الحمد لله الذى أنزل على عبده الكتاب ولم يجعل له عوجا قيما لينذر باسا شديدا من لدنه ويبشر المؤمنين الذين يعملون الصالحات أن لهم أجرا حسنا ماكثين فيه أبداً( الكهف:۱/۳) وأشهد أن لاإله إلا الله وحده لاشريك له، وأشهد أن محمد عبده ورسوله وعلى آله وأصحابه أجمعين وسلم تسليما كثيرا ، أما بعد:
اللہ سبحانہ وتعالی کا کرم واحسان ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایااور ہماری رشدوہدایت کے لیے نبیوں اور رسولوں کو مبعوث فرمایا۔زندگی گزارنے کے اصول دیئے اور ضابطہ حیات بشکل قرآن مجید آخری نبی محمد ﷺ پر نازل فرمایا جس کے حفاظت کی زمہ داری خود لی ۔اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، (۱) گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوۃ دینا (۴) حج کرنا (۵) رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔((بنى الإسلام على خمس شهادة أن لااله إلا الله وأن محمد رسول الله وإقام الصلاة وإبتاء الزكاة والحج وصوم رمضان))(بخاری،الصحیح،کتاب الایماک،باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم بنی الاسلام علی خمس/مسلم :کتاب الایمان باب بیان ارکان الاسلام ودعائہ)
جس طرح رمضان کے روزے رکھنا اللہ نے فرض کیا ہے اسی طرح اللہ جل شانہ نے رمضان کے ختم ہونے پر عید کی نمازادا کرنے سے قبل زکاۃ الفطر کو اداکرنافرض کیاہے،اللہ کے نبی ﷺ نے حکم دیاہے اور جس چیز کا حکم پیارے نبی ﷺ نےدیا ہواس کا کرنا فرض ہے۔جیساکہ ارشاد باری ہے (( من يطع الرسول فقد اطاع الله ومن تولى فما أرسلنك عليهم حفيظا )) النساء: 80) "جورسول ﷺ کی اطاعت کرےگا اس نے اللہ کی اطاعت کی،اور جو منہ موڑ لےگا تم ہم نے آپ کو اس کا ذمہ دار بناکر نہیں بھیجا”
ومن يشاقق الرسول من بعد ماتبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ماتولى ونصله جهنم وساءت مصيرا)) النساء: 115) "جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول ﷺ کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہو اسے ادھرہی متوجہ کردیں گے جدھروہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے”
وماءاتكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا)) الحشر: 7)
"اور تمہیں جو کچھ رسولﷺ دے لے لو،اور جس سے روکے رک جاؤ ”
زکاۃ الفطر ہرمسلم چھوٹے بڑے، مرد وعورت ،آزاد اور غلام پر ادا کرنافرض ہے،جسے عید کی رات نکال کرغرباء اور مساکین میں تقسیم کردینا چاہئے۔اگر کسی نے عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد نکال کر تقسیم کیا تو اس کا وہ صدقہ فطر نہیں عام صدقہ ہوگا۔
مقدار زکاۃ الفطر ایک صاع ہے حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا ((عن أبن عمر رضى الله عنهما قال: فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر من رمضان صاعا من تمر،أو شعير على العبد والحر والذكر والأنثى والصغير والكبير من المسلمين "))متفق علیہ
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا! بندے ، آزاد،مرد اور خاتون،چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پرزکاۃ الفطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ادا کرنا فرض ہے۔
اور اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا کہ اس کو عید کی نماز کے لئے نکلنے سے قبل ادا کردیا جائے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:-
