لمبنی / کئیر خبر
مورخہ 25 اکتوبر بروز جمعہ اردو فاؤنڈیشن نیپال کی جانب سے ہونے والے عالمی مشاعرے میں ہند و نیپال کے مشہور و معروف شعرا نے شرکت کی۔ عالمی شہرت یافتہ شاعر اقبال اشہر ، معروف رائے بریلوی ، فیض خلیل آبادی ، روبینہ ایاز، شاداب شبیری ، شیو ساغر سحر، ثاقب ہارونی، امتیاز وفا ، سید خالد محسن اور سحر محمود نے اپنے کلام سے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔ سبھی شعرا کو سامعین نے داد و تحسین سے نوازا ۔
مشاعرے کی نظامت معروف رائے بریلوی صاحب نے کی اور صدارت مشہور علمی و سماجی شخصیت ابو سفیان خان نے کی ۔
مہمان خصوصی رہے محمد اشتیاق رائے صاحب جو کہ نیپال کی مشہور و معروف سیاسی و سماجی شخصیت ہیں۔ سابق وزیر برائے شہری ترقی، سابق وزیر برائے فزیکل انفراسٹرکچر، نیپال کی دستور ساز اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔
مہمان اعزازی جناب شجرالدین لمبنی سانسکِرتک نگر پالیکا کے میئر رہے۔
مہمان ذی وقار وصی الدین خان سابق وزیر تعلیم لمبنی پردیس اور ممبر آف پارلیمنٹ سراج فاروقی اور بھی کئی اہم شخصیات شریک محفل رہیں۔
سامعین کی اکثر تعداد اہل علم کی تھی۔ لمبنی سانسکِرتک نگر پالیکا کے کئی وارڈ ادیکچھ جیسے خورشید احمد، اکرام الدین ، نعیم اللہ ، انعام اللہ وغیرہ بھی شریک محفل رہے ۔
نیپالی تہذیب کے مطابق شعرا اور معزز مہمانوں کو کھادا اوڑھا کر استقبال کیا گیا اور تمام شعرائے کرام اور مہمان خصوصی وغیرہ کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
مشہور و معروف شاعر اقبال اشہر صاحب نے اردو فاؤنڈیشن نیپال کے قیام اور اس مستحسن اقدام کو سراہتے ہوئے روشن مستقبل کی مبارک باد پیش کی اور اپنے بہترین انداز سخن سے سامعین کا دل جیت لیا۔
تمام شعرا کو سامعین نے خوب سنا اور دل کھول کر داد دی۔
شعرا کو لوگ اور بھی سننا چاہتے تھے مگر رات کے ڈیڑھ بج چکے تھے۔ 12 بجے تک مشاعرہ ختم کرنے کا ارادہ تھا مگر مشاعرہ شروع ہونے کے بعد اپنا بس کہاں چلتا ہے ۔ بہ ہر حال سامعین کے ذوق کی داد دینی پڑے گی کہ انھوں نے اتنی محبت سے تمام شعرا کو سنا اور پسندیدگی کا اظہار کیا۔ سب سے بڑی بات جو قابل ذکر ہے وہ یہ ہے آخر تک سبھی اپنی جگہوں پر بیٹھے سنتے رہے اور آخری شاعر اقبال اشہر صاحب کو سننے کے بعد بھی ان کے اندر مزید سننے کی تڑپ تھی۔ یہ تڑپ اور تشنگی اگر مشاعرہ ختم ہونے کے بعد بھی لوگوں میں باقی رہے تو سمجھنا چاہیے کہ پروگرام بہت کام یاب رہا کیوں کہ تشنگی کا ختم ہو جانا اچھی بات نہیں۔
ایک اور خاص بات تھی اس مشاعرے کی کہ تمام مہمانان گرامی قدر بھی آخر تک بیٹھے رہے اور نہ صرف بیٹھے رہے بلکہ داد و تحسین سے بھی نوازتے رہے اور مشاعرہ ختم ہونے کے بعد ہی وہ رخصت ہوئے ورنہ عموما یہی دیکھا گیا ہے کہ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد مہمان اکثر محفلوں سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔
الحمدللہ اردو فاؤنڈیشن نیپال کا پہلا مشاعرہ بہت کام یاب رہا۔ ان شاءاللہ مستقبل میں اس فاؤنڈیشن کے ذریعے سے اور بھی ادبی و علمی محفلیں آراستہ ہوتی رہیں گی اور اردو کے فروغ کا کام ہوتا رہے گا۔
شعراے کرام کے منتخب کلام نذر قارئین ہیں:
نہ جانے کتنے چراغوں کو مل گئی شہرت
اک آفتاب کے بے وقت ڈوب جانے سے
اقبال اشہر
ملے جو نین سے نین رفتہ رفتہ
اتر آئے دل میں سجن رفتہ رفتہ
ثاقب ہارونی
ہمارے منھ پہ اڑاتا ہوا وہ دھول گیا
ہمیں نے چلنا سکھایا ہمی کو بھول گیا
معروف رائے بریلوی
کرنا پڑتا ہے اندھیرں کے بدن میں سوراخ
روشنی اتنی سہولت سے نہیں ملتی ہے
فیض خلیل آبادی
وہ مجھے برا کہے میں اسے برا کہوں
لوگ چاہتے ہیں یہ لوگوں کو میں کیا کہوں
امتیاز وفا
ہم نے جب کہہ دیا کہ ہاں تو ہاں
اب نہیں کا کوئی سوال نہیں
شاداب شبیری
ایک مدت سے اپنے کام پہ ہوں
جیسے زندہ ہی ترے نام پہ ہوں
عشق کا آخری مقام ہے موت
اور میں آخری مقام پہ ہوں
روبینہ ایاز
آنکھوں میں میں نے اشک چھپا تو لیے مگر
رخصت کے وقت میرا جو لہجہ بدل گیا
سحر محمود
کس کی محنت تھی، نہیں تھی دیکھتا کوئی نہیں
داد دیتے ہیں سبھی اب تو یہاں فنکار کو
سید خالد محسن
پِتا کے کاندھے پر بیٹھا ہوا ہوں
گگن چھونے کو اک موقع ملا ہے
شیو ساغر سحر
آپ کی راۓ