اتر پردیش الیکشن:فرقہ پرستو ں کو اکھاڑ پھینکا ضروری ہے
لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں
نرگس زویا-
اتر پردیش کے الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوچکا ہے ـ اعلان ہوتے ہی ہر سیاسی پارٹی طاقت لگا رہی ہے کی عوام کو کیسے رجھایا جاءے ـ سیکولر پارٹیاں پرکشش بیانات عوامی فلاح وبہبود میں لگی ہوئ ہیں اور لمبے چوڑے وعدے کئیے جارہے ہیں. تو دوسری طرف فرقہ پرست پارٹی پارٹی بھاجپا ہندو مسلم میں دوری پیدا کرکے اقتدار پر قبضہ جمانا چاہتی ہے ـ کانگریس پارٹی کو اقتدار سے دور کرنے میں کئ پارٹیاں وجود میں آئیں لیکن اپنے کردار سے انہوں نے ثابت کیا کی کانگریس سے بہتر کارکردگی نہیں ہے. بلکہ ان سیکولر پارٹیوں کے دور اقتدار میں کم ستم رانیاں نہیں ہوئیں بلکہ کانگریس سے مظالم میں آگے نکل گئیں ـ
کانگریس پارٹی کی جنرل سکریٹری اورانچارج پرینکا گاندھی کے اس نعرے نے کافی دھوم مچایا ہے ـ کہ اتر پردیش میں لاکھوں لڑکیاں *”لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں“*
کے نعرے میں شامل ہو ئ ہیں اور اب وہ ناانصافی ظلم وزیادتی کو برداشت نہیں کریں گی ـ اور اپنے حقوق کیلئے لڑیں گی-یاد رہے جھانسی میں اس مہم کے تحت لڑکیوں کی دوڑ منعقد کی گئی تھی ـ میراتھن میں 10,000 سے زیادہ لڑکیوں نے حصہ لیا تھا ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست کی عورتوں پر اس نعرے کا زبردست اثر پڑا ہے اور لاکھوں عورتیں لڑکیاں اس نعرے میں شامل ہو رہی ہیں اور خود کو بااختیار محسوس کر رہی ہیں ـ
جبکی بی جے پی کی حکومت نے اس کی مخالفت کی تھی اور اسے ناکام بنانے کی بھر پور کوشش کی تھی ـ سرکاری بسیں اور سرکاری مشینری کو استعمال کیے بغیرآج جھانسی میں 10,000سے زیادہ لڑکیاں ”لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں“میراتھن میں دوڑ کیلئے نکلیں – ریاست کی ہر ایک لڑکی اس نعرے سے جڑی ہوئی محسوس کر رہی تھی – پرینکا گاندھی لکھنؤ میں اس طرح کے پروگرام منعقد کرنا چاہتی تھیں. لیکن اجازت نہ دینے پر ریاستی حکومت پر تنقید کی اور کہاکہ یوگی آدتیہ ناتھ جی لڑکیوں کی پرواز اور آواز کے اتنے خلاف ہیں کہ لکھنؤ میں میراتھن کی اجازت منسوخ کر نی پڑی تھی ـ
یوپی انتخاب میں کانگریس پارٹی کے40فیصدسیٹوں پر خاتون امیدواروں کو اتارنے کےپرینکا گاندھی کے فیصلے نے ہلچل مچادیا ہے۔ اس میں ایک زوردار علامتی اشارہ ہے، لیکن یہ کسی بھی معنی میں منفرد نہیں ہے۔یاد کیجیےنتیش کمار نےشعوری حکمت عملی کے تحت بہار میں خواتین رائے دہندگان کو فلاحی اسکیموں کی ایک طویل فہرست سےلبھایا تھا۔صوبے میں شراب بندی کا ان کا فیصلہ بنیادی طور پرخواتین ووٹروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔یہاں تک کہ انہوں نے خاتون امیدواروں کو 35 فیصدی ٹکٹ بھی دیے۔ جنتا دل یونائٹیڈ کے 43خاتون امیدواروں میں صرف 6 جیت پائیں۔اس کے ٹھیک الٹ خاتون امیدواروں کو حال کےمغربی بنگال انتخابات میں کہیں زیادہ کامیابی ملی۔ ٹی ایم سی کے ایم پی کہ پارٹی نے تقریباً40 فیصدی ٹکٹ خواتین کو دیے اور ان کی کامیابی کی شرح بھی یکساں طور پر اچھی تھی پارٹی کے فاتح امیدواروں میں 40 فیصدی خواتین تھیں۔بہار میں جےڈی یو کے فاتح امیدواروں میں خاتون امیدواروں کا فیصدصرف 13 تھا، جبکہ انہیں کل 35 فیصدی ٹکٹ ملے تھے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کے انتخابی وعدےکتنے سچے، کتنے جھوٹے؟ سب جھوٹے وعدے رہے ہیں ضرور اس ظالم کی حکومت کاخاتمہ ہوگاـ
"خاتون امیدوار ان صوبوں میں بہتر کرتے ہیں جہاں ان کا امپاورمنٹ اور ان کی خواندگی کی شرح زیادہ ہے۔اس تناظر میں ہندی بیلٹ کا مطالعہ کرنا انتہائی جانکاری دینے والا ہو سکتا ہے،جہاں کے سماجی اور سیاسی زندگی میں پدرانہ نظام اوراکثریت پرستی کا کاک ٹیل انتہائی اہم رول نبھاتا ہے۔یہاں یہ بھی دھیان دلایا جانا چاہیے کہ ہندی بیلٹ کے بڑے حصے میں میں کل لیبر فورس میں خواتین کی شراکت داری کافی مایوس کن اکائی کےاعدادوشمار میں ہے۔تصور کیجیے بہار اور یوپی جیسےصوبوں میں روزگار میں شامل ہو سکنے والی100خواتین میں صرف 5 سے 8 ہی نوکری کے بارے میں سوچتی ہیں۔ جنوبی اور مشرقی صوبوں میں یہ تناسب کافی زیادہ ہے۔اس کا سیدھا اثر ان کی آزادی، امپاورمنٹ اور نتیجہ کے طور پر ان کے ووٹنگ پیٹرن پر پڑتا ہے۔ایک دہائی پہلےتقریباً15فیصدی خواتین ہی اپنے گھروالوں کے مردوں سے متاثر ہوئے بغیرآزادانہ طریقے سےووٹنگ کرتی تھیں.”
یوپی الیکشن شباب پر ہے ـ کئ پارٹیاں قسمت آزمائ کر رہی ہیں ـ ایک طرف فرقہ پرست عناصر پوری شدت کے ساتھ ہندو مسلم میں منافرت پیدا کر رہی ہیں ـ رو دوسری طرف سیکولر پارٹیاں میدان میں ہیں ـ یوپی کی دو پارٹیاں بہوجن سماج اور سماجوادی پارٹی تین دہے سے سب سے زیادہ حکومت کی ہے لیکن یوپی کے حالات نہیں سدھرے ـ بی جے پی بھی اقتدار میں آتی رہی رو اس نے وکاس سے زیادہ فرقہ پرستی پھیلابے کا کام کیا اور تاریخی مقامات کو بدلنے کا. یوگی نے تو حد کر دی اس لئیے فرقہ پرستوں وفسطائ طاقروں کو اکھاڑ پھینکا انتہائ ضروری ہے ـ
پرینکا گاندھی جی نے جو دلکش اور ہمت والا نعرہ دیا ہے میں لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں ـاس سے خواتین میں ہمت وحوصلہ بڑھی ہے ـ خواتین کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے. انہوں نے ہر شعبے میں کارہاءے نمایاں انجام دیا ہے ـ سیاست سماج کی تعمیر وترقی میں تصنیف وتالیف میں صحافت وادب میں ـ عورت صنف نازک ضرور ہے لیکن اس کے وجود سے دنیا کی رنگا رنگی ورونق ہے.
بقول علامہ اقبال کے ــ
وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ ـ
اسی کے ساز سے زندگی کو سوز دروں ـ
آپ کی راۓ