اللہ رب العالمین کی سنت رہی ہے کہ وہ اپنے بندو ں کو سال بھر وقتا فوقتا ایسے مواقع نصیب فرماتا ہے، جس میں بندہ مومن اعمال صالحہ کے ذریعے نیکیوں کا ایک ذخیرہ بنالیتا ہے، نیکی کے کام میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کو کوشش کرتا ہے۔ حقیقی معنوں میں کامیاب شخص وہی ہوتاہے جو ان مواقع کے ایک ایک لمحے سے خوب فائدہ اٹھائے، اور رضائے الہی کے خاطر اپنے آپ کودن ورات نیکیوں میں مصروف رکھے،اور اس کے بالمقابل بڑا ہی بدنصیب شخض ہوتا ہے جو ان ایام کوپا کرکے بھی لہو لعب میں عام دنوں کی طرح گزار دیتا ہو۔
اللہ تعالی نے سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینوں کو حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے، ارشاد ربانی ہے:(ان عدۃ الشہور عند اللہ انثا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السموات والأرض منہا أربعۃ حرم ذلک الدین القیم فلاتظلموافیہن أنفسکم)ترجمہ:مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے،اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو پیدا کیا ان میں سے چار حرمت کے ہیں، یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی نفسوں پر ظلم نہ کرو۔
مذکورہ آیت کریمہ اللہ رب العالمین نے ذوالحجہ کے مہینہ کو حرمت والامہینہ قرار دیا،اور اپنے بندوں کوتلقین فرمائی کہ ان حرمت والے مہینوں میں معاصی کا ارتکاب کرکے اپنے نفسوں پر ظلم نہ کیا کرو۔ماہ ذوالحجہ حرمت والا مہینہ ہونے کے ساتھ اس کا پہلا عشرہ خاص طور سے فضیلت کا حامل ہے، عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت میں بہت سارے نصوص وارد ہوئے ہیں، اختصار کے ساتھ عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت، اور اس میں انجام دئیے جانے والے اعمال کا تذکرہ کیاجارہا ہے:
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت: اللہ تعالی کی سنت رہی ہے کہ جب وہ کسی چیز کی اہمیت وفضیلت کو بیان کرنا چاہتا ہے تو اس کی قسم کھا کر اس کی فضیلت کو اجاگر کرتاہے، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں عشرہ ذی الحجہ کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا:(والفجر٭ ولیال عشر)ترجمہ: قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی۔جمہور مفسرین نے دس راتوں سے مراد عشرہ ذی الحجہ لیاہے، جیسا کہ عبد اللہ ابن عباس، و عبد اللہ بن عمر رضی عنہما سے ماثور ہے۔
اسی طرح سے نبی کریم ﷺ ایک حدیث میں عشر ذی الحجہ کی فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(ما العمل فی أیام أفضل منہافی ہذہ، قالوا ولا الجہاد، قال: ولا الجہاد، الا رجل یخاطر بنفسہ ومالہ فلم یرجع بشیء)رواہ البخاری۔ترجمہ:ان دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں، لوگوں نے پوچھااور جہاد میں بھی نہیں ہے، آپﷺ نے فرمایا:ہاں جہاد میں بھی نہیں سوا اس شخص کے جو اپنی جان ومال خطر ہ میں ڈال کر نکلااور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہیں تھا۔
اور ایک دوسر ی روایت جس کوامام ابو داود، اور امام ترمذی نے نقل کیا ہے، آپﷺ نے فرمایا:(ما من أیام العمل الصالح فیہاأحب الی اللہ من ہذہ الأیام۔ أیام العشر۔قالوا یارسول اللہ ولا الجہا دفی سبیل اللہ؟ قال: ولا الجہاد فی سبیل اللہ الا رجل خرج بنفسہ ومالہ فلم یرجع من ذلک شیء)ترجمہ: اللہ تعالی کوئی نیک عمل کسی دن میں اس قد رپسندیدہ نہیں ہے جتناکہ ان دنوں میں پسندیدہ ومحبوب ہوتاہے، یعنی ذوالحجہ کا پہلے عشرہ میں۔صحابہ کرام نے کہا اے اللہ رسول ﷺکیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں مگر جو کئی شخص اپنی جا ن ومال لے کر نکلاہو اور پھر کچھ واپس نہ لایا ہو۔
