کرشنا نگر/ کیئر خبر/فرحان نور
لمبنی پردیش حکومت نے مولانا مشہود خاں نیپالی کو مدرسہ بورڈ لمبنی پردیش کے نائب صدر کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے نے مدارس کے حلقوں میں افسوس اور حیرت کی لہر دوڑا دی ہے۔ واضح رہے کہ ان کے دور میں مدرسہ تعلیم میں نمایاں تبدیلیاں دیکھی گئیں۔
مولانا مشہود خاں نیپالی نے اپنے 26 ماہ کے دورِ خدمت میں نہ صرف مدارس کی فلاح و بہبود کے لیے اہم اقدامات کیے بلکہ تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے بھی بھرپور کوششیں کیں۔ ان کی قیادت میں مدارس کے طلباء کو ناشتہ، وظائف، نصابی کتب، سینیٹری پیڈز، بک کارنر، اور مسلند خرچ جیسی سہولیات فراہم کی گئیں۔ حکومت کی جانب سے سالانہ تعاون میں اضافہ کیا گیا، اور مدارس کی تعمیر و ترقی کے لیے بجٹ میں بھی توسیع کی گئی۔ ان کی کاوشوں کی بدولت ایک سو سے زائد مدارس کو حکومت سے رجسٹرڈ کرایا گیا۔ پہاڑوں اور اقلیتی علاقوں میں موجود مدارس کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسا قانون وضع کیا گیا کہ اگر کسی جگہ طلباء و طالبات کی تعداد صرف پندرہ ہو تو بھی انہیں وہی سہولیات فراہم کی جائیں گی جو دیگر اداروں کو میسر ہیں۔ اس قانون نے دور دراز علاقوں کے مدارس کی مشکلات کو کم کرنے میں ان کی مدد کی اور ان مدارس کو اپنے مذہب، تہذیب، اور ثقافت کے تحفظ میں معاون ثابت ہوا۔
مولانا مشہود خاں نیپالی نے علماء کی تقرری کے مسائل کو بھی کافی حد تک آگے بڑھایا تھا، جو تقریباً حل کے قریب تھے، لیکن بدقسمتی سے وقت نے ساتھ نہ دیا۔ انہوں نے اس کام کو آخری مرحلے تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی، مگر عملی طور پر اسے مکمل نہ کر سکے۔ ان کی محنت کے باوجود، اس مسئلے کے حل میں تاخیر ہوگئی۔ تاہم، انہیں امید ہے کہ جلد ہی یہ مسائل حل کر لیے جائیں گے۔
مدارس کے علماء اور متعلقہ افراد نے مولانا مشہود خاں نیپالی کی برطرفی کو ایک سیاسی سازش قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا دور خلوص، دیانت، اور خدمت کی بہترین مثال تھا۔ شیخ جیش مکی نے کہا، "مولانا مشہود خاں نیپالی کا عہدہ تو چھین لیا گیا، لیکن ان کی خدمات تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی۔ ان کی شرافت اور دیانت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔”
مولانا مشہود خاں نیپالی نے اپنی برطرفی پر عاجزی کے ساتھ کہا:
"عہدہ میرے لیے معنی نہیں رکھتا، مدارس کے حقوق کا دفاع میرا مشن ہے، اور یہ سفر جاری رہے گا۔ میں حکومت اور پارٹی قیادت کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے خدمت کا موقع دیا۔ میری کوششیں کبھی نہیں رکیں گی، بلکہ یہ میرے دل کی آواز ہے۔”
وزیر اعلیٰ چیت نارائن آچاریہ نے بھی مولانا مشہود خاں کی خدمات کی تعریف کی اور ان کے مستقبل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، "مولانا مشہود خاں نیپالی نے اپنے دور میں جو خدمات انجام دیں، وہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک مثال ہیں۔ ان کی کمی محسوس کی جائے گی۔”
قومی مدرسہ سنگھ نیپال کے قومی صدر ڈاکٹر عبدالغنی القوفی نے مولانا مشہود خاں نیپالی کے دور کو یادگار اور بے مثال قرار دیتے ہوئے کہا، "مولانا مشہود خاں نیپالی کے خلاف کبھی کوئی الزام نہیں لگا، اور ان کی خدمات کو ہمیشہ احترام اور فخر کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔ وہ ایک ایسے رہنما ہیں جنہوں نے مدارس کی ترقی کے لیے اپنا دن رات وقف کر دیا۔ ان کی محنت اور لگن کو سلام پیش کرتے ہیں۔”
مولانا مشہود خاں نیپالی کے الفاظ اس عزم کی غمازی کرتے ہیں کہ خدمت کا سفر کسی عہدے کا محتاج نہیں – وہ ہمیشہ مدارس کے حقوق کے لیے سرگرم رہیں گے۔ ان کی قیادت میں رکھی گئی بنیاد مدارس کی ترقی کے لیے ایک نئی راہ ہموار کرے گی۔ ان کی کاوشوں اور خدمات کی بدولت مدارس کا مستقبل روشن نظر آتا ہے، اور یہ یقین دہانی ہوتی ہے کہ ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ ان کی مثالی قیادت کے اثرات آئندہ نسلوں تک پہنچیں گے، اور ان کا عزم و ہمت ہمیشہ مدارس کے ساتھ رہے گا۔
مولانا ظہیر احمد بریلوی نے کہا کہ مولانا مشہود خاں نیپالی نے ترائی سے لے کر پہاڑوں تک مدارس اور علماء کو متعارف کروا کر تعلیمی نظام کو مستحکم کیا ہے۔ انہوں نے مدارس کے حقوق کی آواز ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بلند کی، جس سے دینی تعلیم کو فروغ ملا۔
عبدالنور السراجی، مرکزی ممبر قومی مدرسہ سنگھ نیپال نے کہا کہ مولانا مشہود خاں نیپالی نے لمبنی پردیش میں مدرسہ بورڈ کے قیام کے ذریعے قوم کو ایک بڑی سوغات دی ہے، جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ خدمات نہ صرف دینی تعلیم کو فروغ دیتی ہیں بلکہ قوم کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
آپ کی راۓ