نيويارك/ ايجنسى
امریکی وزارت خارجہ کے ایک سینئر ذمے دار کے مطابق اسرائیل نے بائیڈن انتظامیہ کو ایسی کوئی ضمانت پیش نہیں کی ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ یہ بات امریکی نیوز چینل سى اين اين نے مذکورہ ذمے دار کے حوالے سے بتائی ہے۔
امریکی ذمے دار کا مزید کہنا ہے کہ یہ جاننا مشکل ہے کہ آیا اسرائیل 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کا ایک سال پورا ہونے کا موقع ایران پر حملے کے لیے استعمال کرے گا۔
اس سے قبل سابق صدر اور آئندہ انتخابات کے لیے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کو چاہیے کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنائے۔ انھوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کی اس گفتگو پر نکتہ چینی کی جس میں بائیڈن نے کہا تھا کہ ایرانی جوہری پروگرام کو ہدف بنانے کے لیے متبادل اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایران کی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی شکل میں اسرائیلی رد عمل کے حوالے سے بائیڈن کا کہنا تھا کہ "اسرائیل نے ابھی تک جوابی کارروائی کا فیصلہ نہیں کیا ہے”۔
امریکی صدر نے باور کرایا تھا کہ اسرائیل کا حق ہے کہ وہ ایران اور اس کے ایجنٹوں مثلا حزب اللہ اور حوثیوں کی جانب سے خود پر ہونے والے کسی بھی حملے کے مقابل اپنا دفاع کرے۔ تاہم بائیڈن نے واضح کیا کہ اسرائیلی فوج کو شہریوں کے ساتھ معاملے میں زیادہ احتیاط برتنا چاہیے۔
بائیڈن نے کہا کہ "میں اتنا جانتا ہوں کہ جو منصوبہ وضع کیا گیا ہے اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دنیا بھر میں ہمارے اتحادیوں کی غالب اکثریت کی حمایت حاصل ہے تا کہ اس بحران کو ختم کیا جا سکے”۔
بائیڈن انتظامیہ اور اسرائیلی حکومت کے درمیان ایرانی حملے پر جوابی کارروائی کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔ بعض مبصرین کے نزدیک بائیڈن انتظامیہ تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے جب کہ وائٹ ہاؤس کے ذمے داران اپنی پوزیشن کا دفاع اس قول کے ساتھ کر رہے ہیں کہ واشنگٹن اور تل ابیب کے بیچ بڑی رابطہ کاری ہو رہی ہے۔
غز کی پٹی میں جنگ کے آغاز کے بعد سے بائیڈن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان تعلقات ٹوٹ نہیں سکتے تاہم بائیڈن کے نیتن یاہو کے ساتھ تقریبا 50 برس جاری رہنے والا تعلق تیزی سے بگڑ رہا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق بائیڈن نے 21 اگست کے بعد نیتن یاہو سے بات چیت نہیں کی ہے۔ اسی طرح وائٹ ہاؤس گذشتہ ہفتوں کے دوران میں اسرائیل کے فیصلوں سے حیران ہو گیا ہے۔
آپ کی راۓ