عشرہ ذی الحجہ میں ایک دن عرفہ کا دن ہوتا ہے، اس دن حجاج کرام عرفہ کے میدان میں وقوف کرتے ہیں، اور اپنے رب سے گریہ وزاری کے ساتھ دعائیں کرتے ہیں، عرفہ کے بارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:(ما من یوم أکثرمن أن یعتق اللہ فیہ عبدامن النارمن یوم عرفۃوانہ لیدنوثم یباہی بہم الملائکۃ، فیقول: ماأراد ہؤلاء)رواہ مسلم۔ ترجمہ:کوئی دن نہیں ہے جس میں اللہ تعالی عرفہ کے دن بڑھ کر بندوں کوجہنم سے آزاد فرماتا ہو، وہ بندوں سے قریب ہوتا ہے،او رفرشتوں کے سامنے ان لوگوں پر فخر کرتا ہے،اور پوچھتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔
اسی عشرہ ذی الحجہ میں ایک دن یوم النحربھی ہے، اس دن دنیا کے سارے مسلمان اپنی وسعت وطاقت میں اللہ کے راستے میں قربانیاں پیش کرتے ہیں، اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یاد کو تازہ کرتے ہیں کہ کس طرح سے انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے ولخت جگر کو اللہ کے حکم کی تعمیل میں قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے، اللہ رب العالمین کو یہ موقف اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کے لئے اس کو سنت قرار دے دیا۔یوم نحر کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:(ان أعظم الأیام عند اللہ تبارک وتعالی یوم النحرثم یوم القر) رواہ الترمذی۔ ترجمہ:اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بڑھ کرعظمت والا دن یوم النحر (دسویں ذی الحجہ)ہے اس کے بعد یوم القر(۱۱ ذی الحجہ) ہے۔
قارئین کرام! ہر مسلمان کی کوشش ہونی چاہئے کہ عشرہ ذی الحجہ سے خوب فائدہ اٹھائیں، اس کی ایک ایک ساعتوں کو اللہ رب العالمین کی عبادت وریاضت میں گزاریں، نفلی نمازوں کااہتمام، صدقہ وخیرات کا اہتمام خوب کیاجائے،تکبیرات کا ورد بکثرت کیاجائے اور دوسروں کو بھی اس کی تذکیر کروائی جائے، معاصی کے ارتکاب سے خاص طور سے بچاجائے۔
اس عشرہ ذی الحجہ میں عرفہ کے دن روزہ رکھنا خاص اہمیت کا حامل ہے، چنانچہ عرفہ کے روزوں کاخاص اہتمام کیاجائے، اور دوسروں کو بھی اس کا راغب بنایا جائے۔نبی کریم ﷺ نے صوم عرفہ کی فضیلت اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(صیام یوم عرفۃأحتسب علی اللہ أن یکفرالسنۃ التی قبلہ، والسنۃ التی بعدہ)رواہ مسلم۔ترجمہ:عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گااور اگلے سال کے گناہوں کا بھی۔
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ انسان کے ایک سال اگلے اور پچھلے صغائر گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، کتنا عظیم کارخیر ہے عرفہ کاروزہ؟! ہرمسلمان کی کوشش ہونی چاہئے کہ عر فہ کا روزہ اس فوت نہ ہونے پائے، تاکہ وہ اس کے اجروثواب کو حاصل کرسکے۔
البتہ یہ مسالہ مختلف فیہ رہاکہ عرفہ کاروزہ اپنے ملک کی رویت کے اعتبار سے رکھا جائے، یا مملکت سعودی عرب کی رویت کے اعتبار سے روزہ رکھاجائے،اس سلسلہ میں علماء کے دوموقف ہیں:
پہلاموقف: جس دن حجاج کرام کا یوم عرفہ ہو اسی دن غیر حاجی کے لئے روزہ رکھنا مسنون ومستحب ہے۔
دوسرا موقف: ہر ملک مسلمان اپنی رویت کے اعتبار سے عرفہ کا روزہ رکھیں گے، چنانچہ ان کے ملک کی رویت کے اعتبار سے جس دن ذی الحجہ کی ۹ تاریخ موافق اسی دن عرفہ کا روزہ کھا جائے،یہی اکثرو بیشتر علماء کا موقف ہے۔ واللہ اعلم۔
اخیر میں دعاگو ہوں اللہ تعالی ہم سب کو ان فضیلت والے ایام سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہم سب کو خاص طور عرفہ کا روزہ نصیب فرمائے۔آمین ثم آمین۔
آپ کی راۓ