كنا نحرج زكاة الفطر إذ كان فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم صاعا من طعام ، أو صاعا من تمر، أو صاعا من شعير ، أو صاعا من زبيب أو صاعامن أقط (متفق علیہ)
حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا!ہم رسول ﷺ کی موجودگی میں ایک صاع غلہ یا کھجور ایک صاع جو یا ایک صاع منقہ یا ایک صاع پنیر فطرانہ اداکیا کرتے تھے۔(متفق علیہ)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگوں کے لئے جائز ہے کہ وہ ایک صاع کھانے والی چیزوں کو نکالیں جیسے چاول اور اس جیسے اجناس،لیکن مقصد زکاۃ الفطر ایک صاع نکالناہے۔اگر کسی نے زکاۃ الفطر نکالنا چھوڑ دیا تو اس پر گناہ ہوگا، اُس پر واجب ہوگا کہ قضاء کرے۔(فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء فتوی (۳۳۷۵)جلد ۹ ص ۴۶۴)
اس حدیث میں لفظ((طَعَامٍ ))یعنی کھانے کی شرح سب اہل علم نے گندم کی ہے،اور کچھ دوسرے علماء کہتے ہیں کہ طَعَامٍ سے مقصود وہ چیز ہے جو علاقے کے لوگ بطورخوراک استعمال کرتے ہوں۔چاہے گندم ہویا مکئی وغیرہ اور صحیح بھی یہی ہےکیونکہ فطرانہ اور زکاۃ اغنیاء کی جانب سے فقراء کے لیے رحمدلی اور خیرخواہی کے لئےہے۔ اس لیے مسلمان پر واجب نہیں کہ وہ اپنے علاقے کی خوراک کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ ان کی غمخواری کرے۔
مقدار زکاۃ الفطر
مقدار زکاۃ الفطر ایک صاع یعنی تقریبا تین کلو گرام ہوتاہے۔(صاع نبوی ﷺ معتدل چار ہتھیلی بھرکر ہے جوتقریبا تین کلوگرام پہنچتاہے۔
زکاۃ الفطر کے مستحقین:-
بلا شبہ اسلام نےجہاں زکاۃ الفطر کو نکالنا فرض کیاہے وہیں اسے کس کو دیاجائےاس کو بھی اللہ کے رسول ﷺ نے بتادیاجیساکہ حدیث میں آتاہے(عن ابن عباس رضى الله عنهما قال: فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث، وطعمة للمساكين،من أداها قبل الصلاة فهى زكاة مقبولة، ومن أداها بعد الصلاة فهى صدقة من الصدقات ) رواه أبوداود وحسنه الألبانى فى صحيح ابى داود)
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے زکاۃ الفطر کو فرض کیاہے۔جو روزہ دار کولغوفضول گوئی سے پاکپزگی بخشتاہےاور یہ مساکین کا کھاناہے،جس نے نماز سے پہلے اداکیا اس کی زکاۃ مقبول ہے اور جس نے نماز کے بعد اداکیا اسکا یہ عام صدقہ ہوگا۔
سوال:-
زکاۃ الفطر اُس بچے کی طرف نکالاجائے گا جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہے یا نہیں؟
جواب:-
ایسے بچے کی طرف سے زکاۃ الفطر نکالنا مستحب ہے جیسا کہ عثمان ؓ نے کیا ہے،لیکن اس پر ضروری نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے (فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء فتوی (۴۷۴۱)جلد ۹ ص۶۶۳)۔
سوال:-
کیا زکاۃ الفطر عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد اُس دن کے آخر ی وقت تک دیاجاسکتا ہے؟
جواب:-
زکاۃ الفطرکی ادائیگی کا وقت عید کی نماز پڑھنے کے بعد شروع نہیں ہوتا ہے۔بلکہ یہ غروب شمس سے رمضان کے آخری دن غروب شمس سےشروع ہوتا ہے،جو شوال کی پہلی رات ہے۔اور وہ عید کے نماز کی ادائیگی کے پر ختم ہوجاتا ہے۔اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جس نے نماز سے پہلے ادا کیا اس کا یہ زکاۃ مقبول ہوگا،اور جس شخص نے نماز کی ادائیگی کے بعد ادا کیا اُس کا یہ صدقہ ہوگا۔اور جائز ہے کہ اس کو ایک دو دن پہلے ادا کردیا جائے۔جیساکہ ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ ((فرض رسول اللہ ﷺ صدقة الفطر من رمضان))اور آخر میں کہا کہ ((وکانوا یعطون قبل ذلک بیوم او یومین))
”ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کے صدقۃ الفطر کو فرض کیا ہے، وہ لوگ ایک دو دن پہلے زکاۃ الفطر ادا کردیا کرتے تھے۔“جو شخص تاخیر کرے اور وقت پر نہ نکالے ایسے شخص کو توبہ کرنا چاہئے۔( فتاویٰ اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء فتوی (۶۹۸۲)جلد ۹ ص ۳۷۳)
سوال: –
زکاۃ الفطر کے مشروع ہونے کی حکمت کیا ہے؟ اور کیا اس کو فقراء میں تقسیم کرنا جائز ہے؟
جواب:-
(فضیلۃ الشیخ د/عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین)
تمام تعریف اللہ کے لئے دوردو سلام ہو اللہ رسول ﷺ پر۔
زکاۃ الفطر کے مشروع ہونے کی حکمت یہ ہے کہ وہ روزہ داروں سے رمضان المبارک کے متبر ک ماہ میں عمداً یاسہواً زبان سے نکل جانے والی لغو باتوں کی پاکیزگی بخشتاہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ((فرض رسول اللہ ﷺ زکاۃ الفطر طہرۃ للصائم من اللغو والرفث، وطعمة للمساکین))(ابوداؤد /ابن ما جۃ /دارقطنی/حاکم)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ الفطر کو فرض کیا ہے جو روزہ داروں کو لغو اور رفث سے پاک کرتا ہے۔اور مسکینوں کے لئے کھانا ہے۔
انسان بھول چوک اور غلطیوں کا خزینہ ہوتا ہے ہر حالت میں غلطی کا صد ور ممکن ہے۔اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مجھ سے غلطی کا صدور نہیں ہوتا تو یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کیونکہ فرشتوں کی ذات ہے جو غلطی نہیں کرتی۔رمضان المبار ک سال کے۲ ۱ مہینوں میں سے ایک ایسا ماہ ہے جس کے اجر کو اللہ ر ب العالمین نے اپنے لئے مختص کرلیا ہے،(( الصوم لى وأنا أجزى له)) اس لئے چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے ازالے کے لئے شریعت نے زکاۃ الفطر کی ادائیگی مسلمانوں کے اوپر فرض کیا ہے جو ہر روزہ دار کو لغو او ر رفث سے پاک کرتا ہے۔جیساکہ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے۔یہ زکاۃ الفطر مسکینوں کے لئے ہے اس کی ادائیگی ایک دودن قبل کیا جاسکتا ہے تاکہ مساکین بھی ہمارے خوشیوں میں شامل ہوسکیں۔
بعض احادیث کچھ اس طرح سے ہیں ((أغنوهم عن الطواف فی هذالیوم)اس کی تخریج کی ہے دار قطنی نے اور ابن عدی،ابن سعد نے طبقات ابن سعد کے اندر ذکر کیا ہے)ان کو آج کے دن چکرلگانے سے آزاد کردو“
حدیث مذکورہ کا مفہوم یہ ہوا کہ اُن کو کھانا کھلاؤ اور اُن کے حاجات (ضروریات)کو پورا کرو یہاں تک کہ وہ عید کے دن چکر مارنے سے مستغنی ہوجائیں۔کیونکہ یہ خوشی اور فرحت کا دن ہے۔
پھر اُن لوگوں کی طرف سے بھی زکاۃ الفطر ادا کیا جائے تو جو ابھی بچے ہیں اور غیر مکلف ہیں او ر وہ لوگ جو روزہ دار نہیں (معذور)یا سفر میں ہیں۔ایسے لوگوں کی جانب سے زکاۃ الفطر نکالا جائے گا کیونکہ جب ان لوگوں سے ان کے عذر زائل ہوجائیں گے تو وہ اپنے روزوں کی قضاء کریں گے البتہ بچہ جس پر روزہ فرض نہیں وہ قضاء نہیں کرے گا۔اگر زکاۃ الفطر کو مختلف فقراء کے درمیان تقسیم کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال:-
زکوۃ الفطر مقروض کو دیا جاسکتا ہے کہ نہیں؟
جواب:-
زکوۃالفطر مقروض کونہیں دیا سکتا (مفتی ابن بازؒ ) کیونکہ وہ محتاجوں اورمسکینوں کا حق ہے۔
سوال:-
جواب: (فضیلۃ الشیخ أ د/ سعود بن عبداللہ الفنیسان)زکاۃ الفطر کونقدکھانے کے بدلے نکالنا کیسا ہے؟جبکہ نقد کھانے کی اشیاء سے زیادہ لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے؟
تمام تعریف اللہ کے لئے اور دوردوسلام ہواللہ کے رسول ﷺ پر وبعد:
