سعادت حسن منٹو کے يہاں نسوانی کردار کی پیشکش

مقالہ نگار محمد طیب آزاد   شعبہ اردو یونیورسٹی آف اوکاڑا

5 جنوری, 2025

افسانہ  کی روایت منٹو کے نام کے بغیر ادھوری ہے۔ منٹو ایک ایسا نام ہے کہ جب بھی ادب میں افسانہ نگاری کی بات کی جائے تو ابھر کر ہمارے سامنے آ جاتا ہے ۔

منٹو کا اصل نام سعادت حسن منٹو تھا جو کہ 11 مئی 1912 کو ضلع لدھیانہ کے ایک گاؤں سمبرالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام غلام حسن منٹو تھا جو کہ پیشہ کے لحاظ سے جج تھے۔ غلام حسن نے دو شادیاں کی تھیں اور منٹو کی والدہ ان کی دوسری بیوی تھی۔ منٹو کو والد کا وہ پیار اور توجہ نہ مل سکی جس کے وہ حق دار تھے اس کا اثر ان کی طبعیت پر یہ پڑا کہ وہ بے اعتنائی کا شکار ہو گئے ۔ منٹو کو رسمی تعلیم سے کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی وہ میٹرک کے امتحان میں تین بار فیل ہوئے تھے۔ منٹو کو منٹو بنانے میں باری علیگ کا بہت اہم کردار ہے منٹو کا پہلا طبع زاد افسانہ ‘ تماشہ ‘ جو کہ جلیانوالہ باغ کے حادثے کے متعلق تھا باری علیگ کی ادارت میں  نکلنے والے اخبار  ‘ خلق ‘ میں چھپا۔ سعادت حسن منٹو نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے ، خاکے اور ڈرامے منظر عام پر آچکے ہیں جو کہ حقیقت کے عکس دار ہیں۔ افسانوی مجموعوں میں دھواں، منٹو کے افسانے ، برقعے ،بادشاہت کا خاتمہ ، کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت ، یزید ، آتش پارے، سیاہ حاشیے ، نمرود کی خدائی ، خالی بوتلیں خالی ڈبےوغیرہ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ منٹو کی زندگی پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ پاکستانی اردو فلم منٹو 2015 میں منظر عام پر آئی جبکہ بھارتی  منٹو 2018 میں پیش کی گئی۔

منٹو کے ہاں موضوعات کی بات کریں تو ان کے افسانوں کے مطالعہ سے جنس، فحش نگاری، معاشرے کی بدترین صورتحال عام آدمی کے مسائل جیسے موضوع ہمارے سامنے آتے ہیں۔ سید وقار عظیم نے منٹو کو غلاظت نگار بولا ہے جبکہ محمد حسن عسکری کے مطابق منٹو سب سے بڑا افسانہ نگار ہے ۔ منٹو پر ایک اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ منٹو نے صرف عورت کو ہی اپنا موضوع بنایا ہے خاص کر طوائف کو۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منٹو اپنے افسانوں میں عورتوں کے کپڑے اتارتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ منٹو معاشرے کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتا ہے اور اس کی اصلیت ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں ایسے کردار پیش کرتا ہے جس کو پڑھنے کے بعد قاری سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ آخر اصل مجرم کون ہے وہ طوائفیں جنہیں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے یا انہیں اس مقام تک پہنچانے والے پارسا کردار۔ منٹونے اپنے افسانوں میں وہی کچھ لکھا جو

معاشرے نے انہیں دکھایا۔

چونکہ ہمارا موضوع منٹو کے ہاں عورت کی نفسیات کو پر کھنا ہے تو اس کے لیے ہم نے منٹو کے دو افسانوں کالی شلوار اور کروٹ کا انتخاب کیا ہے اب ہم ان دو افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان میں نسوانی کرداروں کی نفسیات کا جائزہ لیں گے۔ کالی شلوار دراصل ایک پیشہ کرنے والی عورت سلطانہ کی کہانی ہے جو پہلے انبالہ چھاؤنی میں پیشہ کرتی تھی جہاں انگریز اس کے گاہک تھے۔ پھر اس کہانی کا دوسرا کردار خدا بخش جسے یہ اپنے لیے خوش بختی کی علامت سمجھتی تھی اسے انبالہ سے دہلی لے آیا۔ یہاں دہلی میں سلطانہ کا کاروبار اس طرح نہیں چل پاتا اور محرم آ جاتے ہیں سلطانہ کو محرم کے لیے کالے کپڑے بنوانے ہوتے ہیں لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے تو شکر نامی ایک شخص اسے محض کالی شلوار دینے کے بدلے  اپنی جنسی حوص مٹاتا ہے بلکہ اس کے بندے بھی لے جاتا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ایک عورت اپنی غریبی سے تنگ آکر اپنا جسم تک بیچنے پر مجبور ہو جاتی ہے لیکن ایک مرد کی نظر میں اس کی عزت ، اس کے دکھ درد نفسیات اور خواہشات کی کوئی قدر نہیں ہے۔

