کاٹھمنڈو میں حلال گوشت کی خرید و فروخت میں جب شک کی بات آتی ہے اور عام آدمی سے گفتگو ہوتی ہے تو کہا جاتاہے : ” مسلمان بھائی بیچتا ہے’ ہم کو اس تحقیق میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے’ گناہ اسے ہوگا ۔ جب گوشت والے سے پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے : ” وہاں حلال فوڈ کا لوگو آویزاں رہتا ہے باقی ہم کو ماتھا پیچی سے کیا لینا دینا ہے“۔ تاہم اِس ویلی کاٹھمنڈو میں مسلم دوکاندار خود سے ذبح کرکے نہیں بیچتا ہے سب کے سب کولڈ اسٹور سے لاتا ہے مگر ہر جگہ غیر مسلم دکان سے پچاس روپیہ زیادہ لیتا ہے ۔ حالانکہ وہ غیرمسلم بھی اسی کولڈ اسٹور سے لاتا ہے ۔ اس فرق کو برادر سے پوچھئے تو کہے گا :” حلال پانے کے لئے ہم کو بہت زحمت یا محنت اٹھانی پڑتی ہے ۔
ہماری ” مجلس تحفظ ختم نبوت“ میں اس موضوع پر متعدد بار تبادلہ خیال ہوچکا ہے کئی بار ہم سبھی مسلم آیوگ بھی جاچکے ہیں مگر اس جانب کبھی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے ۔ حالات ٹس سے مس نہیں ہوئے ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ۔ بلکہ گذشتہ دنوں نیپالی جامع مسجد کی ہماری میٹنگ میں اس پیشہ سے منسلک ایک بڑے ذمہ دار کو بھی شریک کیا گیا تھا جس سے بھی واضح طور صورت حال کی سنگینی ہی کا پتہ لگا ۔ یعنی اس کے بقول ہم لوگ کہیں بھی صحیح چیز نہیں پارہے ہیں ۔
اسی طرح نیپال سرکار کا ” ناپ تول تتھا گونستر ببھاگ“ نے اسی حلال فوڈ کو نیپال سرکار کے ماتحتی میں صاف ستھرا بنانے اور حلال ہونے کے تمام قواعد شرعی کا لحاظ اور ملحوظ خاطر پر مشتمل ڈیڑھ سال میں ضوابط تیار کیے گئے ہیں ۔ اس بات کا اہتمام خود نیپال سرکار نے کیا تھا تاکہ اس کا مال زیادہ سے زیادہ پاکیزہ بن کر دور تک سپلائی ہو ۔ اس کی نمایندگی تمام مسالک کی طرف سے کی گئی تھی ۔ جو گونستر ببھاگ میں بیٹھ کر حلال فوڈ کی دستاویزات تیار کئے تھے تاہم اس پر مزید اور ڈیڑھ سال بیت جانے کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے ۔ بتایاجاتا ہے ببھاگ نے مسلم آیوگ کو سونپ دیا ہے ۔ مگر اب صورتحال اس قدر سنگین ہوچکى ہےکہ خنزیر کی پیکٹ پر حلال کا لوگو دکھاکر حرام کا کاروبار چل رہا ہے ۔ اس کی دوسری قسط جو مزید ایک تحقیق پر مشتمل ہے جسے ہم نے خود ہوٹلوں سے حاصل کی ہے پیش کروں گا ‘جو بہت ہی المناک ہے’ انتظار کریں !!
زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح مسلمانوں کا اس حلال و حرام کی تمیز میں بھی بہت بےخیالی پائی جاتی ہے ۔ اس کی ایک وجہ حد سے زیادہ مصروفیت اور اجتماعی زندگی سے راہ فرار ہے ۔ اور خاص کر یہ شہری زندگی کے اکیلا پن میں پروان چڑھتی ہے ۔
ہم نے اپنی میٹنگوں میں احباب کو کہتے سنا ہے ۔” بازار سے خریدتے ہوئے پرہیز کرتا ہوں ۔ اب زندہ مرغ ہی خرید کر خود سے ذبح کرتا ہوں“۔ مگر قابل غور یہ ہے کہ جہاں میٹنگ ہوتی ہے خود وہاں کی تحقیق نہیں کی جاتی ہے اور نہ ذاتی دعوت کی تحقیق ہوتی ہے کیونکہ آپ اس بات سے مرعوب ہوتے ہیں کہ مدعو تو ہم سے بڑھ کر رکھ رکھاؤ والا مسلمان ہے ؟
ایک دن میرے سامنے تلی ہوئی مچھلی لائی گئی ۔ اچھی لگی ۔ بتایا گیا قریب والی دکان کی ہے ۔ تھوڑے دنوں بعد میں اکیلا تھا ۔ اسی مچھلی پر دھیان گیا ۔ خود سے وہاں پہنچا ۔ دکاندار اسے ایک فرائی پن میں ڈالا اور پہلے سے موجود تیل میں بھون کر تازہ کردیا ۔ روم پر آنے کے بعد مجھے احساس ہوا وہاں پر حرام گوشت بھی موجود تھا دکاندار اس کو بھی اسی تیل میں تازہ کرتا ہوگا ۔ ایسی عقل آنے کے بعد ہر ایک ہوٹل سے جیسے اعتماد اٹھ گیا ۔
اس بار میں نے بڑا فیصلہ لیا ۔ ایک نوجوان کو مشغول ہوٹل پر نوکری کے لئے بھیجا ۔ وہ پانچ ہی دن میں توبہ کرتے ہوئے پیسہ بھی چھوڑ آیا ۔ اس نے اس بڑے ہوٹل میں دیکھا’ کیچن کی بڑی کڑھائی میں بھرا ہوا تیل ہے ۔ جس میں وہ بھننے کے لئے سبزی ڈالتا ہے ۔ سبزی نکال کر اسی تیل میں مچھلی اور میٹ بھی ڈالتا ہے ۔ لیکن واللہ ! ہوٹل والا اسی تیل میں خنزیر کا گوشت بھی ڈال دیا ۔ یہ ہوٹل سب سے مشہور علاقہ ایئرپورٹ کے پاس ہے ۔ آپ بھی ایسا تجربہ کرکے دیکھیں اور کاٹھمنڈو میں اپنے سادہ کھانا کی بھی خیر منائیں ۔ ویسے شاکاہاڑی ہوٹل پر اضطراری حالت میں اعتماد کیا جاسکتا ہے !!
از قلم : ابو ھلال
آپ کی راۓ