زکازۃ الفطر کو نقد قیمت میں نکالنا مختلف فیہ مسئلہ ہے اس میں علماء کرام کے دو قول ہیں۔
پہلا قول:-
اس سے منع کیا جائے،یہ رائے تینوں اماموں کی ہے امام مالک،امام شافعی اور امام احمد، اور امام ظاہریہ نے بھی اس کی موافقت کی ہے۔اور عبداللہ بن عمر صحیحین کی اس روایت پر استدلال کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:((فرض رسول اللہ زکاۃ الفطر صاعاً من تمر،أو صاعاً من بر، أو صاعاً من شعیر،(اور دوسری روایت میں صاعاً من أقط آیا ہے)علی الصغیر والکبیر من المسلمین))
اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ زکاۃ الفطر ایک صاع کھجور،گیہوں،شعیر ہرمسلمان چھوٹے اور بڑے پر فرض ہے۔
امام حضرات وجہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ اگر زکاۃ الفطر قیمت میں نکالنا جائز ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ اس کا تذکرہ ضرور فرماتے۔اور دوسری حدیث جو استدلال میں پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ((أغنوهم فی هذالیوم))”اس دن سے ان کو مستغنی کردو“مزید امام حضرات کہتے ہیں کہ فقراء ومساکین کو اس دن(یوم عید)کھانے کے لئے سوال کرنے سے مستغنی کردیا جائے۔تاکہ اِدھر اُدھر بھٹکنے سے پرہیز کریں۔
دوسراقول:-
زکاۃ الفطر قیمت میں نکالنا جائزہے۔امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا یہ خیال ہے۔اور اسی کی متابعت سفیان ثوری،حسن بصری اور خلیفہ عمر ابن عبدالعزیز نے کی ہے۔جیسا کہ معاویہ بن ابی سفیان سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ((انی لأوی مدین من سمراء الشام تعدل صاعاً من تمر))اور حسن بصری فرماتے ہیں کہ((لابأس أن تعطی الدراهم فی صدقة الفطر))”کوئی حرج نہیں کہ صدقۃ الفطر درہم میں ا دا کیا جائے“
اور عمر بن عبدالعزیز نے بصرہ کے عاملوں کو لکھا: ((أن یاخذ من أهل الدیون من أعطیاتهم من کل انسان نصف درهم))اور ابن منذر نے اپنی کتاب ”الاوسط“ میں رقمطراز ہیں (صحابہ کرام نصف صاع گیہوں نکالنے کی اجازت دیتے تھے۔
فضیلۃ الشیخ سلیمان بن ناصر العلوان حفظه الله کی زکاۃ الفطر کے بارے میں تین اقوال ہیں:-
(الف) زکاۃ الفطر کی جگہ مال دینا حرام ہے،اس لئے اللہ کے رسول ﷺ کے قول کی مخالفت ہوگی۔
(ب)افضل ہے کہ کھانے کی چیز دی جائے اور نقد کا دینا جائز ہے،لیکن سنت کی مخالفت ہے۔
(ج)افضل ہے کہ فقیر کی حالت اوراس کے ملک اور اس کے رہنے کی جگہ کو دیکھا جائے تو اس کے لئے مال دینا افضل ہوگا۔
خلاصہ کلام:
اللہ کے رسول ﷺ کی یہ حدیث ((أغنوہم فی هذالیوم))سے اندازہ لگتا ہے کہ فقراء اور مساکین کس چیز سے عیدکے دن خوش اور فرحت محسوس کریں گے۔اگر نقد ان کو دیا جاتا ہے تو عید کے دن نئے کپڑوں کا بھی بند وبست ہوسکتا ہے،بچے بوڑھے جوان سبھی خوشیوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔خلاصہ کلام یہ کہ زکاۃ الفطر نکالتے وقت یہ دیکھا جائے گا کہ جس کو زکاۃ الفطر دیا جارہا ہے وہ کس چیز کا مستحق ہے نقد یا اجناس۔اس کو کس چیز کی حاجت ہے اگر وہ غذائی ضروت مند ہے تو بلاشبہ کھانے کے اجناس سے زکاۃ الفطر ادا کیا جائے اور اگر وہ نقد کا ضرورت مندہے تو اس کو نقد دیا جائے۔کیونکہ نقد اس کے لئے نفع بخش ہے۔اور ملک کا بھی خیال کیا جائیگا۔
اللہ عزوجل ہمارے اعمال کو قبول فرمائے ،گناہوں کو معاف فرمادے شریعت مطہرہ پر چلنے کی توفیق بخشے آمین
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمين
آپ کی راۓ