وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے ، جس کی اہمیت وافادیت مسلم ہے ،پگھلتے برف کے مانند ہے جو جلد ہی ختم ہوجاتا ہے ، دیکھتے ہی دیکھتے تیزی کے ساتھ سکنڈ ، منٹ ،گھنٹہ،دن ،رات، ہفتے، مہینے اور سال گذر جاتے ہیں
صبح ہوئی شام ہوئی
عمر یونہی تمام ہوئی
لہذا وقت کی قدردانی اور اس کا صحیح استعمال ضروری ہے، وقت کو صحیح کاموں میں استعمال کرنا، بیکار اور فضول میں ضائع ہونے سے بچانا ازحد ضروری ہے، وقت کو فضول ضائع کردینے پر بعد میں جو حسرت و پچھتاوا ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ سوائے ندامت وشرمندگی کے اس کے تدارک کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ جو لمحہ اور گھڑی ہاتھ سے نکل گئی وہ دوبارہ ہاتھ میں نہیں آتی ، لہٰذا عقلمندی ودانشمندی کاکام یہ ہے کہ آغاز ہی میں انجام پر نظر رکھے، تاکہ حسرت و پچھتاوے کی نوبت ہی نہ آئے۔
"الوقت كالسيف فإن لم تقطعه يقطعك "کہ وقت تلوار کے مانند ہے اگر تم اسے نہیں کاٹ پائے تو وہ تمہیں کاٹ دےگا ۔
ہے وہ عاقل جو کہ آغاز میں #سوچے انجام
ورنہ ناداں بھی سمجھ جاتا ہے کھوتے کھوتے#
دنیا کی تمام چیزیں ضائع ہوجانے کے بعد واپس آسکتی ہیں۔ لیکن ضائع شدہ وقت واپس نہیں آسکتا۔یعنی گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں اور
کہنے والے نے صحیح کہا ہے ”اَلْوَقْتُ اَثْمَنُ مِنَ الذَّھَبِ“ وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے:
حَیَاتُکَ اَنْفَاسٌ تُعَدُّ فَکُلَّمَا * مَضٰی نَفَسٌ مِنْہَا اِنْقَضَتْ بِہ جُزْء
تیری زندگی چند محدود گھڑیوں کا نام ہے، ان میں سے جو گھڑی گذرجاتی ہے، اتنا حصہ زندگی کا کم ہوجاتا ہے۔
لہٰذا وقت کی پوری نگہداشت کرنا چاہئے، کھیل کود میں خرافات میں، ادھر ادھر کی باتوں میں اور لغویات میں قیمتی اوقات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَ یَعْنِیْةِ“ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی چیزوں کو ترک کر دے۔
اس حدیث میں اضاعت وقت سے ممانعت اورحفاظت وقت کے اہتمام کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی ہر ایسے قول وعمل اور فعل و حرکت سے احتراز کرے جس سے اس کا خاطر خواہ اورمعتد بہ دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو۔
وقت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت اور قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی ایک ایک گھڑی ،سکنڈ اور منٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتی، لیکن آج ہم وقت کی کوئی قدر نہیں کرتے کہ یونہی فضول باتوں میں اور لغو کاموں میں ضائع کردیتے ہیں۔
وقت حق تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، اسے غبار سمجھ کر پھینک دینا بڑی ناقدری ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے اشرفیوں کا ڈھیر کسی کے سامنے ہو اور وہ اٹھاکر پھینکتا رہے۔
ہمارے اسلاف کی زندگی میں وقت کی اہمیت اور قدر دانی نمایاں طریقہ پر تھی، کوئی گھڑی اور لمحہ ضائع نہیں ہوتا تھا۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ان کو اعلیٰ درجہٴ کمال پر پہنچایا تھا
حافظ ابن حجر عسقلانی کے بارے میں آتا ہے کہ وہ وقت کے بڑے قدردان تھے کسی وقت خالی وبیکار نہ بیٹھتے تھے۔
تین مشغلوں میں سے کسی نہ کسی میں ضرور مصروف رہتے تھے،مطالعہٴ کتب بینی، تصنیف و تالیف یا عبادت۔ (بستان المحدثین)
حتی کہ جب تصنیف و تالیف کے کام میں مشغول ہوتے اور درمیان میں قلم کا نوک خراب ہوجاتا تو اس کو درست کرنے کیلئے ایک دو منٹ کا جو وقفہ رہتا، اس کو بھی ضائع نہ کرتے، ذکر الٰہی زبان پر جاری رکھتے اور نوک درست فرماتے تاکہ وقت کا اتنا حصہ بھی ضائع نہیں ہونےپائے
انضباط اور تنظیم وقت سے برکت ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارے اسلاف و اکابر کی زندگی میں برکت کی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ تھوڑے سے عرصہ میں انھوں نے محیرالعقول کارنامے انجام دئیے ہیں۔
علامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ میری پہلی تصنیف اس وقت ہوئی ہے جب میری عمر تقریباً تیرہ برس کی تھی ۔
ابن جریر طبری کے حالات میں صاحب البدایہ والنہایہ نے لکھا ہے ”رُوِیَ عَنْہ اَنَّہ مَکَثَ اَرْبِعِیْنَ سَنَةً یَکْتُبُ وَکُلَّ یَوْمٍ یَکْتُبُ اَرْبَعِیْنَ وَرَقَةً“ کہ وہ مسلسل چالیس سال تک لکھتے رہے اور روزانہ چالیس ورق لکھتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ)
مشہور و معروف کتاب ”تفسیر جلالین“ کو اس کے مصنف علامہ سیوطی نے بیس بائیس سال کی عمر میں بہت قلیل مدت میں یعنی صرف چالیس روز میں لکھی ہے اور آج پورے سال میں بڑی مشکل سے پڑھی جاتی ہے۔
یہ تھے ہمارے اسلاف اور وقت کی قدردانی جن کے سنہرے نقوش کتابوں میں محفوظ ہیں اور تا قیامت لوگ مستفید ہوتے رہیں گے
لہذا وقت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہمیں چاہیئے کہ اس کی خوب قدر کریں اس کا صحیح استعمال کریں
اللہ سے دعاء ہے کہ ہمیں وقت کی قدر و قیمت کو سمجھنے اور اسپر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی راۓ