اسی طرح اگر منٹو کے افسانے کروٹ کی بات کریں تو یہ ان کے افسانوی مجموعے کروٹ میں شامل ہے اس افسانوی مجموعے کو نام ہی اس افسانے کی وجہ سے دیا گیا۔ یہ ایک ورشیا کی کہانی ہے جو مختلف جگہ پر اپنا کا روبار کرتی ہے پھر وہ ایک مولوی کے گھر کے پاس گھر کرائے پر لیکر اپنا کاروبار شروع کر دیتی ہے اس ور شیا کا نام سندری بائی ہے۔ آس پاس کے گھروں میں رہنے والے نہیں چاہتے کہ یہ اپنا کاروبار یہاں کرے تو وہ اس کے گھر کے سامنے کچرا پھینک دیتے ہیں اور اس کو پتھر مارتے ہیں لیکن مولوی اس کی اصلاح کی غرض سے اسے اپنے گھر کھانے کی دعوت دیتا ہے تو وہ اس دعوت کو قبول تو کر لیتی ہے لیکن مولوی کے گھر کھانے پر جاتی نہیں۔ جب مولوی اسے دوبارہ دعوت کی یاد دہانی کروانے جاتا ہے تو سندری بائی اسے بہت برا بھلا کہتی ہے۔ لیکن جب سندری بائی کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو وہ مولوی سے کہتی ہے کہ وہ یہاں سے چلی جائے گی تو مولوی اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں تم  رہو کسی کے دل کی رانی بن کر اس سے مولوی کی اصل حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے اور اگلی شام پھر سندری کے گھر سے فحش گانوں کی آوازیں آرہی ہوتی ہیں۔

اگر ہم منٹو کی ان کہانیوں کا مطالعہ کریں تو اس میں بیان کردہ نسوانی کرداروں کی نفسیات کھل کر ہمارے سامنے آجاتی تھی۔

کالی شلوار میں سلطانہ کا کردار ایک ایسی عورت کو ظاہر کرتا ہے جو کسی ایک شخص کے ساتھ اپنی تمام عمرگزار دینا چاہتی ہے محبت چاہتی ہے لیکن اس کی غربت اسے کاروبار کرنے پر مجبور کرتی ہے اس حوالے ہے مثال دیکھیں۔

پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہوں اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسےاپنا” خیال آتا۔ وہ سوچتی ہے کہ اسے بھی کسی نے پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جارہی ہے ۔ دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اوروہ چلی جا رہی ہے … نہ جانے کہاں”  ]1[۔

اس اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح سلطانہ کی نفسیات کو ہمارے سامنے پیش کیا کیا ہے۔اس کی زندگی کتنی ویران ہے سلطانہ کے کردار کے ذریعے منٹو نے طوائفوں کی نفسیات کو پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ انسان کی زندگی میں جو کچھ چل رہا ہوتا ہے جو واقعات اس کی زندگی میں رونما ہوتے ہیں اور جو سوچ اس کے دماغ میں وقوع پذیر ہوتی ہے اسے باہر کی دنیا میں بھی وہی سب کچھ ہوتا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ وہ جو کچھ سوچتا ہے اسے باہر کی دنیا بھی ویسی ہی معلوم ہوتی ہے اس حوالے سے افسانے سے مثال ملاحظہ فرمائیں۔

سلطانہ نے غور سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال اس کے دماغ میں آیا کہ انجن نے بھی کالا”    لباس پہن رکھاہے “ ]2[۔

