود بنا لیتا ہے زندہ رہنے کے لیے اور خط لکھنے کے لیے زندگی کا احترام ضروری ہے خط ایک انتخاب کا نام ہےاور خط نصف ملاقات بھی ہےاردو ادب کے ناقدین نے خط لکھنے کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں لیکن ڈاکٹر خورشید اسلام لکھتے ہیں
؛خط چھوٹی چھوٹی باتوں سے بنے جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہی زندگی کا لطف ہے دنیا کے سارے خط ہی ایک فقرے سے شروع ہوتے ہیں اور ایک فقرے پر ہی ختم ہو جاتے ہیں ایک ہی فقرے میں انسانیت پنہاں ہوتی ہے اور ایک ہی فقرے میں انسانیت سامنے اتی ہے ؛
اردو ادب میں خطوط کی ابتدا مرزا غالب کے خطوط سے ہوتی ہے جن کا ادبی مرتبہ بہت بلند ہے غالب کے بعد سر سید ،شبلی، حالی ،نیاز فتح پوری، فیض احمد فیض اور ن۔ م۔راشد کے خطوط منظر عام پر آ چکے ہیں کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ خط لکھنے والے کے خط میں اس کی شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے اس کا مزاج ،اس کا اطلاق، اس کا بات کرنے کا سلیقہ یہ سارا ایک خط میں پنہاں ہوتا ہے انہی مکتوب نگاروں کی فہرست میں ڈاکٹر جاوید اغا نے شاعری کے ساتھ ساتھ اپنی نثر میں بھی بلند مقام پایا ان کی زندگی ایسے ہے جیسے پرخار وادی لیکن پرخار وادی ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر جاوید اغا نے لکھنے کے لیے خود کو زندہ رکھا اور وہ لکھنے کے لیے ہی پیدا ہوئے تھے اس کی عکاسی وہ اپنے ایک خط میں کرتے ہیں
؛میں لکھنے کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہوں اور زندہ رہنے کے لیے لکھنا چاہتا ہوں رات غم کی ناگن کی طرح بل کھاتی ہوئی گزر رہی ہے کائنات پر گہرا سکوت طاری ہے نیلگیوں و آسمان پر خبر کے آوارہ ٹکڑے تیر رہے ہیں؛
ان کے خطوط زندگی کی مکمل عکاسی کرتے ہیں اور انہوں نے پوشیدہ الفاظ میں اپنے دکھ کو عیاں نہیں کیا بلکہ امید کا دامن ہاتھ سے تھامے رکھا پلکیں دریا کو کیسے مقید کر سکتی ہیں ایک سمندر کوزے میں کیسے بند ہو سکتا ہے یہ سارا جاوید اغا جانتے ہیں غم کو بھی ایسے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا کہ غم غم نہیں لگتا ان کی نثر پڑھنے کے بعد شاعری جیسی کیفیات سامنے اتی ہیں اور انسان ان کی نثر پڑھنے کے بعد ایک موجودہ کیفیت سے پر لطف ہوتا ہے اس کے متعلق ڈاکٹر جاوید لکھتے ہیں کہ
؛غم وہ واحد دوست ہے جس نے ماں کی گود سے عہد شباب تک ساتھ نبھایا اور مسرت نامی شے سے کوئی واسطہ نہیں اگرچہ بالوں میں چاندی اُبھر آئی ہم اس قبیلے کے فرد ہیں جن میں بچپن کے بعد بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے ؛
جاوید اغا کے ہاں محبت میں محرومی کا احساس ایک مثال رکھتا ہے جو زندگی میں اگے بڑھنے کے لیے اسی احساس کو پہلی سیڑھی کا نام دیتے ہیں جب کبھی مایوسی کے بادل ان کے گرد بسار بنا کر چمکتے دکھائی دیتے ہیں تو ان کی آنکھیں دل کا ماجرہ بیان کرنے کے لیے جھوٹ نہیں بولتی جب کبھی یہ اپنے دوستوں کو افسردہ دیکھتے ہیں تو ان کا دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے اور یہ احساس ان کو تکلیف دیتا ہے اس احساس کے بارے میں ہی جاوید اغا اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ
؛کبھی ہجر کا علاؤ،کبھی وصل کی بہار جب ہجر اپنے ڈیرے جما لیتا ہے تو خطوط اکثر زندگی کے آئینہ دار ہوتے ہیں اس لیے خط لکھا کرو ؛
یادِماضی ،اپنا گھر ،اپنے دوست احباب، اپنے گاؤں کی یاد بھی ان کے خطوط میں ملتی ہے وہ ماضی کی ان جھروکوں میں زندہ رہتے ہیں جن میں ان کا بچپن گزرا ہے یا عہد جوانی میں جہاں انہوں نے وقت گزارا ماضی نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا ماضی کے ساتھ ان کا واسطہ ایسے ہی ہے جیسے جسم کا روح سے لیکن کبھی کبھی ان کے دل کے گوشے میں ماضی صرف ماضی ہی رہتا ہے زندگی سے ایک پیار کی امنگ جو کبھی کبھی ابھرتی ہے تو کہیں کہیں اس کی جھلک ابھرتی ہے ایسے ہی ماضی کا بیان انہوں نے اپنے خطوط میں کیا ہے ڈاکٹر جاوید اغا اس بارے میں لکھتے ہیں کہ
؛جو لوگ ماضی کے پچھتاوے کو زندگی کا روگ بنا لیتے ہیں اور حسین مستقبل کے جادوئی سپنوں کو اپنے ذہن پر مسلط کر لیتے ہیں ان کا حال بے معنی سا ہو کر رہ جاتا ہے صرف اج کے لیے زندہ رہنے والے لوگ خوشیوں کو اپنے دامن سے لبریز کر لیتے ہیں جاگنا اپنے جانے والے یا آنے والے کل کا روگ یا سپنا کیا دے سکتا ہے دو انسو اور جھوٹی مسکراہٹ؛
جاوید آغا کے خطوط کے مطالعےکے بعد ایک بات کا احساس ہوتا ہے کہ لکھنے والوں کے ہاں جذبوں کی آگ بھڑک رہی ہے اور وہ ان خطوط میں اپنی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ جگ بیتی بھی بیان کرتے ہیں کہ ان کے اندر کی بپتا ہے جس پر انہوں نے قلم سرائی کی اور ڈاکٹر جاوید اغا کی نثر ادب میں ایک منفرد مقام پر ہے ان کی نثر کو پڑھنے کے بعد ایک شاعر یا مصرعہ کہنے والا فرد اگر نثر لکھے تو وہ کسی اعلی مقام کی نثر لکھ سکتا ہے
آپ کی راۓ