کیونکہ سلطانہ کو محرم کے لیے کالے کپڑوں کی خواہش ہے اور وہ بس انہیں کے متعلق سوچتی رہتی ہے تو اسے باہر بھی سب ویسا ہی نظر آتا ہے۔ اسے ٹرین کو دیکھ کر محسوس ہوتاہے کہ اس کے انجن نے بھی کالے کپڑے پہن رکھے ہیں اس طرح منٹو عورت کی نفسیات کو ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔

اگر ہم منٹو کی دوسری کہانی کروٹ کے حوالے سے بات کریں تو اس میں بھی عورت کی نفسیات کھل کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ کس طرح لوگ ایک وحشیا کو عورت نہیں سمجھتے اسے برا بھلا کہتے ہیں اس کے جذبات و احساسات کے ساتھ کھیلتے ہیں اس افسانے سےایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں؛

تنگ کر رکھا ہے ان شریف آدمیوں نے مجھے … آج تو مجھے جی ہلکا کر لینے دو… دن اور رات کے کھانے پر ان کے یہاں جو” ہڈیاں جمع ہوتی ہیں۔ میرے گھر کے صحن میں پھینک دی جاتی ہے۔ جو کوڑا اکٹھا ہوتا ہے ادھر لڑھکا دیا جاتا ہے۔ انسان کو انسان ہی نہیں سمجھا  جاتا “ ]3[۔

اس اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ وحشیا بھی ایک عورت ہے ایک انسان ہے لوگوں کے رویوں سے اسےتکلیف ہوتی ہے اس کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ وہ بھی چاہتی ہے کہ اس کے ساتھ عام انسانوں جیسا سلوک کیا جائے۔ ایک اور مثال دیکھیں؛

رنڈی سے الجھنے کا مزا نہ چکھا دوں تو میرا نام سندری نہیں … ناک میں دم آگیا ہے میرا ۔ہر روز ایک نیا طریقہ مجھے چھیڑنے” کانکالا جاتا ہے “ ] 4[۔

اس مثال سے یہ پہلو ہمارے سامنے آتا ہے کہ کوئی بھی عورت پیدائشی طوائف نہیں ہوتی سندری بائی بھی پہلے کسی کی عزت تھی اسے اس مقام تک پہنچانے میں بھی اسی معاشرے کے نام نہاد شریفوں کا ہاتھ ہے  حالانکہ اس و حشیاکے اندر اب بھی وہ نازک مزاج اور کمزور عورت ہی چھپی ہوئی ہے جو ا اندر سے اسے ملامت کرتی ہے اور اسے ایک پر سکون زندگی گزارنے کی طرف راغب کرتی ہے اور سندری بائی یہ پیشہ چھوڑ کر کہیں گم نام اور شریفانہ زندگی گزارنے پر آمادہ بھی ہو جاتی ہے لیکن پھر اس پر مولوی کی حقیقت کھل جاتی ہے اور وہ سمجھ جاتی ہے کہ وہ خود کو کتنا ہی بدلنے کی کوشش کر لے یہ معاشرہ اب اسے بدلنے نہیں دے گا۔ ان تمام باتوں سے یہ پہلو ہمارے سامنے اجاگر ہوتا ہے کہ منٹو نے کسی طرح ان کہا نیوں میں نہ صرف عورت کی نفسیات، خواہشات اور جذبات کا بیان بہت عمدگی سے کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے مردوں کی سوچ اور نفسیات کو بھی سامنے لے آئے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ منٹو کو اپنے فن میں کمال مہارت حاصل تھی اور ان کا کلام ہمیشہ زندہ رہے گا بلا شبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سعادت حسن تو مر گیا لیکن منٹو زندہ ہے اور ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

حوالہ جات

١ ۔ سعادت حسن منٹو ،کالی شلوار (دہلی:ساقی بک ڈپو ،١٩٩٠ )ص١٤٦

٢۔ ایضا ، ص١٤٩

٣۔ ایضا ، كروٹ (لاهور: اردو اكیڈمی، ١٩٤٤ )ص١٦

٤۔ ایضا ، ص١٢۔١٣

آپ کی راۓ

چیف ایڈیٹر

دفتر

  • محکمہ اطلاعات رجسٹریشن : ٧٧١
  • news.carekhabar@gmail.com
    بشال نگر، کاٹھمانڈو نیپال
Flag Counter